Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 13
ڈیجیٹل تصویر اور تبلیغِ دین
ڈیجیٹل تصویر اور تبلیغِ دین
تیز رفتار ترقیات اورزمانہ کی جدت کی وجہ سے کئی جدید مسائل اہل علم کے درمیان زیر بحث ہیں۔ان مسائل میں سے ایک ”تصویر“کا مسئلہ ہے۔ جہاں تک ذی روح کی ”تصویر“ کے مطلقاً حرام وناجائز ہونے کا تعلق ہے، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ محلِ بحث صرف یہ پہلو ہے کہ آیا ”ڈیجیٹل کیمرہ“ کے ذریعہ ذی روح کی منظر کشی اور اس منظر کو محفوظ کرنا‘ ممنوع تصویر سازی اور اس کے محفوظ کرنے کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ علماء کرام جانتے ہیں کہ اس عقدہ کو حل کرنا براہ راست مقصود نہیں ہے‘ بلکہ اصل مقصد اہل علم کے نزدیک تبلیغ دین اور دفاع دین کے لئے جدید میڈیائی وسائل میں سے الیکٹرونک میڈیا کا استعمال ہے‘ اگر تبلیغ دین اور دفاع دین کے جذبہ کے تحت علماء دین الیکٹرونک میڈیا پر آئیں تو ان کا مقصد اپنی جگہ نیک اور درست سہی‘ مگر اس نیک مقصد کے سامنے اہل علم کے ہاں جو چیز کھٹکا بنی ہوئی ہے وہ ”تصویر“ ہے۔ چنانچہ اس موضوع پر گفتگو فرمانے والے علماء کرام اور میڈیائی وسائل کو تبلیغ دین کے لئے استعمال کرنے والے حضرات ”تصویر“ کے مفہوم ومصداق کی تاویل یا تفصیل کرنے پر مجبور ہیں۔ لہذا موضوع بحث کی تعیین وتحلیل کے لئے بنیاد یوں بنائی جاسکتی ہے کہ آیا ”ڈیجیٹل کیمرہ“ کے ذریعہ ذی روح کی منظر بندی ممنوع تصویر سازی کے حکم میں داخل ہے یا نہیں؟ اگر داخل مان لیا جائے تو کیا ”تصویر“ کے ناجائز پہلو کی موجودگی میں تبلیغ دین اور دفاع دین جیسی ضرورت دینیہ کے پیش نظر تصویر والے میڈیائی ذرائع (ٹی ۔وی‘ وغیرہ) کا استعمال جائز ہوگا یا نہیں؟ اس ضمن میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ دینی مقاصد کے لئے میڈیائی وسائل کا استعمال بالکلیہ جائز ہے‘ جہاں پر ”تصویر“ کی حرمت وممانعت کامسئلہ ہے، وہاں وہ حضرات یہ تاویل فرماتے ہیں کہ تصویر کی حرمت وممانعت کا تعلق مجسمہ سازی اور استقرار ودوام والی شکلوں سے ہے نہ کہ” ڈیجیٹل کیمرہ“ کی مدد سے محفوظ کئے گئے مناظر سے۔ کیونکہ” ڈیجیٹل سسٹم“ کے ذریعہ منظر بندی اتنی باریک اور لطیف ہوتی ہے کہ اس پر قدیم زمانے کی تصویرسازی اور اس کی ممانعت کا اطلاق مشکل ہے‘ لہذا میڈیائی وسائل کے استعمال میں تصویر کی ممانعت حائل نہیں ہوسکتی ۔ان حضرات میں سے ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تصویر کی ممانعت ”ڈیجیٹل خود کار سسٹم“ کو بھی شامل مان لی جائے ،تب بھی ضرورت دینیہ کی بناء پر میڈیائی وسائل کا استعمال جائز ہوگا۔ جب کہ ہمارے خیال میں ان حضرات گرامی کی یہ رائے اور تاویل دونوں محل نظر ہیں‘ وجہ یہ ہے کہ:
تصویر کی تعریف‘ ارتقائی مراحل اور غرض وغایت:
تصویر کی تاریخ‘ تعریف‘ غرض وغایت اور اسلام میں اس کی حرمت‘ یہ تمام پہلو اہل علم کے لئے قطعاً پوشیدہ نہیں‘ اہل لغت کے مطابق تصویر کا اطلاق ہر اس شکل اورمنظر کشی پر ہوتا ہے جو اصل سے مماثلت رکھتی ہو اور اس کی ہیئت‘ظاہری شکل وصورت کی (بالاستقلال) نقل وحکایت کرتی ہو، اس مماثلت وحکایت کی وضاحت کے لئے جسم وحجم کی کوئی قید نہیں، تصویر کے فقہی احکام کا ترتب تصویر کے اسی مفہوم پر ہوتا ہے
لقولہم:”والتصویر والصورة فی اصطلاح الفقہاء یجری علی ماجری علیہ فی اللغة ․․․ اھ “ (الموسوعة الفقہیة‘ مادة: تصویر‘۱۲/۹۲-۹۳‘ط: وزارة الاوقاف الکویت‘ الطبعة الرابعة ۱۴۲۵ھ=۲۰۰۴ء)
#:-فن مصوری کی تاریخ پر غور کرنے سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:
۱-پہلی بات‘ تصویر کا بنیادی مقصد وحقیقت :اس فن کے آغاز وایجادکا بنیادی محرک اور مقصد یہ ہے کہ مصوَّر(جس کی تصویر بنائی گئی ہو) کی ایسی شکل وصورت اور ہیئت کی نقل وحکایت ہو جس سے حسب موقع تعظیم‘ تذکار ویادگار یا تلطف وتلذذ کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہو‘اس مقصد کی برآری کے لئے بنیادی طور پر دینی مقاصد اور روحانی عوامل داعیہ بنے ،پھر شیطانی ونفسانی عوامل بھی اس میں شامل ہوتے رہے‘ عموماً اب انہی دو مقاصد(روحانی وشیطانی) کے لئے تصویر سازی اور منظر کشی کا کام کیا جاتا ہے۔ تصویر سازی میں شیطانی عوامل کی شناعت وقباحت تو واضح ہے‘ تصویر کے دینی وروحانی مقاصد بھی ماضی میں کئی شناعتوں اور قباحتوں پر اس طور پر منتج ہوئے کہ قانون الٰہی سے عداوت وبغاوت کا باقاعدہ سلسلہ قائم ہوگیا‘ نبی اکرم ﷺ نے اس بغاوت کے تمام راستوں اور ذریعوں کو مسدود کرنے کے لئے خوب تاکیدات اور وعیدات سنائیں جو اہل علم کے لئے محتاج بیان نہیں۔ مدعا صرف یہ ہے کہ نیک جذبات کے تحت تصویر کو معمول بنانے میں وقتی محدود مفاد سے آئندہ کا لامحدود فساد زیادہ ہوتا رہا ہے‘ اس لئے اسلام نے تصویر کو شجرہٴ ممنوعہ قرار دیا ہے۔(مشکوٰة:۳۸۶ ط‘ قدیمی کراچی)
۲- تصویر کی تاریخ سے دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ: تصویر کے مذکورہ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر دور‘ ہرزمانے کے آلات ‘ اجزاء ترکیبی اور تصویر بنانے کے طریقے یکساں نہیں رہے‘ بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں‘ کسی زمانے میں تصویر ”مجسمہ سازی“ کا نام تھا جس کا مواد عموماً پتھر‘ مٹی اور لکڑی یا دوسری قدرتی دھاتیں ہوا کرتی تھیں، جب کہ آلات کے طور پر چھینی‘ ہتھوڑی اور کرنڈی جیسے آلات استعمال ہوتے تھے‘ پھر زمانے کی ترقی کے ساتھ اس سادہ طریقے کو مزید روشن اور واضح کرنے کے لئے رنگ روغن وغیرہ کا اضافہ بھی ہونے لگا‘ پھر زمانہ آگے بڑھا تو تصویر کے تصوّر میں مجسموں کے ساتھ در ودیوار اور کپڑوں پر پنسل وقلم کے ذریعہ مختلف رنگوں کی مدد سے اصل مناظر کی منظر کشی‘ تصویر کہلانے لگی‘ حالانکہ مجسمہ اور اس نوعیت کی تصویروں میں کافی دور کا فاصلہ پایا جاتا ہے‘ چنانچہ اہل فن کی اس فنی ترقی پر اہل لغت نے تصویر کا اطلاق کیا اور یہ وضاحت کی کہ ”تصویر“ کے لئے جسم اور جہات کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ کسی اصل کی نقل وحکایت کرنے والی شکلیں مسطح ہوں‘ کپڑے یا دیوار یا کسی اور چیز پر نقش ہوں تو وہ بھی “تصویر“ ہی ہیں۔ ”مستفاد من ”دائرة المعارف: قاموس عام لکل فن ومطلب“ تألیف بطرس البستانی مادة: تصویر۶/۱۳۷ ط‘ دار المعرفة بیروت“۔
چنانچہ اہل فن اور اہل لغت کے ان اطلاقات کے پیش نظر فقہاء امت نے بھی تصویر کا مقصد پورا کرنے والی مسطح ومنقش شکلوں پر تصویر کے احکام صادر فرمائے‘ کما مر۔
#:-”تصویر“ کی بابت زمانی تبدیلیوں کا یہ سلسلہ ماضی قریب کے ”ان الاگ سسٹم“ تک جب پہنچا تو تمام اہل فن ‘ اہل لغت اور اہل علم نے منظر بندی کے اس نئے طریقہ ٴ کار کو زمانے کی جدت اور تصویر سازی کی ارتقائی شکل قرار دیا اور متفقہ طور پر یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ”ان الاگ سسٹم“ کے ذریعہ منظر بندی اور ہاتھ سے بنائی گئی منقش تصویروں اور مجسمہ سازی میں حکم کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے‘ کیونکہ ”ان الاگ سسٹم“ کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر میں بھی تصویر کی علتیں پائی جاتی ہیں اور یہ تصاویر‘ تصویر کے بنیادی مقصد (مصوَّر کی ہیئت کی نقل وحکایت) کو بدرجہٴ اتم پورا کر رہی ہیں اور تصویر کی خصوصیات اس جدید شکل میں بھی پائی جارہی ہیں۔
”مستفاد من ”تصویر کے شرعی احکام“ تألیف المفتی محمد شفیع  ص:۶۱ ط‘ ادارة المعارف کراتشی‘ الطبع الجدید ۱۴۱۶ھ =۱۹۹۶م“
مگر افسوس کہ زمانہ تو مسلسل جدت وترقی کی طرف بڑھ رہا ہے جب کہ اصول پسندی اور حقیقت پسندی کا یہ سلسلہ بعض حلقوں میں دم توڑتا نظر آرہا ہے‘ یہ بعض حلقے یہ فرمانے اور منوانے پر مصر ہیں کہ تصویر سازی یا منظر بندی کا عصری نظام‘ جو جدید آلات (ڈیجیٹل کیمرہ) کے ذریعہ متعارف ہوا‘ اس نظام کے تحت منظر بندی کا عمل سرے سے تصویر سازی ہی نہیں یا تصویر سازی کی ممانعت کی علتوں سے یکسر خالی ہے۔ حالانکہ ”تصویر“ کی تعریف‘ اس کے بنیادی مقصد‘ تصویر کی خصوصیات‘ اور تصویر کے تاریخی وارتقائی مراحل کو سامنے رکھا جائے تو ”ڈیجیٹل کیمرہ“ کی مدد سے منظر کشی پر تصویر سازی کا اطلاق ہونے میں ذرہ بھر شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ،کیونکہ ”ڈیجیٹل کیمرہ“ کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر پر نہ صرف یہ کہ تصویر کی تعریف‘ بدرجہ اتم صادق آتی ہے، بلکہ ڈیجیٹل تصاویر‘ تصویری مقاصد کو حد درجہ کامل صفائی وستھرائی کے ساتھ پورا کرتی ہیں۔ لہذا یوں کہا جائے گا کہ اصل منظر کی نقل وحکایت کے لئے ”ڈیجیٹل کیمرہ“ ترقی پذیر دور کا جدید ”آلہ“ ہے‘ جس کے ذریعہ منظر کشی کے اغراض ومقاصد (نقل وحکایت) اور قدیم زمانے کے منظر کشی کے اغراض ومقاصد میں کوئی فرق نہیں، اگر فرق ہے تو وہ صرف زمانے اور آلات کا فرق ہے‘ اہل علم اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ آلات و ذرائع کے بدلنے سے اصل کے احکام نہیں بدلتے، بلکہ ہر عمل میں حکم کا مدار ”علت غائیہ“ نتیجہ اور مقصد پر ہوتا ہے نہ کہ ”آلے“ اور ذرائع پر۔وفی الاشباہ والنظائر : القاعدة الثانیة: الامور بمقاصدہا ص:۳۱‘ ط:قدیمی کراچی)۔
#:-باقی رہی ”ڈیجیٹل “ تصاویر سے متعلق بعض لوگوں کی یہ غلط فہمی کہ ڈیجیٹل کیمرہ سے بنائی جانے والی تصاویر یا منظر بندی میں ممنوع تصویر سازی کی علت نہیں پائی جاتی‘ ایسے دانشوروں سے یہ سوال کہاجاسکتاہے کہ ”تصویر“ کی ممانعت کی علتوں میں عموماً چار علتیں ذکر کی جاتی ہیں:
۱:․․․ مضاہاةِ خلق اللہ۔
۲:․․․ غیر اللہ کی تعظیم میں ایسا غلو جو فتنہ‘ گمراہی اور شرک پر منتج ہوتا ہو۔۳:․․․ مشرکین کے ساتھ مشابہت۔۴:․․․رحمت وملائکہ رحمت کی آمد میں رکاوٹ۔(الموسوعة الفقہیة:۱۲/۴-۱-۱۰۷)
۵:․․․اس کے ساتھ اگر بے حیائی کے فروغ کو بھی بطور علت شامل کیا جائے تو: کیا ”ڈیجیٹل کیمرہ“ سے محفوظ کئے جانے والے مناظر ان علتوں سے یکسر خالی ہیں؟ وہ کونسا غلاف ہے جس میں ڈیجیٹل تصاویر کو ان علتوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے؟ کیا ڈیجیٹل تصاویر میں انسان کے صنع وعمل کا کوئی دخل نہیں؟ کیا ان تصاویر کے ساتھ تعظیم وتکریم اور پھر شرک کا امکان نہیں ہے؟ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ جہاں ڈیجیٹل تصاویر ہوں وہ رحمت اور ملائکہ رحمت کے آنے میں رکاوٹ اور ناپسندیدگی کا باعث نہیں بنتیں؟ اگر ڈیجیٹل تصاویر کو ممنوع تصویر سازی کی علت ِ حرمت سے خالی کہا جائے تو پھر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ڈیجیٹل تصاویر حقیقت میں تصویری خصوصیات سے قطعاً خالی ہیں‘ حالانکہ ایسا کہنا سراسر غلط‘ ضد‘ اور سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہوگا۔ مثلاً ان تصاویر کواگر بے حیائی کے فروغ ورواج کے لئے استعمال کیا جائے تو کیا ان تصاویر سے بے حیائی کا مقصد حاصل نہیں ہوگا؟ غیر محرم مرد وعورت ایک دوسرے کو دیکھیں تو کیا یہ دیدار نقطوں اور برقی لہروں کا دیدار کہلائے گا یا غیر محرم مرد وعورت کا دیدار؟ ایک برہنہ ونیم برہنہ عورت کو دیکھنے سے اگر کسی کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں تو کیا ڈیجیٹل تصاویر اس قسم کی اشتعال انگیز خصوصیت سے خالی ہوتی ہیں یا یہ خصوصیت ان تصاویر میں بدرجہٴ اتم پائی جاتی ہے؟ #:- منطق کی اصطلاح میں اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصاویر کا مسئلہ نظری نہیں بدیہی ہے ‘ اسے لغوی ‘ لفظی اور فنی ابحاث میں لیجا نا‘ اس کی بداہت سے صرف نظر کرناکہلائے گا‘ ورنہ بدیہات میں بحث ودلیل کی ضرورت نہیں ہواکرتی۔ مثلاً آگ کی گرمی‘ برف کی ٹھنڈک اور سورج کی روشنی۔(القطبی فی المنطق ص:۲۷‘ ط:دار الحدیث ملتان) ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعہ منظر بندی کے بارے میں ہم اپنے مؤقف ورائے کی تائید کے لئے کچھ بھی کہیں‘ دنیا اسے تصویر ہی کہتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار‘ بدیہی امر کا انکار ہونے کے علاوہ اغلوطات کا حصہ بھی ہوگا۔ وقد نہی النبی ﷺ عنہا(مشکوٰة ج:۲:باب البر والصلة ص:۴۱۹ قدیمی کراچی)۔ لہذا ڈیجیٹل تصاویر کو ممنوع تصویرسازی کی علت وخصوصیت سے پاک قطعاً نہیں کہا جاسکتا ،اس لئے جو حکم ”نان ڈیجیٹل تصاویر“ کا ہے، وہی حکم‘ ڈیجیٹل تصاویر کا بھی ہوگا‘ دونوں میں زمانے کی ترقی اور آلات کی جدت کے بجز حکم کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں‘ بلکہ فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق تصویر کی تعریف میں ”ذات ظل اور غیر ذات ظل“ کی قیود سے یہ بھی واضح ہے کہ ”ہولوگرام“ تصاویر کو بھی تصاویر کے شرعی احکام شامل ہیں۔ #:-اگر بالفرض ڈیجیٹل تصاویر کو تصویر کی حرمت وممانعت والی نصوص سے خارج ومستثنی مانا جائے تو علمی واصولی اشکال ہوگا کہ جاندار کی تصویر کی ممانعت والی شرعی نصوص اصول کی نظر میں ”عام“ کے قبیل سے ہیں‘ یا ”مطلق “ کے؟ اگر عام کے قبیل سے ہیں تو اس عموم سے تصویر کی مروجہ شکلوں کو خارج ومستثنی قرار دینے کے لئے کونسی نص یا قیاس شرعی ہے؟ اسی طرح ان نصوص شرعیہ کو ”مطلق“ کہیں تو ”اطلاق“ میں ”تقیید“ کے لئے ان نصوص سے وزنی یا کم از کم ان کے ہم وزن دلیل چاہئے ؟کما فی ”اصول الشاشی“مع احسن الحواشی ص:۲۰ ط‘ البشری کراتشی کیونکہ نصوص شرعیہ کے عموم واطلاق میں تخصیص وتقیید کے لئے کسی نص یا قیاس شرعی کا ہونا ضروری ہے‘ پندرہویں صدی کے علماء کرام کی تأویلات محضہ اور انفرادی ترجیحات کوقطعاً کافی نہیں کہا جاسکتا۔ پس ان حقائق اور علمی وجوہ کی بناء پر ہماری رائے یہ ہے کہ ”ڈیجیٹل کیمرہ“ کی مدد سے منظر کشی ومنظر بندی کا عمل‘ زمانے اور آلات کی تبدیلی کے باوجود ”تصویر سازی“ ہی ہے‘ اس عمل اور اس عمل کے نتیجہ پر ”تصویر“ کے شرعی احکام کا اجراء واطلاق بہرحال ہوگا۔ واللہ اعلم․
دینی مقاصد کے لئے میڈیائی وسائل کا استعمال:
اس وقت باطل” میڈیا وار“ کے ذریعہ فکری دنیا میں انقلاب برپا کرنے جارہا ہے‘ وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف میڈیا کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے‘ میڈیا کے ذریعہ کفر وشرک اور ضلالت وگمراہی کا طوفان بپا کیا جارہا ہے‘ ایسے حالات میں تصویر والے میڈیائی وسائل کے استعمال کا ہمارے لئے کیا حکم ہوگا؟ جب کہ ہمارے پیش نظر‘ دفاع اسلام اور تبلیغ دین ہو‘ کیا ہم تصویری محظور کو سامنے رکھتے ہوئے ان وسائل سے کنارہ کش رہیں؟ یا دفاع اسلام اور تبلیغ دین جیسی ضروریات دینیہ کی وجہ سے تصویری محظور ہمارے لئے ”مباح“ کے درجہ میں چلا جائے گا؟ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اسلام کے دفاعی وتبلیغی مقاصد کے لئے تصویر والے میڈیائی وسائل کا فی زمانہ استعمال ”ضرورت وحاجت “کی بناء پر جائز ومباح ہے۔جب کہ ہماری رائے اس کے برعکس ہے ،ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ:
۱- دفاع دین اور تبلیغ دین کے شرعی وظیفہ کی ادائیگی‘ تصویر والے میڈیائی وسائل پر قطعاً موقوف نہیں‘ اس مقصد کے لئے دوسرے کئی جائز ذرائع موجود ہیں اور ہم صرف جائز ذرائع کے استعمال کے مکلف ہیں‘جو انسان دین اسلام کو بطور دین مانتا ہو ،اس کے ایمان کا حصہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت اور اسے قیامت تک پہنچانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے‘ آج تک کی چودہ صدیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ دین اسلام اصلی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ہم تک پہنچایا، جب کہ ہر دور کی ظالم وجابر اور باطل وبے دین قوتوں نے اسلام کا راستہ روکنے کے لئے اپنے دور کا ہر مؤثر حربہ استعمال کیا ،لیکن منشأ خداوندی کے مطابق دین اسلام بصورتِ اصلی ہم تک پہنچا۔کسی ناجائز ذریعہ کا کبھی محتاج نہیں رہا‘ گویاکہ مسلمان ناجائز ذرائع کے بغیر بھی دینِ اسلام کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
۲:-اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ جس طریقے اور وسیلے سے دین ہم تک پہنچا ہے، اسی طریقے اور وسیلے کے مطابق ہم دین اسلام کو آگے پہنچانے اور پھیلانے کے مکلف ہیں، اس کا عام فہم ایک طریقہ ووسیلہ تبلیغ وتعلیم کا ہے‘ دوسرا طریقہ تحریر ومکاتیب ‘ (تصنیف وتألیف) کا ہے‘ ان دونوں طریقوں کے لئے آج تک مختلف آلات اور وسائل استعمال ہوئے ہیں‘ مگر کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ اسلام کے دفاع اور بقاء کے لئے تصویر دیکھنے اور دکھانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہو‘ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا دفاع اور بقاء تصویر دیکھے اور دکھائے بغیر ممکن ہے۔
ہاں البتہ بنی اسرائیل کا یہ مزاج ومذاق ضرور تھا کہ وہ اصرار کیا کرتے تھے کہ ہم داعئی حقیقی کو جب تک دنیا کی اسکرین پر نہ دیکھیں اس وقت تک انبیاء کی دعوت وتبلیغ کو ہرگز نہیں مانیں گے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نامناسب رویہ پر ناگواری کی ایسی گرفت نازل فرمائی کہ وہ مناظر دیکھتے ہی رہ گئے ۔ قولہ تعالی:
”واذ قلتم یا موسیٰ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جہرة فاخذتکم الصاعقة وانتم تنظرون“ (بقرہ:۵۵)
۳-نیز تصویر والے میڈیائی ذرائع کے دعوت وتبلیغ کے لئے استعمال کوضرورت و حاجت کے زمرے میں لانا بھی مشکل ہے ،کیونکہ دعوت وتبلیغ اور دفاع دین کے لئے تصویر والے آلات کا استعمال اس وقت ضرورت وحاجت کے زمرے میں شمار ہوسکتاہے جب دعوت ودفاع کے باقی تمام راستے مسدود ہوجائیں۔ جب کہ فی الحال ایسی کوئی صورت نہیں‘ الحمد للہ! دنیا کے ہر ہر گوشہ تک علماء دین اور مبلغین اسلام کی رسائی ہوچکی ہے اور ہور ہی ہے‘ بلکہ ایسی ایسی جگہوں تک بھی رسائی ہوچکی ہے جہاں تصویری آلات تو درکنار، انسانی زندگی کی عام سہولتیں بھی نہیں پہنچ سکیں‘ بلکہ روشن خیالوں کے بقول: وہاں کے لوگ اب تک پتھر کے زمانے کا منظر پیش کررہے ہیں‘الحمد للہ! اس دعوتی سلسلے کی بدولت لاتعداد غیر مسلم مسلمان ہورہے ہیں اور کتنے گمراہوں کو ہدایت مل رہی ہے۔(الاشباہ والنظائر: ص:۸۶-۹۳ ط: قدیمی کراتشی)
الغرض تبلیغ دین اور دفاعِ اسلام کے لئے تصویر والے ذرائع ابلاغ کا استعمال نہ تو تبلیغ کی ضروریات وحاجات میں شامل ہوسکتا ہے ،نہ ہی تحسینیات میں‘ البتہ جدید دور کے داعیوں کی خوش فہمی یا کچھ اور کہہ سکتے ہیں۔
۴-دعوت وتبلیغ اور دفاع اسلام کے نام پر ٹی‘ وی وغیرہ کو مباح یا ضروری قرار دینے سے قبل ان کے عمومی استعمال کا تجزیہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ جو آلات‘ لہو ولعب کے لئے بنے ہوں اور استعمال ہورہے ہوں ان آلات کے سامنے کونسا کافر‘ محض تلاش حق کی نیت سے بیٹھنے جائے گا؟ یا کون سے مسلمان کا دینی جذبہ‘ دین سیکھنے اور دین سے متعلق شبہات دور کرنے کے لئے دوزانوں ہوکر بیٹھے گا؟
”ایں خیال است ومحال است وجنون“ ۔
بلکہ سچ یہ کہ ٹی‘ وی جیسے فحاشی وعریانی کے آلے سے دین اسلام سیکھنے اور سکھانے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے شراب آلود برتن یا سیوریج لائن کے لئے استعمال شدہ پائپ کے ذریعہ صاف شفاف دودھ سپلائی کرنے کا دعویٰ کرنا۔
۵-پس دفاع اسلام اور تبلیغ دین کے لئے ٹی‘ وی پر آنا اور غیر محرموں کو اپنے نظارے کروانا ضرورت وحاجت سے خارج اور حرمت وممانعت کے دائرے میں بدستور داخل ہے‘ اس راستے کو اختیار کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے، نہ ہم اس راستے کو اختیار کرنے کے مکلف ہیں‘ اس لئے ہمارے خیال میں ذی روح کی ڈیجیٹل تصاویر کا استعمال اور ٹی‘ وی پر آنے اور اس کو جائز سمجھنے اور کہنے کی کوئی گنجائش نہیں‘ اگر اس سلسلے میں کسی قسم کی گنجائش اور لچک رکھی گئی تو اس کے دیگر منکرات وفواحش کا سیلاب اپنی جگہ‘ ایک بہت بڑا دینی وایمانی نقصان یہ بھی ہوگا کہ جولوگ ٹی‘ وی کو ناجائز سمجھتے ہوئے محدود پیمانہ پر استعمال کیا کرتے تھے ،وہ اب آپ کے بتائے ہوئے جائز وناجائز کی تفریق کے بغیر ‘بے دریغ ٹی‘ وی کو جائز سمجھ کر استعمال کریں گے‘ اس طرح آپ ‘ لوگوں کی ہدایت کے بجائے گمراہی وبے ایمانی کا ذریعہ بن جائیں گے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ٹی‘ وی اور دیگر تصویری آلات‘ بجائے خود مجموعہ منکرات ہیں‘ منکرات کے ازالے کے لئے منکرات کا استعمال کسی طور پر جائز نہیں۔نیز تصویر اور آلات لہو ولعب سے اجتناب کا تعلق منہیات شرعیہ سے ہے اور دعوت وتبلیغ اور دفاع اسلام کا تعلق ”مأمورات شرعیہ“ سے۔ شریعت کی رو سے مأمورات بجالانے سے زیادہ اہم اور ضروری منہیات سے اجتناب کرنا ہے۔
”لان اعتناء الشرع بالمنہیات اشد من اعتنائہ بالمأمورات“( الاشباہ النظائر: ص:۹۱ قدیمی کتب خانہ)
لہذا تصویر سازی کی حرمت وممانعت کو پامال کرتے ہوئے دفاع اسلام اور تبلیغ دین کا حکم بجالانے کا اصرار شرعی تقاضوں سے یکسر انحراف اور تصادم ہے۔
واللہ أعلم وعلمہ أتم
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: ابو الکلام آزاد دہلوی اور ان کی تفسیر
Flag Counter