Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 13
ابو الکلام آزاد دہلوی اور ان کی تفسیر
ابو الکلام آزاد دہلوی اور ان کی تفسیر ترجمان القرآن
الخیر ابقی وان طال الزمان بہ
والشراخبث ما اوعیت من زاد
ترجمہ:۔”بہتری اور اچھائی باقی رہتی ہے اگرچہ اس پر خوب زمانہ گذر جائے، اور برائی خباثت سے بھر پور ہی رہتی ہے چاہے کتنا ہی عرصہ تو اس کو توشہ میں محفوظ رکھے۔“
”ترجمان القرآن“ اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہے جس پر ابو الکلام احمد وہلوی کے مختصر اور مبسوط فوائد تحریر ہیں ۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے متعلق اور اس میں موجود مخالف سنت واجماع امت مباحث سے متعلق بیان کردوں ،اس کے متعلق وضاحت پر مجھے بعض معاصرین کے ان تعریفی کلمات نے برانگیختہ کیا جو قاہرہ کے رسالہ الفتح کے عدد:۵۶۲ میں شائع ہوئے ، اورتحقیق یہ کہا گیا ہے کہ : یداک اوکتا وفوک نفخ یعنی اپنے ہاتھ سے مشکیزہ کوبندکررہے ہو اور منہ کی پھونک سے ہوابھررہے ہو “،انہوں نے ایسے تعریفی کلمات کہے جو اس تفسیر کے لائق نہیں ہیں ،نیز اس تفسیر کے باطل ہفوات سے یا تو چشم پوشی کی یا پھر ان کو سمجھا ہی نہیں ۔ لیکن ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم مصری علما کو دھوکے میں رکھیں اور ان کو ہندوستان کے کسی باشندے کی جھوٹی تعریف پر بھڑکائیں ، اس لیے کہ الله اور رسول کی خاطر درست بات کرنا ہمارے لیے زیادہ اہم ہے بہ نسبت کسی ہندی کی جھوٹی تعریف کے ،ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ہم مخلوق کی رضامندی کے بدلے خالق کی ناراضگی کا سودا کر بیٹھیں ،خدا ورسول کی رضا کا حصول ایسے شخص کی رضا سے کہیں زیادہ اہم ہے جو کہ کسی بھی ایسی وادی میں زیادہ دیر نہیں رہتا جس کی جانب اس کا قلم اور زبان اس کی رہنمائے کرے۔ موصوف ابوالکلام کے بعض مزلات وہفوات کی جانب محض رضائے خداوندی کے حصول اور ہندی طلباء وعلماء او رعام عوام تک حق ودرست اور واضح بات پہنچانے کے لیے اس سے قبل میں اپنے رسالہ ”نفحة العنبر“ میں بھی اشارات تحریر کرچکا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تنقید وتبصرہ پر بعض لوگ مجھ پر طعن درازی کے لیے میری قلمی ولسانی مزاحمت کریں گے اور مجھے تعصب اور جمود کا طعنہ دیں گے ،لیکن یہ سنت جاریہ تو قرآن کریم کے بارے میں بھی ہے (کہ حق گوئی کے مقابلہ میں ایک جماعت ضرور مخالفت کرتی ہے) عرب شاعر اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے یوں گویا ہوا ہے کہ:
اعیرتنا البانہا ولحومہا
وذالک عاریا ابن ریطة ظاہر
ترجمہ :۔”اے مخاطب ! کیا تو ہمیں اپنی اونٹنیوں کے دودھ اور گوشت پر بخل کرنے کی بناء پر عاردلائے گا اور ملامت کرے گا ؟اے ابن ریطہ! یہ مخالفت از خود بے حیثیت وبے قدر ہے ․․․کیونکہ تجھ کو کیا معلوم ہم انہیں کن مصارف میں خرچکرتے ہیں جن سے تو بے خبر ہے․․․“
اسی طرح ایک دوسرے شاعر نے یوں کہا اور خوب کہا:
وعیرہا الواشون انی احبہا
وتلک شکاة ظاہر عنک عارہا
ترجمہ :۔”میرے رقیب چغلخوروں نے محبوبہ کو میری اس سے محبت کرنے پر عار دلائی ․․․کہ یہ نکما شخص تجھ سے محبت کا دعویدار ہے․․․ حالانکہ یہ شکوہ ہی تجھ سے اے محبوبہ! اپنی عار کو معدوم کررہا ہے ․․․کیونکہ مجھ جیسا عاشق لائق قدر تجھ سے محبت کرے تو یہ تیرے لئے باعث صد افتخار ومباہات ہے نہ کہ عار کا سبب․․․“
وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔
مذکورہ مقالہ نگار کہتا ہے:
”ہندی زبان میں تصنیف کردہ تفاسیر میں امام ابو الکلام کی تفسیر بھی قابل ذکر ہے‘ جس کے مقابل ومشابہ امام حجة الخلف سید رشید رضا کی تفسیر کے سوا کوئی تفسیر سارے عالم اسلام میں نہیں “۔
مجھے نہیں معلوم کہ ان کلمات سے موصوف نے جو دل کی گہرائیوں سے تعریف کی کہ یہ مفسر کے نظریات وافکار سے مناسبت ہے یا پھر عصری تقاضوں کے مد نظر رکھتے ہوئے مداہنت سے کام لیا ہے ۔ بہر حال کچھ بھی ہو، میں اس بارے میں کسی مصلحت وتقاضے کی رو رعایت کئے بغیر کہتا ہوں کہ:
ابو الکلام آزاد دہلوی طبعی طور پر ایک جذباتی شخص تھے جو ملکی وسیاسی معاملات کی خوب اطلاع رکھتے تھے ،ساتھ ساتھ اردو تقریر وتحریر میں ملکہ رکھتے تھے، شایدوہ اپنے اس طرز انشاء وخطابت میں اپنے زمانہ کا یکتا فردتھے ،، بلکہ انہوں نے ایک نیا اسلوب ایجاد کیا ،ان کی بیس سالہ قبل کی زندگی اب کی زندگی سے قوم کے لئے زیادہ نفع بخش اور فائدہ مند تھی ،برطانوی سامراج اور مخالف اسلام حکومت کے پنجے سے وطن کو حریت وآزادی دلانے میں ان کا بہت تعاون اور امداد کار فرمارہا اور اس جد وجہد اور تحریک میں حکومت کے خوف اور اس کے حملے کے خطرہ نے ان کو متاثر نہیں کیااور ان کی اسی جد وجہد کی وجہ سے بہت سے علمائے حق نے ان کے متعلق سکوت فرمایا۔ موصوف کی ان قابل قدر مساعی اور حصول وطن کے لئے جد وجہد کی بناء پر میرے دل میں بھی ان کی خاصی قدر ومنزلت ہے ،اس لئے کہ انہوں نے ہی ان تحریکات کے ابتدائی دور میں کمزور ہمت افراد کو برانگیختہ کیا ، اور آزادی کی خاطر جد وجہد پر خوابیدہ عوام وخواص کو اپنے رسالے ”الہلال“ اور” البلاغ“ کے اجراء سے خواب غفلت سے بیدار کیا ،اسی طرح سیاسی مجالس میں اپنے جاذب قلب تقاریر سے غفلت کوشوں کو جگایا ۔ ان تمام خصوصیات کے باوجود موصوف کی طبیعت میں اپنی آراء وافکار کے متعلق اعجابی کیفیت بہرحال پائی جاتی تھیت جس کی بناء پروہ کئی علمائے حقہ بلکہ اکابر ملت پر اگر وہ ان کی آراء وفکار کی مخالفت کرتے خوب تنقید کرتے تھے ،اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ ان میں کسی قدر اپنی خواہشات آمیز افکار ونظریات پر گھمنڈ اور خود رائی کی کیفیت ہیت بلکہ بعض مواضع آپ موصوف کو درست مسلک ومذہب اور ستھرے عقائد وعلوم سے نکلتا ہوا محسوس کریں گے ۔ ابتدائی طور پرجہاں تک ہماری معلومات تھیں، وہ صحیح العقیدہ شخص تھے ،مختلف رسائل واخبارات میں شائع شدہ مقالات ومضامین بھی ان کے صحیح العقیدہ ہونے کی ترجمانی کرتے ہیں، لیکن فروعی مسائل میں وہ کسی کے مقلد نہ تھے، جیساکہ قاضی شوکانی اور نواب صدیق حسن خان صاحب اور دیگر اہل حدیث حضرات ائمہ کرام کی تقلید نہیں کیا کرتے تھے ،لیکن اسی عدم تقلید پر بس نہیں ‘ بلکہ علمائے احناف ،خصوصاً امام الائمہ امام ابوحنیفہ پر بھی انہوں نے اپنی کتاب ”تذکرہ“ میں خوب ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ،اکابر امت کے حق میں خوب بدتمیزی کی ہے اور اس بات کی سعی کی ہے کہ ہندوستان میں وہ ایسے امام بن جائیں، جن کی امامت پر اتفاق ہو،اور مسلمانوں کے دین ودنیا کے امیر بن جائیں ،اوران کے امام الہند ہونے پر علماء کا اتفاق رائے ہوجائے، لیکن ہندوستان میں تو بہت سے صحیح علم ودانش اور تقویٰ ودیانت کے حامل علمائے امت تھے اور جیساکہ راقم نے عرض کیا کہ: دینی معاملات میں گویا وہ بے مہرو بے لگام تھے، جب کہ علم وعمل میں اکابر ہند سے بہت کوسوں تھے ۔ چنانچہ علمائے دیوبند نے اس موقع پر بھی جرات واستقلال کے ساتھ حق کو بے باکی سے بیان کیا اور اعلان کردیا کہ موصوف اس امامت کے جس کے وہ دعویدار ہیں ہرگز حقدار نہیں ہیں ،اس لئے کہ علمائے دیوبند نے اپنی فراست صحیحہ سے قبل از وقت ہی ان مفاسد کو پرکھ لیا تھا ،جو ان کی امامت کو تسلیم کر لینے میں آئندہ پیش آسکتے تھے، جن کی بعد ازاں روک تھام نہایت مشکل تھی، چنانچہ ابو الکلام آزاد جو خواہش اور تمنا رکھتے تھے ،اس کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکے۔ خلاصہ یہ کہ انہی افکار ونظریات کے متعلق موصوف جد وجہد کررہے تھے ،دریں اثناء انہوں نے اعلان کیا کہ وہ تفسیر لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، جس کی بنا پر اس تفسیر کی جانب گردنیں اٹھنے لگیں اور لوگ اس تفسیر کا اسی شدت سے انتظار کرنے لگے، جیساکہ ایک پیاسے شخص کو ٹھنڈے میٹھے شفاف پانی کی طلب وانتظار رہتا ہے، چنانچہ ایک دو کتابیں تفسیر کے متعلق شائع ہوئیں ،پھر صرف ان کا ترجمہ قرآن جس پر چند مختصر ومفصل فوائد درج کرتے تھے ،شائع ہوئی جس کا نام موصوف نے ”ترجمان القرآن“ تجویز فرمایا۔ سورہٴ فاتحہ کے متعلق ان کی تفسیر خوب مفصل و مبسوط شائع ہوئی ،میں نے بھی اس کو خوب شوق سے لیا اور پڑھنا شروع کیا اور سورہٴ فاتحہ کی تفسیر مکمل پڑھی اور پھر مختلف آیات کی تفسیر دیکھی ،تب اس شدت اشتیاق کی لو جو میرے دل میں جل رہی تھی وہ بجھ گئی اور میں انگشت بدنداں رہ گیا اور افسوس کرتا یہ سوچنے لگا کہ اگر یہ تفسیر نہ طبع ہوتی تو زیادہ بہتر تھا، اس لئے کہ اس کے مطالعے سے قبل ان کی قدر منزلت میرے قلب میں جاگزیں تھی ،اس مطالعہ سے میں نے بھانپ لیا کہ خواہشات اور محض عقل کی کار فرمائی ان کو مختلف وادیوں میں لے گئی ہے اور اس اوہام پرستی نے موصوف کو کہیں کا نہیں چھوڑا، اور میں نے جانچ لیا کہ اس خودرائی اور اعجاب نے موصوف کو تقلید سے بے بہرہ کیا اور اخیراً صراط مستقیم سے ورے ورے شاہراہ باطل پرگامزن کردیا۔
وکل یدعی حباً بلیلی
ولیلی لاتقرلہم بذاکا
ترجمہ :۔”ہرشخص لیلیٰ کی محبت کا دعویدار ہے لیکن لیلیٰ ہرایک کی محبت کا اقرار نہیں کرتی ہے۔“
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسلام کا نظام معیشت
Flag Counter