Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

5 - 13
وقت کی اہم ضرورت
وقت کی اہم ضرورت

انسانی زندگی کی فلاح کے لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو نبی علیہ السلام کے طریقے کے مطابق بجا لائے۔ ابن آدم کا ظاہر وباطن جب سانچہٴ اسلام میں ڈھل جائے اور اسوہ ٴ نبوی اس کے لئے حرف آخر بن جائے تو ہر شئ اس کے لئے سرنگوں ہونے کو تیار ہے۔ صحابہ کرام نے اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھالا تو قرآن کریم نے انہیں
”رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ“
کی سند عطا کی۔ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جنگ بدر میں محض ۳۱۳ کی تعداد اور ہرقسم کے ظاہری سامان جنگ سے عاری ‘ لیکن اسلحہ ایمانی سے لیس تھیں اور عشق رسول ان کے دل کے نہال خانوں میں موجزن تھا‘ اس لئے فتح نے ان کی قدم بوسی کی۔ ان کے مقابلے میں ایک ہزار رؤساء کفار جوکہ ہر قسم کے سامان حرب وضرب سے لیس تھے ‘ لیکن انہیں پھر بھی ناکامی ونامرادی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی صفات کے حامل گوہر نایاب ہر زمانے میں موجود رہے‘ جن کی بدولت نوع انسانی اپنے لئے راہ ہدایت پاتی رہی ‘ عالم اسلام کے مشہور جرنیل طارق بن زیاد مقام اندلس میں بارہ ہزار کے لشکر کو استقامت کی تلقین اور اتحاد کا درس دے رہے تھے اور ان کا خطاب تھا کہ:
”لوگو ! آپس کی لڑائی اور جھگڑوں میں مت لگ جانا‘ اس سے تمہارے ہی قدم اکھڑ جائیں گے“
ان کی قیادت میں موجود تمام مسلمان مقصد واحد کے لئے متحدتھے یہاں تک کہ ساحل پر اپنی کشتیاں تک جلا ڈالیں‘ تاکہ واپسی کا خیال ہی دل میں نہ آئے‘ ان کے مقابلے میں ایسا دشمن جس کی اپنی تعداد بھی غیر محدود اور دوسرے مقامات سے بھی ان کو کمک پہنچ رہی تھی‘ تمام کے تمام ہرقسم کے سازو سامان سے لیس تھے‘ مگر آپس کا اتحاد جیسے ہی ختم ہوا‘ ان میں پھوٹ پڑگئی پس ان کی ساری تیاری ماند پڑ گئی اور سارا جوش ٹھنڈا ہوگیا اور ایسی فاش شکست کھائی کہ آج تک تاریخ اس کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ الغرض تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ جب تک انسانیت اسوہٴ نبوی کی حامل رہی اور آپس کے اختلافات میں پڑ کر مقصد زندگی کو نہیں بھولی تھی تو فتح ونصرت ان کے گھر کی لونڈی بنی رہی۔ سوال یہ ہے کہ وہ قوم جو کل تک ہمارے قدموں کے نیچے تھی اور ہمارے پاس امن کی بھکاری بن کر آتی تھی‘ وہ ہم پر کیوں جرأت کرنے لگی ؟ جواب یہ ہے کہ کسی قوم کی کامیابی کی کلید ان کا متحد ہونا ہے ۔ جی ہاں کفار نے ہمارے اتحاد پر اپنی میلی نظر یں جمادیں‘ ان کے شب وروز ہمارے اتحاد کو ختم کرنے میں صرف ہونے لگے‘ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اتحاد قرآن وسنت کی بناء پر قائم ہے اور اتحاد کی دیوار اسی صورت گرسکتی ہے‘ جب ان کو قرآن وسنت سے دور کردیا جائے۔ کیونکہ جس بنیاد اور سہارے پر یہ دیوار قائم ہے وہ بنیاد موجود نہ ہو تو پھر اتحاد چہ معنی دارد؟ چنانچہ اپنے منصوبے کی کامیابی کے لئے جس چیز کو انہوں نے بطور ہتھیار استعمال کیا‘ وہ تہذیب مغرب ہے‘ مغربی تہذیب مسلمانوں میں بڑے منظم اور خوشنما انداز میں منتقل کی گئی‘ چنانچہ اس کا اثر ہے کہ آج ظاہراً مسلمان نظر آنے والا اندر سے مغرب کی غلاظت لادے ہوئے ہے۔ اس کا قلب یورپ کی آزاد فضاء کا خواہاں ہے‘ دل اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کتراتا ہے‘ اسی طرف لارڈمیکالے نے اپنی تقریر میں اشارہ کیا تھاکہ:
”ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں اور دل ودماغ کے لحاظ سے انگلستانی“ ۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ چونکہ اسلام ایک محکم دین ہے اور اس سے براہ راست مسلمانوں کو دور کرنا امر محال ہے‘ لہذا انہوں نے ایک تدبیر یہ اختیار کی کہ علماء جو اس دین کو سمجھنے والے‘ اس کا فہم رکھنے والے اور ابنیاء کے وارث ہیں‘ ان سے عوام کو بدظن کیا جائے۔ کبھی ان کی ذات کو نشانہ بنایا کہ یہ گرے پڑے لوگ ہیں‘ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں‘ یہ چند ایک غریب طلباء کو بٹھاکر پڑھا دیتے ہیں‘ بیرون دنیا میں کیا ہورہا ہے‘ ان کو اس کا کچھ علم نہیں وغیرہ۔اور کبھی ان کے فہم وفراست میں شکوک پیدا کرنے کے لئے اپنے ایجنٹ اور کارندے ان میں بھیجے گئے‘ کبھی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں جھوٹے مدعیان نبوت بھیجے گئے تاکہ جہاد کی منسوخی کا اعلان کرایا جائے‘ کبھی جہاد کو دہشت گردی اور مجاہد کو عین دہشت گرد قرار دیا گیا۔ کبھی دوسرے ایجنٹ بھیج کر فقہی مسائل‘ تفسیر قرآن اور احادیث مبارکہ میں نکتہ چینی کرکے مسلمانوں کو ہویٰ پرستی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی‘ مقصد یہی رہا کہ کسی طرح علماء کو ان کے مقام ومرتبے سے (جوکہ لوگوں کی نظروں میں قائم ہے) گرادیا جائے۔ مزید یہ کہ ہر دہشت گردی کے واقعے کو علماء اور طلباء سے جوڑتے‘ علماء کو ہی بنیاد پرست‘ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور دہشت گردی کے مربی باور کرایا جانے لگا اور یہودی طریقہ کے مطابق کہ ”جھوٹ اتنا بولو اور اتنا کام کرو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے“ اس بات کا چرچا چھار سو کیاگیا‘ ان کے مقابلے میں افکار مغرب‘ شخصیات مغرب اور ان کی آزادانہ روش کو آئیڈیل بناکر پیش کیا اور اس کو جدید دور کے تقاضے بتایا جانے لگا‘ نتیجةًبہت سے مسلمان ان کی چال بازیوں میں آگئے اور وہ علماء سے اس قدر بدگمان ہوئے کہ فقط داڑھی‘ ٹوپی والے سے بھی ان کو پرخاش رہنے لگی۔ الغرض جب تک اتحاد تھا‘ سارے عالم پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور سارے عالم میں ان کا سکہ رواں تھا‘ لیکن جوں ہی مسلمان یہ سبق بھولا اس کی شان خاک میں مل گئی۔ہمارے اسلاف کے پاس اسباب دنیا کچھ نہ تھا‘ مگران کی نیکی اور یکجہتی کے طفیل اللہ نے ان کو سب کچھ دیا اور جب سے ہمارے اندر سے تقویٰ‘ پرہیزگاری اور یکجہتی ختم ہوئی توہماری عزت واقتداراور رعب دبدبہ سب ختم ہوگیا۔ اقبال نے سچ کہا تھا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہاء کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟اس کا جواب کلام اللہ چند امور مصلحہ کی صورت میں دیتا ہے۔
امر اول
”یا ایہا الذین آمنوا اتقوا الله حق تقاتہ ولاتموتن الا وانتم مسلمون“۔ (آل عمران:۱۰۲)
ترجمہ:․․․” اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے جیسا چاہیئے اس سے ڈرنا اور نہ مرو مگر مسلمان“۔ معلوم ہوا کہ ڈرنا صرف اللہ سے ہے‘ کسی کا خوف کسی کی دھمکی ہم پر اثر انداز نہ ہو‘ صرف خشیت الٰہی اور خوف خدا پیش نظر ہو اور پوری امت مرتے دم تک عقیدہ توحید میں متحد ومتفق اور دین اسلام پر قائم رہے۔ قرآن نے ہماری کمزوری واضح کی کہ جس سے ڈرنا چاہئے اس سے ڈرو‘ دنیا کی مادی طاقتوں سے مت ڈرو اور یہ آستانے‘ قبروں کی پوجاپاٹ‘ مجاوروں کا بوس وکنار ترک کرو۔ فقط اللہ کی وحدانیت پر آجاؤ ۔ مذکورہ آیت پر عمل پیرا ہونے سے ہماری انفرادی قوت ناقابل تسخیر اور غیر متزلزل ہو جائے گی۔
امرثانی
”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا“۔(آل عمران:۱۰۳)
ترجمہ:․․․”اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو“۔ آیت مذکورہ میں بھی اتحاد کا درس ہے‘ اس ایک جملے میں ایسا حکیمانہ اصول بتایا کہ ہرانسان اگر اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو اور سب مل کر اس پر عمل پیرا ہوں تو نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متحد ومتفق ہو جائیں گے۔ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کررہے ہوں تو اس کی مثال اس انسان جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط رسی کو پکڑ لیتاہے اور ہلاکت سے محفوظ رہتاہے‘ لہذا اشارہ فرمایا کہ: اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے تھامے رہوگے تو کوئی شیطان اور اس کا ساتھی اس میں شرانگیزی نہیں کرسکے گا ۔اس طرح مسلمانوں کی انفرادی قوت کے ساتھ اجتماعی قوت بھی ناقابل تسخیر اور غیر متزلزل رہے گی۔ اس آیت سے ہمیں ایک اور سوال کا جواب ملا کہ باری تعالیٰ کا بھیجا ہوا نظام محکم قرآن وہ آپ کے لئے کافی ہے‘ اس سے ہم انگریز کے قوانین کی طرف احتیاج اور ان کے مشوروں سے پالیسی تشکیل دینے سے مستغنی ہوگئے۔ آیت کا دوسرا ٹکرا ہے: ”لاتفرقوا“ یعنی اس مرکز سے ہٹنا مت‘ آپس میں تفرقہ مت پیدا کرنا ۔ اس کی مزید تفصیل صاحب تفسیر کبیر کی توجیہ سے ہوجاتی ہے کہ آپس میں متفق ہوں‘شقاوت وعداوت سے پرہیز ہوں۔ان دونوں اوامر کا تعلق اپنی اصلاح سے تھا کہ خود اپنی ذات میں صفت اتحاد پیدا کریں۔
امر ثالث
”کنتم خیر امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون بالله“۔ (آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ:․․․”تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر“۔ اس آیت میں حکم ہے کہ صرف اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرنی‘ بلکہ ساری بنی نوع انسانی کی فکر کرنی ہے۔ سب ہی کو عقیدہ توحید میں متفق کرنا ہے۔ ہرایک کو قرآن وسنت والی زندگی پرلانا ہے اور اس پر اس کو جمانا ہے‘ ہر کس وناکس کو اعتصام بالکتاب والسنة کا عملی نمونہ بنانا ہے۔ اگر انسانیت ان اوامر مصلحہ پر آجائے تو پھر سے اتحاد قائم ہوسکتا ہے ہم اپنی کھوئی ہوئی شان دوبارہ پاسکتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ تو اس امت کی امتیازی شان ہے ان کی فضیلت کی بناء پر ہی ان کو الگ ذکر کیا گیا ہے‘ اگر ہم کچھ دیر کے لئے موجودہ دور کا تجزیہ کریں کہ کس قدر اسلام کے خلاف واویلا کیا جاتا ہے‘ رؤساء کفار ہرجگہ بطور استہزاء اسلام کو پیش کرتے ہیں‘ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں‘ مسلمانوں پرتنگ نظر اور جدید دور کے تقاضوں سے ناواقف ہونے کا لیبل چسپاں کرتے ہیں‘ اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہرایک کو شخصی آزادی حاصل ہو‘ اس کو مغربی تہذیب کے اپنانے میں کوئی دشواری اور لعن طعن کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ مگر جب سوال ان کے وطن کے اندر شخصی آزادی کے حوالے سے ہو تو پھر یہ آزادی نسیاً منسیاً ہوجاتی ہے اور وہاں مسلم طالبات کے اسکارف پر بھی پابندی عائد کی جاتی ہیں‘ اسلام کے خلاف واویلا مسلمان اس لئے برداشت کرجاتے ہیں کہ افکار مغرب ان کے ذہنوں پر اس قدر حاوی ہوگئے ہیں کہ اسلامی تعلیمات دھندھلا گئی ہیں‘ مسلمان اپنا آئیڈیل کسی کا فریا اس کے کارندے کو بناتاہے‘ اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی وجہ سے اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ آج کا میڈیا بھی علماء کے درپے ہے‘ ان کو بدنام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا‘ علماء کے خلاف اس قدرسازش تیار کی گئی ہے کہ کوئی بعید نہیں کہ مستقبل میں ہرموڑ اور ہرگلی پر لوگوں کو جمع کرکے علماء پر طعن وتشنیع کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ اس دور میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو دلوں کو حرکت دے‘ جو نفس کے خلاف احتجاج کرے‘ جس کی بدولت مسلمان اپنی قدر کو پہنچانیں‘ جس میں شامل ہوکر مسلمان اعتصام بالکتاب والسنة کا عملی نمونہ ہوں‘ وہ ایسے نظم سے کام کریں کہ مسلمان شرائع اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لئے آمادہ ہوجائیں ‘وہ تنظیم اس طرح کام کرے کہ چاہے عامی ہوں یا خاص‘ مالک ہو یا مملوک‘ رئیس ہو یا فقیر‘ صحت مند ہو یا معذور ‘ حسین ہو یا بدصورت ‘ ہرایک کو قرآن وسنت کے پلیٹ فارم پر جمع کرے‘ اس کا مقصود یہ ہو کہ سو فیصد مسلمان اللہ کے تمام احکامات کو نبی علیہ السلام کے طریقے پر عمل کرنے والے بن جائیں‘ اس کی جد و جہداور اس کی فکر میں صرف یہ ہو کہ اپنی اصلاح کے ساتھ کس طرح دوسروں کی بھی اصلاح ہو‘ تاکہ ہرایک ادا سے اتحاد نظر آتا ہو۔ زہے نصیب کہ اس تحریک کو از سرنو شروع کرنے کے لئے ہمیں محنت کی ضرورت نہیں‘ بلکہ ۸۰ برس قبل ایسی ہستیوں نے اس تحریک کی ابتداء کردی ہے جوکہ پیکر اخلاص تھے‘ یہ ان کے اخلاص ہی کی برکت ہے کہ دنیا کے چپے چپے میں اللہ نے اس کو پہنچایا اور ہرجگہ یہ تحریک چلی۔ یہ ہی تحریک دنیا کے کونے کونے میں اعلاء کلمة الحق کی جہد میں سرگرداں ہے اسی کی برکت سے جو بھٹک گئے وہ لوٹ آئے‘ غیر بھی اپنے ہوکر اسلام کے حلقے میں داخل ہوئے یہ تحریک دعوت وتبلیغ کے نام سے مشہور ہے‘ شاید اس کو تحریک کہنا بھی ٹھیک نہیں‘ کیونکہ یہ تو ہرایک کی گھٹی میں شامل ہونا چاہئے‘ یہ ایک فرض ہے‘ اسی کا منشور ہے کہ پوری انسانیت کو نبی علیہ السلام کے طریقہ پر لانے کے لئے جہد مسلسل میں لگو‘ اس کا ضروری ہونا اس قدر واضح ہے کہ اب اس کے لئے دلیل نہ بھی دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر مسلمان اس جہد مسلسل میں لگ جائیں تو دین کے تمام شعبوں کو کما حقہ دو بارہ شروع کیا جاسکتا ہے‘ اسی محنت سے مجاہدین وافر مقدار میں مہیأ ہوسکیں گے‘ اسی کی برکت سے صوفیاء کی خانقاہیں۔ طالبین اصلاح سے بھری ہوئی ہوں گی‘ مدارس طلباء سے پُر ہوں گے‘ غرض تمام شعبے پوری آب وتاب سے جگمگائیں گے‘ نتیجتاً پوری امت متحد ہوجائے گی‘ آپس کی نااتفاقی اتفاق میں بدل جائے گی‘ دوبارہ مسلمان کی یہ شان ہوگی کہ کافر ومنافق ہماری طرف اپنی غلیظ نظریں نہیں گاڑھ سکیں گے اور ان کی عافیت اسی میں ہوگی کہ وہ ہماری ماتحتی میں رہیں ۔ اسی محنت سے سارا جہاں اسلام کی روشنی سے منور ہوگا اور مؤمن کا دل بھی نور ایمانی سے لبریز ہوگا ۔ بلاشبہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے جس کے لئے اپنی خداداد صلاحیتوں کو صرف کرنا چاہئے اسی سے کفار کی ان تمام سازشوں کی دھجیاں بکھیری جا سکتی ہیں جن سے وہ ہماری ظاہر وباطن میں اختلاف پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔
جہاں اگرچہ دگرگوں ہے قم باذن اللہ !
وہی زمیں وہی گردوں ہے قم باذن اللہ !
کیا ندائے انا الحق کو آتشیں جسنے
تری رگوں میں وہی خون ہے قم باذن اللہ !
غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قم باذن اللہ!
امر رابع
”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا بطانة من دونکم“۔(آل عمران:۱۱۸)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کے سوا“۔ حکم ہے کہ اپنے علاوہ کسی کو رازداں نہ بناؤ‘ کیونکہ غیر مسلم اور ان کے ایجنٹ مسلمانوں کے راز فاش کرنے اور ان کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑیں گے‘ کیونکہ وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں ہی رہتے ہیں۔ اللہ ہمیں ان امور مصلحہ پر عمل پیرا کردیں‘ آمین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 
Flag Counter