Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ

ہ رسالہ

7 - 12
تصویر اور تبلیغ دین
ٹی‘ وی‘ ویڈیو اور سی ڈیز وغیرہ میں دکھائی دینے والی شکلوں پر ممنوع اورحرام تصویر کے احکام کے اجراء یا استثناء کے لئے ان تصاویر کی حقیقت وماہیت پر فنی تحقیقات سے بحث کرنا تو اہلِ فن کا کام ہے‘ ہمیں ان شکلوں کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے ظاہری صورتحال اور گرد وپیش کے واقعاتی پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
۱- دیگر پہلوؤں سے قطع نظرباطل اس وقت ملکی اور عالمی سطح پر ”میڈیا“ کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے اور اس ہتھیار کو آگ وبارود سے زیادہ مؤثر سمجھا جارہا ہی‘ ایسے حالات میں ہم ان ذرائع سے دور رہ کر ‘ ان کے میڈیا وار سے اپنا دفاع کیسے کرسکتے ہیں؟! اسلام کے متعلق شکوک وشبہات ‘ بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈوں کا دفعیہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ پہلو بھی غور طلب ہے ‘ بلکہ ایسی حقیقت واقعی ہے جس سے انکار مشکل ہے۔
۲- جہاں تک ٹی‘ وی ‘ ویڈیو اور سی ڈیز وغیرہ کی تصاویر کا تعلق ہے، اس حوالہ سے تصویر کی لغوی واصطلاحی تعریفات کے پیچوں میں وقت صرف کرنے کی بجائے تصویر کے مرحلہ وار مختلف ارتقائی ادوار کو سامنے رکھا جائے اور تصویر کے مقاصد اوراہداف پر غور کیا جائے تو امید ہے مسئلہ بآسانی سمجھ آجائے گا‘ زیادہ الجھاؤ اور پیچیدگی نہیں رہے گی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ تصویر سازی کی ابتدائی صورت مٹی‘ پتھر یا جمادات وغیرہ کے مجسمے ہیں جو آثار قدیمہ اور ثقافت کے نام پر اب بھی ہرجگہ موجود ہیں ،پھر ہاتھ سے رنگ وروغن سے بھر پور تصویر سازی کا ایک طریقہ بھی متعارف ہوا اور اب بھی ”فن مصوری “ معروف ہے‘ اس سے آگے پھر کیمرے وغیرہ کا دور آیا جسے بحث وتمحیص کے بعد پرانی تصویر سازی اور مجسمہ سازی کی ترقی پذیر صورت تسلیم کرلیا گیا اور کیمرے سے محفوظ ہونے والی صورت پر” تصویر محرّم“ کا حکم لگایا گیا‘ حالانکہ مٹی وجمادات سے بننے والی تصویر اور کاغذی تصویر میں بہت واضح فرق ہے‘ اب تصویر کشی کا یہ مقصد برقی لہروں کی وساطت سے حاصل ہورہا ہے اور محفوظ ہورہا ہے‘ جسے ہم ویڈیو اور سی ڈیز وغیرہ کی مددسے حسبِ منشاء دیکھ سکتے ہیں۔
مجسمہ سازی سے لے کر سی‘ ڈیز کی تصاویر تک‘ ہر دور میں تصویر کا مقصد ُمصوّر کے نقش ونگار اور شکل وشبہات کی شناخت وحکایت ہے‘ ویڈیو اور سی‘ ڈیز وغیرہ کی تصاویر اس مقصد کو بدرجہٴ اتم پورا کر رہی ہیں اور ان تصاویر میں عدم استقرار کا شبہ بھی نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ ویڈیو کیسٹ کا فیتہ یا سی ڈیز کی لہریں ان تصاویر کا مستقر ہیں‘ ہاں یہ ہے کہ یہ استقرار مجسموں اور کاغذی تصاویر کے استقرار سے زیادہ لطیف وباریک ہے جسے ہم سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی سے تعبیر کر سکتے ہیں‘ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ویڈیو یا سی ڈیز کی تصاویر چونکہ مجسموں اور کاغذی تصاویر سے مختلف ہیں‘ لہذا یہ تصاویر محرمہ سے خارج ہیں‘ یہ بات قابل ِ فہم نہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ استقرار کی شرط تصویر کے لئے محض اکابر کا اجتہاد ہے، کوئی منصوص ومنقول نہیں ہے‘ جس کے نتیجہ میں یہ کہا جاسکے کہ استقرار کی شرط نہ ہونے کی صورت میں ُمصوَّر کی حکایت کرنے والی شکلوں کو تصویر کے حکم سے خارج مانا جائے گا‘ قطعاً ایسا نہیں۔
البتہ ”تصویر“ کو فی نفسہ ناجائز مانتے ہوئے بعض ضروری مواقع کا استثناء بہرحال ممکن ہے اور ضرورت پر عمل کے قواعد پر غور سے ضرورت کے احکام بیان ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات کے بقول دینی مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کا مطلق استعمال جائز ہے‘ ان حضرات کی فکر کی اساس یہ ہے کہ باطل نے ذرائع ابلاغ کو اس طرح اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے کہ وہ اپنی ہرگمراہ کن بات کو چند لمحوں میں پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے اور پہنچا رہا ہے اور اس دور میں احوال وافکار کو رخ دینے میں میڈیا سے مؤثر کردار کسی اور ذریعہ کا ہرگز نہیں‘ اس مکتب فکر کی اس منطق پر تبصرہ کئے بغیر دوسری رائے ذکر کرتے ہیں جس رائے کے حامل امت کے وہ علماء کرام ہیں جن کے تصلب فی الدین کی وجہ سے امت مسلمہ انہیں اپنا مقتدی اور پیشوا مانتی ہے‘ ان حضرات کی رائے کی بنیاد یہ ہے کہ اس حد تک تو تمام اہل علم متفق ہیں کہ موجودہ میڈیائی وسائل کا جائز استعمال کم اور ناجائز استعمال زیادہ ہے۔ دین ودنیا کے اصول کے مطابق ان کے استعمال کو جواز کا کلی سرٹیفکٹ نہیں دیا جاسکتا‘ جب یہ حقیقت مسلم ہے تو اس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم دین کی نشر واشاعت اور تبلیغ وتعلیم کے لئے ناجائز ذرائع کے استعمال کے قطعاً مکلف نہیں ہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ صراحتیں جابجا موجود ہیں کہ ازالہ ٴ منکر کے لئے منکر کو استعمال کرنا ناجائز ہے‘ مثلاً اگر کسی کے بدن یا کپڑے پر ناپاک چیز لگ جائے تو اسے پاک کرنے کے لئے ہرمائع چیز کا استعمال کافی نہیں ہوتا‘ بلکہ صرف وہ مائع ضروری ہوتا ہے جو خود بھی پاک ہو اور اس میں نجاست ․․․ناپاکی․․․ کو دور کرنے کی صلاحیت بھی ہو‘ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص نجاست کے ازالہ کے لئے پیشاب استعمال کرے تو جسم والی نجاست مٹ بھی جائے، تب بھی پاکی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ناپاک چیز کے استعمال کی بناء پر پہلے سے موجود ناپاکی میں کمی تو نہیں آئی ‘ بلکہ اضافہ ہوا ہے، لیکن اگر اسی مقصد کے لئے پانی استعمال کیا جائے تو بلاشبہ پاکی کا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ بعینہ سمجھنا چاہئے کہ ہم منہیات اور منکرات کے میناروں پر چڑھ کر دفاع دین اور تبلیغ دین کے بلند وبانگ دعوے کس طرح کررہے ہیں؟
پس دفاع دین اور تبلیغ دین کے حوالہ سے آسان اور سیدھا راستہ وہی ہے جس پر چلتے ہوئے ہمارے اسلاف نے ہمیں دین پہنچایا اور ہم مسلمان ہیں ،یہ زمانی حقیقت ہے کہ اگر دنیا دجالی شر وفساد سے بھرنے جائے گی تو اسلامی امن وسلامتی اور خیر وعافیت کا دور بھی ضرور پلٹ کر آئے گا، ہمیں ہراقدام سے پہلے انجام کے بارے میں بھی فکر مند ہونا چاہئے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: ایک بے سند” حدیث قدسی“ کی تحقیق
Flag Counter