Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ

ہ رسالہ

5 - 12
چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیازات
۲-حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد اسی خانوادہٴ ولی اللہی کے فرد حضرت شاہ ولی اللہ متوفیٰ:۱۲۳۰ھ کے بیٹے شاہ عبد القادر دہلوی اپنے والد بزرگوار کے نہج پر گامزن ہوئے اورہندی اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ تحریر فرمایا، چنانچہ بہت بہترین اور عمدہ ترجمہ فرمایا۔ آج قرآن کے ترجمہ اور فہم میں ہندی باشندوں کا مدار اسی پرہے ۔
موصوف نے اس ترجمہ کو تنقیح وتہذیب میں، اس کے اسلوب کی عمدگی اورمعنوی لطافت ودقت میں ایسے بلندوبالامرتبہ پرپہنچادیا کہ وہ سہل ممتنع بن گیا․․․․کہ ایسا آسان اسلوب بیان جس کی نظیرونقل نہ لائی جاسکتی ہو۔
پھر اس ترجمہ کو مفید تفسیری فوائد تحریر فرماکر مزید نفع بخش بنادیا،جنہوں نے قرآن کریم کی اغراض ومقاصد کے عمدہ موتیوں پر پڑے پردوں کو کھول دیا ،ان کے بعض لطائف وفوائد کی نظیر کتب تفاسیر کے موجودہ وافر وکثیر مادے میں ملنا مشکل ہے، چنانچہ ان تمام فوائد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے !!
شیخ کاترجمہ اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے حد اعجاز کے قریب ہے ،اور اگر بشری کلام بھی معجز ہوا کرتا تو بعض مواضع میں علامہ موصوف کے ترجمہ کو معجز کہنا بالکل برمحل ہوتا ،لیکن خداوند تعالیٰ نے صفت اعجاز کے ساتھ فقط اپنے کلام کو مختص فرمادیا ہے، لیکن بہرحال یہ خصوصیت ایسی ہے کہ دیگر تراجم اس کے مقابل ومساوی نہیں ہوسکتے ہیں ۔
۳-اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ کے دوسرے بیٹے شاہ رفیع الدین دہلوی، متوفی: ۱۲۳۳ھ ․․․․جو شاہ عبد القادر سے بڑے تھے․․․․نے بھی قرآن کا اردو ترجمہ فرمایا، جس میں کلمات قرآن کی ترتیب کے مطابق لغوی ترجمہ کی رعایت فرمائی ہے اور عوام کے لئے یہ ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر کے ترجمہ سے زیادہ بہتر ونفع بخش ہے۔
۴-اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے بیٹے الحجة ،عارف باللہ شاہ عبد العزیز دہلوی متوفی: ۱۲۳۹ھ نے اپنے بعض احباب کو قرآن کریم کے آخری دو پاروں کی تفسیر لکھوائی ،پھر پہلے پارے کی تفسیر لکھوائی اور دوسرے پارے کی تفسیر : ”وان تصوموا خیراً لکم “ تک مکمل فرما سکے اور اس تفسیر کا نام ”الفتح العزیز“ رکھا ،اس میں ایسے بیش بہا علوم اور گرانما یہ فوائد ہیں جو ان کے وسیع تبحر علمی ‘ ان کے محیر العقول استحضار‘ باکمال حافظے اور مضبوط وعمدہ تعبیرات کے متعلق قاری کو تعجب میں ڈالدیتے ہیں ۔یہ فوائد علامہ محترم نے کتب تفاسیر کی مراجعت کے بغیر زبانی حافظہ کی مدد سے تحریر کروائے ہیں ،خدائے کریم کی قدرت بھی بڑی عجیب ہے، جس کو چاہے، جیسے کمالات چاہے ،نوازش فرمادے -سبحان اللہ- ہمارے شیخ امام العصر فرمایا کرتے تھے کہ کاش!یہ تفسیر اسی طریق پرمکمل ہوجاتی تو مقدرت بشری کے اعتبار سے جو قرآن پاک کی تفسیری ذمہ داری ہم انسانوں پر عائد ہے، وہ پوری ہوجاتی۔
۵-بعدزاں تقریباً نوے یا سو سال بعدقرآن کریم کا بہترین ترجمہ حضرت علامہ شاہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے فرمایا:جو حضرت قطب عارف باللہ مولانا یعقوب نانوتوی ،متوفی: ۱۳۰۰ھ ․․․․جو اپنے زمانہ کے دار العلوم دیوبند کے مدیر وصدر تھے․․․․کے شاگرد رشید تھے ۔حضرت تھانوی کو شیخ الہند ․․․․جن کا کچھ ذکر گذشتہ صفحات میں ہوا ہے․․․․سے بھی تلمذ حاصل تھا ،اس ترجمہ کے ساتھ حضرت تھانوی نے اردو میں چند مجلدات میں تفسیر بھی تحریر فرمائی ہے، جن میں بڑی مشقت اور خوب جد وجہد کے ساتھ دیگر تفاسیر کا مطالعہ فرمایا اور مفید امور کو اختصار کے ساتھ تحریر فرمایا اور مشکل مقامات کو نہایت عمدگی کے ساتھ حل فرمایا ہے ،اور طلبہ کرام کے لئے عربی میں فوائد تحریر فرماکراس کا نفع مزید بڑھا دیا۔ اس تفسیر کے لئے ”بیان القرآن“ کا نام تجویز فرمایا ۔
۶-ان کے بعد حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی  نے قرآن کریم کا ترجمہ فرمایا اور اس ترجمہ کے ساتھ تفسیری فوائد بھی رقم فرمائے۔
۷-پھر جب حضرت شیخ الہند آزادی وطن کی تحریک کے سلسلے میں مالٹا میں اسیر ہوئے تو تمام تر مشغولیات سے فارغ ہوکر قرآن کریم کے مطالعہ میں ہمہ وقت مصروف ہوئے ،اس وقت حضرتنے عصری رائج اردو کے اسلوب کے مطابق ترجمہ وتفسیر قرآن کی دینی ضرورت محسوس فرمائی ،چنانچہ ترجمہ تحریر فرمانا شروع کیا اور اسیری ہی کے زمانہ میں مکمل فرماکر اس ترجمہ کا حق ادا کردیا ،اس ترجمہ کی بنیاد حضرت شیخ الہند نے حضرت شاہ عبد القادر  کے ترجمہ پر رکھی ،جو اس وسیع میدان کے سب سے پہلے شہسوار تھے، اس ترجمہ کے متعلق حضرت شیخ الہند کا خیال تھا کہ: علم وکمال کے اعتبار سے اس پر غالب آنااور اس سے آگے بڑھنا تقریبا محال ہے،لیکن چونکہ حضرت شیخ الہند بھی خوب باریک بین اور فکری لطافت کے حامل تھے اور ان کا سینہ اور دل نور ایمان سے ایسا معمور ومنور تھاکہ ان کی منزلت پر پہنچنا ان کے زمانہ میں ممکن نہیں تھا، بلکہ ان کی گردپا تک پہنچنا بھی دشوار تھا ، انہوں نے بعض تعبیرات کو نہایت ہی نفاست اور خوش اسلوبی سے تبدیل کیا اور تمام ان خصوصیات کی رعایت ملحوظ رکھی جو شاہ عبدالقادر کے ترجمے میں تھی ،چنانچہ ترجمہ میں صفت ‘ بدل اور عطف بیان کے درمیان فرق کی رعایت کی اور جو مقام سب کا احتمال رکھتا ہو تو وہاں لطافت معنوی دیکھ کر جو ترجمہ مقام کے لائق ہو وہ ترجمہ فرمادیا ،علاوہ ازیں یہ ترجمہ دیگر کئی محاسن وخصوصیات کا حامل ہے جو دل بہا دینے والے ہیں اور جتنا غوروتدبر کیا جائے ،اس کے اچھے محاسن نمایاں ہوتے رہتے ہیں:
غراء مبسام کأن حدیثہا در تحدر نظمہا منثور
ترجمہ :”محبوبہ کا تبسم بہت خوشنما ہے، گویا کہ اس کی باتیں ایسے موتی ہیں جن کا نظم وشعر بھی نثر ہے “
اور جیساکہ ابو نواس کہتا ہے:
یزیدک وجہہ حسناً اذا ما زدتہ نظراً
ترجمہ :۔جتنا زیادہ اے مخاطب! تو محبوب کے چہرے کو دیکھے گا، اتنے محاسن اس کے تجھ پر نمایاں ہوں گے
اسی طرح ایک اور عرب شاعرکا جو عرب کے جھنڈے کا اٹھانے والا شمار کیا جاتا ہے ،کا شعر ہے کہ:
”ورحنا یکاد الطرف یقصر دونہ متی ما ترقی العین فیہ تسہل“
ترجمہ:۔”ہم اتنا چلے کہ پھربھی نظریں اس کی انتہاء کو نہ پہنچ سکیں۔جب بھی نگاہیں اس میں اوپر کواٹھتی ہیں،تونیچے کی طرف لوٹ آتی ہیں“۔
بعدزاں شیخ الہند نے اس ترجمہ پر تفسیری فوائد تعلیق فرمانا شروع کئے اور سورہٴ نساء کے اخیر تک پہنچ گئے،اور اس میں نص قرآنی کے فہم کے لئے ایک عام شخص کو جتنی تشریحات کی احتیاج ہوتی ہے ،وہ تمام تر فوائد کے ذیل میں عجیب طریقے سے روشن تعبیرات کے ساتھ قرآن کریم کے اغراض ومقاصد کو واضح فرمایا ۔
اسیری اور قید وبند سے جب حضرت شیخ الہند کو نجات ملی اور سرزمین ہند پہنچے توان پر مختلف امراض کا شدید حملہ ہوا ،بہرحال اجل مقدر نے ان کو مہلت نہ دی اور قضا کا وقت قریب ہوا،فضاء تنگ ہوگئی اور شیخ الہند ۱۳۳۹ھ میں حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی کی وفات کے پورے ایک سو سال بعد رفیق اعلیٰ کو واصل ہوئے
ناگاہ حوادث نے سورہٴ آل عمران کے فوائد ضائع کردیئے اور یہ تفسیر یوں ہی نامکمل رہی اور کوئی عبقری شخصیت ایسی نہ ہوئی جو حضرت شیخ الہند کے ان تمام فوائد تفسیریہ کو ان کی منشاء کے مطابق پایہٴ تکمیل تک پہنچا دے تاآں کہ یہ ازلی سعادت ان کے شاگرد رشید اور خصوصی رفیق محقق العصر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب فتح المہلم کے حق میں ظاہر ہوئی،چنانچہ علامہ عثمانی نے تین سال کی مدت میں تمام قرآن کریم کے فوائد شیخ الہند کے اسلوب کی رعایت کرتے ہوئے مکمل فرمائے اور ایسے کلمات وتعبیرات سے فوائد کو مزین فرمایا جو سارے کے سارے گویا کہ لعل وجواہر ہیں ،ان تفسیری فوائد میں زمانہ کی ضرورت کے مطابق باطل فرقوں کے مردود ،بے کار اقوال کے بطلان کو واضح فرمایا، جیسے محمد علی قادیانی لاہوری ،جس نے اردو اور انگریزی میں ”بیان القرآن“ کے نام سے تفسیر لکھی اور اس کے مانند دیگر اہل بدعت ،ان فوائد کا کچھ تذکرہ گذشتہ صفحات میں بھی آچکا ہے ۔فتذکرہ
یہ مذکورہ تراجم اہل حق علماء کے ہیں اور مستند تراجم ہیں، جن سے خداوند کریم نے امت کو بہت بہرور فرمایا، اور اقلیم ہند کے تمام علاقوں میں ان تراجم پر قرآن فہمی کا مدار ٹھہرا اور دیگرعلاقوں میں ان کی خوب نشر واشاعت ہوئی، علماء وطلباء جو شعبہٴ درس وتدریس سے متعلق تھے اور ہیں ،ان سے خوب نفع اٹھاتے رہے ہیں، خاص طور پر آخر الذکر ترجمہٴ شیخ الہند اور ان کے تفسیری فوائد خوب مقبول ہوئے ،اسی اثناء میں اور اس تفسیر کے بعد بھی قرآن کریم کے تراجم اور ان پر تفسیری فوائد تحریر کئے گئے ۔ جن میں بعض صحیح اہل حق کے تھے
۸-ان میں مولانا شیخ حسن علی پنجابی کا ترجمہ قرآن بھی قابل ذکر ہے، مولانا موصوف قطب زمان مولانا محدث ابومسعود رشید احمد گنگوہی دیوبندی متوفی: ۱۳۲۳ھ کے شاگرد تھے ، بعد ازاں ان کے تحریر کردہ فوائد وامالی کو میں نے قابل مؤاخذہ ونقد پایا ،جن میں ان کا قلم سیدھی راہ سے زلت کا شکار ہوا ہے‘ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ آیایہ ضبط کرنے والی کی طرف سے ہے یا خود صاحب تعلیق کی رائے ہے ،بہرحال اس پر نظر ثانی کی گئی ہے چنانچہ بعض مواضع تفسیری تقصیر پر تنبیہ کے محتاج معلوم ہوتے ہیں، جن میں چند مواضع یہ ہیں:
۱- ذبح بقرہ والی آیت۔ ۲- فاتوا بسورة من مثلہ۔ ۳- لاتقولوا راعنا۔ ۴- تحویل قبلہ کے متعلق تفسیری فائدہ۔ ۵- ومن یکفر بالطاغوت۔ ۶- آیت الکرسی وغیرہ یہ مواضع لائق تنبیہ ہیں ۔
اور میں نے کچھ عرصہ قبل سنا کہ کسی ہندی عالم نے ان کی تفسیر وترجمہ کے رد میں باقاعدہ ایک کتاب تالیف فرمائی ہے۔ فالی اللہ المشتکی
۹-اسی ترجمہ وتفسیر کی طرح حضرت مولانا احمد علی لاہور کا ترجمہ قرآن وتفسیری فوائد بھی قابل تحسین ہیں۔
ہندوستان کے بعض مفسرین نے درست ونادرست کی آمیزش سے بھی تفسیر مرتب کی ہے ،جن میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی اور مرزا حیرت دہلوی کا ترجمہ سرفہرست ہے ،انہی ہندی مفسرین میں سے بعض نے قرآن کی مراد میں تحریف بھی کی ہے اور معنوی اعتبار سے گویا قرآن کو مسخ کردیا ہے ،قرآن کو اپنی خواہشات کے قالب میں ڈھال کر اپنے واسطے جہنم کا ٹھکانہ تیار کیا ہے، جیسے محمد علی قادیانی جس کے متعلق گذشتہ سطور میں کچھ اشارہ کیا گیا، اس نے اپنی تفسیر میں سرسید احمد خان دہلوی ․․․․جو علیگڑ ھ یونیورسٹی کا بانی تھا․․․․کی تفسیر پر اعتماد کیا ، اسی طرح حکیم احمد حسن امروہی مرزائی قادیانی ہے ،جس کی تفسیر کا نام جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ،غالباً ”غایة البیان“ تھا جس میں موصوف نے باطل اقاویل خوب ذکر کئے ہیں اور خوب لوگوں کو گمراہ کرنے کی سازش کی ہے۔
انگریزی کالج کے بانی سرسید احمد خان اور ان کی تفسیر
چونکہ سرسید احمد خان کی تفسیر کے متعلق تذکرہ چلا ،اس لئے اگر ان کی شخصیت اور ان کی تحریر کردہ تفسیر کے متعلق وضاحت نہ کی جائے تو یہ مذہبی مداہنت اور عملی نفاق ہوگا ،اس لئے کہ وہ بہت سے ایسے باطل پرست روشن خیال لوگوں کے رہبر ورہنما ہیں، جن کے لیے ملت اسلامیہ کی سیدھی اور ستھری راہ تاریک کردی گئی ہے ، سرسید احمد خان زندیق اور ملحد شخص تھے یا پھر جاہل گمراہ، حق کی جانب راہ روی کے خواستگار تھے ،لیکن سیدھی راہ ان سے خطا ہوگئی ، انہوں نے شرعی معاملات اور شعائر ملت کے متعلق اپنی گمراہ اور ناکارہ عقل کو کسوٹی ٹھہرایا ،جس کی بنا پر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کوبھی گمراہ کیا، ان کا طرز وطریقہ یہ تھا کہ اہل یورپ ومغرب ،ملت اسلامیہ پر جو بیکار اعتراضات کیا کرتے تھے ،موصوف ان کو قبول کرتے تھے ، پھر قرآن وسنت میں تاویلات کرتھے ،اور اسلام کو کفر کے قریب کرکے دونوں کو ایک ہی دین بتلاتے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف یہ تمام تر تاویلات اس لئے کیا کرتے تھے کہ اس طرح وہ ان کافروں کے دربار میں جن کے ہاتھ میں ہندوستانی حکومت کی باگ ڈور تھی، تقرب اور شرف باریابی حاصل کرلیں۔
چنانچہ انہوں نے فرشتوں کا انکار کیا اور کہا کہ: ملائکہ خیر کے فطری ملکہ کا نام ہے جو انسانی فطرت وجبلت میں ودیعت ہے، یہ کوئی مستقل عالم سے عبارت نہیں جو وجود انسانی سے کوئی خارج شئ شمار کیا جائے، بلکہ یہ ان صفات میں سے ہے جو انسان کے اندر ہی موجود ہیں ۔
اسی طرح شیطان کا بھی انکار کیا اور کہا کہ: ”شیطان اس شری ملکہ سے عبارت ہے جو فطرت انسانی کا حصہ ہے ،اسی طرح حشر اور معاد جسمانی کا انکار کیا ،بلکہ ملحد فلاسفہ کی طرح صرف معاد روحانی کا قائل ومعتقد ہوا اور اسی طرح آسمانوں اور ارواح کے وجود کا بھی منکر ہوا۔
موصوف شرعی نبوت ․․․جو خدائی عطیہ ونوازش ہے ․․․․کے بھی منکر تھے ،جو نبوت حضرت خاتم النبیین اپر جا کر تمام ہوئی ،وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ: یہ نبوت کسبی ہوتی ہے،انہوں نے نبوت کی صفات وعلامات میں تحریف وتبدیل سے کام لیا ، نبی اورکسی بھی امت کے عام مصلح کو برابر قرار دیا،چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو، اسی طرح ان معجزات کا بھی انکار کیا جو انبیاء کرام کے ہاتھوں سے خداوند کریم وقدیر کی قدرت سے ظاہر ہوئے کہتے ہیں کہ: ”خوارق کا ظہور خداوند کریم کے دست قدرت سے بالاتر ہے ،گویا کہ موصوف نے تکلیف وتشریع کی بنیاد ہی کو باطل قرار دیا، بلکہ تمام قطعی ضروریات دین اور صریح صحیح قطعی نصوص کی بھی تاویلات کیں، جن کی قطعیت دلالت وثبوت کے اعتبار سے مسلم ومتفق ہے ،حتی کہ میرٹھ کے ایک خطاب میں کہنے لگے کہ: دنیوی معاملات تو خود اسلام نے ہمارے سپرد کر رکھے ہیں کہ جس طرح چاہیں جیسے چاہیں ان کے متعلق تصرف کریں، اس لئے کہ نبی پاک ا نے فرمادیاہے کہ: انتم اعلم بامور دیناکم منی“ تم اپنے دنیوی معاملات کو مجھ سے بہتر جانتے ہو ، جہاں تک دینی معاملہ کا تعلق ہے تو اس میں خوب وسعت وکشائش رکھی گئی ہے، فرمایا گیا کہ :”من قال: لا الہ الا اللہ دخل الجنة وان زنی وان سرق ،الحدیث“ جس شخص نے کہا کہ: خدائے برحق کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں گویا داخل ہوگیا ،اگرچہ زنا یا چوری کا مرتکب ہو۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: سید احمد شہید اور تحریکِ جہاد
Flag Counter