Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ

ہ رسالہ

4 - 12
سید احمد شہید اور تحریکِ جہاد
پٹنہ میں طویل قیام کے بعد ان کے مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آگئی‘ کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا ۔
۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے، اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے ،یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی، مگر اس ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آنمودار ہوئے، یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کردی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش وخروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی، انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے، ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے‘ اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا، جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی‘ کہ ۲۱/دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحب کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہنچادیا، جہاں انہوں نے اپنے مرید بنائے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہوگئی، اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتح مندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہوگیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔
۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا‘ سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا، وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغابازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا‘ وہ نہایت ہی جوش وخروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تیغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کردیا، صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا، ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکردگی میں روانہ کیا‘ جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا ،فتح کرلیا۔ پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا، اس چالاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرادیا، اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کردینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادہ شیر سنگھ کے زیرکمان تھی، ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو شہید کرڈالا۔
(ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸‘۱۹‘۲۰)
جنگ بالاکوٹ
بالاکوٹ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے آگے پہاڑی علاقہ میں واقع دریائے کنہار کے مغربی کنارے پر ہے‘ شیر سنگھ اور سید احمد کی فوجیں دریائے کنہار کے پار ایک دوسرے سے مقابل ہوئیں‘بالاکوٹ کا گاؤں دریا کے مغربی کنارے پر ایک ٹیلے پر واقع تھا‘ شیر سنگھ کی فوج کا پڑاؤ بالاکوٹ سے تھوڑی دورمشرقی کنار ہ پر تھا‘ شیر سنگھ دوراستوں سے بالاکوٹ پر حملہ آور ہوسکتا تھا:
۱- بالاکوٹ کے مشرقی کنارے سے دریا پار کے۔
۲- پکھلی کی طرف سے بالاکوٹ کے مغربی پہاڑ پر چڑھ کر۔
مٹی کوٹ پہاڑی کے دامن اور بالاکوٹ کے آباد حصہ کے درمیان کھیتوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا۔ سکھوں کے اقدام کو روکنے کے لئے اس نشیبی علاقہ میں بہت پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔اور اسے دلدلی بنادیا گیا تھا۔ سید احمد نے پہاڑی پر جانے والی پوشیدہ پگڈ نڈیوں کی نگرانی کے لئے ایک مختصر سا دستہ تعینات کردیا تھا‘ مگر یہاں بھی غداری اپنا کام کرگئی‘پوشیدہ پگڈ نڈیوں کا پتا سکھوں کو بتا دیا گیا اور کسی کمک کے پہنچنے سے پہلے محافظ دستہ کو اچانک زیر کر لیا گیا۔ مجاہدین کے نقشہٴ جنگ پر یہ بہت بڑی ضرب تھی، کیونکہ اس کے فوراً بعد سکھ تمام پہاڑی پر چڑھ دوڑے جو بالاکوٹ پر سایہٴ افگن تھی۔
جنگ شروع ہوئی ،مجاہدین کی مختصر فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم اور ایک دوسرے سے لا تعلق ہوگئی‘ جنگ جم کر ہوئی اور دست بدست۔ سید احمد پہاڑی کے دامن میں بہادری سے لڑتے ہوئے گر گئے۔ کسی نے ان کو گرتے ہوئے نہیں دیکھا ،جو مجاہدین ان کے ساتھ لڑ رہے تھے وہ ان کے ساتھ شہید ہوگئے‘ سید صاحب اور ان کے رفقاء کی شہادت ۲۴/ ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ ۶/مئی ۱۸۳۱ء تقریباً بروز جمعہ قبل از دو پہر ہوئی
معرکہٴ بالاکوٹ میں سکھ فوجوں کی تعداد تقریباً کم وبیش بیس ہزار تھی، جب کہ بالاکوٹ میں موجود مجاہدین کی تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ ابتداء میں حضرت سید صاحب کو بہت عمدہ کامیابیاں حاصل ہوئیں، مگر بعد میں اپنوں کی غداریوں ‘ انگریزوں اور سکھوں کی مسلسل سازشوں وغیرہ سے کامیابیاں سست پڑ گئیں، اگر چہ مخلصین کا جوش وخروش بڑھتا ہی رہا ،بالآخر ۱۸۳۱ء میں بمقام بالاکوٹ جنگ وجہاد کرتے ہوئے ایک سرحدی مسلمان کی سازش سے مع شاہ محمد اسماعیل ودیگر رفقاء شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اب ہم مختصر طور پر چند باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
۱- یہ تحریک آزادی ہند ۱۸۰۶ء یا ۱۸۰۳ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۴۷ء کی آزادی ہند تک باقی رہی ،اس کی جنگی کارروائی صوبہ سرحد میں ۱۸۲۶ء میں شروع ہوتی ہے، چھ برس متواتر جنگ رہنے اور اکثر فتح مند ہونے اور اپنوں کی غداریوں کی بناء پر جبکہ ۱۸۳۱ء میں حضرت سید صاحب اور شاہ محمد اسماعیل صاحب اور بہت سے مجاہدین شہید ہوجاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں میں سے بہت سے حضرات اپنے اپنے وطن کو واپس آجاتے ہیں ،تب بھی ایک جماعت مسلمان مجاہدین کی وہاں باقی رہتی ہے اور اپنی تمام جد وجہد کی کارروائیوں کو سرگرمی کے ساتھ عمل میں لاتی رہتی ہے، وہ مایوس نہیں ہوتی، وہ جماعت ہزاروں سے بڑھتے بڑھتے بعض اوقات لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے: ”جب ہم نے پنجاب کا الحاق کیا تو تعصب کی اس رو کا رخ جو پہلے سکھوں کی طرف تھا، ان کے جانشینوں یعنی انگریزوں کی طرف پھر گیا، سکھوں کی سرحد پر جس بدامنی سے ہم نے چشم پوشی کی تھی یا جس سے بے پروائی کی تھی، وہ ایک تکلیف دہ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچی تھی۔“(باب اول ص:۲۳)
”۱۸۲۱ء میں امام صاحب نے اپنے خلفاء کو منتخب کرتے وقت ایسے آدمیوں کا انتخاب کیا جو بے پناہ جوش وخروش کے مالک اور بہت ہی مستقل مزاج تھے ،ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس کس طرح متعدد بار جب یہ تحریک ناکام ہونے کے قریب تھی، انہوں نے بار بار جہاد کے جھنڈے کوتباہی سے بچاکر از سر نو بلند کردیا۔ پٹنہ کے خلفاء جو انتھک واعظ‘ خود اپنے آپ سے بے پرواہ‘ بے داغ زندگی بسر کرنے والے‘ انگریز کافروں کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمہ تن مصروف اور روپیہ اور رنگروٹ جمع کرنے کے لئے ایک مستقل نظام قائم کرنے میں نہایت چالاک تھے ۔“ (باب دوم ص:۶۳‘۶۴)
”روپیہ اور آدمی ہمارے علاقہ سے تھانہ کیمپ کو متواتر جارہے تھے، اس سلسلہ میں حکومت پنجاب نے ہماری فوج کے ساتھ سازشی خط وکتابت بھی پکڑ لی تھی، یعنی انہوں نے کمال ِ عیاری کے ساتھ ہماری نمبر ۴ دیسی پیادہ فوج کے ساتھ سازش کی تھی جو اس وقت راولپنڈی میں مقیم تھی، ان خطوط سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ بنگال سے باغی کیمپ تک روپیہ اور آدمی پہنچانے کے لئے ایک باقاعدہ نظام موجود ہے ۔ سرحد پر مجنونوں کے کیمپ تک روپیہ اور آدمی پہنچانے کے لئے جو باغیانہ نظام قائم تھا، اس کی طرف سے انگریزی حکومت اب زیادہ دیر تک آنکھیں بند نہ کر سکتی تھی‘ اسی سال یعنی ۱۸۵۲ء میں انہوں نے ہمارے حلیف ریاست رمب کے نواب صاحب پر حملہ کردیا ،جس کی وجہ سے انگریزی فوج بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ۱۸۵۳ء میں ہمارے بہت سے سپاہی غداروں کے ساتھ خط وکتابت کرنے کے جرم میں سزا یاب ہوئے۔ ایک ہی واقعہ تمام حالات کو واضح کردے گا ۔یعنی ۱۸۵۰ء سے ۱۸۵۷ء تک ہم علیحدہ علیحدہ سولہ فوجی مہمیں بھیجنے پر مجبور ہوئے، جس سے باقاعدہ فوج کی تعداد پینتیس ہزار ہوگئی تھی اور ۱۸۵۶ء سے ۱۸۶۳ء تک ان مہمات کی گنتی بیس تک پہنچ گئی تھی اور باقاعدہ فوج کی مجموعی تعداد ساٹھ ہزار تک ہوگئی تھی۔ بے قاعدہ فوج اور پولیس اس کے علاوہ تھی ،اب ہم تقریباً انہی حالات سے دوچار تھے جو ۱۸۲۰ء و۱۸۳۰ء کے درمیان پیدا ہوگئے تھے اور جس کے نتیجہ پر اس متعصب لشکر نے پنجاب پر اپنا تصرف اور قبضہ جما لیا تھا، یہاں تک کہ سرحدی دار الخلافہ ان کے قبضہ میں ہوگیا، اب جنگ سے گریز کرنا بالکل ناممکن ہوگیا تھا۔۱۸۶۳ء کی لڑائی میں ہم نے کافی نقصان اٹھانے کے بعد یہ سبق حاصل کیا تھا کہ مجاہدین کے کیمپ کے خلاف مہم روانہ کردیناکہ ۵۳ ہزار جنگجو اور بہادر انسانوں کی مجموعی طاقت کے ساتھ جنگ کرنا ہے، ایک ایک دن کی تاخیر دشمنوں کے تعصبی جوش ،ان کی طاقت اور امیدوں کو بہت بڑھا دیتی ہے ۔ کمک کے باوجود ہمارے جرنیل کے لئے آگے بڑھنا ناممکن تھا ۔ ہفتوں تک برطانوی سپاہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ڈر کے مارے درے میں دبکی پڑی ہے اور وادی چومالہ میں بڑھنے کا حوصلہ نہیں رکھتی ۔“ (باب اول ص:۲۴‘۲۵‘۲۸‘۳۴)
”بہت مدت تک مجاہدین سرحد کی اس حیرت انگریز قوت کا سرچشمہ ایک راز بنارہا، اس ہندوستان حکومت نے جو ہم سے پہلے پنجاب پر حکمران تھی یعنی سکھ، اسے تین مرتبہ منتشر کیا اور تین دفعہ یہ انگریزی فوج کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوئے ،لیکن باوجود اس کے یہ ابھی تک زندہ ہیں اور دیندارمسلمانوں کے معجزانہ طور پر زندہ رہنے کو ہی ان کے آخر کا ر غالب ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جس وقت اس سرحدی نو آبادی کو ہم فوجی قوت کے بل بوتے پر تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت ہماری مسلمان رعایا کے متعصب عوام ان لاتعداد آدمیوں اور روپیوں سے مدد دے کر گویا ان چنگاریوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں ۔ “ (باب دوم ص:۴۲)
”اب میں نے اپنی سرحد پر اس باغی کیمپ کی تمام تاریخ ۱۸۳۱ء سے جبکہ اس کی ابتداء ہوئی ۱۸۶۸ء تک جبکہ انہوں نے ہم کو جنگ میں دھکیل دیا، بیان کردی ہے۔ وہ تمام پرانی مصیبتیں جو انہوں نے سکھ حکومت کے وقت سرحد پر نازل کی تھیں، وہ تمام ایک تلخ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچیں، اس نے تمام سرحد میں تعصبی جذبات کو برقرار رکھنے کے علاوہ تین مرتبہ قبائل کو یکجا اکٹھا کردیا، جس کی وجہ سے برطانوی ہند کو ہرایک موقعہ پر بہت ہی مہنگی لڑائیاں لڑنی پڑیں، یکے بعد دیگرے ہرگورنمنٹ نے اعلان کیا کہ یہ ہمارے لئے ایک مستقل خطرہ ہے، لیکن اس کے باوجود ان کو تباہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں، ہم نہیں جانتے کہ کس وقت ہم قبائل کی خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں آجائیں گے جو وسط ایشیاء میں ہر وقت جاری رہتی ہیں، مگر اس وقت یہ عین ممکن ہے کہ اس سال کے ختم ہونے سے پہلے ایک اور افغانی جنگ لڑنی پڑے، یہ جنگ جب کبھی بھی ہوگی اور جلد یا بدیر ہوکر رہے گی تو ہماری سرحد پر غدار آبادی ہمارے دشمنوں کو ہزار ہا آدمی مہیا کر سکے گی ،ہمیں ان غداروں کی اپنی ذات سے کوئی ڈر نہیں، اگر ہمیں ڈر ہے تو ان شورش پسند عوام سے جن کو یہ مجاہدین ہمارے خلاف جہاد کرنے کے لئے باربار اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ “ (باب اول ص:۴۱)
مندرجہ بالا واقعات جوکہ ایک اس دشمن انگریز کے بیانات کے اقتباسات ہیں جس نے اس بارہ میں بہت چھان بین کی ہے اور بہت سے امور کا خود معائنہ کیا ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک مسلمانوں کی اٹھائی ہوئی نہایت منظم اور دیر پا اور موثر تھی اور اس نے تمام ملک میں اندر اور باہر ایسی بڑی ہلچل پیدا کردی کہ مدبران برطانیہ لرزہ براندام ہوگئے، اس تحریک نے اس قدر جوش اور قربانی کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جس کی نظیر اس ملک میں کبھی پائی نہیں گئی ،یہ تحریک اور اس کے چلانے والے اس قدر عالی ہمت‘ مستقل مزاج‘ جفاکش اور منظم تھے کہ انگریزوں کی انتہائی بربریت اور درندگی بھی ان کو فنا نہ کر سکی ،اس تحریک کی رازداری‘ اور اخلاص ودیانت داری اعلیٰ پیمانہ پر تھی ،بے شمار مقدمات چلائے گئے اور ہرقسم کی شیطانی تدبیریں کام میں لائی گئیں، مگر انگریزوں کو کامیابی نہیں ہوئی ۔
ڈاکٹر ہنٹر ص:۷۲ باب دوم پر لکھتے ہیں :
”۱۸۷۰ء میں جب ایسے دوضلعوں کے مراکز کو توڑ دیا گیا تو ان کے رئیسوں کے خلاف غیر جانبدارانہ طور پر عدالت میں مقدمہ چلا گیا تھا ،جہاں ان کو عمر قید ببعبور دریائے شور یعنی کالا پانی اور ضبط املاک کی سزا ہوئی، اس وقت جو واقعات گواہیوں سے ظاہر ہوتے، وہ ہر اس غیر ملکی حکومت کو خوف دلانے کے لئے کافی ہیں جو انگریزی ہو، ہندوستان کی طرح اپنے آپ کو اتنی مستحکم خیال نہ کرتی ہو ۔ ص: ۷۶ پر لکھتا ہے: گذشتہ سات سال کے دوران میں ان غداروں کو یکے بعد دیگرے مجرم ثابت کرکے عمر قید بعبوردریا شور کی سزا دی گئی ۔ الحاصل یہ کہ مجاہدین اور ان کے مددگار مسلمان وہ شریف النفس اور شریف اخلاق والے لوگ تھے جن کو ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر باربار مجبور ہوکر انتہائی تعریفی کلمات سے یاد کرتا ہے ،مگر ان کو ہر طرح ستایا گیا۔ان کوسخت سے سخت سزائیں‘ پھانسی‘ عبوردریائے شور‘ عمر قید‘ توہین وتذلیل وغیرہ کی دی گئیں، تاہم نتیجہ کیا ہوا؟ خود ڈاکٹر ہنٹر سے پوچھئے :لیکن ۱۸۶۴ء کا سیاسی مقدمہ غداروں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے میں ویساہی ناکام ہوا، جیساکہ ۱۸۶۳ء کی تادیبی مہم ۔“ (باب دوم ص:۸۹)
سرحد پر تباہ کن جنگیں اور اندرونی ملک میں عدالتی سزائیں اس قابل نہ ہوئیں کہ مجاہدین کے اتحاد کو توڑ سکیں۔( ص:۹۳) مندرجہ بالا تاریخی اقتباسات جوکہ عموماً صحیح ہیں، مبالغہ کا ان میں شائبہ بھی نہیں ہے ،بلکہ واقعات سے بہت کم ہیں، ناظرین غور فرمائیں اور دیکھیں کہ مسلمانوں کی جد وجہد اور تحریک آزادی ہند میں جانبازی اور سرفروشی کس قدر عظیم الشان اور کس بلندی پر پہنچی ہوئی اور کس قدر پرانی ہے ‘ کیا کوئی دوسری جماعت اس کے مقابل تاریخی اعتبار سے اپنا یا اپنی جماعت کا نام پیش کر سکتی ہے؟۔ ہرگز نہیں
۱- یہ جماعت حقیقةً ۱۸۰۳ء سے وجود میں آئی یعنی جس وقت شاہ عبد العزیز صاحب نے ہندوستان دار الحرب ہے کا فتویٰ دیا ۔
۲-اس جماعت نے کھلے بندوں آزادی کی تحریک کی قیادت کی اورلوگوں کو جہاد کے لئے آمادہ کیا۔
۳-اس جماعت نے ملک کے اکثر حصہ میں دورہ کرکے آزادی کا جوش وخروش پیدا کیا۔
۴-اس جماعت نے باقاعدہ تنظیم کی، ہر ہر ضلع‘ صوبہ اور قصبات وغیرہ میں مراکز بنائے اور عہدے دار مقرر کئے۔
۵- یہ جماعت سرحد تک کئی ہزار میل سفر کرکے جب کہ ریل‘ ہوائی جہاز ‘ موٹریں نہ تھیں ،ہرقسم کی تکالیف جھیلتی ہوئی ہزاروں جان فروشوں کو لئے ہوئے پہاڑوں‘ دشوار گذار دروں‘ ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے سندھ‘ قندھار‘ کابل‘ درہ خیبر صوبہ سرحد میں پہنچتی ہے، کیونکہ انگریزنے کسی دوسرے راستے سے جانے نہیں دیا تھا اور آزادی کی جد وجہد عملی طور پر شروع کرنی تھی۔
۶-یہ جماعت غریبوں کی ہے، اس کے پاس رسد وغیرہ کا پورا سامان نہیں ہے ،فاقوں پر آدھے پیٹ کھانے پر موٹے جھوٹے پرگزارہ کرتی ہے اور پھر بھی دشمن پر یلغار کرتی ہے۔
۷- اس جماعت کی پارٹیاں تقریباً ڈیڑھ ہزار میل سے مالی اور جانی امداد کرتی ہیں، راستہ میں انگریز پکڑتے ہیں ،سزائیں دیتے ہیں، مگر یہ نظام جاری ہے۔
۸- یہ جماعت انگریزوں کی طرف سے ہر قسم کی ہلاکتوں اور ایذاؤں کا نشانہ بنتی ہے اور تحمل کرتی ہے، مگر آزادی کی جد وجہد اور انگریز دشمن سے باز نہیں آتی، انگریز لالچ دیتا ہے قبول نہیں کرتی، انگریز ڈراتا ہے، مگر نہیں ڈرتی۔
۹- اس جماعت کو سرحدی قبائل نے انگریزی سازشوں میں آکر برباد کرنا چاہا، اس کے امام کو زہر دیا، میدان جنگ میں غدر کیا ،کئی مرتبہ متفق ہوکر اس جماعت کے منتشر لوگوں کو جہاں پایا قتل اور شہید کیا، دشمنوں سے مل گئے مگر یہ سخت جان جماعت آزادی کی متوالی آج تک اپنی جگہ پر پہاڑ کی طرح جمی ہوئی ہے۔
۱۰- انگریزوں نے بار بار اس پر چڑھائی کی اور اس کے گھر بار کو بزعم خود جلا کر اور فنا کرکے چلے آئے پھر بھی وہ باقی ہے اور لڑائیوں میں وہ پچاس ہزار ساٹھ ہزار، حتی کہ لاکھ تک مردان میدان کو انگریزوں کے خلاف افغانیوں کی مدد میں پیش کردیتی ہے ۔
۱۱-اس حال پر ایک صدی سے زیادہ اس پر گزرتا ہے، ہندوستان کے آزاد ہونے تک یہ اسی طرح جمی رہتی۔ (نقش حیات ص:۶۴۴ مصنف مولانا سید حسین احمد مدنی)

اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: یہودی مدارس میں عسکریت کی تعلیم!اورانتہا پسند یہودیوں کا مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب
Flag Counter