Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ

ہ رسالہ

6 - 12
ایک بے سند” حدیث قدسی“ کی تحقیق
نوادر الاصول للحکیم الترمذی‘ المتوفی: فی حدود سنة ۲۹۰ھ ص:۱۶۱‘۴۳۳ ‘طبع: المکتبة العلمیة بالمدینة المنورة لمحمد النمنکانی ۱۲۹۳ھ۔ ۲- المرقاة‘ شرح المشکوٰة‘ للعلامة علی القاری‘ المتوفی: ۱۰۱۴ھ‘ ۸/۶۲‘ باب اسماء اللہ تعالی‘ و۸/۲۰۰ باب الاستغفار۔
۳- تفسیرروح البیان‘ لإسماعیل حقی بن مصطفی الصوفی الحنفی‘ المتوفی سنة: ۱۱۲۷ھ ۶/۶۸‘۲۱۔
۴- الانصاف للقاضی محمد بن الطیب الباقلانی‘ المتوفی: ۴۰۳ھ ۱/۶۳۔
متخصص فی الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی (۵)
۵- حاشیة الصاوی‘ احمد بن محمد‘ المتوفی: ۱۲۴۱ھ علی شرح الجامع الصغیر ۱۱/۳۲۵۔
۶- شرح النیل وشفاء العلیل فی الہبة والوصایات (فقہ الإباضیة) تألیف: محمد بن یوسف اطفیش المعزی‘ المتوفی: ۱۳۳۲ھ ۳۴/۱۵۸۔
۷- احیاء العلوم للغزالی‘ المتوفی سنة: ۵۰۵ھ ۳/۴۳۷۔
۸- ایقاظ الہمم شرح متن الحکم‘ تألیف: الصوفی احمد بن محمد ابن عجیبة الفاسی‘ المتوفی فی حدود: ۱۲۶۶ھ ۱/۳۹۔
۹- قوت القلوب فی التصوف لابی طالب محمد العجمی المکی‘ المتوفی سنة: ۳۸۶ھ ۱/۳۸۴۔
۱۰- فتاویٰ السبکی‘ رقم الفتوی: ۳۱۷۱۔
نوٹ کتابوں کی یہ طبعات مکتبة الشاملة سی ڈی (CD) کے موافق ہیں)۔
”نوادر الاصول“ میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
”قال اللّٰہ لداود علیہ السلام : ترید وارید ،ویکون ما ارید‘ فإن أردت ما أرید، کفیتک ما ترید ،ویکون ما أرید ،وإن أردت غیر ما أرید عنیتک فیما ترید ویکون ما أرید“۔ (نوادر الأصول الأصل (۱۵۰) إن سعادة ابن آدم الاستخارة والرضی بالقضاء ص:۱۶۱ وکذا فی الأصل ۲۸۹ فی تمثیل الحرص)
واضح رہے کہ مذکورہ جتنی کتب میں یہ حدیث درج ہے‘ ان میں سے کسی میں بھی اس حدیث کی سند درج نہیں ہے۔ ملاعلی قاری متوفی: ۱۰۱۴ھ نے ایک جگہ مرقات میں یہ لکھا ہے:
”وفی بعض الکتب:عبدی“ (المرقات ۸/۶۲ باب أسماء اللہ تعالیٰ) اور ایک جگہ یہ لکھ کر ذکر کیا ہے: ”وروی فی الحدیث القدسی“ (المرقات ۸/۲۰۰‘ باب الاستغفار)تفسیر حقی میں ”وجاء فی بعض الآثار: إن اللہ تعالیٰ یقول:ابن آدم“ کے بعد مذکور ہے (تفسیر حقی ۶/۶۸‘ ۲۱)
اور ”الانصاف للباقلانی ۱/۶۳ میں ”وقیل أوحی اللہ إلی بعض الأنبیاء“ کے ساتھ ذکر ہے․
حاشیہ الصاوی ‘شرح النیل اوراحیاء العلوم میں ”ویروی أن اللہ تعالیٰ أوحی إلی داود“ کے ساتھ مذکور ہے۔ شارح إحیاء العلوم علامہ زبیدی ‘متوفی: ۱۲۰۵ھ نے اس کی شرح میں صرف اس جملے پر اکتفاء کیا ہے: ”نقلہ صاحب القوت“ (اتحاف السادة للمتقین ۹/۲۵۳‘ طبع المطبعة المیمنیة) اور ”قوت القلوب“ میں ”کما روی فی أخبار موسی علیہ السلام“ کے ساتھ مذکور ہے۔ تمام جگہوں پر صیغہ تمریض کے ساتھ مذکور ہونا بھی عدم صحت کی دلیل ہے ۔
مذکورہ کتابوں کے حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس حدیث قدسی کی کوئی اصل وسند نہیں‘ لہذا جب تک اس حدیث قدسی کی مقبول سند کا علم نہیں ہوجاتا‘ ضروری ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے‘ تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر افتراء وکذب بیانی نہ ہو‘ آپ ﷺ نے جس شدت کے ساتھ حدیثی کذب بیانی سے روکا ہے کسی اور چیز سے اس قدر شدت کے ساتھ نہیں روکا ‘ متواتر حدیث میں سب سے بلند پایہ روایت میں ہے:
”من کذب علیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۷)
ترجمہ:․․․”جو مجھ پر جھوٹ گھڑے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے“۔
محولہ بالا کتب میں سے مؤخر الذکر (فتاویٰ السبکی رقم الفتوی: ۳۱۷۱ تاریخ الفتوی: ۶/ربیع الاول ۱۴۲۷ھ) میں اس حدیث قدسی کے بارے میں درج ہے:
”السوال: ماصحة قول اللہ: یا عبدی انت ترید وأنا أرید‘ ولایکون إلا ما أرید‘ فإن سلمتنی فی ما أرید کفیتک فی ما ترید؟
الجواب: لم نقف علی ہذا الأثر مسنداً‘ ولکن ذکرہ الغزالی فی ”الاحیاء“ بصیغة التمریض‘ فقال: ویروی: أن اللہ․․․ وکذا ذکرہ الحکیم الترمذی فی نوادر الأصول“۔
یہ حدیث قدسی جن کتابوں میں ہے‘ ان میں سب سے قدیم تالیف ”نوادر الأصول“ ہے‘ بعد کی کتابوں میں یہ حدیث شاید اسی کتاب کے حوالہ سے آئی ہے‘ ”نوادر الاصول“ حکیم ترمذی کی تالیف ہے‘ حکیم ترمذی کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ لگ جاتا ہوگا کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذی ہے‘ جن کی کتاب ”الجامع السنن“ پڑھی پڑھائی جاتی ہے‘ لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں‘ مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے‘ اور حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے ،ان کا انتقال سن: ۲۸۵ھ اور ۲۹۰ھ کے درمیان ہوا ہے۔ملاحظہ ہو:لسان المیزان ۷/۳۸۷ تعلیق شیخ عبد الفتاح أبوغدہ۔
حکیم ترمذی تیسری صدی کے مشہور محدث ہیں‘ اسی وجہ سے علامہ ذہبی نے ”تذکرة الحفاظ“ ۲/۶۴۵ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ تاہم ان کی تصانیف میں غیر معتبر اور بے اصل روایات نے جگہ پکڑ لی ہیں‘ اسی وجہ سے قاضی کمال الدین ابن العدیم المتوفی: ۶۶۰ھ مصنف ”بغیة الطلب فی تاریخ حلب“ اپنی کتاب ”الکمحة فی الرد علی ابی طلحة“ میں لکھتے ہیں:
”وہذا الحکیم الترمذی لم یکن من أہل الحدیث‘ وروایتہ‘ ولا علم لہ بطرقہ ولاصناعتہ‘ وانما کان فیہ الکلام علی اشارات الصوفیة والطرائق ودعوی الکشف عن الامور الغامضة والحقائق‘ حتی خرج فی ذلک عن قاعدة الفقہاء‘ واستحق الطعن علیہ بذلک والإزراء‘ وطعن علیہ أئمة الفقہاء والصوفیة‘ وأخرجوہ بذلک عن السیرة المرضیة‘ وقالوا: إنہ أدخل فی علم الشریعة ما فارق بہ الجماعة‘ وملأ کتبہ الفظیعة بالأحادیث الموضوعة‘ وحشاہا بالأخبار التی لیست بمرویة ولامسموعة‘ وعلَّل فیہا جمیع الأمور الشرعیة التی لایُعقَل معناہا بعللٍ ما أضعفہا وما أوہاہا“۔
(لسان المیزان ۷/۳۸۸ تحقیق عبد الفتاح أبوغدہ‘ طبع دار البشائر الإسلامیہ بیروت ۱۴۲۴ھ)ُ
علامہ ابن حجر عسقلانی‘ المتوفی: ۸۵۲ھ نے ابن العدیم کی مذکورہ بالا جرح نقل کر نے کے بعد اس کو مبالغہ آمیز بتلایا ہے‘ لیکن چونکہ ابن العدیم کی رائے ایک جماعت کی رائے سے مؤید ہے‘ لہذا اس کو ذکرکئے بغیر نہ رہے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:
”قلت: ولعمری لقد بالغ ابن العدیم فی ذلک‘ ولولا ان کلامہ یتضمَّن النقل عن الائمة انہم طعنوا فیہ‘ لما ذکرتہ“۔ (لسان المیزان ۷/۳۸۸)
حکیم ترمذی کے مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو: أعلا النبلاء ۱۳/۴۳۹‘ تذکرة الحفاظ ۲/۶۴۵‘ طبقات الشافعیة الکبریٰ ۲/۲۴۵‘ المعرفة عند الحکیم‘ الترمذی‘ تألیف عبد المحسن الحسینی طبع: دار الکتاب العربی بالقاہرة اور الحکیم الترمذی ونظریتہ فی السلوک‘ تألیف الدکتور أحمد عبد الرحیم السایح‘ طبع: مکتبة الثقافة الدینیة القاہرة ۱۴۲۷ھ۔

 
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیازات
Flag Counter