Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

8 - 9
جدیدنسل کی بےچینی اور ذہنی کرب کے اسباب
جدید نسل کی بے چینی اورذہنی کرب کے اسباب


علم‘ دین کا ہو یا دنیا کے کسی شعبے کا‘ وہ بہرحال انسانیت کے لئے تمغہٴ فضیلت اور طرہٴ امتیاز ہے اور تعلیم کا مقصد فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراثِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے‘ موضوع کے لحاظ سے علم کی دو قسمیں قرار پاتی ہیں:۱:․․․ دینی علوم اور ۲:․․․․ دنیاوی علوم ۔ دینی علوم کے اصل ثمرات وبرکات تو آخرت ہی میں ظاہر ہوں گے‘تاہم جب تک دنیا میں اسلام کی عزت ورفعت کا دور دورہ رہا‘ دنیا میں بھی اس کی منفعتیں ظاہر ہوتی تھیں‘ علمائے دین‘ قاضی‘ قاضی القضاة‘ مفتی اور شیخ الاسلام کی حیثیت سے محاکمِ عدلیہ اور محاکمِ احتساب کے مناصب پر فائز ہوتے تھے‘ ملک وملت کے لئے ان کا وجود سایہٴ رحمت سے کم نہیں تھا‘ ان کی خدا ترسی‘ حق پسندی اور عدل پروری کی بدولت معاشرہ میں امن وعافیت کی فضا قائم تھی اور اسلام کے عادلانہ احکام کا نفاذ بہت سے معاشرتی امراض سے حفاظت کا ضامن تھا۔ الغرض دینی مناصب کے لئے علمائے دین ہی کا انتخاب وتقرر ہوتا تھا اور آج بھی جن ممالک میں اسلامی نظام کسی حد تک رائج ہے‘ اس کے کچھ نمونے موجود ہیں اور دنیوی علوم جن کا تعلق براہِ راست دنیا کے نظام سے تھا‘ مثلاً فلسفہ‘ منطق‘ تاریخ‘ جغرافیہ ریاضی‘ ہیئت‘ حساب‘ طب وجراحت وغیرہ ان کے لئے تو حکومتی مناصب بیشمار تھے۔ علوم کی یہ تقسیم کہ کچھ علوم دینی ہیں اور کچھ دنیاوی‘ محض موضوع کے لحاظ سے ہے‘ مگر اس کے معنی دین ودنیا کی تفریق کے ہرگز نہیں‘ چنانچہ دنیوی علوم اگر بے ہودہ اور لایعنی نہ ہوں اور انہیں خدمتِ خلق‘ اصلاحِ معاش اور تدبیر سلطنت کی نیت سے حاصل کیا جائے تو وہ بھی بالواسطہ رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے اور اس کے برعکس جب دینی علوم کی تحصیل کا مقصد محض دنیا کمانا ہو تو یہ علوم بھی بالواسطہ دنیا کے علوم کی صف میں آجاتے ہیں اور اس کے لئے احادیثِ نبویہ میں سخت سے سخت وعیدیں بھی آئی ہیں‘ مثلاً ایک حدیث میں ہے:
”من تعلم علماً مما یبتغیٰ بہ وجہ اللہ لایتعلمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة‘ یعنی ریحہا“۔ (مشکوٰة شریف:۳۴)
ترجمہ:․․․”جس شخص نے وہ علم سیکھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے اور پھر اس کو متاعِ دنیا کا ذریعہ بنایا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا“۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”من طلب العلم لیجاری بہ العلماء او لیماری بہ السفہاء او یصرف بہ وجوہ الناس الیہ ادخلہ اللہ النار“۔ (مشکوٰة شریف:۳۴)
ترجمہ:․․․”جس شخص نے اس غرض سے علم حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم عقلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مائل کرے‘ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈالیں گے“۔
بہرحال ایک مقام ایسا بھی آتاہے کہ دینی علوم بھی دنیا کے علوم بن جاتے ہیں اور دنیوی علوم بھی رضائے الٰہی اور طلبِ آخرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے‘ گویا اصل مدار مقاصد ونیات پر ہے کہ اگر مقصد رضائے الٰہی ہے تو دنیوی علم بھی دین کے معاون ومددگار‘ اور صنعت وحرفت کے تمام شعبے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے وسائل بن جاتے ہیں۔ علوم خواہ قدیم ہوں یا جدید اور دینی ہوں یا دنیوی ان سب سے مقصد رضائے الٰہی کے مطابق ایک صالح معاشرہ کا قیام ہونا چاہئے اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتاہے کہ جو شخص جس شعبہٴ زندگی سے منسلک ہو‘ وہ اس شعبہ سے متعلق بقدر ضرورت دینی مسائل سے بھی واقف ہو‘ مسلمان تاجر ہو تو تجارت سے متعلقہ دینی مسائل کا عالم ہو‘ انجینئر ہو تو عالم ہو‘ طبیب اور ڈاکٹر ہو تو عالم ہو ‘ حضرت فاروق اعظم  کے عہد میں جوخلافتِ راشدہ کا تابناک دور ہے‘ ایک قانون یہ تھا:
”لایبع فی سوقنا ہذا من لم یتفقہ فی الدین“۔
ترجمہ:․․․”جو شخص فقیہ (دینی مسائل کا ماہر) نہ ہو اس کو ہمارے بازار میں خرید وفروخت کی اجازت نہیں“۔ گویا دنیا کمانے کے لئے بھی علمِ دین کی ضرورت ہے‘ تاکہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز ہو سکے اور خالص سود‘ سودی کاروبار اور غیر شرعی معاملات میں مبتلا نہ ہو۔ الغرض ایک دور ایسا تھا کہ ہرہنر وکمال کا مقصد آخرت اور رضائے الٰہی تھا اور اب ایک دور ایسا آگیا ہے کہ ہرچیز کا مقصد دنیا ہی دنیا بن کر رہ گیا‘ بلکہ اب تو اس میں بھی اس قدر تنزل رونما ہوا ہے کہ دنیا کی بھی تمام حیثیتیں ختم ہوکررہ گئیں‘ اب تو واحد مقصد صرف ”پیٹ“ رہ گیا ہے‘ دنیا کے ہرعلم وہنر اور فضل وکمال کا منتہائے مقصود بس یہ سمجھا جاتاہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ جہنم بھر جائے۔
جدید تعلیم اور اس کا مقصد
قدیم اصطلاح میں تو دینی علم ہی علم کہلانے کا مستحق تھا‘ دنیاوی علوم کو فنون یا ہنر سے تعبیر کیا جاتا تھا‘ مگر آج کی اصطلاح یہ ہوگئی ہے کہ قدیم علوم کے ماہر کو عالم کہا جاتاہے اور جدید علوم کے ماہرین کو ”تعلیم یافتہ“ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے‘ امریکہ اور یورپ وغیرہ کے جو ممالک جدید علوم کے امام ہیں‘ وہاں آج بھی کسی ”تعلیم یافتہ“ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی اسکول میں ٹیچر‘ کسی کالج میں پروفیسر یا سرکاری دفتر میں ملازم ہو‘ بلکہ وہاں تعلیم کا مقصد ہنر وکمال کی تحصیل سمجھا جاتاہے‘ تاکہ ہر شعبہٴ حیات میں ہنر وکمال کے مالک افراد موجود ہوں‘ ان ممالک میں ٹیکسی ڈرائیور اور بسوں کے کنڈیکٹر بھی گریجویٹ ہوتے ہیں‘ یہ کہیں بھی نہیں سمجھا جاتا کہ بی اے یا ایم اے ہونے کے بعد دکان پر بیٹھنا یا کارخانے میں جانا یا ڈرائیور بننا باعثِ توہین ہے‘ پھر نہ معلوم ہمارے ملک میں یہ کیوں ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ جو شخص تعلیم یافتہ یا گریجویٹ ہو‘ اس کے لئے سرکاری ملازمت لازم ہے۔ ورنہ اس کی حق تلفی اور اس کی ڈگری کی توہین متصور ہوگی۔ برطانوی دور میں اس جدید تعلیم کا مقصد بلاشبہ یہی سمجھایا گیا تھا کہ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تیار ہونے والے افراد سرکاری مشینری کے کل پرزے بنیں گے‘ کیونکہ اس اجنبی ملک میں حکومت کی انتظامی ضرورت پوری کرنے کے لئے ان کو ایک ایسی نسل کی ضرورت تھی جس سے ان کی حکومت کا کاروبار چل سکے‘ وہ انگلستان سے اتنے انگریز یہاں نہیں لاسکتے تھے کہ اتنے بڑے برّکوچک کا تمام کام سنبھال سکیں‘ انہیں دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی حکمرانی کرنی تھی‘ کلیدی مناصب تو ضرور وہ اپنوں ہی کو دیا کرتے تھے یا پھر ان کو جو سو فیصد ان کے حاشیہ بردار بن جائیں‘ مگر نیچے درجہ کے لئے انہیں یہیں سے آدمی مہیا کرنے تھے‘ علاوہ ازیں اس جدید تعلیم سے انگریز کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی لوگ انگریزی تہذیب وتمدن کے اتنے دلداہ ہوجائیں کہ ظاہر وباطن میں انگریز ہی انگریز نظر آئیں اور لارڈ میکالے کی پیش گوئی پوری ہوجائے ۔ الغرض یہ ذہنیت انگریزی دور کی پیداوار ہے کہ تعلیم حاصل کرنا صرف ملازمت کے لئے ہے‘ ظاہر ہے کہ تعلیم کی رفتار میں ہرسال تیزی سے اضافہ ہورہاہے اور سرکاری مناصب اور ملازمتیں محدود ہیں‘ تعلیمی تناسب سے ان میں اضافے کا امکان نہیں‘ نہ یہ ممکن ہے کہ تمام تعلیم یافتہ افراد کو سرکاری ملازمتوں میں کھپایا جاسکے اور یہ تو طلبہ کا مسئلہ تھا‘ اس پر مستزاد یہ کہ طالبات بھی اب تعلیم کے میدان میں اسی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہیں اور وہ بھی ملازمت کی خواہاں ہیں‘ جب نئی نسل کو مستقبل تاریک نظر آتاہے تو ان میں بے چینی پھیلتی ہے اور اس کا نتیجہ اس عبرت ناک منظر کی صورت میں ظاہر ہوتاہے جو گذشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی میں تقسیم اسناد کے موقعہ پر دیکھنے میں آیا کہ گورنر تک کے لئے آبرو بچانا مشکل ہوگیا‘ یہ ہیں جدید تعلیم کی برکات اور یہ ہیں جدید تعلیم یافتہ حضرات ”ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار“ یہ صورتِ حال تمام اہلِ دانش اور اربابِ اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے‘ اگر جدید نسل کے اس ذہنی کرب کا صحیح حل تلاش نہ کیا گیا تو اس کے نتائج اس سے زیادہ ہولناک ہوں گے۔
جدید نسل کی بے چینی اور ذہنی کرب کے اسباب
ہمارے نزدیک کرب وبے چینی کے متعدد اسباب ہیں‘ سب سے اہم تو یہ ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں دینی ماحول‘ دینی تربیت اور دینی ذہن وفکر کی ضرورت کو کبھی محسوس نہیں کیا گیا‘ بلکہ اس کے برعکس نئی نسل کو دین سے بیزار کرنے کے تمام اسباب وسائل مہیا کئے گئے‘ دین کو ”ملائیت“ کا نام دے کر نوخیز ذہنوں کو اس سے نفرت دلائی گئی‘ علمائے دین کے لئے طرح طرح کے القاب تجویز کرکے انہیں ”تعلیم یافتہ“ طبقہ کی نظر میں گرانے کی ہرممکن کوشش کی گئی ‘ ذرائع نشر واشاعت کو تمام حدود وقیود سے آزاد کرکے انہیں بددینی کا مبلغ بنادیا گیا‘ اس پر مستزاد یہ کہ لادینی نظریات کا پر چار کرنے کے لئے مستقل ادارے قائم ہوئے اور سرکاری طور پر ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کی گئی‘ اب خود سوچئے کہ جس نو خیز نسل کے سامنے گھر کا پورا ماحول بے دین ہو‘ تعلیم گاہوں میں دینی ماحول کا فقدان ہو‘ گلی کوچوں سڑکوں اور بازاروں سے بے دینی کا غلیظ اور مسموم دھواں اٹھ رہا ہو‘ زندگی کے ایک ایک شعبہ سے دین کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیا گیا ہو‘ والدین سے اساتذہ تک اور صدر سے چپراسی تک نئی نسل کے سامنے دینداری‘ خداترسی اور خوف آخرت کا کوئی نمونہ سرے سے موجود نہ ہو اور جس ملک میں قدم قدم پر فواحش ومنکرات ‘ بے حیائی وبداخلاقی اور درندگی وشیطنت کا سامان موجود ہو کیا آپ وہاں کی نئی نسل سے دینداری شرافت اور انسانی قدروں کے احترام کی توقع کرسکتے ہیں؟ جس نسل کا خمیر تخریب سے اٹھایا گیا ہو کیا وہ کوئی تعمیری کارنامہ انجام دے سکتی ہے؟ جو خود معاشرہ کے عمومی بگاڑ کی پیداوار ہو‘کیا وہ کسی درجہ میں بھی معاشرہ کی اصلاح کے لئے مفید اور کار آمد ہو سکتا ہے؟ تم لاکھ تعلیمی ترقی اور اعلیٰ تہذیب کے ڈھنڈورے پیٹو‘ لیکن خوب یاد رکھو‘ تعلیم کا ماحول جب تک دینی نہیں ہوگا‘ نئی نسل کے سامنے والدین‘ اساتذہ اور اہم شخصیتوں کی شکل میں اخلاق وانسانیت اور دینداری وخدا خوفی کے اعلیٰ نمونے جب تک موجود نہیں ہوں گے‘ تعلیم میں جب تک دینی تربیت مطمح نظر نہیں ہوگی اور جب تک اخلاق واعمال ‘ جذبات وعواطف اور رجحانات ومیلانات کی اصلاح نہیں ہوگی‘ تب تک یہ مصیبت روز افزوں ہوتی جائے گی‘ تعلیم سے جب اسلامی روح نکل جائے‘ اخلاق تباہ ہوجائیں‘ انسانی قدریں پامال ہوجائیں اور مقصد زندگی صرف حیوانیت اور شکم پروری رہ جائے تو اس تعلیم کے یہ دردناک نتائج ظاہر نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟ صدحیف! کہ آج انسانیت کی پوری مشین ”پیٹ“ کے گرد گھومنے لگی ہے‘ آج کی تمام تعلیم‘ تمام تربیت اور تمام تہذیب کا خلاصہ یہ ہے کہ حیوانی زندگی کے تقاضے کیسے پورے کئے جائیں‘ دین جاتاہے تو جائے‘ اخلاق مٹتے ہیں تو مٹیں‘ انسانیت پامال ہوتی ہے تو ہومگر ہمارے حیوانی تقاضے اور نفسانی خواہشات بہرحال پوری ہونی چاہئیں‘ نہ دین سے تعلق ‘ نہ اخلاق سے واسطہ‘ نہ انسانیت کا شعور‘ نہ افکار صحیح‘ نہ خیالات درست‘ نہ خدا کا خوف ‘ نہ آخرت کی فکر‘ نہ مخلوق سے حیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون․
جدید تعلیم اور اس کے چند مہلک ثمرات
اسی جدید تعلیم اور اس کے لادینی نظام نے لسانی عصبیت اور صوبہ پرستی کی لعنت کو جنم دیا‘ جس کی وجہ سے مشرقی بازوکٹ گیا اور اب کراچی اور سندھ میں بھی شب وروز اس کے دردناک مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں‘ نہ معلوم اس بدنصیب قوم کا انجام کیا ہوگا‘ انسانی اقدار اور احترامِ انسانیت کا شعور پیدا کرنے کے لئے دین ومذہب کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ ہم بارہا ان صفحات میں صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ آخرت کی نجات اور دنیا کی سعادت صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی ہدایات واحکامات میں مضمر ہے‘ اس کے سوا خسارہ ہی خسارہ ہے‘ تعلیم کا مقصد روح کی بالیدگی‘ نفس کی پاکیزگی‘ سیرت وکردار کی بلندی اور ظاہر وباطن کی طہارت ونظافت ہونا چاہئے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ اس تعلیمی قالب میں دینی روح بطور مقصد جلوہ گرہو اور جب تم اپنے وسائل کی پوری قوت سے دین کو ختم کررہے ہو اور دین کا مضحکہ اڑا کر اسے رسوا کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہو تو اس کے بدترین نتائج کے لئے بھی تیار ہو:
”خرمانتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم“
نئی نسل کے اضطراب کا بڑا اور اہم سبب
نئی نسل کے کرب واضطراب کا ایک بڑا سبب صنفِ نازک کے بارے میں غلط روی پر مسلسل اصرار ہے‘ اسلام نے عورت کو عزت واحترام کا جو مقام بخشا ہے‘ وہ نہ کسی قدیم تہذیب میں اسے حاصل ہوا تھا‘ نہ جدید ترقی یافتہ تہذیب کو اس کی ہوالگی ہے۔ اسلام نے اس کے تمام حقوق دلوائے‘ اسے ماں‘ بہن اور بیٹی کے نہایت قابلِ احترام القاب سے سرفراز کیا‘ مرد وعورت کے درمیان نہایت مقدس ازدواجی رشتہ قائم کرکے دونوں کی زندگی کو سراپا امن وسکون بنانے کی ضمانت دی‘ عورت کے تمام حقوق ونفقات کا بوجھ مرد کے ذمہ ڈالا‘ اس کو گھر کی ملکہ بناکر گھر کا سارا نظم ونسق اس کے سپرد کیا‘ اولاد کے بہترین اتالیق کی حیثیت سے اسے پیش کیا‘ مرد وزن کے الگ الگ دائرہ کار کی حد بندی کی‘ دونوں کے لئے ایسے عادلانہ احکام وضع فرمائے کہ یہ رشتہ نفسیاتی طور پر محبت وخلوص کا مجسمہ بن جائے ‘ گھر کے انتظامی معاملات عورت کے سپرد کرکے مرد کو گھر کی فکر سے یکسو کردیا اور باہر کی تمام ضروریات کا بار مرد پر ڈال کرعورت کو فکرِ معاش سے آزاد کردیا‘ تاکہ دونوں جانب سے احسان مندی اور قدرشناسی کے جذبات پروان چڑھیں۔
ایک پُر فریب نعرہ ”آزادئ نسواں“
مگر جدید تہذیب نے ان تمام مصالح واسرار کو غارت کرکے ”آزادئ نسواں“ کا ایک پُر فریب نعرہ ایجاد کیا اور صنفِ نازک کو گھر کی سلطنت سے باہر نکال کر گلی کوچوں میں رسوا کیا اور زندگی کی پرخاروادیوں میں اسے مردوں کے دوش بدوش چلنے پر مجبور کیا‘ جو فرائض مردوں کے ذمہ تھے‘ ان کا بوجھ بھی عورتوں پر ڈالا‘ اس کے بعد ”تعلیم نسواں“ کے فسونِ ساحری نے عورت کو جدید تعلیم اور جدید تہذیب کے قالب میں ڈھالا اور اب عورتوں کے لئے اعلیٰ تعلیم ایک فیشن بن گیا‘ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اب ضرورت ہے کہ ملازمتوں میں انہیں بھی برابر کا حصہ دیا جائے‘ پہلے مردوں کے لئے ملازمت کی جگہ کا سوال تھا‘ اب عورتوں کے لئے ملازمت کا اس پر مزید اضافہ ہوگیا،ہمیں خوب معلوم ہے کہ جدید طبقہ کس ذہن سے سوچنے کا عادی ہو چکا ہے‘ اس لئے ہمیں توقع نہیں کہ اس گردابِ بلا میں پھنس جانے کے باوجود وہ کسی ناصح مشفق کی بات سننا گوارا کرے گا‘ تاہم ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ جدید تہذیب نے عورت سے بدترین مذاق کرکے شرفِ انسانیت کو بٹہ لگادیا ہے۔
پردہ عورت کا فطری حق ہے
پردہ عورت کا فطری حق ہے‘ عورت گھر میں ہو یا بازار میں‘ کالج میں ہو یا یونیورسٹی میں یا دفتر اور عدالت میں ہو‘ وہ اپنی فطرت کو تبدیل کرنے سے قاصر ہے۔ وہ جہاں ہو گی اس کے ضمیر کی خلش اور فطرت کی آواز اسے پردہ کرنے پر مجبور کرے گی‘ وہ بے دین قومیں جو عورت کی فطرت سے اندھی اور خالقِ فطرت کے احکام سے نا آشنا ہیں‘ وہ اگر عورت کی پردہ دری کے جرم کا ارتکاب کریں تو جائے تعجب نہیں‘ مگر ایک مسلمان جس کے سامنے خدا ورسول کے احکام اور اس کے اکابر کا شاندار ماضی موجود ہو‘ اس کا اپنی بہوو بیٹیوں کو پردے سے باہر لے آنا مردہ ضمیری کا قبیح ترین مظاہرہ ہے‘ عورت کی ساخت وپرداخت اس کی عادات واطوار اور اس کی گفتار ورفتار پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ وہ عورت (مستور) ہے‘ اسے ستر (پردہ) سے باہر لانا اس پر بدترین ظلم ہے۔ ستم ظریفی کی حد ہے کہ وہ عورت جو عصمت وتقدس کا نشان تھی اور جس کی عفت ونزاہت سے چاند شرماتا تھا‘ اسے پردہ سے باہر لاکر اس سے ناپاک نظروں کی تسکین اور نجس قلوب کی تفریح کا کام لیا گیا‘ جدید تہذیب میں عورت زینتِ خانہ نہیں‘ شمعِ محفل ہے‘ اس کی محبت وخلوص کی ہر ادا اپنے شوہر اور بال بچوں کے لئے وقف نہیں‘ بلکہ اس کی رعنائی وزیبائی وقف تماشائے عالم ہے‘ وہ تقدس کا نشان نہیں کہ اس کے احترام میں غیر محرم نظریں فوراً نیچے جھک جائیں‘ بلکہ وہ بازاروں کی رونق ہے‘ آج دو پیسے کی چیز بھی عورت کی تصویر کے بغیر فروخت نہیں ہوتی‘ اس سے زیادہ نسوانیت کی ہتک اور کیا ہوسکتی ہے؟ کیا اسلام نے عورت کو یہی مقام بخشا تھا؟ کیا جدید تہذیب نے عورت پر یہی احسان کیا؟ کیا یہی آزادئ نسواں ہے جس کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگائے جاتے تھے؟ اسلام کی نظر میں عورت ایک ایسا پھول ہے جو غیر محرم نظر کی گرم ہوا سے فوراً مرجھا جاتاہے‘ اسے پردہ سے باہر لانا اس کی فطرت کی توہین ہے۔ ادھر عورتیں پردے سے باہر آئیں‘ ادھر انہیں زندگی کی گاڑی میں جوت دیا گیا ‘ تجارت کریں تو عورتیں ‘ وکالت کریں تو عورتیں‘ صحافت کے شعبہ میں جائیں تو عورتیں‘ عدالت کی کرسی پر متمکن ہوں تو عورتیں‘ اسمبلی میں جائیں تو عورتیں‘ الغرض کاروباری زندگی کا وہ کون سا بوجھ تھا جو مظلوم عورت کے نازک کاندھوں پر نہیں ڈال دیا گیا‘ سوال یہ ہے کہ جب یہ تمام فرائض عورتوں کے ذمہ آئے تو مرد کس مرض کی دوا ہیں؟ اسلام نے نان ونفقہ کی تمام ذمہ داری مرد پر ڈالی تھی‘ لیکن بزدل مغرب نے ”مردوں کے دوش بدوش چلنے“ کا جھانسہ دے کر یہ سارا بوجھ اٹھا کر عورت کے سر پر رکھ دیا‘ جدید تہذیب کے نقیبوں سے کوئی پوچھنے والانہیں کہ یہ عورت پر احسان ہوا یا بدترین ظلم؟ عورت گھر کے فرائض بھی انجام دے‘ بال بچوں کی پرورش کا ذمہ بھی لے‘ مرد کی خدمت بھی بجا لائے اور اسی کے ساتھ کسبِ معاش کی چکی میں بھی پسا کرے؟ ظاہر ہے کہ عورت کے فطری قویٰ اتنے بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر کا کاروبار نوکروں کے سپرد کرنا پڑا‘ بچوں کی تربیت وپرداخت ماماؤں کے حوالے کی گئی‘روٹی ہوٹل سے منگوائی گئی‘ گھر کا سارا نظام توابتر ہوا ہی‘ باہر کے فرائض پھر بھی عورت یکسوئی سے ادا نہ کر پائی‘ نہ وہ کرسکتی ہے،پھر مرد وزن کے اختلاط اور آلودہ نظروں کی آوارگی نے معاشرہ میں جو طوفان برپا کیا‘ اس کے بیان سے زبانِ قلم کو حیا آتی ہے‘ یہ ہے آزادئ نسواں اور تعلیم ِ نسواں کا پُر فریب افسوس‘ جس نے انسانیت کو تہ وبالا اور معاشرے کو کرب واضطراب میں مبتلا کردیا۔
اسلام کی نظر میں جائز پیشے ذلت کے موجب نہیں
اس کرب وہیجان کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ عام طور سے صنعت وحرفت اور دستکاری سے عار نوجوانوں کے مزاج میں داخل ہوگیا‘ گویا جب تک کوئی اچھی ملازمت یا کوئی بڑے پیمانے کا کاروبار نہ میسر ہو‘ اس وقت تک کسی کام کا شروع کرنا ”بابوانہ“ شان کے خلاف سمجھا گیا اور یہ بے جا تکبر بیروزگاری‘ زبوں حالی اور ذہنی انتشار پر منتج ہوا‘ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ حلال پیشے کو حقیر سمجھنا نہایت پست ذہنی کی علامت ہے‘ اسلامی نقطہٴ نظر سے کوئی جائز اور حلال پیشہ تحقیر وتذلیل کا مستحق نہیں‘ حدیث میں ہے:
”ما اکل احد طعاماً قط خیراً من ان یأکل من عمل یدیہ‘ وان نبیّ اللہ داؤد علیہ السلام کان یأکل من عمل یدیہ“۔ (بخاری‘بحوالہ مشکوٰة‘ص:۲۴۱)
ترجمہ:․․․”کسی شخص نے کبھی کوئی کھانا نہیں کھایا جو اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام (باوجود عظیم سلطنت کے) اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے“۔
ایک اور حدیث میں آتاہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نجار (بڑھئ) تھے‘ الغرض ایک طرف تو حرفت ودستکاری کو حقیر جانا گیا اور دوسری طرف کسی صحیح منصوبہ بندی کے ذریعہ نوجوانوں کے لئے روزگار مہیا کرنے کی نئی صورتوں پر توجہ نہیں دی گئی‘ نتیجةً بیکاری وبیروزگاری کا سیلاب امڈ آیا اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مسئلہ پورے معاشرے کے لئے وبال بن گیا۔
تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کے مسائل کا حل
اگر ہم اس مکروہ اور تکلیف دہ صورتِ حال سے نجات حاصل کرنا ٰچاہتے ہیں تو اس کے لئے:
اولاً: اوپر سے نیچے تک پورے معاشرے کی اور بالخصوص نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا ہوگا‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں خالص دینی ماحول بنایاجائے‘ امتِ مسلمہ کا رشتہ مسجد سے قائم کیا جائے اور انہیں تبلیغی مراکز میں جوڑا جائے۔
ثانیاً: غیر اسلامی نظریات کی تلقین وتبلیغ کا سلسلہ یک لخت بند کرنا ہوگا‘ جس قوم کے پاس محمد ا کا لایا ہوا پیغامِ حیات موجود ہو اور وہ اس کے مسائل کو حل نہ کر سکے تو خدا اس قوم کے کسی مسئلہ کو کبھی حل نہ کرے۔ ہمارے اربابِ اقتدار واختیار کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ محمد ا کے دامن کو چھوڑ کر لینن وماؤ سے راہنمائی حاصل کرنے کا نتیجہ ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا:
”ضربت علیہم الذلة والمسکنة وباء وا بغضب من اللہ“۔
ثالثاً: خواتین کی بے پردگی‘ عریانی اور سرِ بازار رسوائی کا انسداد کرنا ہوگا‘ عورتوں کی بقدرِ ضرورت تعلیم پردہ میں ہو اور باہر کی تمام ذمہ داریوں سے انہیں سبکدوش کیا جائے اور اگر کوئی ایسی صورت ہو کہ کسی خاتون کا کوئی معاشی کفیل نہیں تو اول تو قوم اور قومی خزانہ کا فرض ہے کہ ان کی معاشی کفالت اپنے ذمہ لے اور اگر قوم کی بے حسی اور حکام کی غفلت اس سے مانع ہو تو ان کے لئے باپردہ گھر یلو صنعتوں کا انتظام کیا جائے‘ جس سے وہ اپنی معاش حاصل کرسکیں۔ الغرض معاشی بوجھ صرف مردوں کو اٹھانا چاہئے اور اگر شاذو نادر یہ ذمہ داری عورتوں پر آئے تو ان کے لئے باپردہ انتظام کیا جائے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر صرف عورتوں کا مسئلہ حل ہوجائے تو آدھا انتشار اسی وقت ختم ہوجائے گا۔
رابعاً: اس ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا کہ تعلیم صرف ملازمت کے لئے ہے اور یہ کہ فلاں پیشہ حقیر ہے‘ بلکہ صحیح منصوبہ بندی کے ذریعہ نئی نسل کی افرادی قوت کو مفید کاموں میں لگانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ صحیح فہم نصیب فرمائے۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: اصلی اسلامی زندگی اور اس کا مثالی نمونہ
Flag Counter