Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

6 - 9
اسلامی قانون سازی میں ا حوال واقعی کی رعایت
اسلامی قانون سازی میں احوال واقعی کی رعایت


تعارف موضوع
معاشرے میں تبدیلی واقع ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ تبدیلیاں کبھی معمولی اور جزئی ہوتی ہیں اور کبھی غیر معمولی اور ہمہ گیر‘ اسلام کے مکمل دین ہونے سے مراد یہ ہے کہ تغیر وتبدل کی جو صورت بھی ہو اور جس زمانے میں بھی ہو‘ اسلام ان سب حالات میں صحیح صحیح رہنمائی کرتا ہے‘ اسلام زمانے کی رفتار کو رد نہیں کرتا‘ بلکہ اس کا منشایہ ہے کہ ہر زمانے میں اصلاح وتجدید سے کام لے کر زندگی کی نہج کودرست کردیا جائے۔(۱)
مسلمانوں کے زوال سے نیا دور وجود میں آیاہے اور اس سے ایمان واعتقاد کی بنیادیں متزلزل ہوگئی ہیں‘ نیز معاشرہ کی تشکیلِ جدید نے مذہب اور زندگی کے ہرشعبہ میں بے شمار نئے مسائل پیدا کردیئے ہیں۔(۲)
اگر کسی معاشرے میں تبدیلی معمولی اور جزئی ہو تو اس کے لئے چند احکام ومسائل کے موقع محل میں تبدیلی پیدا کردینے سے کام چل جاتاہے‘ لیکن اگر تبدیلی ہمہ گیر ہو تو اس معاشرے کو صحیح اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لئے اجتہادی عمل بھی جامع‘ ہمہ گیر اور کلی نوعیت کا درکار ہوتا ہے۔ پہلے جو کام ایک گوشے میں ہوا کرتا تھا‘ اب اس کے لئے ایک وسیع دنیا وجود میں آگئی ہے‘ پہلے ایک فرد کی صلاحیت کافی ہوتی تھی‘ اب تقسیم کار (Division of Labour)کے بغیر چارہ کار نہیں ہے اور اسی طرح تجدیدِ دین کی بات اب معاشرے تک محدود نہیں رہی‘ بلکہ اس کا تعلق ایک ”دور“ سے ہوگیا ہے‘ ایسی حالت میں جب تک ہمہ گیر پروگرام نہ ہو‘ کسی ایک گوشے میں رہنمائی سے ملت کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں۔(۳)
#دعوة اکیڈمی فیصل مسجد اسلام آباد
معاشرے کا ارتقاء
ہم دیکھتے ہیں کہ جلب مصلحت اور دفع مضرت کی بہت سی نئی شکلیں نکل چکی ہیں۔ معاشی اسکیموں اور فلاحی شعبوں کا جال بچھ چکا ہے۔ صنعت وحرفت کی جدید پیمانہ پر تنظیم وتنصیب ہوئی ہے اور تجارت کے لئے انداز متشکل ہوچکے ہیں۔
ملکی ومعاشرتی قوانین میں اضافہ اور تبدیلی کی ضرورت
ہمارے ملکی ومعاشرتی قوانین میں سے بعض ایسے بھی قوانین ہیں جنہیں نئے قالب میں ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز موجودہ دور کے کئی قوانین ایسے ہیں جو اسلامی ذخیرہ قوانین میں شامل ہونے کے لائق ہیں اور بہت سے معاملات کے لئے نئے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مشکل ہے‘ کیونکہ اس کے لئے معمولی تغیر وتبدل سے کام نہیں چلے گا‘ بلکہ فروعی نظام میں ترمیم وتنسیخ اور اضافے کے ساتھ اس کو جدید انداز میں ڈھالنا ہے اور اصل نظام کی حفاظت کے ساتھ اس کو نئی ترتیب وتنظیم کا جامہ پہناناہے‘ ظاہر ہے کہ یہ کام مستقل اور جہدِ مسلسل کے بغیر انجام کو نہیں پہنچ سکتا۔ قرآن وسنت میک موجودہدایت کے بنیادی قواعد میں ان تمام احوال وظروف کو جگہ دی گئی ہے جو بعد میں ظہور پذیر ہونے والے تھے‘ چنانچہ نزولِ ہدایت کے وقت عرب کا معاشرہ سادہ تھا‘ عقلی موشگافی‘ تمدنی چکا چوند کو اس میں دخل نہ تھا‘ سادہ ذہن کے مطابق احکام شرعیہ نہایت سادگی کے ساتھ عرب معاشرے کے جسم وبدن پر پورے آگئے‘ لیکن بعد میں فتوحات کی کثرت سے کئی دیگر تمدن رکھنے والے ممالک اسلام کے زیرنگیں آئے‘ ان معاشروں کے عادات ومعاملات مختلف تھے‘ معاشی وسیاسی نظام میں تفاوت تھا۔ غرض مختلف معاشروں کے اختلاط سے ایک عجیب سی صورت پیدا ہوگئی اور ان کے ساتھ بھی معاملات سے نئی نئی ضرورتیں ابھریں اور بہت سے نئے مسائل حل طلب قرار پائے‘ جس طرح قرون وسطیٰ کے فقہاء اور ماہرینِ قانون نے تمدن کی ترقی کے تقاضوں کو محسوس کیا اور ابتدائی دور کے احکام کی سادگی کو تمدن کی چاشنی دے کر ان کے دامن کو متنوع اور وسیع کیا‘ اس طرح آج کے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی اور صحابہ کرام کے تعامل اور فقہاء کرام کے عملی وتحقیقی کارناموں سے مستفید ہوتے ہوئے اسلام کی عالمگیریت کو برقرار رکھنے میں ہم اپنا ضروری کردار ادا کریں۔
قرآن حکیم سے حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت
طریق نزول سے استدلال: قرآن حکیم یکبارگی نازل نہیں ہوا‘ بلکہ ۲۳ سال کی مدت میں حسبِ ضرورت ومصلحت جستہ جستہ اور بتدریج نازل ہوا‘ جیسے جیسے ضرورتیں پیش آتی رہیں اور جس قسم کے مصالح کی رعایت ناگزیر ہوئی‘ ان کی مناسبت سے احکامِ خداوندی کا نزول ہوتا رہا‘ اسی طریق نزول سے ایک طرف حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف زندگی اور قانون میں باہمی ربط کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے‘ اسی طریق نزول کی حکمت کی جانب حضرت عائشہ  کا یہ قول اشارہ کرتاہے:
”انما نزل اول ما نزل سورة الفصل فیہا ذکر الجنة والنار حتی اذا تاب الناس الی الاسلام نزل الحلال والحرام‘ ولو نزل اول ما نزل لاتشربوا الخمر لقالوا: لاندع الخمر ابداً ولو نزل لاتزنوا‘ لقالوا لاندع الزنا ابداً“۔ (۴)
”یعنی پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے جب لوگ اسلام میں پختہ ہوگئے تو حلال وحرام کے احکام نازل ہوئے‘ اگر ابتداء حکم نازل ہوتاکہ شراب مت پیئو تو لوگ کہتے کہ ہم شراب کبھی نہیں چھوڑیں گے اور اگر حکم نازل ہوتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم زنا نہیں چھوڑیں گے“۔
”قرآن حکیم میں بیان کردہ اصول نسخ (ما ننسخ من آیة․․․․) کے ذریعے احکام کے موقع ومحل کے تعین کی اجازت دی گئی ہے‘ جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ معاشرہ شریعت سازی کی بنیاد ہے اور احوال ومصالح عمارت تعمیر کرنے کا سامان ہیں“۔(۵)
موقع ومحل کی تعیین ہی سے قانون وزندگی کا رشتہ باقی ہے
انفرادی واجتماعی زندگی کے حالات مختلف ہوتے ہیں‘ ان کے لحاظ سے احکام شرعیہ کے موقع ومحل کے تعیین کی ہروقت ضرورت رہتی ہے‘ اگر اس ضرورت کو ملحوظ رکھ کر تعیین نہ کی جاتی رہی تو اکثر حالات میں بیشتر احکام ناممکن العمل قرار پائیں گے یا ان کا کوئی محل باقی نہیں رہے گا اور بالآخر قانون وزندگی کا رشتہ منقطع ہو جائے گا۔ (۶)
احکام کے اندازِ بیان سے استدلال
قرآنِ پاک نے احکام کے بیان کے لئے جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے‘ اس سے بھی حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت ملتاہے‘ مثلاً :بعض احکام میں صرف مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور ان کی شکل وصورت متعین نہیں کی گئی اور بعض میں صرف احکام کے اطراف واکناف بیان کردیئے گئے ہیں اور اس طرح بعض دوسرے احکام میں مختصر سی اصولی وعمومی گفتگو یا اشارات دیئے گئے ہیں اور جزئیات کی تشریح نہیں ہے اور بعض جگہ جزئیات کی تشریح کے باوجود موقع ومحل کی تعیین کی اجازت دی گئی ہے‘ لہذا فقہاء نے اسی صورتحال کو دیکھ کر کہا ہے:
”ان اللہ انزل من الاحکام ما یصلح لکل زمان ومکان فمنہا ما نص علیہ نصا صریحا ومنہا قواعد عامة یمکن تطبیقہا حسب ظروف الناس واحوالہم“۔ (۷)
”یعنی اللہ نے ہر زمان ومکان کے مصالح کے مطابق احکام نازل فرمائے‘ بعض وہ ہیں جن کے متعلق واضح نص ذکر کردی اور اصول قوائد بیان کردیئے جن کی تطبیق لوگوں کے مقتضائے حال کے مناسب کی جاتی رہے گی“۔
اندازِ بیان سے احکام میں حالات وزمانہ کی رعایت کی چند مثالیں:
۱-مالیات کی تنظیم وتقسیم
قرآن مجید نے اس کی کوئی خاص شکل وصورت متعین نہیں کی‘ صرف مقصد پر زور دیا ہے کہ اللہ کی مخلوق کو رزق حلال میسر ہو اور بدلے ہوئے حالات اور زمانہ کی رعایت کے موجب عدل وانصاف کے ساتھ اس کی حاجتیں پوری ہوتی رہیں۔خرچ کرنے کا ایک عمومی حکم فرمایا:
”وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ“۔ (الحدید:۷)
ترجمہ:․․․”اور خرچ کرو اس میں سے جو تمہارے ہاتھ میں ہے اپنانا“۔
تقسیم دولت کا مقصد یہ بتایا کہ:
”لایکون دولة بین الاغنیاء منکم“۔ (الحشر:۷)
ترجمہ:․․․”تاکہ نہ آئے لینے دینے میں دولت مندوں کے تم میں سے“۔
کسی جگہ فرمایا:
”یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو“۔ (البقرہ:۲۱۹)
ترجمہ:․․․․”تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں‘ کہہ دے جو بچے اپنے خرچ سے“۔
جواب کا یہ تنوع معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے تقسیم وتنظیم مالیات کی حدود میں فرق کو واضح کرتاہے اور ”العفو“ سے اس حد تک ثبوت ملتاہے کہ حالات کے زیادہ دباؤ کے وقت ضرورت سے زائد اموال میں کوئی حق نہیں ہے‘ ان آیات کے علاوہ بھی انفاق کی تاکید ملتی ہے‘ لیکن مقدار اور تقسیم کی نوعیت سے کوئی بحث نہیں ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں احکام حالات وزمانہ کی رعایت سے بدلتے رہتے ہیں۔
۲-تنظیم وتقسیم کے قوانین میں اللہ ہی کی حکمت عملی منعکس ہوگی
ذرائع ووسائل سب کے لئے مہیا ہوں گے اور مقررہ نظم وعدل کے ساتھ سب مستفید ہوسکیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بارانِ رحمت عام ہوتی ہے اور ہر شے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مستفید ہوتی ہے۔
۳-ہرچیز بطور امانت ہوگی
کائنات کی ہرچیز بطور امانت استعمال کے لئے ہوگی اور ہرفرد کی حیثیت ”امین“ کی ہوگی‘ حتیٰ کہ حکومت خود ایک امانت ہوگی جو دوسری تمام امانتوں کی نگرانی کرے گی‘ جیساکہ سورہٴ نساء کی آیت میں کہا گیا ہے:
”ان اللہ یامر کم ان تؤدوا الامانات الی اہلہا واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل“۔ (النساء:۵۸)
ترجمہ:․․․”بے شک اللہ تم کو فرماتاہے کہ پہنچادو امانتیں امانت والوں کو اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو فیصلہ کرو انصاف سے“۔
۴-طرز حکومت شورائی ہوگا
حکومت شورائی طرز کی ہوگی اور مسلمانوں میں سے اہل حل وعقد کے مشورہ سے نظم ونسق پر مامور ہوگی:
”وامرہم شوریٰ بینہم“ (الشوریٰ۔۸۳)
(یعنی کام کرتے ہیں مشورہ سے آپس کے) کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے گا۔
۵-مساوات کا سبق
مملکت کے تمام افراد بلاتخصیص حقوق میں مساوی ہوں گے۔ ذات پات‘ رنگ ونسل‘زبان‘ وطن کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔
”ان اکرمکم عند اللہ اتقکم“ (الحجرات:۲۰)
ہی واحد معیار تکریم وتعظیم ہوگا۔
۶-یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے
کائنات کی تمام چیزیں سب کے لئے ہیں اور استحقاق واستفادہ میں سب مساوی ہیں :
”ہو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً“ (البقرہ:۲۹) اور ”وجعلنا لکم فیہا معایش ومن لستم لہ برازقین“ (الحجر:۲۰)
ترجمہ:․․․”وہی ہے جس نے پیدا کیاتمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب‘ اور بنا دئے تمہارے واسطے اس میں معیشت کے اسباب اور وہ چیزیں جن کو تم روزی نہیں دیتے“۔
۷-منصفانہ اور بلا امتیاز فراہمی وسائل
حکومت ذرائع پیداوار کی اس طرح تقسیم وتنظیم پر مامور ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی صفتِ رزاقی کا مظہر ہے‘ لینے اور دینے کے پیمانے میں تخصیص وترجیح کی صورت نہ پیدا ہونے پائے:
”وما من دابة فی الارض الا علی اللہ رزقہا“۔ (ہود:۶)
ترجمہ:․․․”اور زمین پر چلنے والا کوئی نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے“۔
۸- غیر مسلموں سے تعلقات کی اصل صلح وامن ہے
غیر مسلموں سے جنگ اور ارتداد کی سزا وغیرہ‘ ان کے ظلم وزیادتی اور بغاوت کی بناء پر ہے‘ نہ کہ کفر وشرک اور اختلاف مذہب کی بناء پر‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا“ (الحج:۳۹) اور ”فان قاتلواکم فاقتلوہم“ (البقرہ:۱۸۱)
ترجمہ:․․․”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کفار لڑتے ہیں اس واسطے کے ان پر ظلم ہوا‘ اگر وہ تم سے قتال کریں تو تم ان سے قتال کرو“۔
اور اس کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے بارے میں امام ابوحنیفہ اور امام مالک‘ امام احمد اور علامہ ابن تیمیہ کا مسلک یہ ہے کہ انہیں قتل نہ کیا جائے۔
۹-حکومت مقصد نہیں ہے
اہلِ اسلام کے لئے حکومت مقصد نہیں ہے‘ بلکہ حکومت وعدہٴ الٰہی پورا کرنے کا ذریعہ ہے‘ ایمان وعمل صالح کے نتیجے میں وعدہٴ الٰہی یہ ہے:
”وعد اللہ الذین آمنوا وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم“۔ (النور:۵۵)
ترجمہ:․․․”وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں انہوں نے کام نیک‘ البتہ پیچھے حاکم کردے گا ان کو ملک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو․․․“۔ غرض حکومت کے لئے قرآن مجید میں اس قسم کے اشارات ملتے ہیں‘ مگر طریق کار اور ذرائع وغیرہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی قرآن حکیم کو اصل بحث مقصد اور بنیادی اصول سے ہے جن کی ہر دور میں ضرورت رہتی ہے‘ ذرائع اور طریق وغیرہ چونکہ حالات وزمانہ کی رعایت سے بدلتے ہیں‘ اس بناء پر ان کو حالات وزمانہ پر چھوڑ دینا ہی مناسب تھا‘ بالفرض اگر زمانہٴ نزول میں کسی ایک طریقہ اور ذریعہ کی نشاندہی کردی جاتی تو بعد میں حالات کی تبدیلی ناگزیر ہوتی۔
۱۰-تنظیم وتقسیم میں حکومت کے اختیارات پر حد بندی نہیں ہے
قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی سے روکا ہے اور لوگوں کو عدل واعتدال کی زندگی پر ابھارا ہے‘ حکومت کو حق ہے کہ ان توجیہات سے وہ حد بندی کا نتیجہ نکالے‘ نیز سرمایہ کو پھیلانے اور مالداروں سے مال حاصل کرنے کے لئے مصالح عامہ کے پیشِ نظر حسبِ صوابدید مختلف طریق اپنائے‘ کھانا کپڑا اور مکان وغیرہ انسان کی ایسی ضرورتیں ہیں کہ جن کی فراہمی کے لئے حکومت ہرقسم کے قوانین نافذ کرنے کی مجاز ہے‘ اس طرح اراضی میں حکومت کے اختیارات زیادہ وسیع ہیں‘ حضرت عمر کا قول ہے: ”لنا رقاب الارض“ (زمینیں ہماری ہیں یعنی حکومت کی ہیں) حکومت اپنے اختیارات میں کسی ایک طریق تنظیم وتقسیم کی پابند نہیں ہے‘ بلکہ مفاد عامہ کے پیش نظر اس کے اختیارات کافی وسیع ہیں اور انفرادی واجتماعی ہرطریق کی اجازت ہے‘ جیساکہ امام ابویوسف کتاب الخراج میں کہتے ہیں:
”وارجو ان یکون ذلک موسعا علیہ فکیف ماشاء من ذلک فعل“۔ (۸)
۱۱-امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی کوئی متعین ومخصوص شکل موجود نہیں
قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسا فریضہ جس کی ادائیگی کے لئے مسلمانوں کو ”خیر امت“ بناکر بھیجا گیا اور جس کے لئے ایک جماعت کے وجود کو لازمی قرار دیا گیا۔ (۹) کی بھی کوئی متعین شکل نہیں ہے‘ جس کی بنا پر علماء کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیفیت کی حد نہیں مقرر کی گئی کہ اس طرح اس فریضہ کی ادائیگی کی جائے۔ مثلاً ابتداء میں صرف انہی باتوں کی دعوت دی جو بنیادی تھیں‘ نیز قدرِ مشترک پر جمع کرنے کی کوشش کی‘ کسی ایسی چیز سے تعرض نہیں کیا جو زیادہ اہم نہ تھی‘ لیکن قومی نوعیت کی وجہ سے عمومی نفرت کا اندیشہ تھا‘ علاوہ ازیں ان باتوں سے اغماض برتا جن سے انتشار وافتراق کا اندیشہ تھا‘ بہت سی مباح اور جائز باتوں سے روک دیا‘جن کی وجہ سے برائی تک پہنچنے کا اندیشہ تھا‘ نیز غلامی وغیرہ کی منسوخی میں نرمی اور سہولت سے کام لیا جن سے سماجی زندگی مختل ہونے کا اندیشہ تھا۔ علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”اعلام الموقعین“ میں شریعت میں مصلحت وضرورت کا لحاظ کے موضوع پر ایک مکمل باب رقم کیا ہے‘ یہ پوری بحث نو فصلوں پر مشتمل ہے جو اعلام الموقعین کی جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۱۷ سے شروع ہوتی ہے‘ آپ نے سیرت نبوی ا سے حالات وزمانہ کی رعایت کی جو مثالیں دی ہیں‘ ان میں منکر کو مٹانے میں حالات کا لحاظ کرتے ہوئے آپ ا کی پالیسی مثلاً امراء وحکام کے خلاف بغاوت کی حوصلہ شکنی‘ نیز یہ فرمایا کہ: ”من رای من امیرہ ما یکرہہ فلیصبر ولا ینزعن یداً من طاعتہ“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض مسلمانوں کی مصلحت اور ان کے حالات کی رعایت سے کیفیت کے بیان کو چھوڑا گیا ہے۔
۱۲-شریعت کی راہ اعتدال
شریعت اسلامیہ میں جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اعتدال‘ توازن اور ہم آہنگی رہے‘ ورنہ افراط وتفریط کی صورت میں ایک طرف غلو اور تقشف کی زندگی نمودار ہوگی تو دوسری طرف آزادی وبے راہ روی کی زندگی کو فروغ حاصل ہوگا اور یہ دونوں ہی راستے شریعت سے ہٹے ہوئے ہیں۔
(جاری ہے )

حوالہ جات
۱- اسلام میں تحقیق کے اصول ومبادی ص:۶۴ از ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی‘ مطبوعہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ۱۹۸۷ء۔
۲- احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت ص:۱۹-۲۰ مولانا محمد تقی امینی شائع شدہ ساگر اکادمی لاہور ۱۹۸۲ء۔
۳- ایضاً مولانا محمد تقی امینی ص:۲۰۔
۴- بخاری ج:۲ باب تالیف القرآن۔
۵- احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت مولانا محمد تقی امینی ص:۲۹۔
۶- احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت مولانا محمد تقی امینی ص:۳۳۔
۸- امام ابویوسف کتاب الخراج ص:۵۹-۶۰۔
۹- احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت ص:۷۵ مولانا محمد تقی امینی۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: اسلام میں وضع قطع کی اہمیت
Flag Counter