Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

7 - 9
اصلی اسلامی زندگی اور اس کا مثالی نمونہ
اصلی اسلامی زندگی اور اس کا مثالی نمونہ


اللہ کا شکر ہے کہ ہم اور آپ دین کے کام اور اپنی آخرت کی فکر کے سلسلے میں یہاں جمع ہوئے ہیں‘ انسانوں کی بڑی تعداد کا کسی ایک جگہ جمع ہوجانا کوئی خاص بات نہیں ہے‘ آپ کسی بازار میں نکل جایئے‘ اس سے زیادہ مجمع نظر آجائے گا‘ کسی بڑے اسٹیشن پر چلے جایئے‘ اس سے بہت زیادہ آدمیوں کو آپ وہاں دیکھ لیں گے‘ کسی سینما کے پاس سے گذر کر دیکھئے‘ اس سے بہت بڑی بھیڑ آپ کو نظر آجائے گی‘ لیکن اللہ کا بڑا فضل ہے اپنے ان بندوں پر جو اللہ کا نام بلند کرنے کے لئے اور اس کے دین کی فکر میں کہیں جمع ہوجائیں۔ حدیث میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا ان لوگوں کو بھی دیتاہے جن سے اس کو محبت ہوتی ہے‘ اور ان کو بھی دیتاہے جن سے اس کو محبت نہیں ہوتی‘ لیکن دین کی دولت وہ صرف انہیں بندوں کو دیتاہے جن سے وہ راضی ہوتاہے اور جن سے اس کومحبت ہوتی ہے۔ پس آج ہمارا اور آپ کا اس جگہ جمع ہونا در حقیقت ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اپنے کروڑوں بندوں میں سے ہم کو اس نے توفیق دی کہ اس کے مقدس دین کے کام کے لئے اور اس سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑنے کی فکر میں ہم یہاں جمع ہوگئے‘ ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ اس انعام واحسان کا شکر ادا کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
”رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علیّ وعلی والدیّ وان اعمل صالحاً ترضاہ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین“ (النمل:۱۹)
ترجمہ :․․․”میرے رب ! میری قسمت میں کر کہ جو نعمتیں تونے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائیں‘ میں ان کا شکر ادا کروں اور ایسے عمل کروں جن سے تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما“۔
ان چند تمہیدی جملوں کے بعد میں وہ بات کہنا چاہتاہوں جس کے عرض کرنے کا میں نے اس صحبت میں ارادہ کیا ہے۔ حضرات! اتنی بات تو ہم آپ سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام کسی ذات برادری کا نام نہیں ہے‘ بلکہ زندگی گذارنے کے اس خاص طریقے کا نام اسلام ہے جو اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا ہے‘ اور جس کی تعلیم ہرزمانے میں اس کے پیغمبروں نے اپنی اپنی قوموں اور امتوں کو دی تھی‘ اور سب سے آخر میں آخری اور مکمل شکل میں اسی کی تعلیم حضرت محمد رسول اللہ ا نے دی‘ قرآن مجید اسی طریقہٴ زندگی کا بنیادی دستور ہے۔ بہرحال اسلام کسی خاص قومیت کا نام نہیں ہے‘ بلکہ جیساکہ عرض کیا گیا وہ ایک خاص طریقہٴ زندگی کا نام ہے‘ اور اسی طریقے کے اختیار کرنے والوں کا نام مسلم ہے۔ آپ اس کو یوں سمجھئے کہ مسلمان ہونا ایسا نہیں ہے جیسے شیخ‘ سید‘ مغل‘ یا پٹھان ہونا۔شیخ یا سید یا مغل پٹھان ہونے کے لئے کوئی خاص علم وعمل یا زندگی کا کوئی خاص طریقہ اختیار کرنا ضروری نہیں ہے‘ بلکہ ہروہ شخص سید یا شیخ کہلاتاہے جو کسی سید یا شیخ کے گھر میں جنم لے لے۔ اسی طرح جو شخص کسی مغل خاندان یا پٹھان خاندان میں پیدا ہوجائے وہ آپ سے آپ باپ دادا کے مغل یا پٹھان ہونے کی وجہ سے مغل اور پٹھان کہلاتاہے۔ لیکن مسلمان ہونے کے لئے یہ بالکل کافی نہیں ہے کہ کسی مسلمان خاندان میں آدمی پیدا ہوجائے‘ بلکہ مسلمان صرف وہی شخص ہوسکتاہے جو رسول اللہ اکے لائے ہوئے اس دین پر یعنی زندگی کے اس طریقے پر ایمان لائے جس کا نام اسلام ہے‘ اور اسی کو اپنا دین اور اپنی زندگی کا طریقہ بنالے۔ الغرض اسلام کوئی قومیت نہیں ہے‘ بلکہ وہ انسانوں کے لئے زندگی گذارنے کا ایک خاص طریقہ ہے جس میں عقائد‘ عبادات اور اخلاص وعادات اور معاشرت ومعاملات‘ غرض زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق احکام اور ہدایتیں ہیں۔ اسلام کی حقیقت سمجھنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ ا کی تعلیم وتربیت سے صحابہٴ کرام نے زندگی کا جو طریقہ سیکھا تھا اور وہ جس طرح زندگی گذارتے تھے بس اس کو دیکھ لیا جائے‘ ان کی زندگی قیامت تک کے لئے اسلام کا نمونہ اور معیار ہے۔ اسلام چونکہ ایک خاص قسم کی زندگی کا نام ہے‘ اس لئے اس کو اسلام والوں کی زندگی ہی سے اچھی طرح سمجھا جاسکتاہے اور اس کے لئے وہی نمونہ زیادہ قابل اعتبار ہوسکتاہے جو خود حضور اکی تعلیم وتربیت سے تیار ہوا تھا۔ صحابہٴ کرام کی زندگیوں میں آپ کو دو طرح کی چیزیں ملیں گی۔ ایک ان میں سے بعض حضرات کے وہ خاص کمالات جو بعض میں ہیں اور دوسروں میں نہیں ہیں‘ مثلاً حضرت ابوبکر بعض ایسے کمالات کے حامل ہیں جو حضرت عمر میں بھی نہیں ہیں‘ اسی طرح حضرت عمر میں بعض وہ کمالات ہیں جو ان کے علاوہ عام صحابہٴ کرام میں نہیں ہیں۔ اس قسم کے شخصی اور انفرادی کمالات کو ہم عمومی اسلامی زندگی کا نمونہ اور معیار نہیں کہہ سکتے‘ لیکن جو چیزیں صحابہٴ کرام کی پوری جماعت میں مشترک ہیں‘ جن سے ان کا کوئی فرد بھی خالی نہیں‘ نہ امیر نہ غریب‘ نہ مرد نہ عورت‘ نہ بوڑھا نہ جوان‘ نہ پڑھا نہ بے پڑھا‘ نہ عربی نہ عجمی‘ تو ان چیزوں کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ یہ اسلامی زندگی کے وہ اجزاء ہیں جن سے کسی مسلمان کو بھی خالی نہ ہونا چاہئے․․․․ میں اس وقت آپ کے سامنے صحابہٴ کرام کی زندگی کی چند وہی باتیں پیش کرنا چاہتاہوں جو ان کی پوری جماعت میں عام طور سے پائی جاتی تھیں اور جن میں کسی بڑے چھوٹے کی کوئی خصوصیت نہیں تھی۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے جس چیز کا ذکر مناسب ہوگا وہ یہ ہے کہ ان سب حضرات کا ایمان حقیقی اور شعوری تھا یعنی وہ جانتے تھے کہ اللہ ورسول ا پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے اور اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں،آج جو مسلمان قوم ہمارے سامنے ہے‘ اس میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے زندگی بھر میں کبھی ایک دفعہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہمارے مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے اور ایمان واسلام کی کیا حقیقت ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اسلامی کلمہ تک سے ناواقف ہیں‘ بہت سے ہیں جنہیں کلمہ کے الفاظ اگر معلوم ہیں تو اس کے معنی ومطلب سے وہ آشنا نہیں ہیں‘ بہت سے ہیں جنہیں ایمان واسلام کی ذمہ داریوں کا کوئی پتہ نہیں اور پتہ لگانے کی کوئی فکر بھی نہیں ہے؟․․․․ لیکن صحابہٴ کرام میں اس طرح کا ایک آدمی بلکہ کوئی بچہ بھی نہیں ملے گا۔ ان میں سے ہرفرد جانتا تھا اور خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے مومن ومسلم ہونے کا مطلب کیا ہے۔ ان میں سے جو شخص جس وقت اسلام کا کلمہ پڑھ کر اسلام میں آتا تھا‘ وہ اسی وقت سے خوب سمجھتا تھا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا۔ بھائیو! ”لاالٰہ الا اللہ“ میں اس بات کا عہد واقرار ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ومالک نہیں‘ ہم اس کے اور صرف اسی کے بندے ہیں‘ ہم اس کی عبادت کریں گے اور اپنی پوری زندگی کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں کہ اسی کی بندگی میں گذاریں گے جس طرح کہ ایک بندہ کو گذارنا چاہئے۔ اور ”محمد رسول اللہ“ میں اس بات کا فیصلہ اور اعلان ہے کہ ہم نے حضرت محمدا کو خدا کا رسول مان لیا‘ اور اب ہم ایک امتی کی حیثیت سے آپ کے ہرحکم کو مانیں گے اور جس راستے پر آپ چلائیں گے‘ اس پر چلیں گے۔ تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ صحابہٴ کرام میں ہرشخص ایمان کی حقیقت کو جانتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ایمان لانے کے بعد اب میں زندگی گذارنے میں آزاد نہیں ہوں کہ جس طرح چاہوں زندگی گذاروں‘ بلکہ اب مجھے اللہ کی بندگی والی اور رسول کی پیروی والی زندگی گذارنی ہے‘ اسی لئے ایمان لانے اور اسلام میں آنے کے بعد سب سے پہلی فکر ان کو یہ ہوتی تھی کہ وہ ایمان والی اور بندگی والی اس زندگی کو سیکھیں جس کی تعلیم رسول اللہ ا دیتے تھے۔ اس کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ ان میں کا ہر شخص بقدرِ ضرورت دین سیکھنا ضروری سمجھتا تھا اور کسی نہ کسی طرح سیکھ لیتا تھا ․․․․․․․ تو حقیقی اور شعوری ایمان کے بعد دوسری چیز جو ان میں عام تھی وہ دین کا ضروری علم تھا۔ آپ میں سے بہت سے حضرات اس بات سے واقف ہوں گے کہ صحابہٴ کرام میں بہت بڑی تعداد ایسے حضرات کی تھی جو لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے‘ یہاں تک کہ اگر آپ کا غذ‘قلم ان کے سامنے رکھ کر درخواست کرتے کہ آپ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ لکھ دیجئے‘ یا اپنا نام ہی اس کاغذ پر لکھ دیجئے‘ تاکہ آپ کی ایک متبرک یادگار ہمارے پاس رہے تو وہ بڑی سادگی سے آپ سے کہہ دیتے کہ ہم لکھنا نہیں جانتے۔ اسی طرح اگر آپ قرآن شریف کی کوئی سورت مثلاً ”الحمد شریف“ ہی کاغذ پر لکھ کر ان کے سامنے رکھتے اور عرض کرتے ذرا اس کو پڑھ کر سنا دیجئے! تو وہ (سورہٴ فاتحہ زبانی یاد ہونے کے باوجود) بڑی بے تکلفی اور سچائی سے کہہ دیتے کہ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں․․․․ لیکن صحابہٴ کرام میں جو اس طرح کے ان پڑھ تھے‘ وہ بھی دین سے نا واقف نہ تھے۔ وہ حضور ا کی صحبت میں حاضر ہوکر‘ آپ ا کی باتیں سن سن کر اور آپ ا کا طریقِ عمل دیکھ دیکھ کر اور ضرورت کے موقعوں پر آپ سے پوچھ پوچھ کر ضروری درجہ کا علمِ دین حاصل کرلیتے تھے‘ اور اسی طرح بغیر لکھے پڑھے زبانی ہی قرآن شریف بھی یاد کرلیتے تھے․․․․․ الغرض صحابہٴ کرام میں جس طرح یہ بات عام تھی کہ وہ سب ایمان واسلام کی حقیقت جانتے تھے اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھتے تھے‘ اسی طرح دوسری بات ان میں یہ بھی عام تھی کہ ہرشخص اپنی ضرورت کے بقدر دین سیکھنا ضروری سمجھتا تھا اور اس پوری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس کو دین سیکھنے کی فکر نہ ہو‘ اور جو دین کے ضروری احکام سے ناواقف ہو۔ تیسری چیز ان میں جو عام تھی کہ ان میں سے ہرشخص دین کے متعلق جو کچھ جانتا تھا‘ اس پر عمل کرنا چاہتا تھا‘ بلکہ دین کا علم اسی لئے حاصل کرتا تھا کہ اس کے مطابق زندگی گذاری جاسکے۔ آج کل کے نوے فیصدی سے زیادہ مسلمانوں کی جو یہ حالت ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ نماز فرض ہے‘ لیکن نہیں پڑھتے‘ جانتے ہیں کہ زکوٰة فرض ہے‘ لیکن نہیں ادا کرتے ‘ جانتے ہیں کہ جھوٹ حرام ہے‘ لیکن اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے ․․․․․ صحابہٴ کرام کی پوری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی اس طرح کا نہیں ملے گا جو دین کی باتیں اور دینی احکام جانتا ہو‘ مگر ان پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرتاہو‘اور اپنی عملی زندگی میں اللہ کے ان احکام سے بے پرواہو جن کو وہ جانتا ہے․․․․ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں احکام پر عمل تو وہ لوگ بھی کرتے تھے جو سچے اور مخلص مومن نہ تھے‘ جن کو قرآن شریف میں منافق کہا گیا ہے۔آپ میں سے جو حضرات زمانہٴ نبوی ا کے حالات سے واقف ہیں‘ وہ جانتے ہوں گے کہ اس زمانہ میں منافقین بھی مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھتے تھے‘ زکوٰة بھی ان کو ادا کرنی پڑتی تھی‘ اور مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں وہ شریک رہتے تھے‘ کیونکہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی عام زندگی یہی تھی‘ اور جو شخص اسلام کے ان مطالبات کو ادا نہ کرتا‘ وہ ایمان والوں کی جماعت میں شمار نہیں ہوسکتا تھا․․․․الغرض صحابہٴ کرام کی جماعت میں اور اس وقت کی اسلامی سوسائٹی میں‘ اسلامی احکام پر عمل تو اتنا عام تھا کہ سچے اور مخلص مسلمانوں کے ساتھ ان منافقوں کو بھی عمل کرنا پڑتا تھا جن کے دلوں میں پورا ایمان بھی نہ تھا۔ چوتھی چیز صحابہٴ کرام کی زندگی میں جو ہم کو عام اور مشترک ملتی ہے وہ خدا کا خوف‘ اور آخرت کی فکر ہے‘ پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ صحابہ کی پوری جماعت میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھاجس کے دل پر خدا کے خوف کا غلبہ نہ ہو اور جس کو آخرت کی فکر دنیاکی ساری فکروں سے زیادہ نہ ہو‘ حتیٰ کہ ان میں سے جن بزرگوں کو زندگی ہی میں نبوت کی زبان سے جنت کی بشارت مل چکی تھی‘ ان کا حال بھی یہی تھا کہ خدا کے خوف سے روتے روتے ان کی آنکھوں کی سیاہی پھیکی پڑ گئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق کتابوں میں نقل کیا گیا ہے کہ آنکھوں سے آنسو جاری رہنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں کا رنگ بدل گیا تھا اور ان کے چہرے پر آنسو بہنے کی جگہ دو نیلگوں خط سے پڑ گئے تھے‘ اور کبھی رورو کر کہا کرتے تھے کہ کاش! میں جنگل کا کوئی درخت ہوتا جس کو کاٹا جاتا‘یا گھاس کا پودا ہوتا جس کو کوئی جانور چرلیتا‘ اور آخرت میں مجھے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی نہ پڑتی ․․․ اسی طرح حضرت عمر  کا یہ حال تھا‘ فطری طور پر مضبوط دل اور طاقت ور ہونے کے باوجود کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ عذاب کی کوئی آیت سن کر بیمار پڑ جاتے‘ جب شہید کئے گئے ہیں تو روتے تھے‘ خنجر کے زخم کی تکلیف سے نہیں‘ بلکہ اللہ کے عذاب اور آخرت کے حساب وکتاب کی فکر سے‘ یہاں تک کہ جب حضرت صہیب نے ان کو تسلی دی اور بتلایا کہ آپ دنیا میں اللہ کی رضا کے ایسے ایسے کام کرکے جارہے ہیں‘ اور آپ نے اللہ ورسول ا کی وفاداری اور دین کی اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کردیا ہے‘ تو فرمایا کہ: اگر اللہ تعالیٰ مجھے برابر سرابر پر بھی چھوڑ دے یعنی نیکیوں کا ثواب نہ ملے‘ اور خطاؤں پر عذاب نہ ہو تو میں سمجھوں گا کہ کامیاب ہوگیا ․․․․․ اسی طرح حضرت علی مرتضیٰ کے دیکھنے والوں نے بیان کیا ہے کہ ہم نے ان کو راتوں کی اندھیری اور تنہائی میں اس طرح بلک بلک کر روتے دیکھا ہے‘ جیسے کسی زہریلے جانور کا ڈسا ہوا آدمی روتاہے ․․․․․ اور یہ تو اکابر صحابہ ہیں میں تو کہتا ہوں کہ ان میں جو لوگ ادنیٰ درجہ (یعنی جو اکابر صحابہ کی نسبت سے ادنیٰ تھے‘ ورنہ فی الحقیقت ان میں کوئی ادنیٰ نہ تھا) کے تھے‘ اور جن سے کبھی کبھی بڑے بڑے گناہ بھی ہوگئے ہیں‘ ان کا حال بھی یہ تھا کہ گناہ کرنے کے بعد خدا کے خوف اور آخرت کے عذاب کے خیال سے دنیا ان کے لئے بے مزہ اور زندگی دو بھر ہوجاتی تھی‘ اور عذابِ آخرت سے بچنے کے لئے وہ بڑی سے بڑی سزا کے لئے اپنے کو پیش کردیتے تھے اور جب تک وہ سزا ان کو مل نہ جاتی تھی انہیں چین نہ آتا تھا۔ حضرت ماعز ایک صحابی ہیں‘ ان سے بہت بڑا گناہ ہوگیا یعنی بے چارے زنا کے مرتکب ہوگئے‘ نفس کے تقاضے سے یہ گناہ تو کر بیٹھے‘ لیکن خدا کے خوف کا اتنا غلبہ ہوا کہ خود حضور ا کی خدمت میں آکر عرض کردیا کہ: حضرت ! مجھ سے ایسی ناپاک حرکت ہوگئی ہے‘ لہذا مجھے پاک کرا دیجئے یعنی مجھے شرعی سزا دلوا دیجئے‘ یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ماعز کنوارے نہ تھے‘ شادی شدہ تھے اور جانتے تھے کہ شادی شدہ آدمی اگر ایسا کرے تو اس کی سزا سنگساری ہے‘ جس کا طریقہ یہ تھاکہ اس شخص کو پتھروں وغیرہ سے مارمار کر ہلاک کردیا جاتا تھا۔ بہرحال حضرت ماعز جانتے تھے کہ مجھے کیا سزا دی جائے گی اور وہ کتنی سخت ہوگی‘ اور سزا کے علاوہ میری کیسی رسوائی ہوگی‘ مگر اس کے باوجود خدا کا خوف اور آخرت کے عذاب اور رسوائی کا یقین ان کو کھینچ کر حضور ا کی خدمت میں لے آیا‘ حالانکہ ان کے متعلق کوئی رپورٹ نہیں تھی‘ اور اگر وہ خود اپنے جرم کو چھپالیتے تو شاید آج تک کسی کو اطلاع نہ ہوتی‘ لیکن آخرت کے عذاب کا خیال ان پر اس قدر غالب آیا کہ سنگساری کی تکلیف کو انہوں نے اس کے مقابلہ میں بہت ہلکا سمجھا‘ اور خود حضوا سے اس سزا کی درخواست کی‘ اور جب حضور ا نے ایک خاص اصول کے ماتحت ان کو کوئی جواب نہیں دیا‘ اور سزا کا بھی حکم نہیں دیا‘ تو انہوں نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ حضور ا کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا‘ اور سزا کی درخواست پر اصرار کیا‘ جس کے بعد ان کو سزا دی گئی اور سنگسار کردئے گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور اس سے زیادہ عبرت کا واقعہ ایک صحابی عورت کا ہے‘ جن کو حدیث میں غامدیہ کہا گیا ہے۔ اس اللہ کی بندی سے بھی وہی گناہ ہو گیا تھا یعنی یہ بے چاری بھی نفس کی خواہش سے مغلوب ہوکر زنا کی مرتکب ہوگئی تھی اور کسی کو بھی اس کے اس گناہ کی اطلاع نہیں تھی‘ مگر اس کو یقین تھا کہ اللہ کو میرے اس گناہ کا علم ہے اور اس کا عذاب دنیا کی ساری تکلیفوں سے زیادہ سخت ہے‘ پس اللہ کے عذاب ہی کے خوف نے اسے بھی مجبور کیا اور وہ بھی خود ہی حضورا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: حضرت! مجھ سے ایسا ناپاک کام ہوگیا ہے‘ لہذا مجھے سزا دلا کر پاک کر دیجئے۔ حضورا نے پہلے کوئی توجہ ان کی طرف نہیں فرمائی‘ گویا کہ آپ نے سناہی نہیں کہ کسی نے کیا کہا ہے۔ حضور ا کی اس بے توجہی کو دیکھ کر پھر اس بندی نے عرض کیا کہ حضور ا یہ بات میں کسی پاگل پنے سے نہیں کہہ رہی ہوں‘ میں ہوش وحواس میں ہوں‘ اور واقعةً مجھ سے یہ ناپاک گناہ ہوگیا ہے‘ لہذا مجھے سنگسار کرا دیجئے‘ تاکہ آخرت کے عذاب سے میں بچ جاؤں۔ اسی سلسلے میں اس نے حضور ا کو یہ بھی بتلادیا کہ میرا اندازہ ہے کہ اس زنا سے مجھے حمل بھی رہ گیا ہے‘ جب حضورا نے یہ سنا تو فرمایا کہ: اگر ایسا ہے تو پھر آنا (بچے کے پیٹ میں ہوتے ہوئے شرعی سزا نہیں دی جاسکتی‘ جو جان بے قصور ہے‘ اسے کیوں ہلاک کیا جائے) بہرحال حضور ا نے اس عورت کو واپس کردیا‘ حمل کی مدت پوری ہو جانے پر جب بچہ پیدا ہوا تو اللہ کی یہ بندی نومولود بچے کو ہاتھوں میں اٹھائے پھر حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ: میں فلاں گنہگار عورت ہوں‘ اب یہ بچہ ہو چکا‘ لہذا اب مجھے سزا دلا کر پاک کردیا جائے۔ حضورا نے فرمایا: ابھی نہیں‘ ابھی اس بچے کو تمہارے دودھ کی ضرورت ہے‘ جاؤ جب یہ تمہارے دودھ کا محتاج نہ رہے اور روٹی کھانے کے قابل ہوجائے‘ تب ہمارے پاس آنا‘ چنانچہ یہ اللہ کی بندی بچے کو پالتی رہی اور جب وہ ٹکڑا چبانے کے قابل ہوگیا تو بچے کو گود میں لے کر اس ہیئت کے ساتھ حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ روٹی کا ایک ٹکڑا بچے کے ہاتھ میں دے رکھا تھا اور وہ اس کو چبا چباکر کھا رہا تھا۔ بہرحال اس شان کے ساتھ خدمتِ نبوی ا میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : حضرت! میں فلاں گنہگار عورت ہوں جس کی سزا کو آپ نے اس بچے کی پرورش کی وجہ سے اب تک ملتوی کیا ہے‘ اب اس بچے کو میرے دودھ کی ضرورت نہیں رہی‘ دیکھ لیجئے‘ یہ روٹی کھانے لگا ہے‘ لہذا اب اس کو کسی کے سپرد فرما دیجئے اور مجھے سنگسار کرا دیجئے‘ تاکہ آخرت کے عذاب کی طرف سے مجھے اطمینان ہوجائے‘ چنانچہ حضورا کے حکم سے یہ اللہ کی بندی سنگسار کردی گئی۔ سنگسار کرنے والوں میں ایک مشہور صحابی تھے‘ ان کی زبان سے ایک سخت کلمہ اس بے چاری کے متعلق نکلا‘ حضور ا کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان صحابی سے فرمایا کہ تم نے ایسا کلمہ اللہ کی اس بندی کے متعلق کہا‘ تمہیں کیا خبر ہے‘ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر سب اہلِ مدینہ پر تقسیم کردی جائے تو سب کی نجات کے لئے کافی ہو۔ ان دونوں واقعوں میں یہ بات خاص طور سے قابل غور ہے کہ بغیر کسی رپورٹ یا شہادت کے خود انہوں نے اپنے جرم کی اطلاع کی اور اصرار کے ساتھ سزا کی درخواست کی اور خاص طور سے غامدیہ کو کئی دفعہ اس کا موقع ملا کہ اگر وہ سزا سے بچنا چاہے تو حضور ا کی خدمت میں حاضر نہ ہو‘ کیونکہ وہاں کوئی ضمانت ومچلکہ تو تھا نہیں اور درمیان میں اتنا زمانہ بھی گذرا‘ جس میں اس کے دل میں سینکڑوں‘ ہزاروں دفعہ زندگی کی بہاروں اور دنیا کی لذتوں کا خیال آیا ہوگا‘ اور شاید طرح طرح کے وسوسے شیطان نے دل میں ڈالے ہوں گے‘ لیکن اللہ کا خوف اور آخرت کے عذاب کا ڈر اتنا غالب تھا کہ اس نے زندگی مشکل کردی تھی اور ساری لذتوں کی طرف سے دل سرد کردیا تھا‘ یہ حال ان مردوں اور عورتوں کا تھا جن سے زنا جیسے گناہ ہوئے‘ بس اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صحابہٴ کرام کی جماعت میں خدا کا خوف اور آخرت کا فکر کس درجہ عام تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ آج ہم لوگوں کے لئے اس کا اندازہ کرنا بھی دشوار ہے اور ہم مسلمانوں کو دیکھ کر ہمارے بزرگوں کے ان واقعات پر یقین لانا بھی آج دنیا کے لئے مشکل ہے۔ صحابہٴ کرام کی اس صفت کو دوسری طرح یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ان کی زندگی خدا سے غفلت اور آخرت فراموشی کی زندگی نہیں تھی‘ اللہ کا اور اس کے حکموں کا اور اس کے عذاب اور مواخذہ کا انہیں برابر دھیان رہتا تھا‘ اور اگر کسی وقت شیطان انہیں غافل کرکے ان سے کوئی گناہ کرا بھی دیتا تھا تو جلدی ہی وہ غفلت سے چونک پڑتے تھے اور پھر توبہ واستغفار اور دنیوی سزا کے ذریعہ گناہ کے ناپاک اثر کو جب تک دھونہ ڈالتے تھے‘ انہیں چین نہ آتا تھا‘ چاہے اس کے لئے انہیں اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونے پڑیں۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کا آج جو یہ حال ہے کہ ان کی ساری زندگی اللہ سے غافل اور آخرت سے بے فکر ہوکر گذررہی ہے۔ صحابہٴ کرام اس کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ ایمان واسلام کے دعوے کے ساتھ کوئی شخص ایسی زندگی بھی گذار سکتا ہے۔ بہرحال ان کی زندگی اللہ کے ذکر اور آخرت کی فکر کی زندگی تھی۔ قرآن مجید میں اسی زندگی کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے۔
”رجال لاتلہیہم تجارة ولابیع عن ذکر اللہ واقام الصلوٰة وایتاء الزکوٰة یخافون یوماً تتقلب فیہ القلوب والابصار“۔ (النور:۳۸)
یعنی وہ ہرحال میں ذاکر اور باخدا تھے‘ نماز کے وقت وہ نماز کے ذریعہ خدا کو یاد کرتے تھے‘ تجارت اور خرید فروخت اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں وہ اللہ کے احکام کی پابندی کے ذریعہ اس کو یاد رکھتے تھے‘ مصیبت میں صبر اور راحت میں شکر ان کا ذکر تھا‘ حاجتوں اور مشکلوں میں دعا اور استعانت اور خطا ہوجانے پر استغفار اور انابت اور سچی توبہ اور سزا کے لئے خود اپنے کو پیش کردینا ان کی عام سیرت تھی اور وہ قیامت کے اس آنے والے دن سے ڈرتے اور لرزتے رہتے تھے‘ جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔ الغرض ان کی پوری زندگی اللہ کے ذکر اور آخرت سے فکر کی زندگی تھی اور یہ صفت اس پوری جماعت کی صفت تھی‘ جس سے ان کا کوئی فرد خالی نہ تھا۔ پانچویں چیز جو صحابہٴ کرام میں اسی طرح عام تھی وہ ان کی سچی اسلامی اخوت اور باہمی محبت اور ہمدردی تھی۔ حضور ا کی تعلیم وتربیت نے گویا خود غرضی کا بیج ہی ان کے دلوں سے نکال دیا تھا۔ اس سلسلے میں دو واقعے ذکر کرنا چاہتاہوں۔ ایک جنگ میں ‘ غالباً یرموک کی جنگ میں ایک صاحب شریک تھے‘ ایک دن وہ میدانِ جنگ سے واپس نہیں آئے اور کسی سے ان کی خیر خبر بھی نہیں ملی تو ان کے ایک بھائی ان کی تلاش میں نکلے اور اس خیال سے کہ شاید وہ کہیں پیاس کی حالت میں پڑے ہوں‘ پانی کا ایک مشکیزہ بھی ساتھ لے لیا‘ اتفاق سے وہ ایک جگہ ایسی حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ بس دم توڑ رہے تھے‘ اور جاں کنی کا وقت تھا‘ انہوں نے پوچھا کہ پانی دوں؟ انہوں نے اشارہ سے ہاں کی‘ یہ مشکیزہ سے پانی نکال ہی رہے تھے کہ قریب ہی سے کسی اور پڑے ہوئے زخمی کی کراہٹ کی آواز آئی‘ ان کے بھائی نے اشارہ سے کہا کہ: جس بھائی کی یہ آواز آرہی ہے‘ پہلے ان کو پانی دے کے آؤ‘ یہ پانی لے کے ان کے پاس پہنچے‘ ان کا بھی آخری دم تھا‘ انہوں نے ان کو پانی دینا چاہا‘ لیکن ابھی دینے نہ پائے تھے کہ قریب ہی سے کسی تیسرے زخمی کی ہچکی کی آواز آئی‘ ان دوسرے صاحب نے یہ آواز سن کر اشارہ کیا کہ پہلے ان کو پانی دو۔ چنانچہ یہ صاحب پانی لے کر ان تیسرے صاحب کے پاس پہنچے‘ لیکن اتنی ہی دیر میں وہ جاں بحق ہوچکے تھے‘ پھر جب یہ ان کے پاس سے لوٹ کر دوسرے صاحب کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ بھی ختم ہوگئے۔ پھر جب اپنے بھائی کے پاس آئے تو دیکھا وہ بھی اللہ سے واصل ہوچکے ہیں۔ دوسرا واقعہ جو میں اس سلسلے میں ذکر کرنا چاہتاہوں‘ وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی صحابی کے یہاں بکری ذبح ہوئی‘ انہوں نے اس کی سری اپنے کسی ساتھی کے یہاں ہدیہ کے طور پر بھیج دی‘ ان صاحب نے شکریہ کے ساتھ لے لی‘ لیکن بجائے اس کے کہ یہ خود کھانا پکا لیتے‘ اس کو کسی اور صاحب کی خدمت میں پیش کردیا‘ ان صاحب نے اس کو ایک اچھا تحفہ سمجھ کر کسی چوتھے صاحب کے گھر پہونچادیا۔ راوی کا بیان ہے کہ یہ سری اس طرح سات گھروں پھر کر پھر ہدیہ اور تحفہ کے طور پر اسی گھر واپس آئی‘ جہاں سے چلی تھی،ان دونوں واقعوں سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ ایثار اور ان کی ہمدردی وغمخواری صحابہ کرام کی عام مشترک صفت تھی‘ جس میں زید‘عمرو‘ بکر کی کوئی خصوصیت نہ تھی‘ بلکہ اس سوسائٹی میں ہرفرد کا یہی حال تھا کہ وہ دوسروں کے حق کو اور دوسروں کی ضرورت کو اپنے حق اور اپنی ضرورت پر مقدم سمجھتا تھا۔ چھٹی چیز جو صحابہ کرام میں اسی طرح عام تھی‘ وہ دین کی خدمت کا جذبہ اور اعلاء کلمة اللہ کے لئے جد وجہد اور قربانی کا شوق تھا‘ صحابہ کی پوری جماعت میں تلاش کرنے سے بھی آپ کو کوئی ایسا فرد نہ ملے گا جو اس چیز سے خالی ہو‘ حد یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کے سینے بھی اس جذبہ اور اس شوق سے بھرے ہوئے تھے‘ مائیں اور بہنیں اور بیویاں ایمانی ذوق وشوق کے ساتھ اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور شوہروں کو جہاد کے لئے رخصت کرتی تھیں۔ ایک بوڑھے صحابی تھے جن کے پاؤں میں لنگ بھی تھا اور آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید میں لنگڑوں کو صراحةً جہاد سے معذور ومستثنیٰ قرار دیا گیا ہے‘ لیکن ایک جہاد کے موقع پر یہ صاحب بھی جانے پر مصر ہوئے‘ ان کے کئی جوان بیٹے تھے‘ انہوں نے ان کو روکنا چاہا اور کہا کہ: ہم جارہے ہیں اور آپ کو اللہ نے بھی مستثنیٰ کردیا ہے‘ اس لئے آپ نہ جائیں‘ بلکہ گھر ہی پر رہیں‘ یہ اس پر راضی نہ ہوئے اور بالآخر مقدمہ حضور ا کے سامنے پیش ہوا‘ آپ نے بیٹوں سے تویہ فرمایا کہ:جب یہ جانا ہی چاہتے ہیں تو تم انہیں کیوں روکتے ہو؟ انہیں شہادت کا شوق ہے تو جانے دو‘ اور بوڑھے اور لنگڑے باپ سے فرمایا کہ بھائی! جب اللہ نے تمہیں معذور قرار دے دیا ہے اور جہاد تم پر فرض نہیں ہے‘ اور اللہ کے دیئے تمہارے یہ جوان بیٹے موجود ہیں جو جارہے ہیں تو پھر تم نہ جاؤ تو کیا حرج ہے؟ ان بوڑھے صحابی نے عرض کیا: حضور! میرا جی چاہتاہے کہ میں اپنی اس لنگڑی ٹانگ کے ساتھ اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں تو اس لنگ کے ساتھ خدا کے سامنے حاضر ہوں اور اسی لنگڑی ٹانگ سے جنت میں جاؤں۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں صحابی بچوں کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ چھپ چھپ کر اسلامی لشکروں کے ساتھ میدان جہاد میں جاتے تھے اور دینی جد وجہد کی راہ میں خاک وخون میں تڑپنا ان کا سب سے زیادہ مرغوب کھیل تھا۔ صحابہٴ کرام کی پوری جماعت میں دین کی خدمت کا جذبہ اور اس کی راہ میں قربانی کا شوق جس قدر عام تھا‘ اس کا کسی قدر اندازہ آپ اس طرح کرسکتے ہیں کہ صحابہ کے تذکرہ میں جو بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں‘ مثلاً :استیعاب‘ اسد الغابہ‘ اصابہ آپ ایک طرف سے ان میں سے کسی کو دیکھنا شروع کیجئے اور صرف یہ دیکھتے جایئے کہ یہ صحابی کہاں پیدا ہوئے‘ اسلام لانے کے بعد ان کی زندگی کہاں کہاں اور کن کن مشاغل میں گذری اور کہاں یہ دفن ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کو ان کتابوں میں اکثر صحابہ کے متعلق‘ بلکہ قریب قریب سب کے متعلق یہی ملے گا کہ یہ صاحب فلاں جگہ پیدا ہوئے تھے‘ اسلام لانے کے بعد زندگی کا اصل مشغلہ دین کی خدمت رہا‘ فلاں جنگ میں شہید ہوئے‘ یا دین کے فلاں شعبہ کی خدمت کرتے ہوئے فلاں شہر میں ان کی وفات ہوئی اور فلاں جگہ مدفون ہیں، اگر آپ اس نظر سے صحابہ کرام کے تذکروں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ مکہ اور مدینہ میں پیدا ہونے والے صحابیوں میں بہت تھوڑے ہیں جومکہ میں یا مدینہ میں‘ یعنی اپنے اصل وطن میں دفن ہوئے ہیں‘ ورنہ اکثر وہی ہیں جن کا گھر اگر چہ مکہ یا مدینہ تھا‘ لیکن دین کی خدمت اور دین کی جد وجہد کے سلسلہ میں دوسرے ملکوں کی خاک میں دفن ہیں۔ صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد کا اپنے وطنوں سے دور ملکوں اور شہروں میں دفن ہونا‘ حالانکہ وہ آج کل کے فوجیوں کی طرح کسی حکومت کے تنخواہ دار نوکر نہ تھے‘ بلکہ اپنے جذبہ سے اور صرف دین کی خدمت اور اعلاء کلمة اللہ کو اپنا دینی فرض سمجھ کر محض رضا کارانہ طور پر وہ یہ سب کچھ کرتے تھے‘ تو یہ اس کی بڑی دلیل ہے کہ یہ صفت بھی ان میں ایمان اور خوفِ خدا کی طرح ہی عام تھی․․․․ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک جنگ کے موقع پر حضرت خالد بن ولید  نے رومی فوجوں کے سپہ سالار کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میرے ساتھ اللہ کے جو بندے اور اسلام کے جو سپاہی ہیں‘وہ دین کی راہ میں جان دینے اور اللہ کے لئے خاک وخون میں تڑپنے کے ایسے ہی عاشق ہیں جیسے رومی لوگ شراب کے عاشق ہوتے ہیں۔ درحقیقت حضرت خالد کے خط کا یہ ایک جملہ (جس کو تاریخ نے اب تک محفوظ رکھا ہے) صحابہ کرام کی اس عمومی صفت کا اندازہ کرنے کے لئے بالکل کافی ہے۔ الغرض صحابہٴ کرام میں جس طرح حقیقی اور شعوری ایمان عام تھا‘ جس طرح دین کا ضروری علم اور اس کے مطابق عمل عام تھا‘ جس طرح خدا کا خوف اور آخرت کی فکر عام تھی اور جس طرح باہمی محبت وہمدردی کی صفت عام تھی‘ اسی طرح دین کی خدمت اور دین کے لئے جد وجہد اور اس راہ میں فدا کاری وقربانی کا شوق بھی عام تھا۔ اس دور میں جو مومن ومسلم تھا‘ وہ دین کا خادم اور دین کی راہ میں جد وجہد کرنے والا بھی تھا۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: اسلامی قانون سازی میں ا حوال واقعی کی رعایت
Flag Counter