Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

2 - 9
حضرت مولانا عبد المجید صاحب کو صدمہ

حضرت مولانا عبد المجید صاحب کو صدمہ

گزشتہ دنوں یکم ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ بروز بدھ مطابق ۲۲/نومبر۲۰۰۷ء رات آٹھ بجے مخدوم مکرم حکیم العصر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی شیخ الحدیث جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا ضلع لودھراں کی رفیقہٴ حیات رحلت فرماگئیں‘ انا للہ وانا الیہ راجعون․
مرحومہ فطری طور پر نیک وصالحہ اور صابرہ وقانعہ تھیں‘ اس پر مستزاد یہ کہ انہیں ایک عالم‘ فاضل‘ عابد‘ زاہد اور شفیق ورحم دل شوہر کی سعادت میسر تھی۔ چنانچہ اپنی نسبی اور صلبی اولاد نہ ہونے کے باوجود انہوں نے زندگی بھر مدرسہ کے معصوم‘ مسکین طلبہ اور طالبات کے لئے ایک شفیق ماں کا کردار ادا کیا۔ ایسے طلبہ اور طالبات جو غریب ومسکین ہوتے‘ وہ ان کا ہر طرح خیال فرماتیں اور طلبہ وطالبات بھی انہیں ماں کا درجہ دیتے‘ ان کا گھر ام المساکین حضرت سودہ کے گھر کا نمونہ تھا۔ باوجودیکہ وہ ایک کھاتے پیتے اور متمول گھرانے اور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں‘ مگر حضرت مولانا لدھیانوی مدظلہ کی رفاقت نے انہیں زہد وتکشف کا خوگر بنا دیا تھا‘ چنانچہ انہوں نے زندگی بھر اپنے نامدار شوہر حضرت مولانا لدھیانوی مدظلہ کی خدمت وراحت رسانی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا‘ بلاشبہ حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی دینی و علمی خدمات میں ان کا برابر کا حصہ ہے‘ اس لئے کہ جو لوگ گھر یلو اعتبار سے دینی انتشار اور فکری تشتت کا شکار ہوں‘ وہ کسی طرح بھی وسیع تعلیمی‘ تدریسی‘ تبلیغی اور تحقیقی خدمات انجام نہیں دے پاتے۔ حضرت کی اہلیہ مرحومہ شروع سے ہی ایک سلیقہ شعار اور وضع دار خاتون تھی‘ جسے اخلاقی اقدار اور وضع داری وراثت میں ملی تھی۔ بلاشبہ اس پیرانہ سالی میں مولانا موصوف کی رفیقہ ٴ حیات کی جدائی کا صدمہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے‘ اس موقع پر ہم جہاں مرحومہ کی مغفرت کے لئے دست بدعاء ہیں‘ وہاں حضرت موصوف کے اس سانحہ میں ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں‘ بلاشبہ یہ سانحہ ایک اعتبار سے ہمارا ذاتی سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس موقع پر حضرت مولانا موصوف کو صبر وسکون کی دولت سے نوازے اور مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے۔ بینات کے باتوفیق قارئین سے درخواست ہے کہ وہ مرحومہ کو اپنی دعاؤں اور ایصالِ ثواب میں فراموش نہ کریں۔
علامہ محمد عبداللہ
۲۴/ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ بمطابق ۱۶/ دسمبر ۲۰۰۶ء بروز ہفتہ صبح آٹھ بجے جامعہ عباسیہ بہاول پور کے نامور سپوت‘ اکابر علمائے دیوبند کی روایات کے امین‘ معقولات و منقولات کے ماہر جدید وقدیم کے شناور، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی شیخ الحدیث مدرسہ انوریہ حبیب آباد طاہر والی کے شاگرد رشید‘ فقیہ العصر حضرت مولانا محمد صادق بہاول پوری، حضرت اقدس مولانا غلام محمدگھوٹوی، حضرت مولانا محمد فاروق سہارنپوری کے تلمیذ‘ رشد و ہدایت کے امام اور سلوک و احسان کے مینار حضرت مولانا عبدالہادی دین پوری قدس سرہ‘ کے مسترشد‘ حکیم العصر حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے عقیدت کیش اور محب صادق اور ہمارے مخدوم و مہربان حضرت مولانا علامہ محمد عبداللہ احمد پوری رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی‘ وکل شی عندہ باجل مسمّیٰ۔
حضرت مولانا علامہ محمد عبداللہ احمد پوری قدس سرہ حلقٴہ اہل علم میں کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ آپ اگرچہ عوامی حلقوں میں چنداں متعارف نہ تھے، لیکن ریاست بہاول پور کے علمی‘ دینی حلقوں اور علمأ و صلحأ میں آپ کو قدر و منزلت اور عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت مرحوم کا آبائی تعلق تحصیل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان کے مضافات پکا لاڑاں کی ایک دور افتادہ بستی بٹوانی سے تھا۔ آپ کی ولادت باسعادت بھی اسی بستی کی ہے‘ چنانچہ ۱۹۲۹ء میں یہاں کے ایک علم دوست بزرگ حضرت مولانا نور محمد کے دینی گھرانے میں آپ نے آنکھ کھولی‘ آپ کے والد ماجدحضرت مولانا نور محمد حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی کے مشکوٰة شریف تک کے رفیقِ درس تھے۔ حضرت مولانا محمد عبداللہ اللہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی‘ آٹھویں جماعت تک مڈل اسکول الہ آباد میں پڑھا‘ ابھی مڈل مکمل نہیں ہوا تھا کہ ساتھ ہی درس نظامی کی بھی ابتدأ ہوگئی،چنانچہ حضرت مولانا عبدالہادی دین پوری قدس سرہ‘ سجادہ نشین خانقاہ دین پور‘ نے صرف بہائی کا سبق پڑھاکر آپ کی درس نظامی کی تعلیم کی ابتدأ کرائی۔ غالباً۴۲/۱۹۴۳ء میں جامعہ عباسیہ بہاول پور سے تکمیل فرمائی‘ اور ۱۹۴۸ء میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ کی خدمت میں دورئہ تفسیر پڑھا‘ جبکہ صحیح بخاری تبرکاً حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی قدس سرہ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ فراغت کے بعد ریاست بہاول پور کے اس دور کے عصری اسکول میں استاذ مقرر ہوئے اور آخر میں صدر مدرس کی حیثیت سے ۱۹۹۲ء میں ریٹائر ہوئے۔ چونکہ آپ زندگی بھر عصری تعلیمی اداروں سے منسلک رہے اور درس و تدریس کا زیادہ عرصہ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ میں گزرا اور آپ کی سکونت و رہائش بھی یہاں تھی‘ اس لئے احمد پوری کے لاحقہ سے مشہور ہوگئے۔ حضرت مولانا مرحوم اپنے اکابر و اسلاف کی طرح شہرت و ناموری کے روادار نہیں تھے‘ بلکہ نہایت خاموشی سے زندگی بھر خدمت دین کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا‘ اور ایک ایسے ماحول میں جہاں عموماً اچھے لکھے پڑھے ماحول کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں‘ آپ تہذیب جدید کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نسل نو کی اصلاح و تربیت میں مصروف رہے۔ یہ اکابرومشائخ کی نسبت ہی کی برکت تھی کہ آپ عصری تعلیم گاہوں میں رہتے ہوئے بھی خالص خانقاہی رہے،ہمیشہ اپنی ذات اور کام کی نفی فرماتے رہے،چنانچہ آپ لکھتے ہیں: ”حیاتِ مستعار تھی ہی کتنی؟اور جو کچھ تھی وہ بھی لہوولعب میں گزرگئی،جب عمرِرفتہ کی طرف نظر دوڑاتاہوں،تو کوئی ایسا عمل نظرنہیں آتاجو اللہ رب العزت کے حضور پیش کرسکوں،کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا،مگر ماحول کی ناسازگاری،طبعی کسل اورغفلت شعاری کی وجہ سے عمر یوں ہی گزرگئی،میں نے اپنی کتاب ”کاروان جنت“علیم وخبیر جانتا ہے کہ آنسوں بہابہاکر لکھی تھی،اگر مالک یوم الدین اسے شرفِ قبولیت بخش دے تو اس گناہ گار کا بیڑا پار ہوجائے گا۔اور بھی چند تحریریں میرے قلم سے نکلی ہیں،کھرے کے ساتھ بعض اوقات کھوٹامال بھی نکل جاتاہے،اگر مالک انہیں بھی شرف ِپزیرائی سے نوازدے تو اس کے رحم سے کچھ بعید نہ ہوگا۔وماذالک علی اللہ بعزیز۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  سے روایت ہے کہ ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہا:اللہ کے رسول !اس شخص کے بارہ میں کیا ارشاد فرماتے ہیں جوکچھ لوگوں سے محبت تو رکھتا ہے،مگر عمل میں ان سے میل نہیں کھاتا؟ارشاد فرمایا:”المرأ مع من احبّ“یہ فرمان بڑا ہی امید افزاہے۔یہ گناہ گار جس دبستانِ علم سے تعلق رکھتا ہے،اس کے کارپردازان بڑے باخدا لوگ تھے،اگر ان کے طفیل اس گناہ گار کی بھی مغفرت ہوجائے تو”فزت ورب الکعبہ“
شنیدم کہ درروزِامیدوبیم بداں رابہ نیکاں بخشدکریم
اب حال یہ ہے کہ اکابر علماء اور مشائخ دنیا سے روپوش ہوچکے ہیں،قدّس اللہ اسرارہم ورفع درجاتہم ،دنیاتیرہ وتاریک نظر آتی ہے،ایک طرف اکابر کے ظلّ عاطفت سے محرومی،دوسری طرف اعدء دین کے دینِ قیّم پر تابڑتوڑ حملے،اب پناہ ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں؟اکابر کے ہوتے ہوئے اس ہیچ مداں کو ہمّت نہ ہوتی تھی کہ اپنے لکھے مضامین کو کتابی شکل میں لے آئے،جوکتابیں چھپی ہیں تو وہ احباب کی توجہ کا نتیجہ ہیں۔اب ،جب کہ زندگی کا چراغ گل ہوتا ہوا نظرآتاہے،میرا ذاتی خیال بھی ہے کہ کچھ پرانے اور کچھ نئے مضامین کتابی شکل میںآ جائیں تو شاید کسی بندئہ خدا کو ان سے فائدہ پہنچ جائے اور رسولِ اکرمﷺکے فرمان:”لان یھدی اللہ بک رجلاََواحدََا خیر لک من حمر النعم“کے تحت خیر میں کچھ حصہ اس گناہ گار کو بھی مل جائے۔“
(مکتوب بنام راقم)
احمد پور شرقیہ اگرچہ جلال پور پیر والا سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے‘ مگر سچی بات یہ ہے کہ راقم الحروف، حضرت مولانا مرحوم کی قد آور شخصیت‘ علمی رفعت اور ان کی قابل قدر خدمات سے جاہل و ناآشنا ہی رہا۔ اور میں سمجھتا ہوں اس میں بھی حضرت مولانا مرحوم کے خمول‘ گوشہ نشینی اور شہرت و ناموری سے نفرت کا ہی دخل تھا۔ حضرت مولانا مرحوم ظاہری سابقے اورلاحقے اور خطابات کے بھی قائل نہ تھے،چنانچہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ علامہ کے لاحقے سے بے چین ہوکر اس کی وضاحت کوبھی ضروری سمجھا،اس لئے آپ لکھتے ہیں:
”ایک بات وضاحتاََ عرض کردوں کہ میرے نام کے ساتھ کہیں آپ کو” علاّمہ“کا سابقہ یالاحقہ نظر آتاہے،تودراصل یہ بہاول پور کی” مرحوم “دینی درس گاہ جامعہ عباّسیہ کی آخری ڈگری ہے۔اس درس گاہ میں کبھی بحرالعلوم حضرت مولاناغلام محمد گھوٹوی،محدث سہارن پوری حضرت مولانا خلیل احمداوراْن کے بعداْن کے بھتیجے حضرت مولانافاروق احمدجیسے کبار علماء،تشنگانِ علوم کوسیراب فرماتے رہے،سرکاری تحویل میں اْس کے ملحقہ مدارسِ عربی بھی ریاست کے طول و عرض میں کام کررہے تھے۔ریاست ختم ہوئی تووحدتِ مغربی پاکستان کے کارپردازوں کو یہ ادارے بوجھ نظر آئے۔نتیجتاََ”جامعہ عبّاسیہ“کی جگہ بہاول پوریونیورسٹی نے لے لی اور ملحقہ اداروں کو ہائی یامڈل سکولوں میں بدل دیا گیا۔میں ایک وقت تک یہاں احمد پور کی درس گاہ کا صدر مدرس رہا،اور دوسری تعلیم کی وجہ سے بعد میں”فاضل ہائی سکول“کاہیڈماسٹررہا:
خزاں رسید وگلستاں بآن جمال نماند
یہاں احمدپور میں” مولوی․ عبداللہ“ نام کے تین آدمی تھے۔احباب نے امتیاز کے لئے میرے نام کے ساتھ”علاّمہ“لکھنا شروع کردیا“ (مکتوب بنام راقم)
حضرت مولانا مرحوم سے پہلا تعارف حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی برکت سے اس وقت ہوا جب انہوں نے حضرت شہید کے نام ایک خط لکھ کر اپنا تعارف کرایا‘ چنانچہ آپ کا مکتوب اور حضرت شہید کا جواب درج ذیل ہے:
”بخدمت گرامی جناب حضرت مولانا محمد یوسف صاحب دام مجدہم و عم فیوضہم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘ مزاج گرامی!
راقم السطور جناب کی گراں قدر تصانیف اور مضامین کے توسط سے جناب سے تعارف رکھتا ہے‘ دین کے سلسلہ میں آپ کی گراں قدر تصنیفی خدمات قابل رشک ہیں۔ ”اختلاف امت اور صراطِ مستقیم“ میں تمام عنوانات پر بالعموم اور مودودیت پر بالخصوص‘ آپ کے قلم سے جو کچھ نکلا ہے‘ کم از کم میرے علم میں اس کی مثال نہیں ہے۔ راقم‘ ایک ہیچ مداں طالب علم ہے‘ اکابر دیوبند …رحمہم اللہ… سے عقیدت اور محبت ہی کو بمصداق :”المرأ مع من احب“ وسیلہٴ نجات سمجھتا ہے۔ ۲۴ سال تک تدریسی شغل رہا‘ دو سال قبل‘ ایک سرکاری درس گاہ کی سربراہی سے فارغ ہوا‘ کبھی کبھار سفید ورق‘ سیاہ کرکے بازار میں لے آتا ہوں …رائلٹی کی غرض سے نہیں، محض دینی خدمت کے جذبہ سے… مودودی صاحب کی کتاب ”خلافت و ملوکیت“ کے جواب میں پچیس سال پہلے :”صحابہ کرام اور ان پر تنقید؟“ لکھی تھی‘ جو پہلی مرتبہ ۱۹۷۰ء میں طبع ہوئی تھی‘ کتاب کے دو ایڈیشن مزید نکل چکے ہیں …لاہور کے مردم خیز شہر سے ایک اور فتنہ ساماں اٹھا ہے… جاوید احمد الغامدی… یہ شخص گمراہی میں اپنے کسی پیشرو سے پیچھے نہیں رہا‘ اس کی ایک تصنیف ”میزان“ کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے۔ اس کے ایک مضمون میں حضرت ماعز اسلمی اور ایک صحابیہ بی بی غامدیہ کو دل کھول کر گالیاں دی گئی ہیں۔ راقم نے اس پر کچھ لکھا تھا‘ جو بعض رسائل میں طبع ہوا اور پھر اسے کتاب کے ان ایڈیشنوں میں بطور ضمیمہ شامل کردیا گیا ہے… مرزائیت کے سلسلہ میں دو کتابیں: ۱․․․ اسلام اور مرزائیت‘ ۲․․․ لہ دعوة الحق طبع ہوچکی ہیں۔ والحمدللہ علی ذلک۔ یہ چند سطور‘ اپنی قصیدہ خوانی کی نیت سے ہرگز نہیں‘ بلکہ محض اور محض اپنے آپ کو جناب سے متعارف کرانے کے لئے لکھی گئی ہیں‘ اس وقت جو کچھ جناب کی خدمت میں عرض کرنا ہے‘ وہ یہ ہے:
چند روز قبل بعض احباب کے پوچھنے پر نماز جنازہ میں قرأتِ فاتحہ و ختم سورة پر کچھ لکھنا پڑا‘ اس سلسلہ میں جناب کی کتاب ”اختلاف امت اور صراطِ مستقیم“ کو اٹھا کر دیکھا تو مسئلہ بالا کے ضمن میں زاد المعاد کا حوالہ نظر آیا‘ اس میں آپ نے نقل فرمایا ہے: ”وکذالک حفظ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الخ“میرے پاس زاد المعاد کا جو نسخہ (مطبوعہ‘ سنتِ محمدیہ‘ منجانب امیر فہد بن عبدالعزیز) ہے‘ اس میں ”کذالک“ نہیں۔ ”لذلک“ ہے اور منقولہ بالا جملہ کے بعد کامہ یعنی اُلٹی واؤ ہے‘ اول تو موقع محل کے لحاظ سے ”لذلک“ موزوں تر معلوم ہوتا ہے اور اگر صحیح لفظ ”کذلک“ ہی ہو تو صلی اللہ علیہ وسلم پر جملہ تام ہوکر ایک بات ختم ہوجائے گی‘ گویا حافظ ابن قیمنے یہ جو کہا ہے کہ نماز جنازہ سے مقصود‘ میت کے حق میں دعا کرنا ہے‘ وہ اسی کو رفع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی محفوظ ہے آگے ”ونقل عنہ“ سے جملہ مستانفہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ میری اس گزارش پر غور فرمالیا جائے‘ میں ایک دفعہ پھر عرض کردینا چاہتا ہوں کہ میری یہ گزارش محض: جذبہ” النصح لکل مسلم“ کے تحت ہے‘ خدانخواستہ اعتراض یا تنقید مقصود نہیں ہے۔ زادالمعاد کا ایک اردو ترجمہ‘ عرصہ ہوا‘ نفیس اکیڈمی کراچی نے چھاپا تھا‘ یہ ترجمہ رئیس احمد جعفری نے کیا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ ترجمہ میں صفحے کے صفحے غائب کردیئے گئے۔ جعفری صاحب نے مضحکہ خیز فاش غلطیاں کی ہیں‘ بطور نمونہ چند مثالیں منسلکہ ورق پر پیش خدمت ہیں۔ طالب علموں کو ان غلطیوں سے آگاہ کردینا‘ ایک علمی اور دینی خدمت ہوگی‘ مگر میں ایک دور افتادہ علاقہ کا رہنے والا ہوں اور پھر کراچی کے اہل قلم اور ناشرین سے کوئی جان پہچان نہیں ہے‘ کیا جناب اس بارے میں کوئی مشورہ یا تعاون فرماسکیں گے؟ جعفری صاحب کی طرح اور بھی کئی مترجم حضرات اس دور میں پیدا ہوگئے ہیں‘ جو: ”من لم یعرف الفقہ قد صنف فیہ کتابا“ کے مصداق فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سردست جناب سے جعفری صاحب کے ترجمہ کے بارے میں مشاورت اور تعاون کی درخواست ہے۔ ․․․․․ والسلام․․․․ الراقم: محمد عبداللہ عفی عنہ
سابق صدر مدرس ‘ مدرسہ عربیہ فاضل احمد پور شرقیہ‘ ضلع بہاول پور‘ ۲۵/ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ“
جعفری صاحب کے ترجمہ کی اغلاط کاایک منظر:
”۱:… علامہ ابن قیمبلد الحرام (مکہ مکرمہ) کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: قضأ حاجت کے وقت اس کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا حرام ہے‘ او ر زیادہ صحیح مذہب یہ ہے کہ : ”لا فرق فی ذلک بین الفضاء والبنیان“ یعنی اس بارے میں کھلے میدان اور عمارت میں کوئی فرق نہیں ہے‘ مگر جعفری صاحب ”البنیان“ کا ترجمہ ”بیابان“ سے کرتے ہیں‘ لکھتے ہیں کہ: ”یہ پابندی ہر جگہ ہے خواہ وہ میدان ہو یا بیابان۔“ (ترجمہ اردو ص: ۴۲)
۲:… مصنف زادالمعاد‘ آنحضرت ﷺکا نسب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ولا خلاف بینہم ان عدنان من ولد اسمٰعیل علیہ السلام‘ وان اسمٰعیل ہو الذبیح علی قول الصواب عند علماء الصحابة والتابعین ومن بعدہم‘ واما القول بانہ اسحق‘ فباطل۔“
صحیح ترجمہ: علماء انساب میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عدنان‘ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی ذبیح ہیں۔ صحابہٴ کرامتابعیناور بعد کے علمأ کے نزدیک یہی قول صحیح ہے اور یہ کہنا کہ حضرت اسحق ذبیح ہیں‘ غلط ہے۔ جعفری صاحب کا ترجمہ :
”اور یہ (عدنان) حضرت اسمٰعیل الذبیح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے‘ صحابہ کرام‘ تابعیناور جمہور علمأ کرام کی یہی تحقیق ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اسحق علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور یہ غلط ہے (ترجمہ اردو ج:۱‘ ص:۶۲)
ملاحظہ کیجئے! بات کچھ سے کچھ بنادی گئی ہے‘ مصنف جس اختلاف کا ذکر کررہے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ذبیح اللہ کون ہیں؟ حضرت اسمٰعیل  یا حضرت اسحق ؟مگر جعفری صاحب اصل مسئلہ کو چھوڑ کر اسے لے بیٹھے کہ عدنان کس کی اولاد میں سے ہیں‘ حالانکہ کسی اپنے یا پرائے نے یہ نہیں لکھا کہ عدنان حضرت اسمٰعیل  کی اولاد میں سے نہیں ہیں‘ حضرت اسحق  کی اولاد میں سے ہیں۔
۳:…آگے حضرت علامہ ابن قیممزید اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کون سے صاحبزادے ”ذبیح“ ہیں‘ اس سلسلہ میں اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کے قول (وہ حضرت اسحق کو ذبیح مانتے ہیں) کی تردید کرتے ہوئے اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ایک استدلال نقل کرتے ہیں:
”ان کا قول خود ان کی کتاب کی رو سے باطل ہے، کیونکہ اس میں لکھا ہے:
”ان اللہ امر ابراہیم ان یذبح ابنہ بکرہ و فی لفظ وحیدہ ولا یشک اہل الکتٰب مع المسلمین ان اسمٰعیل ہو بکر اولادہ۔“
اس عبارت کا صحیح ترجمہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے پہلوٹے بیٹے کو ذبح کریں‘ اور ایک روایت میں اکلوتے کا لفظ آیا ہے‘ اب مسلمانوں کے ساتھ اہل کتاب کو بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت اسمٰعیل  ہی آپ کے پہلوٹے بیٹے ہیں۔ (لہٰذا وہی ذبیح ہوئے)
جعفری صاحب نے خط کشیدہ لفظ بکر کا ترجمہ غلط کرکے کیا گل کھلائے ہیں؟
قارئین ملاحظہ فرمائیں‘ وہ لکھتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ باوجود نہ چاہنے کے اپنے بیٹے کو اور ایک روایت کے مطابق اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کردیں‘ اب اہل کتاب اور مسلمان دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ان کی نرینہ اولاد ہیں۔“ (زادالمعاد اردو ج:۱‘ ص:۶۲)
جعفری صاحب نے پہلی جگہ” بِکْرِہ“ کو” بِکُرْہ“ٍ پڑھا اور معنٰی غلط کردیا‘ دوسری جگہ بکر کا ترجمہ نرینہ سے کیا‘۔تعجب ہے کہ نہ تو حضرت کے سامنے کوئی لغت تھی کہ اسے اٹھاکر بکر کا ترجمہ دیکھ لیتے‘ نہ پھر آگے کتاب میں انہیں یہ جملہ نظر آیا کہ :”بکر الاولاد احب الی الوالدین عمن بعدہ“ (یعنی پہلوٹی اولاد، والدین کے نزدیک بعد والی سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ بندئہ خدا نے یہ نہ سوچا کہ بکر کا ترجمہ نرینہ ہو تو پھر من بعدہ کا کیا مطلب ہوگا؟) پھر یہ بھی نہ سوچا کہ حضرت اسحق  بھی تو بیٹے اور نرینہ اولاد تھے۔ حضرت اسمٰعیل  کو بکر کہنے کی تخصیص کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
۴:… ازواجِ مطہرات کے ذکر میں حضرت عائشہ کے حالات میں حافظ ابن قیم تحریر فرماتے ہیں:
”وقیل: انہا اسقطت من النبی صلی اللہ علیہ وسلم سقطاً‘ ولم یثبت“
اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ”بعض لوگ کہتے ہیں کہ بی بی صاحبہ کا آنحضرتﷺسے ایک حمل ساقط ہوا تھا‘ مگر یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔“
جعفری صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں اور عربی زبان کے ساتھ تاریخ ِنبوت کا بھی خون کرتے ہیں‘ ملاحظہ ہو:
”ایک روایت کے مطابق نبیﷺنے ان سے کچھ دیر کے لئے مقاطعہ کیا تھا‘ لیکن یہ روایت پایہٴ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔“ (ص:۹۰)
۵:… ام المومنین حضرت امِ حبیبہ کا حال لکھتے ہوئے‘ حافظ ابن قیم نے ایک روایت نقل کی ہے کہ یہ عقد حضرت ابو سفیان کی درخواست پر ہوا تھا‘ پھر اس روایت پر علمی بحث کی ہے‘ ترجمہ میں غلطیاں آجانے سے پوری بحث‘ چیستاں بن کر رہ گئی ہے‘ کتاب میں ا یک جملہ ہے:
”وقد اکثر الناس الکلام فی ہذا الحدیث‘ و تعددت طرقہم فی وجہہ“
مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے اس حدیث میں بڑی لے دے کی ہے اور اس کی توجیہ بیان کرنے میں مختلف صورتیں اختیار کی ہیں‘ چنانچہ بعد میں مصنف نے چھ توجیہیں نقل کی ہیں‘ مگر جعفری صاحب علمی اصطلاحات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ترجمہ یوں کرتے ہیں:
”اس روایت پر کافی جرح بھی کی گئی ہے اور اسناد میں بھی اختلاف ہے۔“ (ترجمہ اردو ص:۹۴)
۶:… آنحضرت ﷺکے مکتوبات کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: ”فاتخذ خاتماً من فضة“ یعنی خطوط پر مہر لگانے کے لئے آپﷺنے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوالی‘ مگر جعفری صاحب لکھتے ہیں: ”سونے کی انگوٹھی“ (ترجمہ ج:۱‘ ص:۱۰۰)
معلوم ہوتا ہے کہ جعفری صاحب کو ”فضة“ کا صحیح معنی معلوم ہی نہیں تھا‘ وہ اور بھی کئی جگہ اس کا ترجمہ ”سونا“ سے کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺکے ایک پیالے کے بارے میں کتاب میں لکھا ہے: ”مضبب بسلسة من فضة“یہاں بھی وہ ”سونے کی زنجیر “لکھتے ہیں۔ (ج:۱‘ ص:۱۰۹)
۷:… آنحضرتﷺکے لباس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف علام‘ صحیح بخاری سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: ”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیٰ عن المیاثر الحمر“ میاثر‘ میثرہ‘کی جمع ہے‘ جس کے معنی ہیں‘ بچھونا یا وہ کپڑا جو خوشنمائی کے لئے گھوڑے وغیرہ کی زین پر ڈال دیا جائے اور ”حمر‘ حمراء“ کی جمع ہے ‘ بمعنیٰ ”سرخ“ صحیح ترجمہ یوں ہے کہ نبی اکرمﷺنے سرخ بچھونوں سے رکاوٹ فرمائی ہے۔ مگر جعفری صاحب ”حمر“ (بسکون المیم) کو ”حمر“ (بضم المیم) پڑھتے ہیں‘ جو ”حمار“ کی جمع ہے اور آپ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ”نبیﷺ نے گدھوں کی سرخ کاٹھیوں سے منع فرمایا۔“ (ج:۱‘ ص:۱۱۳)
کرشمہ دیکھئے کہ بیک وقت حمر کا ترجمہ ”گدھوں“ سے بھی کررہے ہیں اور ”سرخ“ سے بھی‘ لفظ ایک ہے‘ معنی دو‘ پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ عربی عبارت کا خط کشیدہ لفظ مرکب توصیفی ہے نہ کہ مرکب اضافی۔
۸:… کھانے پینے کے بیان میں مصنف تحریر فرماتے ہیں:
”وکان لا یأکل متکئاً‘ والاتکاء علی ثلاثة انواع‘ احدھا: الاتکاء علی الجنب‘ والثانی: التربع‘ و الثالث‘ الاتکاء علی احدی یدیہ واکلہ بالاخری‘ و الثلاث مذمومة۔“
اس کا صحیح ترجمہ : آپ سہارا لگا کر نہیں کھاتے تھے‘ سہارا لگانے کی تین صورتیں ہیں‘ ایک یہ کہ پہلو پر سہارا لے لے‘ دوسری: آلتی پالتی مار کر بیٹھنا‘ اور تیسری: ایک ہاتھ پر سہارا لے کر دوسرے سے کھانا‘ اور یہ تینوں صورتیں بری ہیں۔
مگر جعفری صاحب اس عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
”آپ سہارا لگاکر نہیں کھاتے تھے‘ آپ تین طرح سے تکیہ لگاتے تھے‘ کبھی ایک طرف سہارا لگاکر بیٹھتے‘ کبھی پلتھی مارکر اور کبھی ایک ہاتھ سے سہارا لگاتے اور دوسرے سے کھاتے۔“ (ج:۱‘ ص:۱۱۹)
جعفری صاحب کو نہ تو پیچھے اپنا لکھا ہوا ”نہیں“ کا لفظ یاد رہا‘ نہ آگے کتاب میں ”والثلاث مذمومة“ لکھا نظر آیا اور یوں ایک غلط بات حضور اقدسﷺکی طرف منسوب کردی۔
۹:… رات کو آرام فرمانے‘ بالخصوص دوران سفر پڑاؤ ڈالنے کے بارے میں آنحضرت ﷺکی سیرت کے ضمن میں ابوحاتم کی ایک روایت نقل کی گئی ہے:”
کان اذا عرس باللیل توسد بیمینہ“
ترجمہ یہ ہے کہ جب آپ ﷺرات کونزول فرماتے تو دائیں بازو کو تکیہ بنالیتے‘ مگر جعفری صاحب اس جملہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ”آپﷺرات کو کسی منزل پر اترتے تو دائیں پہلو پر آرام فرماتے۔“ (ص:۱۲۷)
پھر دو تین جملے کے بعد کتاب میں یہ لکھا ہے کہ:
”والتعریس انما یکون قبیل الصبح“
یعنی تعریس رات میں اترنے کو نہیں کہتے‘ صبح سے تھوڑی دیر پہلے اترنے کو کہتے ہیں‘ مگر جعفری صاحب تعریس کا معنی لکھتے ہیں ”اکڑوں بیٹھنا“ کاش! ان سے دریافت کیا جاسکتا کہ حضرت! جو مسافر رات کو کسی جگہ اترتا ہے‘ کیا وہ اتر کر اکڑوں بیٹھ جاتا ہے؟ آخر اس ترجمہ کی کیا تک بنتی ہے؟
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: صدام کے بعد اگلا ہدف
Flag Counter