Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

3 - 9
علم اور علماء کی فضیلت
علم اور علماء کی فضیلت


ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”یرفع الله الذین اٰمنوا منکم والذین اُوتوا العلم درجٰت۔“ (المجادلة:۱۱)
ترجمہ :اللہ بلند کرے گا ان کے لیے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔
’ ’قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون۔“ (الزمر:۹)
ترجمہ:- ”آپ فرمادیجئے کیا برابر ہیں جو علم نہیں رکھتے اور وہ جو علم رکھتے ہیں؟“
مذکورہ دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ علم کا مرتبہ غیر اہلِ علم سے بڑا ہے، اور صحیح حدیث میں ہے:
”طلب العلم فریضة علٰی کل مسلم۔“ (مشکوٰة، ص:۳۴)
ترجمہ:- ”علم کا طلب کرنا فرض ہے ہر مسلمان پر (خواہ وہ مرد ہو یا عورت)۔“ اب یہ واضح ہے کہ فرض کا چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے اور جس کام کا کرنا بندہ پر فرض ہے، اس کام کے کرنے کا طریقہ سیکھنا بھی اس کے ذمہ فرض ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ، آیت:
”والذین اُوتوا العلم درجٰت“
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”یرفع الله الموٴمن العالم علی الموٴمن غیر العالم ورفعہ الدرجات تدل علی الفضل والمراد بالعلم، العلم الشرعی۔“ (فتح الباری، ج:۱، ص:۱۴۱)
ترجمہ:- ”اللہ تعالیٰ موٴمن عالم کو موٴمن غیر عالم پر فضیلت عطا فرماتے ہیں، #لیکچرار گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ۔
اور درجات کی رفعت علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، اور یہاں علم سے مراد علمِ شرعی ہے۔“ امام فخرالدین رازی، آیت:
”وعلم اٰدم الأسماء کلھا“
کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”یہ آیت علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق میں اپنی حکمت کے کمال کو صفتِ علم کے ذریعے ظاہر فرمایا، اگر علم سے اشرف کوئی شے ہوتی تو
”لکان من الواجب اظھار فضلہ بذٰلک الشیٴ“
یعنی پھر ضروری ہوتا اظہار کرنا اس شے کے ذریعے اپنے فضل کا، مگر اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت کو اپنے فضل کے اظہار کے لئے منتخب فرماکر علم کے اشرف و افضل ہونے کو واضح فرمایا۔“ (تفسیر کبیر، ج: ۲، ص:۱۹۸)
ایک جگہ ارشادِ خداوندی ہے:
”فاحتمل السیل زبدًا رابیًا۔“ (ابراہیم:۱۷)
اس آیت کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ سیل سے مراد یہاں علم ہے، حق تعالیٰ نے علم کو پانچ وجوہ کے سبب پانی سے تشبیہ دی ہے:
۱:- ”ان المطر ینزل من السماء، کذٰلک العلم من السماء۔“
ترجمہ:- ”بارش آسمان سے اُتری ہے، اسی طرح علم بھی آسمان سے اُترتا ہے۔“
۲:- ”ان صلاح الأرض بالمطر، فاصلاح الخلق بالعلم۔“
ترجمہ:- ”بے شک زمین کی دُرستگی بارش سے ہوتی ہے، پس مخلوق کی اصلاح علم سے ہوتی ہے۔“
۳:- ”ان الزرع والنبات لا یخرج بغیر المطر، کذٰلک الأعمال والطاعة لا تخرج بغیر العلم۔“
ترجمہ:- ”بے شک کھیتی اور پودے بغیر بارش کے نہیں نکلتے، اسی طرح اعمال اور اطاعت بغیر علم کے نہیں نکلتے۔“
۴:- ”ان المطر فرع الرعد والبرق، کذٰلک العلم، فان العلم فرع الوعد والوعید۔“
ترجمہ:- ”بارش کڑک اور بجلی کی فرع ہے، اسی طرح علم فرع ہے وعد اور وعید کی۔“
۵:- ”ان المطر نافع وضار، کذٰلک العلم نافع وضار، نافع لمن عمل بہ، وضار لمن لم یعمل بہ“
ترجمہ:- ”بے شک بارش نافع بھی ہے اور نقصان دہ بھی، اسی طرح علم نافع بھی ہے اور نقصان دہ بھی، علم پر عمل کرنے والوں کے لئے علم نفع مند ہوتا ہے، اور علم پر عمل نہ کرنے والوں کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔“ (کشکولِ معرفت، حکیم مولانا محمداختر، ص: ۲۹۰)
امام رازی، تفسیر کبیر، ج:۲، ص:۱۹۶ پر تحریر کرتے ہیں کہ:
”فان الله تعالیٰ وصف العلماء فی کتابہ بخمس مناقب۔“
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں علماء کے پانچ مناقب بیان فرمائے ہیں:
۱:- الایمان:- جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
”والرّٰسخون فی العلم یقولون اٰمنا بہ۔“ (آل عمران:۷)
ترجمہ:- ”اور جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں۔“
۲:- التوحید والشہادة:-
جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
”شھد الله انہ لا الٰہ الا ھو والملٰئکة واولوا العلم۔“ (آلعمران:۱۸)
ترجمہ:- ”گواہی دی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی کہ بجز اس کی ذات کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں ہے اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی۔“
۳:- البکاء:-
جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
”یخرون للأذقان یبکون ویزیدھم خشوعا۔“ (بنی اسرائیل:۱۰۹)
ترجمہ:- ”اور ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے اور یہ قرآن ان کا خشوع بڑھادیتا ہے۔“
۴:- الخشوع:-
جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
”ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلٰی علیھم یخرون للأذقان سجدا۔“ (بنی اسرائیل:۱۰۷)
ترجمہ:- بے شک جن کو قرآن سے قبل علم دیا گیا تھا، یہ قرآن جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔“
۵:- الخشیة:-
جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
”انما یخشی الله من عبادہ العلمٰٓوٴُا“ (فاطر:۲۸)
ترجمہ:- ”خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔“
جس شخص کی موت طالب علمی کے زمانے میں ہو، اس کو شہادت کی موت نصیب ہوگی۔ طلبِ علم کی حالت میں موت شہادت ہے، اگرچہ پورا انہماک نہ ہو، جیسا کہ علامہ شامی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:
”ان کان لہ اشتغال بہ تألیفًا أو تدریسًا أو حضورًا فیما یظھر ولو کان یوما درساً ولیس المراد الانھماک۔“ (شامی، ج:۱، ص:۶۷۳)
ترجمہ:- ”علم کے ساتھ اشتغال کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ تالیف کا سلسلہ ہو یا تدریس کا، یا صرف کسی درس میں شامل ہوتا ہو، اگرچہ ایک دن میں ایک ہی درس ہو، یعنی انہماک مراد نہیں۔“ یہاں سے تو علماء اور علم کی فضیلت اور اس کا ضروری ہونا ثابت ہوا، لیکن فضیلتِ علم کا منشا یہ ہے کہ اس کے ساتھ عمل ہو، کیونکہ عبادت بغیر علم کے نہیں ہوسکتی، اور جو ہوتی ہے وہ عبادت کی محض صورت ہوتی ہے۔ علم سے مراد یہ بھی نہیں کہ محض الفاظ کی صحت کرلی ہو اور ان کا ترجمہ جانتا ہو، بلکہ علم ایک نور ہے، جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس“ (الانعام:۱۲۲)
ترجمہ:- ”اور ہم نے کردیا اس کے لئے ایک نور جس کو وہ لوگوں کے درمیان لئے پھرتا ہے۔“
علمے کہ راہِ حق نہ نماید جہالت است
یعنی حقیقی علم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو، اور وہ بدوں عمل کے حاصل نہیں ہوسکتی، پس علم بدوں عمل کے جہالت ہے:
علم چہ بود آنکہ رہ بنمایدت
زنگ گمراہی زدل بزدایدت
دین ہوسہا از سرت بیروں کند
خوف و خشیت در دلت افزوں کند
علم نبود غیر علم عاشقی
ما بقی تلبیس ابلیس شقی
علم چوں بر دل زنی یارے بود
علم چوں برتن زنے مارے بود
(شریعت و طریقت، ص:۳۹۱)
یعنی علم وہ ہے جو تیری راہ نمائی کرسکے اور دِل سے گمراہی کا زنگ دُور کرسکے، خواہشاتِ نفسانی دماغ سے نکال باہر کرے، دِل میں خوف و خشیت کا اضافہ کرے، علم فی الحقیقت علم عشق ہے اور اس کے ماسوا بدبخت شیطان کے مکر و فریب ہیں، علم جب دِل میں پیوست ہوگا، دوست اور مفید ہوگا، اور جب بدن اور ظاہری جوارح و اعضاء تک محدود رہے گا، وہ مثل سانپ ہوگا، یعنی سراسر مضر اور نقصان دہ ہوگا۔ اس سلسلے میں مُلَّا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”من عصی الله فھو جاھل، لأن العلم اذا لم یکن مورثا للعمل فلیس علما فی الشریعة۔“ (مرقات، ج:۴، ص:۳۳۳)
ترجمہ:- ”اللہ کا ہر نافرمان جاہل ہے، کیونکہ جو علم سببِ عمل نہ ہو، وہ شریعت میں علم نہیں۔“
مولانا رُومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علم آں باشد کہ بکشاید رہے
راہ آں باشد کہ پیش آید شہے
ترجمہ:- ”علم وہ ہے جو عمل کا راستہ کھول دے، اور راستہ وہ ہے جو حق تعالیٰ تک پہنچادے۔“
علامہ آلوسی رحمہ اللہ (تفسیر روح المعانی، ج:۲۳، ص: ۲۴۶ پر)
”ھل یستوی الذین یعلمون“
کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں:
”فیعلمون مقتضی علمھم “
اور
”والذین لا یعلمون“
کی تفسیر
”بمقتضی جھلھم وضلالھم“
سے فرمائی ہے، یعنی اہل علم وہ ہیں جو اپنے علم کے مقتضی پر عمل کرتے ہیں اور جاہل وہ ہیں جو جہل کے مقتضی پر عمل کرتے ہیں۔
حق تعالیٰ اہل علم کے فضائل کو بیان فرماکر آگے ارشاد فرماتے ہیں:
”و اللّٰہ بما تعملون خبیر۔“ (المجادلہ:۱۱) (ای فیجازیکم علیہ)
اے اہل علم! اپنے اعمال کا بھی محاسبہ کرنا کہ اپنے علم کے مطابق عمل بھی کیا یا نہیں؟ پس تم کو ان اعمال کی جزا ملے گی، اس آیت کے اندر عمل کے اہتمام کی ترغیب دی گئی ہے۔ جیسا کہ تفسیر مظہری میں ہے:
”فیہ ترغیب لمن عمل وتھدید لمن لم یتمثل الأمر واستکرھہ۔“
(تفسیر مظہری، ج:۹،۱۰، ص:۲۲۴،۲۲۵)
یعنی اس آیت میں عمل کی ترغیب ہے اور ڈانٹ ہے ان لوگوں پر جو عمل اور اطاعت نہیں کرتے اور امتثالِ اَمر کو ناگوار سمجھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں صحیح علم حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: حضرت مولانا عبد المجید صاحب کو صدمہ
Flag Counter