ان اشعار کا پڑھنا تھا کہ سوئی ہوئی طبیعت جاگ اٹھی اور ایسا معلوم ہوا کہ کھوئی ہوئی چیز مل گئی، میں سمجھتا ہوں کی بیسیوں آدمیوں کو اس نعت کے پڑھنے سے اسی طرح کا فائدہ حاصل ہوا ہوگا۔
اِسی طرح ان کے اس مضمون سے دریائے شوق اور حبّ رسول میں اگر تلاطم نہیں تو تموج ضرور پیدا ہوا ہوگا اور یہ کوئی معمولی بات اور کوئی ارزاں اور حقیر دریافت نہیں ہے، اس کے بغیر دل ویران اور زندگی سونی ہے اور اگر کوئی طویل وقت اس لذت و عزّت کے بغیر گزر جائے تو وہ عمر میں شمار ہونے کے قابل نہیں، امیر خؔسروؒ نے اسی حقیقت کو اپنے خاص انداز میں بیان کیا ہے
ناخوش آں وقتے کہ بر زندہ دلاں بے عشق رفت
ضائع آں روزے کہ بر مستاں بہ ہشیاری گزشت
حج کے سفرنامے اور مدینہ طیبہ کی حاضری کی رودادیں تو اردو میں بہت ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر دلچسپ و پر از معلومات، مفید اور سفر کرنے والوں کے لئے ضروری لیکن یہ البیلا طرز بیان اور یہ عاشقانہ و مستانہ داستان آپ کو ہر جگہ نہیں ملے گی، کہ یہ مولانا کا طرز خاص ہے اور کم سے کم اس موضوع کے لئے سفر از ضرور مناسب اور مفید ہے کہ شوق انگیز بھی ہے اور ولولہ خیر بھی، اور اسی کے ساتھ علم آموز بھی اور خیال افروز بھی، عازمین حج و زیارت کی خدمت میں مخلصانہ مشورہ ہے وہ وہاں کی حاضری سے پہلے اس کو ضرور پڑھ لیں اور اپنے اندر وہاں کی حاضری سے پہلے حاضری کا شوق اور اس مقام کا ادب و احترام اور اس کا مرتبہ و مقام سمجھ لیں، اور کوشش کریں کہ جس کے متعلق عزؔت بخاری نے کہا ہے؏
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا!
وہاں کے لئے اسی طرح اندرونی طور پر تیار ہو کر جائیں، جس طرح سفر کو سہولت و راحت کے ساتھ طے کرنے اور حج و زیارت کو صحیح طور پر ادا کرنے کے لئے ( فقہی کتابوں اور سفر ناموں کے ذریعہ) بیرونی طور پر تیار ہو کر جاتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مختصر سا سفر نامہ اور مدینہ کی حاضری و قیام کے مشاہدات و تاثرات کی روداد اس مقصد کے لئے مفید و معاون ثابت ہوگی ۔
ابوالحسن علی ۔ ۳ ذی الحجّہ الحرام ۹۹۳۱ھ (لکھنؤ)