Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

9 - 10
جِ بیت اللہ‘ چند ہدایتیں
جِ بیت اللہ‘ چند ہدایتیں
اور حجاج کرام سے چند شکایتیں

حجِ بیت اللہ الحرام مسلمان کے لئے یہ فریضہ ادا کرنا گونا گوں برکتوں کا ذریعہ ہے اور حیرت انگیز نعمتوں کا وسیلہ ہے‘ باوجودیکہ سابقہ مشکلات ختم ہوگئیں اور بہت کچھ آسانیاں پیدا ہوگئیں ہیں‘ تاہم دور دراز کا سفر ہے‘ ہزاروں روپے کا خرچ ہوتا ہے‘ اکثر لوگوں کو زندگی میں ایک ہی مرتبہ جانا میسر ہوتاہے اور اب بھی بہت کچھ مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں‘ ایسی صورت میں بے حد ضروری تھا کہ مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی میں انتہائی احتیاط برتیں‘ مسائلِ حج سے کامل واقفیت حاصل کریں‘ اسی لئے ہرزبان میں مسائل واحکامِ حج سے متعلق چھوٹی بڑی کتابیں شائع ہوچکی ہیں‘تاکہ شرعی قانون کے مطابق صحیح طور پر حج ادا ہوسکے‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ مخلوقِ خدا کا یہ عظیم انبوہ جو ملک کے ہرگو شے سے پہنچ رہا ہے‘ اکثر وبیشتر اس فریضہ کے احکام ومسائل سے بالکل بے خبر ہے‘ سنن ومستحبات تو درکنار فرائض وواجبات سے بھی غافل ہے‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اتنا ہی نہیں کہ محظورات وممنوعات کا برابر ارتکاب ہوتا رہتا ہے‘ بلکہ اور تمام گناہوں تک سے بچنے کا ذرہ برابر اہتمام نہیں ہوتا‘ نمازوں کے ادا کرنے میں تقصیر‘ جماعت کی پابندی میں کوتاہی ‘ حالانکہ ایک فرض نماز بھی حج سے بدرجہا زیادہ اہمیت رکھتی ہے‘ اگر بغیر عذرِ شرعی ایک نماز بھی قضا کی تو حج قبول ہونے کی توقع مشکل ہوجاتی ہے‘ سفر میں خصوصاً احرام باندھنے کے بعد بجائے تلبیہ کہنے اور ذکر اللہ کرنے کے عام طور پر غیبتیں کرتے ہیں‘ بکواس بکتے رہتے ہیں‘ نہ زبان پر قابو نہ نگاہ پر قابو‘ نہ ہاتھ پاؤں پر‘ بلکہ بسا اوقات دیکھاگیاہے کہ مسجد حرام میں بیٹھے ہیں‘ نماز کا انتظار ہورہاہے اور فضولیات بک رہے ہیں‘ غیبت میں مبتلا ہیں‘ حالانکہ زندگی کے اس عظیم مرحلے پر پہنچ کر تو تمام اوقات عبادت اور توبہ واستغفار ‘ انابت الی اللہ سے معمور ہونے چاہئیں‘تاکہ ان مقدس مقامات کی برکات سے مالا مال ہوں‘ گناہوں سے پاک وصاف ہوکر ایسے واپس ہوں جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے ولادت ہوئی ہے دنیا میں دو بارہ آئے ہیں۔
بعض حضرات مستحبات وآداب میں تو غلو کرتے ہیں لیکن فرائض وواجبات میں تقصیر کرتے رہتے ہیں اور دورِ حاضر کے اکثر حجاج کو دیکھ کر تو یہ شبہ ہوجاتاہے کہ شاید کسی میلہ یا تماشہ کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں‘ عورتوں پر دہ فرض ہے‘ مگر حرمین شریفین میں پہنچ کر اکثر عورتیں بلکہ ۹۹ فیصد برقع پوش عورتیں بھی برقع پھینک کر بے حجاب ہو جاتی ہیں اور اس طرح ”گناہِ کبیرہ“ کی مرتکب ہوتی ہیں‘ نہ صرف بے حجاب بلکہ بسا اوقات نیم عریاں لباس میں بیت اللہ کا طواف کرتی ہیں اور افسوس اس کا ہے کہ نہ شوہر اور نہ ان کے محرم حضرات اس بے حجابی کو روکنے کی تدبیر کرتے ہیں‘ نہ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے‘ بے محابا مردوں کے درمیان گھستی ہیں‘ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے مردوں کی دھکا پیل میں جان بوجھ کر گھستی ہیں‘ اور پستی ہیں اجنبی مردوں کے ساتھ شدید وقبیح اختلاط میں مبتلا ہوتی ہیں‘ یہ سب حرام ہے گناہ کبیرہ ہے‘ ایسا حج کہ جس میں اول سے آخر تک محرمات اور کبائر سے احتراز نہ ہو سکے‘ کیا توقع ہے کہ وہ حج قبول ہوگا؟ ”حج مبرور“ کے لئے جزاء جنت بے شک ہے‘ لیکن حج مبرور کیسے ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ مبرور کا بیان فرمایاہے کہ حج کرے اور اس میں کوئی بھی بے حیائی کا کام نہ کرے‘ کوئی گناہ نہ کرے‘ تب گناہوں سے پاک وصاف ہوگا جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوا ہے۔
پاکستان وہندوستان کی بعض عورتیں مصر وشام وغیرہ بعض ملکوں کی عورتوں کو دیکھ کر کہ وہ بے پردہ ہیں‘ خود بھی پردہ اٹھادیتی ہیں اور حرم میں اس طرح آتی ہیں جیسے تمام مرد ان کے محرم ہیں یا وہ گھر کے صحن میں پھر رہی ہیں‘ لیکن یہ انتہائی حماقت ہے‘ اگر کوئی قوم کسی گناہ میں مبتلا ہے تو اس سے گناہ جائز نہیں ہوجاتا‘ پھر دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کی بے پردگی یعنی چہرہ کا کھلا ہونا ایک خاص سنجیدگی اور وقار کے ساتھ ہوتی ہے‘ لباس بھی ان کا سرسے پاؤں تک باحجاب ہوتا ہے‘ پاؤں تک میں موزے ہوتے ہیں‘ لیکن پاکستانی عورتوں کا خصوصاً پنجاب وسندھ کی عورتوں کا لباس تو انتہائی بے حیائی کا ہوتا ہے‘ تمام نسوانی اعضاء نمایاں ہوتے ہیں‘ بے محاباسینہ تان کر چلتی ہیں‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ عورتیں بھی اس بے حیائی کی وجہ سے معصیت وفسق میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان کے شوہر بھی ان کی اس بے حجابی پر گنہگار ہوتے ہیں‘ کیونکہ وہ ان کو مطلق منع نہیں کرتے‘ کوئی اصلاح نہیں کرتے نہ روکتے ہیں نہ ٹوکتے ہیں یہ تو کھلی بے حیائی اور بے غیرتی ہے۔
ان سے سے بڑھ کر ایک اور عام ابتلاء یہ ہے کہ تمام عورتیں پنج وقتہ نمازوں میں مردوں کی طرح حرم میں پہنچتی ہیں‘ باوجودیکہ عورتوں کے لئے دروازے بھی مخصوص ہیں اور نماز پڑھنے کی جگہیں بھی متعین ہیں‘ مگر حج کے زمانہ میں چونکہ ازدہام بے حد ہوتا ہے‘ مستقل جگہ پر نہیں پہنچ پاتیں تو مردوں کے درمیان صفوں میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور نماز پڑھنا شروع کردیتی ہیں۔
مسجدِ حرام اور مسجد نبوی کی نماز اور عورتیں
پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح اپنے وطن میں عورتوں کو تنہا نماز گھروں میں پڑھنا افضل ہے‘ اسی طرح مکہ ومدینہ میں بھی عورتوں کے لئے نماز گھروں میں تنہا بغیر جماعت کے پڑھنا افضل ہے اور مکہ ومدینہ میں نماز کا جو ثواب حرم اور مسجد نبوی کا ہے وہ ان کو گھروں پر پڑھنے میں اس سے زیادہ ملتا ہے جو مسجد میں مردوں کو ملتاہے‘ ایسی صورت میں حرمین شریفین میں عورتوں کو نماز گھروں میں ہی پڑھنی چاہئے‘ بالفرض کسی وقت بیت اللہ کے دیکھنے کی غرض سے یا طواف کرنے کی غرض سے مسجد حرام یا صلوٰة وسلام کی غرض سے مسجد نبوی میں آئیں اور نماز باجماعت پڑھ لیں تو ادا ہوجاتی ہے‘ بشرطیکہ مردوں کے درمیان نہ کھڑی ہوں‘ ایک عورت اگر مردوں کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہے تو تین مردوں کی نماز خراب ہوجاتی ہے‘ دائیں بائیں کے دو مردوں کی‘ اس کی محاذات (سیدھ) میں جو مرد کھڑا ہے اس کی بھی‘ تینوں کی نمازیں فاسد ہوگئیں‘ بالفرض بغیر ارادے کے کوئی عورت اتفاقیہ طور پر عین نماز کے وقت صفوں کے درمیان پھنس جائے اور نکلنا دشوار ہو جائے یا طواف کرنے کے درمیان نماز کھڑی ہوجائے تو اس وقت اس کو خاموش بغیر نماز کے جہاں بھی ہو بیٹھ جانا چاہئے نماز کی نیت ہرگز نہ کرے‘ ورنہ مردوں کی نماز بھی خراب ہوگی‘ جب امام نماز سے فارغ ہوجائے تو پھر تنہا وہیں وہ اپنی نماز ادا کرلے‘ عورتوں کو بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے بھی ایسے وقت میں جانا چاہئے جب نماز کا وقت نہ ہو‘ اس وقت نسبتاً بھیڑ بھی کم ہوتی ہے اور اگر اتفاقاً نماز کا وقت ہوجائے تو اذان ہوتے ہی جلدی جلدی طواف پورا کرکے یا طواف درمیان میں چھوڑ دیں اور جتنے شوط (چکر) رہ گئے ہیں وہ نماز کے بعد جہاں چھوڑے تھے وہیں سے پورے کر دیں یا اسی طواف کو دوبارہ کرلیں‘ بہرحال گناہ سے بچنا بے حد ضروری ہے اور بھی بہت سی کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان سب میں نماز اور بے پردگی کا مسئلہ میرے خیال میں سب سے زیادہ اہم ہے،بہرحال حج ایک ایسا اہم فریضہ ہے جو زندگی میں بار بار ادا کرنا بے حد مشکل ہے‘ اس لئے چاہئے کہ مرد ہوں یا عورتیں انتہائی احتیاط کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوں۔
نیز یہ بھی خیال رہے کہ بعض عورتیں اپنے ملکوں میں بھی پردہ نہیں کرتیں اور گویا مستقل طور بے پردہ رہتی ہیں‘بلاشبہ یہ گناہِ عظیم ہے اور ایک فرض حکم کی خلاف ورزی ہے‘ لیکن انہیں بھی حجِ بیت اللہ کے سفر میں تو چاہئے کہ اس گناہِ عظیم سے بچیں‘ تاکہ یہ فریضہ تو صحیح طریقے سے ادا ہو‘ آج کل بہت سی عورتیں بغیر محرم کے سفر کرتی ہیں یہ بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے جس عورت کا کوئی محرم نہ ہو اس پر حج فرض ہی نہیں ہوتا بلکہ اگر محرم ہو بھی لیکن حج پر قادر نہ ہو یا عورت اس کے مصارف برداشت کرنے کے قابل نہ ہو تب بھی حج فرض نہ ہوگا‘ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حج بھی فرض نہ ہو اور پھر وہاں جاکر حج میں اتنی فروگذاشتیں بھی ہوں؟ جب شرعاً اس کے ذمہ حج فرض ہی نہیں ہے تو یہ حج کا سفر کیوں اختیار کیا جاتاہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حج بیت اللہ میں حجاج کرام سے اس قسم کی کوتاہیوں اور خلافِ شرع حرکتوں کی وجہ سے ہی حج کی برکتیں ختم ہوتی جاتی ہیں اور باوجود حجاج کی کثرت کے امت جس مقام پر کھڑی ہے وہاں سے روز افزوں تنزل میں جارہی ہے‘ اگر اتنی کثرت سے حجاج کرام صحیح طریقہ پر یہ فریضہ ادا کرتے اور ہم سب کا حج بار گاہِ اقدس میں شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوتا تو شاید دنیا کا نقشہ ہی بدل جاتا‘ حق تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح فہم اور توفیق خیر نصیب فرمائیں۔
حج اور اس کے فوائد واسرار
حجِ بیت اللہ الحرام دینِ اسلام کا اساسی رکن اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کا فریضہٴ عینی ہے‘ اسلام کے بنیادی امور میں اصلی جوہر اور روح عبادت ہے‘ ان سب صورتوں میں احکم الحاکمین کے حکم سے طریقہٴ عبادت اور اظہارِ عبدیت وعبودیت کی تعیین کی گئی ہے‘ اس روح کے لئے جو قالب مقرر کیا گیا ہے وہ بھی من جانب اللہ ہے اور کسی انسانی عقل کا اس میں دخل نہیں ہے‘ روح اور جسد دونوں ہی وحی ربانی کا کرشمہ ہیں اور یہ دائرہ ٴ عقل اور ادراک انسانی سے ماوراء ہے جس طرح روح مامور بہ ہے اسی طرح یہ جسد اس لئے مطلوب ومقصود ہے‘ ”ذلک تقدیر العزیز العلیم“ لیکن عبادت وعبدیت کے طریقوں کے ماوراءِ عقل ہونے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ عقل وادراک اس کے محاسن اور منافع وثمرات کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے‘ نماز ہو یا روزہ‘ زکوٰة ہو یا حج جہاں تک عقل کی رسائی ہے ان کے اسرار وحکم کی طرف جو رہنمائی ہوئی ہے وہ بجائے خود حیرت انگیز ہے۔
بہار عالم حسنش دل وجان تازہ می دارد
برنگ اربابِ صورت رابہ بو اربابِ معنی را
نماز اور خصوصاً باجماعت اور اذان واقامت میں وقت کی پابندی کے ذریعہ امت محمدیہ میں ایک خاص نظم ونسق کے ساتھ کیسے کیسے فوائد وبرکات کا نظام قائم کیا گیاہے‘ روزہ میں ضبطِ نفس اور پاکیزگی روح کی کیسی نتیجہ خیز اور اثر انگیز تدبیریں کار فرماہیں‘ زکوٰة میں فقراء ومساکین کی حاجات وضروریات کی تکمیل کے لئے کیسا عجیب نظم پیدا کیا گیا ہے‘ اسی طرح حج بیت اللہ میں اصلاح نفس اور اجتماعی تعاون کی تدبیریں‘ تربیت خلائق اور ہدایت عالم کی مصلحتیں مضمرہیں‘ تعظیم شعائر اللہ اور تجلیاتِ الٰہیہ کے مرکز بیت اللہ کے طواف میں مشاعر مقدسہ کی تعظیم وتقدیس اور عرفات کے روح پرور اجتماع میں اسرار وحکم کے جو رموز ہیں ان کے غور وفکر میں عقل حیران ہے۔
حج کے اس بے مثال عالمی اجتماع میں دنیاکے گوشہ گوشہ سے امت مسلمہ کے افراد جمع ہوتے ہیں‘ یہ عالمی اجتماع جن ہمہ گیر اجتماعی مصالح ومنافع کا ذریعہ بن سکتاہے‘ وہ بالکل ظاہر ہیں‘ اسلام کا یہ دینی نظام اتنا محیر العقول ہے کہ تہذیب وترقی کی مدعی قومیں اور کوئی مذہب وملت اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی‘ قرآن کریم کی دوآیتوں میں انہیں اسرار وحکم کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔
”ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب“۔ (الحج:۳۲)
ترجمہ:․․․”اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے“۔
”لیشہدوا منافع لہم“۔ (الحج:۲۸)
ترجمہ:․․․”تاکہ وہ اپنے منافع (اور فوائد) کو دیکھ لیں (حاصل کرلیں)“۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: قادیانیت کا مکروہ چہرہ!
Flag Counter