Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 10
انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر
انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر!
ماذا خسر العالم با نحطاط المسلمین؟


دوسری جنگ عظیم ۱۹۴۴ء کا حادثہ کچھ معمولی نہ تھا،یہ ایک ایسا واقعہ تھا جب باطل کھل کر سامنے آگیا، قتل وغارت گری کا دور دورا ہوا ،لوٹ مار عام ہوئی ،ہرشخص دوسرے کو تباہ کرنے پر تلا نظر آیا اور ہیروشیما ناگاساکی دونوں شہر مکمل طور پر تباہ وبرباکر دئے گئے۔ انہی بدترین حوادثات وواقعات کے پیش نظروقت آچکا تھا کہ لوگوں کے سامنے حق واضح کیاجائے اورحق کی مکمل روئیداد لوگوں کو سنا دی جائے ،اس تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے ندوہ کے ایک معلم ومدرس کے دل میں کڑھن وجذبہ پیداہوکہ انسانیت کو سکون وسلامتی کے وہ مناظر جو حق اور اہل حق کے دور میں حاصل ہوئے تھے، دکھلائے جائیں ۔اس خیال پر اس نو جوان نے کتابیں جمع کیں اور موافقین ومخالفین دونوں قسم کے مؤلفین کی تصانیف چھان کررکھ دیں اور عربی زبان میں ایک عظیم شاہکار اور معیاری تاریخی مواد ”ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین“ کے نام سے تمام دنیا کے سامنے پیش کردیا۔
مذکورہ ندوی شخصیت سے میری مراد ہندوستان کے عظیم مفکر و مدبر ،دینیات کے مشہور ادیب اور اسلام کے مؤرخ مولانا سیدابو الحسن علی ندوی نور اللہ مرقدہ ہیں۔ مولانا براعظم ایشیا میں عموماً اور ہندوپاک و عرب ممالک میں خصوصاً کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ اہل مشرق ہی نہیں، اہل مغرب نے بھی نہ صرف یہ کہ مولانا کی شخصیت کو پہچانا بلکہ مانابھی ہے۔ مولانا عربی اور اردو زبان میں لکھی گئی کئی علمی ،فکری، نظریاتی اور ادبی کتب کے مصنف ہیں، جن میں سے اکثر کا انگریزی، فارسی ا وردیگرمشہورعالمی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ‘ مولانا اردو ، عربی ادب و انشأ پر کامل اور یکساں مہارت رکھتے تھے ۔تاریخ دعوت وعزیمت جو چھ جلدوں پر مشتمل ہے، مولانا کی شہرہٴ آفاق تصنیف ہے، اس کے مطالعہ سے مولانا کے علمی ذوق کابخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ تاریخ وادب سے آپکتنادلچسپی اور لگاؤ رکھتے تھے۔ کئی کتابوں میں منتشر مواد کاجمع کرنا اورپھر اس کو خاص ترتیب سے کتابی شکل دینا کوئی سہل کام نہیں،بلکہ نہایت محنت ومشقت اور عرق ریزی کاکام ہے۔ کئی کتب میں علیحدہ منتشر فوائد کا حصول ایک نعمت عظمیٰ ہے جو مولانا کی تصانیف کے مطالعہ کے بعد قاری کو بسہولت حاصل ہوجاتی ہے۔
مولانا کی اکثر تصانیف کا طرز یہی ہے کہ مولاناجب بھی کسی موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں ،خوب مطالعہ کے بعد اپنے موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں اور اس بحث کی کسی جانب کو تشنہ نہیں چھوڑتے، بلکہ ہر پہلو کو مکمل اور واضح کرکے تحریر فرماتے ہیں۔
مولانا نے عربی زبان میں بھی کئی کتب تصنیف کیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱:․الارکان الاربعة، ۲:الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة،
۳:․الطریق الی المدینة۔ ۴:․التربیة الاسلامیة الحرة۔ لیکن ان تمام تصانیف میں سے مولانا کو جو شہرت ومقبولیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کتاب ”ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین“ کو حاصل ہوئی، اتنی کسی اور تصنیف کو حاصل نہیں ہوئی۔ مولانا خود فرماتے ہیں کہ
”اس کتاب کی پاکستان کے علاوہ دیگر عرب ممالک میں اشاعت کے بعد میرا تعارف یوں کروایا جاتاکہ یہ ”ماذا خسر العالم…“ کے مصنف ہیں“۔
مولانا کا اسلامی نقطہٴ نظر اور ان کی اسلامی فکر اس کتاب کے پڑھنے سے قاری پر کھل کر سامنے آجاتی ہے، انسانیت کے انحطاط پر مولانا کی غم زدگی اور مغربی جاہلیت کے قوانین کی مسلمانوں کی جانب سے پاسداری پر مولانا کی افسردگی اس کتاب سے بالکل نمایاں ہوجاتی ہے‘۔
اہل حکمت وبصیرت کہتے ہیں کہ انسان کی بات ،اس کا موقف یااس کا لکھا ہوا اس وقت موثراورمخاطب کے سینے کو منوراوراس کے قلب وجگرپر اثر انداز ہوتا ہے، جبکہ اس کا موقف یا قول اپنی تحریروکتاب کے موافق ہو۔ پھر نہ صرف یہ کہ مخاطب کولکھنے والے کے موقف کا مؤید ہونا پڑتاہے ،بلکہ مخاطب خود کو لکھنے والے کی صحبت میں پاتا ہے۔ ”مطالعہٴ کتاب ،مثل صحبت ِمصنف “مشہور محاورہ ہے، چنانچہ اسی صحبت کی وجہ سے قاری پر مولانا کے جذبات اور ملت اسلامیہ کے بارے میں آپ کے احساسات واضح ہوجاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
رنگ ہو یا خشت وسنگ چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزہٴ فن کی ہے خون جگر سے نمود
چنانچہ اس بلند پایہ تصنیف میں اصل کا رگر چیز مولانا کا خون جگر ہے، جس نے مولانا کو کسی کروٹ چین نہ لینے دیا، مولانا اپنے اس بلند پایہ کارنامے کو ”ادائے قلندرانہ“ فرماتے ہیں ۔واقعةً یہ ایک جذبہ تھا جس نے مولانا کو قلم اٹھانے پر مجبور کیا ،جس کے نتیجے میں ایسی معیاری اور عمدہ کتاب وجود میں آئی۔ اس کتاب کے زمانہ تالیف کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مقدمہ میں تحریرفرماتے ہیں:
”پیش نظر کتاب کا ابتدائی تخیل ایک مضمون سے زیادہ نہ تھا‘ ابتداء میں خیال تھا کہ اجمالی طور پر ان نقصانات کی نشان دہی کی جائے جو مسلمانوں کے تنزل وزوال اور دنیا کی قیادت ورہنمائی سے کنارہ کش ہوجانے سے انسانیت کو پہنچے اور دکھایا جائے کہ زندگی کے نقشہ میں ان کی جگہ اور قوموں کی صف میں ان کا کیا مقام ہے؟ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ مسلمانوں کو اس مجرمانہ کوتاہی کا احساس ہو جو انہوں نے انسانیت کے حق میں کی اور اس کی تلافی اور اصلاح حال کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہو“۔
مذکورہ بالا اقتباس کو نقل کرنے سے مقصود ومطلوب مولانا کے مقصد کی نشاندہی کروانا ہے‘ مولانا جانتے تھے کہ اس پژمردگی کا سب سے بڑا حملہ عالم عرب پر ہوا ہے اور مادیت نے سب سے کاری ضرب عالم ِعرب پر ہی لگائی ہے ،یہ لوگ اپنی لذات میں منہمک ہوکر اہلِ باطل کے اس قبیح حملے سے یا تو جاہل تھے یا تجاہل برتتے تھے ،اپنے سسکتے مسلمانوں بھائیوں کی ان کو ذرا پرواہ نہ تھی اور خواہشات کی تسکین کی خاطر مثل پانی کے پیسے بہاتے تھے اس عالمگیر المیہ کو محسوس کرتے ہوئے مولانا نے اپنی مادری زبان اردو سے اپنے قلم کا دھارا عربی زبان کی طرف موڑ دیا اور اولاً عربی میں تصنیف فرماکر اس کا نام ”ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین“ رکھا۔
مولانا نے جب اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ کیا تو ایک کامل اور ماہر مصنف کی طرح موضوع کے متعلق کتب، خصوصاََ عیسائیوں کی کئی کتابوں کامطالعہ کیا اور ان سے اقتباسات لئے اور ان پر انہی کی تحریروں سے حجت قائم کردی۔
محنت شاقہ کے بعد یہ قابل قدر تصنیف تکمیل کو پہنچی، اب اس کی طباعت کا مرحلہ درپیش تھا، کتابی دنیا سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ عربی میں کتاب ہو اور عرب ممالک میں ہی اس کی طباعت اور نشر واشاعت کا ارادہ ہو تو روپیہ پیسہ کافی مقدار میں درکار ہوتاہی ہے،خصوصاََاس میں تعلقات کا بھی کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح جب نشر واشاعت اعلیٰ پیمانہ پر کرنی ہو تو معیاری اور مشہور مطابع کا انتخاب اورچناوٴایک ضروری امر ہوتا ہے،لیکن ناموافق حالات اوروسائل کی عدم موجودگی کے پیش نظر مولانا نے دل شکستہ ہوکر کہ نہ معلوم اس کی طباعت میں اور کتنی تاخیر ہو، اس کتاب کا اردو ترجمہ لکھنا شروع فرمادیا ۔لیکن دل میں یہ تمنا اور آرزو تھی کہ عربی تصنیف کی اشاعت وطباعت کا مسئلہ کسی طرح حل ہو ۔کتاب کااردو ترجمہ ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کاا ثر“ کی تکمیل کے بعد ہندوستان میں اس کے ترجمے نے کافی شہرت پائی اور کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی، آج بھی اس کتاب کی کافی شہرت ہے ۔خصوصاََحلقہ علمأ وطلبا ٴمیں،جس کی بناپر کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
بہرحال عربی تصنیف کی طباعت کے لئے مولانا نے محنت وکوشش جاری رکھی، اس زمانہ میں مولانا کوکئی دل آزار واقعات بھی پیش آئے اور کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً مطابع کے ذمہ داروں کی عدم توجہی سے مولانا بہت دل گرفتہ ہوئے ،ان واقعات وحادثات کا تفصیلی ذکر مولانا نے اپنی کتاب ”کاروان زندگی“ میں بڑے رنج وغم سے فرمایا ہے ۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں: ”جہاں ہم لوگوں کا قیام تھا (یعنی سفر حجاز کے دوران) اس کا راستہ حرم شریف سے ہو کر بھی جاتا تھا، میرا وضو تھا، میں سیدھا حرم شریف گیا اور اسی دل شکستگی کے عالم میں ملتزم پر اس کتاب کی طباعت کا سامان ہونے اور قبولیت کی دعا کی، غالباً اسی دعا کا اثر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طباعت کا غیب سے بہتر سامان پیدا کیا اور اس کو وہ مقبولیت عطا کی جو میری کسی (اور) تصنیف کو حاصل نہیں ہوئی“۔
اسی ملتزم پر کی گئی دعا کا اثر دیکھئے کہ وہ کتاب جس کی طباعت کے کوئی اسباب تک میسر نہ تھے،زیور طبع سے آراستہ ہونے کے بعد اس قدر مقبول اور عوام الناس میں مشہورو معروف ہوئی کہ متعدد زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوگئے اور پھر ان تراجم کے متعدد ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔ کتاب کی ابتداء میں تراجم کی تفصیل کے بارے میں مولانا تحریر فرماتے ہیں:
”کتاب کا انگریزی ترجمہ (Islam & The World) اسلام اینڈ دی ورلڈ کے نام سے کئی سال پہلے شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے‘ اس سلسلہ میں قارئین کو یہ معلوم کرکے دل چسپی اور خوشی ہوگی کہ جب اس کتاب کو اس ادارہ نے اپنے علمی مشیروں اور ماہرینِ فن کے سامنے اظہار رائے کے لئے پیش کیا تو ڈاکٹر بکھنگم (لندن یونیورسٹی میں ادارہ مشرق وسطیٰ (Middle-east Section)کے چیرمین نے ان الفاظ میں اس پر تبصرہ کیا کہ: ”کتاب کو برطانیہ سے شائع ہونا چاہئے ،کیونکہ اس صدی میں مسلمانوں کی نشأة ثانیہ کی جوکوشش بہتر سے بہتر طریقہ پر ہوئی ہے‘ اس کا یہ نمونہ اور تاریخی دستاویز ہے‘ ادارہ نے اس کو ایک دوسرے صاحبِ نظر اور ماہرِ اسلامیات کے نامور مستشرق پروفیسر مونٹگمری واٹ صدر شعبہٴ اسلامیات ایڈنبر یونیورسٹی کے حوالہ کیا کہ وہ اپنی فیصلہ کن رائے دیں‘ انہوں نے اس کتاب کو اشاعت کا مستحق قرار دیا اور اس کی طباعت کی تائید کی۔
ایران کے ایک سنجیدہ اور باوقار اسلامی ادارہ ”حلبسات علمی اسلام شناسی“ (قم) نے اس کا فارسی ترجمہ ”باضعف مسلمین دنیا در خطر سقوط“ کے نام سے شائع کیا ہے معلوم ہوا ہے کہ وہ ایران میں شوق اور دل چسپی سے پڑھا جارہا ہے‘ ترکی میں وہ کئی بار شائع ہوئی اور ذوق وشوق سے پڑھی گئی‘ فرانس میں بھی اس کے ترجمہ کی اجازت مانگی گئی اور مصنف کی طرف سے اجازت دی گئی ،جنوبی ایشیاء کی بھی مختلف زبانوں میں کتاب کا ترجمہ ہوا۔“
یہ انہیں مقبول دعاوٴں کا ہی اثر ہے کہ مستشرقین تک کو اس کتاب نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوچکا کہ انگریزی ترجمہ اور فرنچ ترجمہ کی بھی اشاعت کا سامان غیب سے ہوا۔ کسی کتاب کا مقدمہ، کتاب میں موجود پیغام کا خلاصہ اور ماحصل ہوتا ہے، اس کتاب کے مقدمے لکھنے کی جب ضرورت ہوئی تواس کے سب سے اول مقدمہ نگار ”لجنة التالیف والنشر“ مصر کے مشہور ادارے کے صدر ڈاکٹر احمد امین صاحب جوکہ جامعہ مصریہ کے کلیة الادب کے سابق پرنسپل بھی رہ چکے تھے، منتخب کئے گئے۔ اور مولانا کی درخواست پر انہوں نے کتاب کا مقدمہ لکھنے کی حامی بھرلی۔ان کی تصانیف ”ضحیٰ الاسلام“ اور ”فجر الاسلام“نے ان کو خطہٴ عرب میں خوب متعارف کروایا تھا، اسی شہرت وتعارف کی بناء پر مولانا نے ان کا انتخاب فرمایا ۔ ڈاکٹرموصوف نے اس کتاب کے جس مقدمہ کی تخلیق کی‘ اس نے کتاب کو مزین کرنے کے بجائے اس کی روح کو سخت نقصان پہنچایا اور بعض مقامات میں اختلاف رائے کا تذکرہ کرکے اشارةً صاحبِ کتاب کو بھی تنقیدکا نشانہ بنایا اور کہا کہ” اگر اس کتاب میں کچھ خلل یا نقص نظر آئے تو بہرحال یہ ایک ہندی نژاد کی ایجاد ہے“ اس جملہ نے کتاب کے مقصود پر کاری ضرب لگائی ا،س کی وجہ سے کتاب کے مفہوم میں ایک خلجان سا پیدا ہوگیا۔ مولانا اپنی غلطی کا خود اعتراف کرتے ہوئے مقدمہ ٴ کتاب میں رقمطراز ہیں:
”مصر کے دورانِ قیام ہی میں کتاب کی دوسری اشاعت کی نوبت آگئی اس موقع پر مصنف کے مخلص دوست اور کتاب کے خاص قدردان ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ مرحوم (سابق استاذ جامعہ ازہر وپروفیسر اسلامی قانون قاہرہ یونیورسٹی) نے اپنی کمیٹی ”جماعة الازہر للنشر والتالیف“ کی طرف سے طبع ثانی کی پیش کش کی‘ اور مصنف کے ایماء سے ڈاکٹر احمد امین سے اس کی اجازت حاصل کرلی‘ اس موقع پر سابق غلطی کی تلافی کا امکان پیدا ہوا اب اس کا موقع تھا کہ مقدمہ کے لئے ایسے موزوں شخص کا انتخاب کیا جائے جو کتاب کے مقصد اور روح پر پورا یقین رکھتا ہو اور اس کا پر جوش وکیل اور داعی ہو“۔
بعض عرب مفکرین وعلماء نے بھی مولانا کو ڈاکٹر صاحب کے مقدمہ کے بارے میں متنبہ کیا اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا مقدمہ، مقدمہ کہلانے کا مستحق نہیں( یہ تمام تفاصیل مولانا نے ”کاروان زندگی“ میں درج فرما رکھی ہیں) مصر کے ایک عالم نے تو باقاعدہ مقدمہ پر تنقیدی مقالہ بھی لکھا جو مصر کے مختلف جرائد ورسائل میں شائع ہوا۔ طباعتِ ثانیہ کے وقت مولانا نے غلطی کے ازالہ کا تہیہ فرمالیا اور کسی وسیع النظر اور دقیق الفکر شخصیت کی جستجو میں لگ گئے۔خدائے پاک نے اس مرتبہ بھی غیب سے مولانا کی سرپرستی فرمائی اور غیبی نظام حرکت میں آیا‘ ہوا یوں کہ ۱۹۵۱ءء میں قیامِ مصر کے دوران مولانا کا تعارف سید قطب شہید سے ہوا، جنہوں نے مشہور ومعروف تفسیر ”فی ظلال القرآن“ تالیف فرمائی تھی اور خود وہ ”الاخوان المسلمون“ مصر کی مشہور اسلامی تنظیم کے صدر بھی تھے، سید قطب کی تمام تر توجہ مسلم نوجوان طبقہ کے متعلق تھی اور ان کا قلم مسلم نوجوانوں کے لئے مسلسل رواں تھا، جس مجلس میں مولانا کی اس مشہور کتاب کے متعلق مقالہ پڑھاجانے والا تھا، اس میں مولانا کو مدعو کیا اور داد تحسین دی۔ مولانا نے ارادہ فرما لیا کہ مقدمہ نگاری کے لئے ان سے موزوں شخصیت کا ملنا اب دشوار ہے، اس لئے مولانا نے اس کتاب پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی، جس کو سید قطب شہید نے قبول فرمایا اور ایک پرمغز دلچسپ مقدمہ تحریر فرمایا، جس نے کتاب کی روح کو جلا بخشی اور اس کتاب کو صحیح معنوں میں چارچاند لگادئیے۔ اس مقدمہ سے قبل بھی ”الاخوان المسلمون“ کے نوجوانوں کے تربیتی سلسلہ میں یہ کتاب شامل تھی، اس مقدمہ کے بعد مصری عوام ،خاص کر نوجوانوں میں اس کتاب کو بھر پور پذیرائی ملی اور ہاتھوں ہاتھ کتاب لی گئی۔
مولانا نے اس کتاب (کے شائع شدہ اردو ایڈیشن) کو کل سات ابواب پر تشکیل دیا ہے :
باب اول: میں ”بعثت محمدی سے پہلے“ کا عنوان رقم فرماتے ہیں اور جاہلیت کے دور کی مکمل تصویر کشی فرماتے ہیں کہ: انسانیت کتنی اندھیری شاہراہ پر گامزن تھی اور بقول مولانا کہ: یہ دور انسانیت کی تاریخ کا سب سے پست ترین دور تھا، رومی اور ایرانی سلطنتوں نے انسانیت کو گویا دنیوی زندگی ہی میں جہنم رسید کردیاتھا، جنسی بحران اور طبقہ واریت عروج پر تھی، معبودوں کی ایسی بہتات کہ جس کی کوئی انتہأ نہ تھی ،جہاں کوئی پسندیدہ پتھر پڑا ملا ، اس کو معبود ٹھہرا لیا۔ عورت کا مقام ومرتبہ انتہائی پست اور ذلت آمیز تھا، وہ ایک عار کا سبب سمجھی جاتی تھی، جس کو جینے کا کوئی حق حاصل نہ تھا، جہاں لڑکی نے جنم لیا، باپ کا چہرہ ترش ،سیاہ اور اس کا پارا ہائی ہوگیا، بچی کو اٹھایا اور زندہ گاڑ کر سکون حاصل کیا جاتا، خلاصہ یہ کہ انسانیت کے لئے وہ ابتر ترین دور تھا، جس کے احوال پڑھنے سے انسان کو حیوان کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔
بابِ دوم: میں بعثت محمدی کے بعد کے دور کی تفصیلات بتلاتے ہیں، جب ایک نئی امت تشکیل پائی ،جب انسانیت کو امن وسکون ملا، محبت صحیح مصرف ‘ شجاعت وبہادری اپنے مناسب مقام اور اتباع وتقلید صحیح منہج پر آگئی، اور ایک کامل و مکمل جماعت نکھر کر سامنے آئی،جو شاگردانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام سے موسوم اور رضاء خداوندی کے سندیافتہ ہیں۔ مولانا اس دور کی برکتیں اور خوبیاں گنواتے ہیں، جس میں ہر طرف امن وسلامتی،چین و سکون،صلح وآشتی‘ اور خداخوفی وخدا طلبی کادوردورہ تھا ،جس سے اطراف ِعالم میں دینی واخلاقی فضا قائم ہوگئی۔
باب سوم :میں مسلمانوں کی قیادت ، اس کی خیروبرکت اور مسلم دورِ قیادت کی خوبیاں وبھلائیاں واضح کرتے ہوئے فیصلہ قارئین وناظرین پر چھوڑتے ہیں کہ وہی فیصلہ دیں کہ انسانیت کی بہترین نشونما کس دور میں ہوئی؟ اسلامی نقطہٴ نظر اور طرز عمل سے مولانا اسلامی اقتدار کے فوائد پر تفصیلی اور جامع بحث فرماتے ہوئے عیسائیوں کی کتابوں کے اقتباسات اوران کے اعترافات بحوالہ کتب نقل فرماتے ہیں، اس لئے کہ مخالفین ومعاندین کااسلام اور اہل اسلام کی تعریف کرنا، اسلامی قیادت کی فتح اور سند مقبولیت ہے ”الفضل ماشہدت بہ الاعداء“۔
باب چہارم: مسلمانوں کے تنزل ، اس کے اسباب وعلل ، جہاد واجتہاد کافقدان‘ ملوکیت کا اثر اور اس کے نتائج‘ فلسفیانہ موشگافیاں اور شرک وبدعات وغیرہ کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے انہی چیزوں کو سببِ انحطاط فرماتے ہیں، مسلمانوں کے دورِ اقتدار کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے اموی وعباسی خلفاء کی قیادت و تنزل، صلاح الدین کی قیادت و تنزل ‘ ترکوں کی قیادت و تنزل ،ترکوں کا جمود اور ٓاخر میں مغربیت کی ترقی۔مولانا ان تمام عنوانات کے تحت ابحاث کو نہایت رنج وغم سے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہرسطر سے مولانا کی رنجیدگی نمایاں معلوم ہوتی ہے۔ باب پنجم: میں یورپ کی لادینی قیادت کی تفصیل، ان کے اخلاقی اعتبار سے بدترین مزاج ومذاق، جنون رہبانیت اور فطرت دشمنی وغیرہ مختلف عناوین کے ذیل میں یورپی قیادت کی خامیوں کو گنواتے ہوئے اربابِ کلیسا اور حکومت کے مابین عداوت وجنگ کا مفصل تذکرہ کرتے ہیں اور پھر اس باب کے اخیر میں ایجادات واکتشافات کی ہلاکت آفرینی کو ذکر فرماکر مغربی دور حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو خوب واضح کرتے ہیں۔
باب ششم: میں مغربی دور قیادت میں ہونے والے دنیا کے وہ خسارے جن میں مغربی عوام سمیت تمام انسانیت نے عذاب جھیلے، جو اب بھی جھیل رہے ہیں ”حاسہٴ مذہبی کے فقدان“ کا بتلاتے ہوئے مغربی یونیورسٹی کے ایک فاضل کا بیان نقل کرتے ہیں:
”ایک مغربی یونیورسٹی کے معلم فلسفہ وعلم النفس نے اس حقیقت کا خوب ادراک کیا ہے اور اس فرق کی صحیح تحلیل کی ہے جو قدیم وجدید نفسیات میں پایا جاتا ہے، اس نے اس ایک جملہ میں ایک کتاب کا مضمون سمیٹ لیا ہے: مذہبی سوالات پہلے پیدا ہوتے تھے‘ ممکن ہے ان کا تشفی بخش جواب نہ ملتا ہو‘ لیکن اس زمانہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ سوالات سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے “
دنیا طلبی ‘ اخلاقی زوال اور پست ہمتی وغیرہ کے عنوان سے خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ، جن سے مغربی عہد کے برے احوال پر پڑے پردے کھل جاتے ہیں اور مغربی عہد اقتدار کی برائیوں اور خامیوں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
باب ہفتم: کتاب کا آخری باب ہے۔ اس باب کی ابتداء میں اولاً اجمالی طور پر پہلے اسلامی قیادت کے بہترین نتائج اور پھر مغربی عہد اقتدار کے بدترین اثرات کے بارے میں بحث کرتے ہیں ”عالم اسلام کا پیغام“ کا عنوان قائم کرکے اپنے جذبات وتاثرات اس طرح پیش کرتے ہیں کہ خوابیدہ مسلم وکافر دونوں کو یکساں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ پھر اسلامی قیادت کے دوبارہ قائم کرنے کے لئے مختلف تراکیب وتدابیر پیش کرتے ہیں، جس سے مولانا کی اعلیٰ فکر وبصیرت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے، اس باب کے بالکل اخیر میں گویا اس کو آپ خاتمہٴ کتاب کہہ سکتے ہیں‘ مولانا عالم عرب کے غفلت کا شکار مسلمانوں کو بیدار کرنے کی بھرپور کوشش فرماتے ہیں اور ان کے خوابیدہ ذہنوں میں نئے ایمان کی تیاری کی فکر پیداکرتے ہیں،غرضیکہ یہ کتاب مولانا کا علمی ‘ ادبی اور تاریخی کارنامہ ہے ۔ اس کتاب کی افادیت ومقبولیت کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا، بہت ہی کم ہے، وگرنہ ا س کتاب پر کئے گئے صرف جائزوں اور تبصروں کو اکٹھا کرکے کتابی شکل دی جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
راقم السطور اپنی تحریر ، شیخ موسیٰ یوسف (استاذ کلیہ اصول الدین ازہر یونیورسٹی قاہرہ) کے ایک جملہ پر ختم کرتا ہے ،وہ جملہ ملاحظہ ہو:
”ہر ایسے شخص کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا خواہش مند ہو“۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: سیدی وسندی امیر الہند حضرت مولانا اسعد مدنیسے ایک سبق آموز خوشگوار ملاقات
Flag Counter