Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

10 - 10
نقدونظر
تبصرے کے لیے ہر کتاب کے دونسخوں کا آنا ضروری ہے
(ادارہ)

خطبات حکیم العصر: جلد اول و دوم:
حضرت اقدس حکیم العصر مولانا عبدالمجید لدھیانوی مدظلہ‘ شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ باب العلوم کہروڑ پکا‘ لودھراں‘ صفحات: جلد اول: ۳۷۴‘ جلد دوم: ۳۷۲‘ قیمت: جلد اول: ۱۹۰ روپے‘ جلد دوم: ۲۰۰ روپے‘ پتہ : مکتبہ شیخ لدھیانوی‘ باب العلوم کہروڑ پکا ضلع لودھراں۔
اظہار مافی الضمیرپر دسترس و قدرت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے‘ لیکن جس طرح انسان‘ اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتوں کے استعمال میں اعتدال و بے اعتدالی کی راہ اپنا کر اپنی دنیا و آخرت بناتا اور بگاڑتا ہے‘ اسی طرح اس کے استعمال سے کبھی انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے تو کبھی اس کی ضلالت و گمراہی کا باعث بنتا ہے‘ چنانچہ کچھ لوگ اس نعمت کو خیر و صلاح‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے استعمال کرتے ہوئے الٰہی تقرب اور نیابت نبوت کا اعزاز حاصل کرتے ہیں تو کچھ لوگ اُسے عصیان و طغیان اور فسق و فجور کی ترجمانی میں استعمال کرتے ہوئے شیطان اور شیطانی کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں‘ بلاشبہ اظہار مافی الضمیر اور وعظ و بیان کا ملکہ اور اس میں کمال و رسوخ کسی کسی کو میسر آتا ہے اور جنہیں میسر آجائے وہ مہینوں بلکہ سالوں کا کام دنوں اور ہفتوں میں کرلیتے ہیں‘ اس لئے کہ زبان و بیان میں مہارت اور تاثیر کسی جادو سے کم نہیں ہوتی‘ اسی لئے فرمایا گیا: ”وان من البیان لسحراً“… اور بعض بیان اپنے اندر جادو کا سا اثر رکھتے ہیں…
تاریخ عالم کا مطالعہ کیجئے! تو اندازہ ہوگا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے تصنیف و تالیف سے نہیں‘ بلکہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے لئے وعظ و بیان کو ہی ذریعہ بنایا۔
یوں تو اس امت میں آپ کو ایسے بے شمار اکابر اور اہلِ حق نظر آئیں گے کہ جن کے ایک ہی وعظ و بیان سے پتھر سے پتھر قلوب موم کی طرح پگھل گئے‘ اور ایسے ایسے معاندین جو حق او ر اہل حق کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے‘ وہ ان کے ایک بیان و تقریر سے ان کے قدموں میں ایسے ڈھیر ہوئے کہ زندگی بھر ان کے غلام بے دام ہوگئے‘ بایں ہمہ بعض اہلِ قلوب ایسے بھی ہوئے ہیں‘ جن کی زبان و بیان میں اگرچہ مروجہ سلاست‘ روانی اور سر و تال نہ تھی مگر ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کے مصداق ان کی سیدھی باتیں اور تقریر و بیان اثر و تاثیر میں کسی جادو سے کم نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ان کے ہمنشین جب ان کی مجلس سے اٹھتے تو گناہوں سے دامن جھاڑ کر اور علم و عمل کی جھولیاں بھر بھر کر جاتے۔
ہمارے ممدوح حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی دامت برکاتہم بھی اسی مؤخرالذکر گروہ اور جماعت کے رکن رکین ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل‘ فہم و فراست اور حلم و تدبر ایسی بے شمار خصوصیات سے نوازا ہے۔ چنانچہ اکابر و اسلاف پر اعتماد‘ ان سے محبت و عقیدت‘ ان کے متعین کردہ خطوط‘ صراط مستقیم اور صحیح اسلامی طرز فکر کی ذہن سازی ان کا طرہ امتیاز ہے‘ ان کی پچاس سال سے زیادہ تعلیمی و تدریسی زندگی کا دو رانیہ اس پر شاہد ہے کہ ان کے دامن علم و عمل سے وابستگان میں سے کوئی بھی جادئہ حق سے انحراف کرتے نہیں دیکھا گیا۔ پیش نظر خطبات ان کے اس فکری اعتدال کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ موصوف اگرچہ پیشہ ور مقرر‘ واعظ اور خطیب نہیں ہیں اور نہ ہی وہ عوامی جلسوں سے خطاب کے روادار ہیں‘ تاہم جن علمی مجالس‘ علمأ‘ طلبہ اور مخصوص عوامی اجتماعات میں انہوں نے جو کچھ درد دل سے کہا‘ ان کے خدام نے اُسے کیسٹ کے ذریعہ محفوظ کرلیا‘ جسے بعد میں کاغذ و قرطاس پر منتقل کرکے افادئہ عام کے لئے پیش کردیا گیا‘ پیش نظر دو جلدوں میں حسب ذیل عنوانات کے خطبات ہیں:
توحید باری تعالیٰ‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل معاشرہ کی حالت‘ ولادت رسول‘ رحمت کائنات کا بچپن‘ ماہ محرم اور اسلامی تقویم‘ تقویٰ کی حقیقت اور طائفہ منصورہ‘ علم کی اہمیت‘ دینی مدارس اور کالج‘ تاریخ علمأ دیوبند‘ پردہ کی اہمیت‘ سورج گرھن‘ ماہ محرم کے احکام‘ ظالموں کی طرف میلان اور قیام پاکستان ۔
اسی طرح دوسری جلد کے مضامین حسب ذیل ہیں:
اکابر کا تذکرہ‘ مسلمانوں کے زوال کے اسباب‘ روشن خیالی کی حقیقت‘ صحبت کا اثر‘ بخشش و سزا کا تصور‘ وسیلہ کا حکم‘ فتنہ دجال اور سورئہ کہف‘ سماع موتی‘ اولیأ کی گستاخی کا انجام‘ فضیلت ذکر‘ فلسفہٴ حج‘ شیعہ وسنی اختلاف کا حل‘ شانِ اولیأ‘ سنت و بدعت میں فرق‘ معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟ اور شان صحابہ۔
ہر دو جلدوں کے شروع میں حضرت مولانا کے تلامذہ ڈاکٹر محمود الحسن لاہور اور حضرت مولانا منیر احمد صاحب مدظلہ کی جانب سے حضرت اقدس کے مختصر احوال‘ طرز تربیت‘ بڑوں کے ساتھ برتاؤ اور چھوٹوں سے شفقت‘ تدریسی مہارت‘ بے نفسی‘ عجزو نیاز کو اس خوبصورت انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد قاری حضرت ممدوح کا گرویدہ ہوجاتا ہے‘ خصوصاً مؤخرالذکر مولانا منیر احمد صاحب کا طویل مقدمہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا مفتی ظفر اقبال صاحب کو جنہوں نے اس خزانہ عامرانہ کو جمع کرکے امت تک پہنچانے کا تہیہ کیا ہے‘ یہ کام اگرچہ بہت پہلے ہونا چاہئے تھا‘ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق انشاء اللہ! اب بھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی۔
خطبات کیا ہیں؟ اس کے بارہ میں اپنی طرف سے کچھ کہنا چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق ہوگا تاہم: ”مشک آنست کہ خود ببوید نہ آنکہ عطار گوید“
یہ مجموعہ اس قابل ہے کہ ہر طالب علم اور عالم دین اس کو خریدے اور پڑھے اور اپنے اسلاف سے وابستگی پیدا کرے۔
تحفہ تصوف:حصہ دوم
جمع وترتیب :مولانا حافظ لیاقت علی نقشبندی غفوری ، صفحات :۱۴۴ ، قیمت :درج نہیں ، پتہ :محمد عاصم شاہ متعلم جامعہ اسلامیہ درویشیہ ، بلاک بی ، سندھی مسلم ہاوٴسنگ سوسائٹی ، کراچی۔
کتاب کا تعارف ٹائٹل پر ان الفاظ میں کرایاگیا ہے ”تزکیہ واحسان کا بنیادی مقصد انسان پر ایسی عظیم محنت ہے جس سے ان میں للہیت کا جذبہ پیدا ہو ،اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا عقیدہ دل ودماغ میں موجزن ہو ، ظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے مزین ہو اور دل امراض باطنہ کی آلودگیوں سے پاک ہو ، اس کتاب میں اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے افراط وتفریط سے بچنے ،غلط تصوف اور رائج صوفیوں کی اصلاح ،بدعات سے پاک اور صحیح راہ متعین کرنے کے لیے اکابر علماء کرام اولیاء عظام اور صلحائے امت کی قرآن پاک ، احادیث مبارکہ ، آثار صحابہ ، آثار تابعین ، ائمہ مجتہدین اور فقہ اسلامی کی روشنی میں بیان کردہ گرانقدر تقاریر ورسائل اور ملفوظات کو مستند حوالوں کے ساتھ جمع کیا گیا ہے ۔
ماشاء اللہ کتاب لائق مطالعہ ہے ،کتابت ، طباعت اور کتاب کا سرورق خوشنما اور جاذب نظر ہے ۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 
Flag Counter