Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 10
دوگراں قدر علمی تحفے
دوگراں قدر علمی تحفے


وقت کی تیز رفتارگردش اور زمانے کے تغیر پذیر حالات نے جہاں زندگی کے دیگر تمام شعبوں کو انقلاب آفریں تبدیلیوں سے روشناس کرادیا ہے‘ وہاں علم وتحقیق اور تصنیف وتألیف کے میدان کو بھی یکسر بدل کررکھ دیا ہے‘ آج اس میدان میں بھی محنت‘ عرق ریزی اور تحقیق وتدقیق کی بجائے سہل انگاری‘ سطحیت اور ”کفایت شعاری“ کی روش عام ہورہی ہے اور ”کم خرچ بالا نشیں“ کے مصداق تھوڑا سا کام کرکے اس کی زیادہ تشہیر کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جو کہ یقیناً ایک بڑا المیہ ہے۔ ہمارے اکابر اور اسلاف کی تاریخ شاہکار علمی وتحقیقی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اب بدقسمتی سے تحقیق وتدقیق کے سوتے خشک ہوتے جارہے ہیں‘ نوجوان علمأ‘ فضلاء کی تعداد ہرسال بڑھتی جارہی ہے‘ لیکن ان میں امامت اور تدریس سے ہٹ کر تحقیقی کام کرنے کا ذوق بہت کم دیکھنے کو ملتاہے۔ اس کے مقابلے میں کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور دیگر جدید سہولیات کے حصول کا شوق بڑھ رہاہے‘ مگر ان سہولیات سے علمی سرگرمیوں میں مدد لینے کا رجحان کم ہی ہے‘ متعدد بڑے دینی اداروں میں تصنیف وتألیف اور تحقیقی کام کے لئے باقاعدہ شعبے تو قائم ہیں‘ لیکن عام طور پر ان شعبوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اس پر ہمارے دینی اداروں کو غور کرنا چاہئے اور علمی وتحقیقی سرگرمیوں میں اضافے اور باقاعدہ اکیڈمک بنیاد پر کام کرنے کا کوئی انتظام سوچا جانا چاہئے۔
اس وقت بھی ہمارے ہاں ایسے فنی ماہرین اور محقق علمأ موجود ہیں‘ جن کے علم‘ تجربے اور تحقیق سے اس سلسلے میں استفادہ کیا جاسکتاہے۔ گزشتہ دنوں راقم کو دوانتہائی گراں قدر علمی تحفے موصول ہوئے، جن کو دیکھ کر کچھ ڈھارس بندھ گئی کہ اس دور میں بھی ایسے اولوا العزم اکابر علمأ موجود ہیں جن کے دم سے علم وتحقیق کی قندیلیں روشن ہیں اور جن کی زندگی ہمارے نوجوان علمأ کے لئے مشعل راہ ہے۔
ان میں ایک ہمارے استاذ محترم ممتاز محقق‘ عالم دین اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مولانا محمد انور بدخشانی مدظلہ کا فارسی ترجمہ قرآن ہے‘ جس کے ساتھ چھ جلدوں میں تفسیر بھی عنقریب شائع ہونے والی ہے‘ پاکستان میں فارسی کی اجنبیت کے پیش نظر ہوسکتاہے کہ کسی کے ذہن میں اس کی افادیت کا سوال پیدا ہو‘ دراصل یہ تفسیر افغانستان اور ایران کے علاوہ وسط ایشیا کی نوآزاد مسلم ریاستوں میں دین کے احیأ نو کے عظیم مقصد کے لئے وہیں کے دینی حلقوں کے مطالبے پر لکھی گئی ہے۔ مولانا محمد انور بدخشانی مدظلہ اکثر تبلیغی دوروں پر وسط ایشیا تشریف لے جاتے رہتے ہیں اور انہیں وسط ایشیائی خطے میں اسلام کی تبلیغ کی ضروریات کا پورا علم وادراک ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے بعد پاکستان کے بہت سے دینی حلقوں اور بالخصوص عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے وہاں اسلامی تعلیمات کے احیأ کے لئے قرآن مجید کے لاکھوں نسخے اور فارسی لٹریچر فراہم کیا‘ لیکن اس کے بعد بدقسمتی سے اس طرف زیادہ تو جہ نہیں دی گئی اور وسطی ایشیائی خطے سے پاکستان کی دینی تحریکوں کا رابطہ نہ ہونے کے برابرہے۔
فارسی‘ انگریزی اور عربی کے بعد ایک بڑی بین الاقوامی زبان ہے جو وسطی ایشیائی خطے کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستانی علمأ نے عربی‘ اردو اور دیگر زبانوں میں بڑا کام کیا ہے‘ لیکن برصغیر سے فارسی کو دیس نکالادیئے جانے کے بعد‘ اس اہم زبان میں علمأ حق کے افکار کی ترجمانی کم ہی ہوئی ہے‘ اس وقت فارسی زبان میں بالخصوص تفسیر کے میدان میں علمأ حق کے درست عقائد پر مبنی کتابیں کم ہی ملتی ہیں‘ اس وقت جو فارسی تفسیریں دستیاب ہیں‘ ان میں اکثر قدیم منطق وفلسفے اور بعض مخصوص عقائد کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کی واضح آیات اور نصوص کی دوراز کار تاویلات پر مبنی تفسیریں ملتی ہیں‘ جن سے قرآن وسنت کی حقیقی تعلیمات کی اشاعت ممکن نہیں ہے‘ جبکہ وسطی ایشیا میں اس کی سخت ضرورت ہے۔ مولانا محمد انور بدخشانی مدظلہ چونکہ فارسی زبان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل ادیب اور مصنف مانے جاتے ہیں اور فارسی ادب کی عالمی کانفرنسوں میں شرکت فرماتے رہے ہیں‘ ساتھ ساتھ انہیں گزشتہ تین چار عشروں سے تفسیر پڑھانے کا اعزاز بھی حاصل رہاہے‘ اس لئے فارسی زبان میں ان کی تفسیر کی افادیت بالکل واضح ہے‘ قرآنی علوم اور تفسیر پر مولانا محمد انور بدخشانی کی دسترس کا صحیح اندازہ انہی لوگوں کو ہوسکتاہے جنہیں مولانا سے تفسیر کا سبق پڑھنے کا شرف حاصل رہاہو۔ امید ہے کہ مولانا کی تفسیر وسطی ایشیائی خطے میں قرآن وسنت کی حقیقی تعلیمات کی اشاعت اور علمأ حق کی تفسیری خدمات کو آگے بڑھانے اور حضرت بنوری رحمہ اللہ کے فیض کو دنیا کے ایک بڑے حصے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔
دوسرا اہم تحفہ قطب الاقطاب‘ مخدوم العلماء‘ شمس العارفین‘ شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی رحمہ اللہ کے رسائل ومضامین کا خوبصورت مجموعہ ”معارف بہلوی“ ہے‘ جس کو ہمارے مخدوم ومحترم مولانا سعید احمد جلال پوری مدظلہ مدیر ماہنامہ ”بینات“ کراچی نے ترتیب وتسہیل کے ساتھ بڑی محنت وعرق ریزی سے مرتب کرکے اہل علم ومعرفت کی تسکین ذوق کے لئے پیش کیا ہے۔
مولانا محمد عبد اللہ بہلوی رحمہ اللہ کا شمار ان بزرگوں اور اکابر میں ہوتا ہے جنہوں نے ”درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق“ کے مصداق علم وتحقیق کے ساتھ ساتھ سلوک ومعرفت اور شریعت کے ساتھ طریقت کا حسین امتزاج قائم کرکے عوام وخواص کو اپنے علوم وفیوض سے مستفید کیا۔ آپ کو ایک جانب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اسیر مالٹا‘ خاتمة المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور رئیس المفسرین حضرت مولانا حسین علی واں بچھراں رحمہ اللہ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ دوسری جانب شیخ المشائخ مولانا فضل علی قریشی مسکین پوری سے تمام سلاسل میں مجاز بیعت ہونے کا اعزاز بھی ملا تھا۔ آپ نے پچاس سال تک تفسیر اور حدیث کا درس دیا اور مختلف علمی موضوعات پر تقریباً سو کے قریب تحقیقی کتابیں اور رسائل بھی تحریر فرمائے‘ ساتھ ساتھ سلوک وارشاد کے میدان میں ہزاروں افراد کو فیض یاب کیا۔
مولانا سعید احمد جلال پوری نے جنہیں حضرت بہلوی رحمہ اللہ سے خاص عقیدت ہے حضرت کے بہت سے نایاب رسائل کو بڑی محنت کے ساتھ جمع کرکے ضروری تسہیل وترتیب کے ساتھ چار جلدوں میں شائع کیا ہے جس پر وہ بجا طور پر مباکباد کے مستحق ہیں‘ معارف بہلوی توحید‘ رسالت‘ سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم‘ سلوک ومعرفت‘ فقہ وحکمت اور اصلاح وارشاد کے بیسیوں موضوعات پر حضرت بہلوی کے انتہائی مفید علمی‘ تحقیقی واصلاحی مضامین کا حسین گلدستہ ہے‘ جس میں تحقیق و تدقیق کی جواہر بیزی بھی ہے اور طریقت ومعرفت کی چاشنی بھی‘ یہ کتاب اہل علم وذوق کے لئے ایک خاص تحفہ ہے‘ مولانا سعید احمد جلال پوری مدظلہ ایک حادثے کے بعد کافی عرصے سے بستر علالت پر ہیں‘ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ نصیب فرمائے اور ان کی اس علمی خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ اٰمین۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: شوال کے چھ روزوں کی بابت
Flag Counter