Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 10
سیدی وسندی امیر الہند حضرت مولانا اسعد مدنیسے ایک سبق آموز خوشگوار ملاقات
سیدی وسندی امیر الہند حضرت مولانا اسعد مدنیسے ایک
سبق آموز خوشگوار ملاقات


”شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام والمسلمین حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے جانشین ”سلسلہ تحریک ولی اللہی“ کے امین‘ مدنی سلوک ومعارف کے وارث وامام‘ ارشاد ومعرفت کے بحر مواج‘ مسلک دیوبند کے محافظ‘ مسند ولایت کے صدر نشین وبدر منیر‘ سیادت وقیادت کے آفتاب وماہتاب‘ صدر جمعیة علمأ ہند‘ فدائے ملت‘ امیر الہند حضرت اقدس مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کی ہمہ گیر شخصیت اور بے نظیر وبے مثال خدماتِ اسلامیہ‘ دینیہ وسیاسیہ کے بحر بیکراں‘ سرمایہ گراں مایہٴ ملت اسلامیہ:
ان سے دو بالا رہی ہے عظمتِ دار العلوم
ان سے وابستہ رہی ہے نسبت جمعیة علمأ ہند
۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲ء کو عرب امارات کے مرکزی شہر دبی میں سیدی وسندی فدائے ملت‘ امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ تشریف لاکر اپنے ایک خادم کے ہاں شہر کے ایک ساحلی علاقہ میں فروکش ہوئے‘ دیکھتے ہی دیکھتے پورے عرب امارات میں ان کی آمد کی خبر شائع ہوگئی کہ حضرت امیر الہند تشریف لائے ہیں‘ بندہ شرف ِ ملاقات ودیدار کے لئے والہانہ جذبات کے ساتھ اپنا مستقر ”مدرسہ عثمانیہ“ منطقہ قصیص سے روانہ ہوگیا‘ معلومات کرتے کرتے حضرت کی اقامت گاہ تک پہنچ گیا‘ ”علیک سلیک“ اور مزاج پُرسی کے بعد میں نے اپنے مذکورہ ادارہ ”مدرسہ عثمانیہ“ میں تشریف آوری کے لئے حضرت سے درخواست کی‘ ضروری گفت وشنید کے بعد حضرت نے دعوت قبول فرمالی اورمیں وقت‘ دن اور تاریخ مقرر کرکے واپس آگیا‘دُبی میں حضرت والا کی دعوتوں وتقاریر کا پروگرام چلتا رہا‘ میں بھی پروگرام میں حاضر ہوتا رہا‘ میرے ہاں تشریف آوری سے قبل جس قدر ممکن ہوسکا میں نے حضرت کو استقبالیہ دینے کے لئے بڑی تعداد میں علمأ وصلحأ کو مدعو کر رکھا تھا‘ خاص کر محدثِ وقت حضرت مولانا میر احمد قاسمی صاحب وادیبِ زمان حضرت مولانا محمد افلاطون قاسمی صاحب مدظلہ‘ تلمیذان رشیدان حضرت اقدس شیخ الاسلام مدنی ودیگر علمائے کرام وفضلاء کا ایک بڑا مجمع اس مقررہ تاریخ کو مدرسہ میں جمع ہوگیا۔
جلسہٴ استقبالیہ اور مکمل پروگرام ترتیب دے کر حضرت امیر الہند کولینے کے لئے آپ کی رہائش گاہ گیا‘ جس وقت ان کے ہاں پہنچا شاید مقررہ وقت میں چند منٹ باقی تھے‘ از راہِ انتظار کمرہ سے باہر کتاب لے کر مطالعہ میں لگ گیا‘ تاکہ مقررہ وقت پورا ہوجائے۔ سوء قسمت! کہ مطالعہ کے انہماک میں مقررہ وقت سے شاید چند منٹ اوپروقت ہوگیا‘ اچانک گھڑی پر نظر پڑی تو چونک اٹھا اور جلدی سے حضرت کے کمرے کے اندر چلا گیا تو دیکھا کہ حضرت اٹھ کر بیٹھے ہوئے ہیں‘ مجھے دیکھتے ہی فرمایا: دیر کیوں ہوئی؟ میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا بلکہ ایک آدھ لفظ منہ سے لڑ کھڑاتے ہوئے نکل گیا تھا کہ حضرت نے پھر ذرا آواز کو کھینچ کر دوبارہ ارشاد فرمایا: دیر کیوں ہوئی؟میں ایک دم چپ ہوگیا‘ اللہ کی مہربانی دیکھئے کہ پھر میں فوراًمتنبہ ہوگیا اور جلد ی سے عرض کیا کہ حضرت غلطی ہوگئی ہے‘ معذرت خواہ ہوں‘ غالباً فرمایا: ٹھیک ہے چلئے! حضرت  عجیب مستعدی کے ساتھ نیچے اترآئے آپ کے ہمراہ ایک اور ساتھی بھی تھا‘ حضرت گاڑی میں بیٹھے اور روانہ ہوگئے‘ چند منٹوں میں ہم مدرسہ کے گیٹ میں پہنچ گئے‘ جہاں استقبالیہ دینے کے لئے حسبِ پروگرام علمائے کرام کا ایک بڑا مجمع امنڈتے ہوئے سیلاب کے مانند دولائین میں صف بستہ کھڑے تھے‘ حضرت نے ایک نظر اس طرف گھور کے دیکھاجس سے میں چونک گیا‘ چونکہ میں ایک جھٹکا پہلے کھا چکا تھا‘ اس لئے میں حضرت کی ہر ہر ادا نوٹ کررہا تھا اور ڈر بھی دامن گیرتھا‘ استقبالیہ پروگرام کو دیکھ کرمجھے خوشی بھی ہورہی تھی‘ حضرت جب اسی مجمع عام اور مدرسہ کے صحن سے گذرتے ہوئے ہال کے اندر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ مختلف رنگوں سے منقش قالین کا فرش اور مخصوص نشست دادِ حسن وجمال پیش کررہا تھا‘ نیز اسٹیج پر پیوستہ شاعر اسلام مولانا ظفر علی خان کے اس شعر کا ایک قطعہ نمایاں تھا جو دیوبند کی شان میں انہوں نے پڑھا تھا:
شاد باش شاد زی اے سرزمین دیوبند
ہند میں کیا تو نے اسلام کا جھنڈا بلند
اب کیا تھا کہ حضرت  کی نظر عمیق ان چیزوں پر پڑتے ہی حضرت کے تیور بدلے‘ مجھے ایک نظر دیکھا پھر آہستہ سے ہال کے ایک کونے میں جہاں صفائی کا خاص اہتمام بھی نہیں کیا گیا تھا‘ جاکر آرام سے بیٹھ گئے‘ پورے مجمع میں سناٹا چھایا ہوا تھا‘ مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا اورمیں محوِ حیرت! کہ اب کیا ہوگا؟ چند لمحے بعد‘ خاموشی کو توڑتے ہوئے کسی طرح ہمت کرکے حضرت سے عرض کیا کہ: حضرت! کچھ فرمانے کا تقاضا ہے تو اس وقت انتہائی دلربا‘ مزیدار‘ گرجتے ہوئے مگر شیریں انداز میں فرمایا کہ کیا فرماناہے؟
پھر خطبہٴ مسنونہ کے بعد بیان شروع ہوگیا‘ حسبِ معمول جامع اور دل موہ لینے والے انداز میں مختصر بیان فرمایا‘اختتام بیان پردوبارہ بیان کرنے کے لئے درخواست کی‘ کیونکہ مختصر بیان سے ابھی تشنگی بجھی نہ تھی پھر تو کیا کہنا کہ مجھ جیسے علمأ کے حالات پر اس طرح تند وتیز لہجے میں ڈانٹ ڈپٹ سنائی کہ آج پچیس سال کے بعد بھی اس کی لذت وچاشنی محسوس ہورہی ہے۔ یہ استقبالیہ پروگرام ظہر کی نماز تک جاری رہا پھر واپسی ہوئی‘حضرت جب تک عرب امارات میں رہے میں حضرت کے ہر پروگرام میں شریک ہوتا رہا‘ کبھی اس ناخوشگوار صورت حال کا تذکرہ تک نہیں فرمایا‘ اتنا وسیع الظرف‘ وسیع القلب‘ ذرہ نواز‘ بناوٹ وسجاوٹ سے دور‘ پابندی اوقات‘ ضبط پروگرام اور ہمہ وقت مصروف حضرت امیر الہند کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔ پروگرام اور غیر پروگرام ہر وقت لوگوں کا حضرت کے ہاں مجمع رہتا تھا‘ چاہت کے مطابق ملاقات اور ضروری گفتگو مشکل ہوتی تھی‘ اس لئے میں نے ایک طریقہٴ کار اختیار کررکھا تھا کہ ایک پرچہ میں لکھ کر ”کہ مجھے تخلیہ میں بات کرنی ہے“ حضرت کی طرف سر کا دیتا (میرے خیال میں بزرگوں اور بڑوں سے استفادہ کرنے کا یہ ایک بہترین نسخہ ہے) حضرت پروگرام سے فارغ ہوکر یا ویسے ہی مجمع سے ہٹ کر بلالیتے‘ میں اپنا مدعیٰ سنا دیتا‘ چنانچہ یہ عمل مسلسل ہوتا رہا بعض دفعہ مجھے دیکھ کر خود فرماتے کہ ”تخلیہ میں بات کرنی ہے؟ میں ہاں میں ہاں ملا دیتا توعلیحدہ وقت دے دیتے‘ میں تنہائی میں باتیں کرکے محفوظ ہوتا تھا۔
اسی طرح حضرت امیر الہند سے محبت وعقیدت میں اضافہ ہوتا گیا جو تاایں دم باقی ہے‘اور باقی رہے گا ان شاء اللہ !سانحہٴ انتقال کی وجہ سے ظاہر ی جدائی تو ہوگئی لیکن روحانی وقلبی جدائی ہرگز نہیں ہوئی:
سیدی غاب عن عینی وجسمی
ولکن لا یغیب عن قلبی
کا مصداق ہے، اللّٰہم زد فزد ۔
حضرت کے سانحہٴ انتقال کے بعد کراچی پاکستان میں تین صفر ۱۴۲۷ھ بمطالق ۴ / مارچ ۲۰۰۶ء بروز ہفتہ کو تلاوت وذکر واذکار کے ساتھ ایصال ثواب کے لئے تعزیت کا ایک پروگرام کیاگیا حتی الامکان حضرت کی خدمات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور اجتماعی دعأ کی گئی:
ملت کا لعل شب چراغ گم ہوگیا
ایک روشن چراغ تھا اب نہ رہا
۶۹-۶۸-۱۹۶۷ء کے دوران پاکستان میں مسلسل تین سال تک خاص کر ۶۹-۱۹۶۸ء دوسال جامعہ دار العلوم کورنگی کراچی میں درس وتدریس کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی خدمت بجالانے کا اتفاق ہوا‘ اس دوران بعض ناگزیر حالات اور کراچی میں عدم دلجمعی کی وجہ سے بال بچوں سمیت متحدہ عرب امارات میں اوقاف کے تحت امامت وخطابت کی ذمہ داری ادا کی ساتھ ہی دیوبند کے نصاب پر دو مدرسوں میں مسلسل ۹-۱۰-سال تک ابتدائی ومتوسطہ درجات کی کتابیں پڑھانے کا موقع میسر آتارہا‘ بالآخر ۱۹۸۴ء میں معاشرتی حالات وسنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید سکونت اختیار کرنا اسلامی نکتہ نگاہ سے سود مند نہیں تھا‘ چنانچہ خوش قسمتی سے خلیفہٴ اجل حضرت شیخ الاسلام مدنی سیدی وسندی ومرشدی حضرت اقدس مولانا احمد شفیع صاحب مدظلہم (رئیس وشیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم معین الاسلام ہاٹہزاری) ہمارے ہاں دبی تشریف لائے‘ موقعہ غنیمت جان کر حضرت مدظلہ سے اس سلسلہ میں مشورہ ہوا کہ امارات سے نکل جانے کا ارادہ ہے تو حضرت نے پاکستان جانے کے لئے مشورہ مرحمت فرمایا۔ اسی دوران حضرت امیر الہند دبی تشریف لائے‘ جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا‘ موقع مناسب سمجھ کر حضرت سے مشورہ کے لئے درخواست کی‘ جس کے لئے حضرت نے اجازت مرحمت فرمائی‘ چنانچہ حضرت سے عرض کیا کہ: چونکہ آزادی سے قبل ۱۹۴۲ء سے اور آزادی کے بعد بھی پاکستان میں دو تین بار مدارس ومساجد میں گذار کر آیا ہوں اور قدرے تجربہ بھی ہے‘ نیز حالات دیکھ کر دل نہیں کرتا کہ مستقل دبی میں رہوں میں نے پاکستان بنتے وقت تقسیم کے واقعات اور حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی پر بیتے ہوئے اندوہناک خونی سانحات قدرے سناکر میں خاموش ہوگیا‘ حضرت میری باتوں کو شرف سماعت بخشا پھر حضرت نے بڑے جزم کے ساتھ فرمایا کہ: بھائی! تسلیم اور ناتسلیم کی بات نہیں‘ بات سمجھنے کی ہے کہ آپ پاکستان چلے جائیں آپ کے لئے یہی مناسب ہے۔ اب وہ زمانہ ختم ہوگیا ہے کہ قدیم باتوں پر قیل وقال کیا جائے۔ اب دونوں ملکوں کے علمأ کا مل کر کام کرنے کا وقت ہے‘ بلکہ اب تو ہم مل کر کام کررہے ہیں‘ آپ وہاں چلے جائیں۔ بہتر ہوگا۔ میں نے لطیف سا اشارہ کیا کہ ملاقات کا کیا سلسلہ ہوگا ‘فرمایا کہ بے فکر رہو‘ ہماری آمد ورفت رہتی ہے‘ ملاقات بھی ہوتی رہے گی ‘اس کے بعد فون پر رابطہ رہا۔ حضرت نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ: اگر وہاں سے ویزا نہیں ملتا تو مجھے بتادینا کہ دہلی سے بھیج دوں گا‘ آسانی سے ہندوستان آسکو گے‘ افسوس اب ایسا کہنے والے کہاں ملیں گے؟
ڈھونڈو گے‘ تم مگر ملیں گے نہیں ہم
کا مصداق ہے یہ ایک واقعہ نہیں حضرت کی زندگی میں ایسے سینکڑوں واقعات ملیں گے‘ بالآخر دونوں بزرگوں سے مشورہ کے بعد بچوں سمیت پاکستان آگیا۔ خلاصہ یہ کہ مدنی خانوادہ کی ذہنیت ‘دل ودماغ اور قلب وجگر کس قدر صاف اور شفاف اور کس قدر قومی‘ ملی‘ ملکی اور معاشرتی مسائل پر گہری نظر ہے کہ شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود انسانی ہمدردی‘ صلح صفائی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لئے خاص کر اتفاق واتحاد کے ساتھ آپس میں مل کر عملی اقدام کو کس طرح ترجیح دیتے تھے‘ کیوں نہ ہو! جیساکہ شیخ الاسلام حضرت اقدس مدنی نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو مسجد سے تشبیہ دے کر فرمایا تھا کہ: مسجد بنانے میں اختلاف رائے تو ہوسکتی ہے‘ مگر مسجد بن جانے کے بعد کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی‘ اب صرف سب کو مل کر نماز پڑھنی ہے‘ اسی طرح جب پاکستان بن گیا‘ اب اختلاف کرنا مناسب نہیں ہے‘ اب سب کو مل کر اس کی حفاظت کرنا ضروری اور لازمی ہے:
اک مفکر‘ اک مدبر ایک قومی رہنما
کاروانِ اہل حق کا ایک سچا پیشوا
شیخ الاسلام حضرت اقدس مدنی مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مفکر ملت حضرت مولانا سید محمد میاں نور اللہ مراقدہم کے بعد امیر الہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ ہماری بزم جہد وعزیمت کے ایک روشن چراغ تھے‘ افسوس صد افسوس کہ ۷/محرم الحرام ۱۴۲۷ھ مطابق ۶/فروری ۲۰۰۶ء کو بادِ ”کل نفس ذائقة الموت“ نے آپ جیسے عظیم چراغ کو بھی گل کردیا‘ گویاکہ:
ایک روشن چراغ تھا نہ رہا
انا لله وانا الیہ راجعون‘ اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: داڑھی کی شرعی حیثیت
Flag Counter