Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 10
مولاناقاری محمد عارف ہزاروی
مولاناقاری محمد عارف ہزاروی

آپ جدون خاندان کے چشم وچراغ تھے‘ سکول ریکارڈ کے مطابق ۱۶/ستمبر ۱۹۳۷ء کو ڈھیری کہیال ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے‘ آپ کے والد ماجد کا نام مولوی قلندر خان بن فتح خان بن زید اللہ خان بن ولایت خان ہے۔
پرائمری کا امتحان مقامی سکول کہیال سے ۱۹۴۴ء میں پاس کیا پھر ۱۰/ اپریل ۱۹۴۴ء کو گورنمنٹ لوئر مڈل سکول (اب ہائی سکول) رجوعیہ میں داخلہ لیا اور ۲۷/۴/۱۹۴۶ء کو لوئر مڈل کا امتحان پاس کرکے مدرسہ احیاء العلوم جامع مسجد روڈ حویلیاں (ایبٹ آباد) میں داخلہ لیا اور اپنے بہنوئی اور درس نظامی کے ممتاز فاضل مولانا قاضی عبد الحی چن پیر ہاشمی صدر مدرس سے درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں پھر جامعہ رحیمیہ نیلاگنبد انار کلی لاہور میں داخلہ لیا اور مولانا سید غازی شاہ صاحب ہزاروی فاضل دیوبند سے پڑھتے رہے‘ اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۵۲ء میں ”مولوی“ ۱۹۵۳ء میں ”مولوی عالم“ اور ”میٹرک“ کے امتحانات پاس کئے‘ پھر پنجاب یونیورسٹی اور ئینٹل کالج لاہور میں ”فاضل عربی“ کلاس میں داخلہ لیا اور یہاں دیگر اساتذہ کے علاوہ حضرت مولانا محمد رسول خان ہزاروی سے بطور خاص خوب خوب استفادہ کیا اور ۱۹۵۵ء میں ”فاضل عربی“ کا امتحان پاس کیا‘ پھر جب حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب بانی جامعہ اشرفیہ کی دعوت پر حضرت مولانا محمد رسول خان صاحب جامعہ اشرفیہ تشریف لے آئے تو آپ نے بھی جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لے لیا اور جامعہ کے فاضل اساتذہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن‘ مولانا محمد رسول خان ہزاروی‘ مولانا حافظ محمد ادریس کاندھلوی‘ مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی‘ مولانا ضیاء الحق اٹکی اور مولانا عبید اللہ  سے تکمیل کی۔ آپ اپنے ان اساتذہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ برابر چار پانچ سال تک دورہٴ حدیث کے اسباق میں شرکت کرتے رہے ‘ سند بعدمیں ۱۳۸۵ھ میں امتحان دے کر حاصل کی۔
دورہٴ تفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریسے مدرسہ قاسم العلوم شیر انوالہ گیٹ لاہور میں پڑھا اور ۱۰۰ میں سے ۹۷ نمبر حاصل کرکے ۲۱ ذوالقعدہ ۱۳۷۵ھ میں سند حاصل کی۔ پنجاب بورڈ سے ۱۹۶۲ء میں انٹر اور ۱۹۶۳ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کے امتحان پاس کئے۔۲۱ اگست ۱۹۶۳ء کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ہاسٹلز کی جامع مسجد میں بطور امام وخطیب تقرر ہوا‘ اپنے فرائض منصبی کے ساتھ حصولِ تعلیم کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا‘ اسی سال ۱۹۶۳ء میں پنجاب یونیورسٹی اور ئینٹل کالج لاہور میں ایم اے عربی میں داخلہ لیا اور ۱۹۶۵ء میں ایم اے عربی اور ۱۹۶۶ء میں ایم اے علوم اسلامیہ ۱۸۶۹ء میں ایم اے اردو اور ۱۹۷۰ء میں ایم اے فارسی کے امتحانات جامعہ پنجاب سے پاس کئے‘ ۱۹۷۲ء میں جامعہ پنجاب نے ایم او ایل کی ڈگری عطاکی۔
علم طب (عربی) کی تحصیل مولانا حکیم قاری عبد الحکیم صاحب فاضل دیوبند اور خلیفہ مجاز حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے کی‘ پھر طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور جون ۱۹۷۶ء میں چار سالہ کورس ”فاضل الطب والجراحہ“ کی تکمیل کرکے سند حاصل کی ‘ یونانی طبی بورڈ میں رجسٹریشن درجہ اول میں ہوئی‘ تجوید میں روایت حفص کی تکمیل قاری محمد شاکر انور اور مولانا قاری عطاء اللہ صاحب سے کرکے ۱۹۷۸ء میں سند حاصل کی‘ اس کے بعدمولانا قاری عطاء اللہ صاحب سے قراء ات سبعہ کی تکمیل کرکے سند حاصل کی۔
تدریسی خدمات
جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں پانچ سال مدرسہ نصرة الحق نسبت روڈ اور جامعہ غزالیہ میں کئی سال حسبة للہ پڑھاتے رہے‘ کچھ عرصہ اسلامک اکیڈمی پرانی انار کلی کے پرنسپل اور ضیاء العلوم سکول فیض باغ کے سربراہ بھی رہے۔ کے ای میڈیکل کالج کے ہزاروں ڈاکٹروں نے آپ سے مکمل قرآن پاک کی تفسیر پڑھی‘ بعض نے تجوید اور ساتھ ہی دینی علوم صرف ونحو وحدیث بھی پڑھی‘ نیزڈاکٹروں نے آپ کے خطبات جمعہ سے بھر پور استفادہ کیا۔
خطبات جمعہ وعیدین
درس قرآن وحدیث کے علاوہ آپ چار دن کی تیاری کے بعد جمعرات کو باقاعدہ خطبہ جمعہ لکھ لیا کرتے تھے پھر اسی کی روشنی میں آیات واحادیث پیش کرتے‘ موضوع کا انتخاب بھی عمدہ ہوتا‘ آپ کا بیان بڑا مؤثر ہوتا تھا۔
تصانیف
کئی تصانیف میں وہ راقم الحروف کے ساتھ شریک رہے‘ ان میں تفسیر سورہ الحجرات‘ سورہ لقمان‘ جواہر الحدیث‘ اربعین نووی‘ فلسفہ اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات بطور خاص قابل ذکر ہیں‘ سینکڑوں خطبات غیر مطبوعہ محفوظ ہیں اور ان پر کام ہورہاہے۔
وصال
۲۰ محرم الحرام ۱۴۲۵ھ /۱۲ مارچ ۲۰۰۴ء بروز جمعة المبارک رات آٹھ بجے کے قریب میو ہسپتال میں آپ کا وصال ہوا اور بروز ہفتہ صبح ساڑھے سات بجے کے ای کے ہاسٹل گراؤنڈ میں نماز جنازہ ادا کی گئی‘ جس میں علمأ‘ حفاظ وقراء‘ طلبہ‘ ڈاکٹروں اور تاجروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور پھر انہیں ان کے استاذ مولانا قاری عطاء اللہ صاحب کے پہلو میں میانی شریف کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ پسماندگان میں آپ کی اہلیہ‘ چار بیٹے: مولوی قاری محمد نعیم ایم اے فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور‘ حافظ محمد سعید ایم اے‘ حافظ محمد ابراہیم ایم اے‘ اورمولوی قاری محمد عمران ایم اے۔ اور دو بیٹیاں آپ کی یادگار ہیں‘ سب ہی ماشأ اللہ عالم وفاضل اور صاحب اولاد ہیں۔
آپ درس نظامی کے ایک مضبوط مدرس‘ عالم دین اور علوم عصریہ کے ممتاز فاضل تھے‘ عربی‘ اردو‘ انگریزی اور فارسی پر عبور حاصل تھا‘ آپ کا ذاتی کتب خانہ بھی نادر علمی کتابوں کا ایک عمدہ ذخیرہ ہے‘ مطالعہ کا بھی عمدہ ذوق تھا اور حافظہ بھی خوب تھا‘ اساتذہ کرام کی تقاریر کی تقاریر یاد تھیں۔
پہلی بیعت حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کے ہاتھ پہ کی‘ ان کے وصال کے بعد اپنے استاذ حضرت مولانا محمد رسول خان صاحب کے ہاتھ پر چاروں سلسلوں میں بیعت ہوئے ‘ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور نیکیوں کو قبول فرمائے۔ آپ راقم الحروف کے استاذ اور بڑے بھائی تھے۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: امام شاہ ولی اللہ اور حنفیت
Flag Counter