Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 10
قیامت کے ہولناک مناظر سے نجات دینے والے اعمال
قیامت کے ہولناک مناظر سے نجات دینے والے اعمال

علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر بن فرح الانصاری‘ قرطبی‘ اندلسی متوفی: ۶۷۱ھ‘ ساتویں صدی کے مشہور بزرگ‘ محقق‘ محدث‘ مفسر اور ائمہ کبار میں سے ہیں‘ آپ نے موت‘ احوالِ موت‘ مابعد الموت‘ حشر‘ نشر‘ جنت‘ جہنم‘ فتن اور علاماتِ قیامت پرایک بہت ہی نفیس کتاب : ”التذکرہ باحوال الموتیٰ وامور الآخرة“ کے نام سے تالیف فرمائی ہے‘ جسے بحمد اللہ! ہرزمانہ کے اہلِ علم‘ علمأ ومحققین کے ہاں نہ صرف قبولیت کا شرف حاصل ہوا‘ بلکہ ہردور کے اکابر علمأ اور اہلِ تحقیق نے اس پر بھر پور اعتماد کیا‘ اور انذار وتبشیر کے مضامین میں اس سے احتجاج واستناد کیا۔
علامہ موصوف نے اپنی اسی تصنیف میں:”ما ینجی من اہوال یوم القیامة ومن کُربہا“ کے عنوان سے ایک باب قائم کیاہے‘ جس میں انہوں نے حکیم ترمذی کی سند سے حضرت عبد الرحمن بن سمرہ  کی ایک عجیب وغریب حدیث نقل کی ہے۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ افادہٴ عام کے لئے اس کو نقل کرکے اس کا اردو ترجمہ اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کو مختصر طور پر قارئین بینات کی خدمت میں پیش کردیا جائے‘ بہت ممکن ہے کسی اللہ کے بندے اور بینات کے کسی با توفیق قاری کو اس پر عمل کی توفیق ہوجائے اور راقم کی نجاتِ آخرت کا ذریعہ بن جائے۔ آمین۔حدیث شریف کا عربی متن مع ترجمہ درج ذیل ہے:
”وخرّج الترمذی الحکیم فی نوادر الاصول قال: حدثنا ابی رحمہ اللہ قال: حدثنا عبد اللہ بن نافع قال: حدثنی ابن ابی فدیک عن عبد الرحمن بن ابی عبد اللہ‘ عن سعید بن المسیب‘ عن عبد الرحمن بن سمرة  قال: خرج علینا رسول اللہ ا ذات یوم ونحن فی مسجد المدینة فقال ”انی رأیت البارحة عجبا رأیت رجلا من امتی جاء ہ ملک الموت لیقبض روحہ فجاء ہ‘ برہ بوالدیہ فرد عنہ‘ ورأیت رجلا من امتی قد بسط علیہ عذاب القبر فجاء ہ وضوؤہ فاستنقذہ من ذلک‘ ورأیت رجلامن امتی قد احتوشتہ الشیاطین فجاء ہ ذکر اللہ فخلصہ من بینہم‘ ورأیت رجلا من امتی قد احتوشتہ ملائکة العذاب فجاء تہ صلاتہ فاستنقذتہ من أیدیہم‘ ورأیت رجلا من امتی یلہث عطشا کلما ورد حوضا منع منہ فجاء ہ صیامہ فسقاہ وارواہ‘ ورأیت رجلا من امتی والنبیون قعود حلقا حلقا کلما دنا لحلقة طردوہ‘ فجاء اغتسالہ من الجنابة فاخذ بیدہ واقعدہ بجنبی‘ ورأیت رجلا من امتی من بین یدیہ ظلمة ومن خلفہ ظلمة وعن یمینہ ظلمة وعن شمالہ ظلمة ومن فوقہ ظلمة ومن تحتہ ظلمة فہو متحیر فیہا‘ فجاء تہ حجتہ وعمرتہ فاستخرجاہ من الظلمة وادخلاہ فی النور‘ ورأیت رجلا من امتی یکلم المؤمنین فلایکلمونہ فجاء تہ صلة الرحم‘ فقالت یا معشر المؤمنین کلموہ فکلموہ‘ ورأیت رجلا من امتی یتقی شرر النار ووہجہا بیدہ عن وجہہ فجاء تہ صدقتہ فصارت ستراً علی وجہہ وظلاًعلی رأسہ‘ ورأیت رجلا من امتی قد اخذتہ الزبانیة من کل مکان فجاء ہ امرہ بالمعروف ونہیہ عن المنکرفاستنقذہ من أیدیہم وأدخلاہ مع ملائکة الرحمة‘ ورأیت رجلا من امتی جاثیا علی رکبتیہ بینہ وبین اللہ حجاب فجاء ہ حسن خلقہ فأخذ بیدہ فادخلہ علی اللہ‘ ورأیت رجلا من امتی قد ہوت صحیفتہ من قبل شمالہ فجاء ہ خوفہ من اللہ تعالی فأخذ صحیفتہ فجعلہا فی یمینہ‘ ورأیت رجلا من امتی قد خف میزانہ فجاء تہ افراطہ فثقلوا میزانہ‘ ورأیت رجلا من امتی قائما علی شفیر جہنم فجاء ہ وجلہ من اللہ فاستنقذہ من ذلک ومضی‘ ورایت رجلا من امتی ہوی فی النار فجاء تہ دموعہ التی بکی من خشیة اللہ فی الدنیا فاستخرجتہ من النار‘ ورایت رجلا من امتی قائما علی الصراط یرعد کما ترعد السعفة فجاء ہ حسن ظنہ باللہ فسکن رعدہ ومضی‘ ورایت رجلا من امتی علی الصراط‘ ورایت رجلا من امتی انتہی الی ابواب الجنة فغلّقت الابواب دونہ فجاء تہ شہادة ان لا الہ الا اللہ ففتحت لہ الابواب وادخلتہ الجنة“۔ (التذکرہ:ص:۲۷۷‘۲۷۸)
ترجمہ:․․․․حضرت عبد الرحمن بن سمرہ نقل کرتے ہیں کہ: ایک دن ہم مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ آنحضرت ا ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ: میں نے گزشتہ رات خواب میں ایک عجیب وغریب منظر دیکھا ہے‘ پھر فرمایا :
۱:․․․․”میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اسکی روح قبض کرنے کے لئے ملک الموت آیا‘ مگراس کا والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا عمل آیا اس نے ملک الموت کو اس سے دور کردیا“۔
۲:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کے ایک آدمی پر عذابِ قبر مسلط ہوا چاہتا تھا‘ اتنے میں اس کے وضو کا عمل آیا‘ اس نے اسکو اس عذابِ قبر سے نجات دلادی۔
۳:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کے ایک آدمی کو شیاطین نے گھیر رکھا تھا‘ اتنے میں اس کا ذکر اللہ کا عمل آیا‘ اس نے اسکو شیاطین کے چنگل سے چھڑادیا۔
۴:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کے ایک آدمی کو ملائکہ عذاب نے گھیر رکھاہے‘ اتنے میں اسکی نمازیں آئیں اور اسے ان کے ہاتھوں سے رہائی دلاکر لے گئیں۔
۵:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کا ایک آدمی پیاس سے جان بلب ہے اور اسکی زبان باہر نکلی ہوئی ہے‘ جیسے ہی وہ حوضِ کوثر سے پانی پینے کو جاتاہے‘ اسے وہاں سے ہٹا دیاجاتاہے‘ اتنے میں اس کا روزہ آیا‘ اس نے اسکو پانی پلایا اور خوب سیراب کردیا۔
۶:․․․․میں نے دیکھا کہ حضرات انبیأ کرام مختلف حلقوں میں تشریف فرما ہیں‘ میری امت کا ایک آدمی ان حلقوں میں سے کسی حلقہ کے قریب جانا چاہتاہے‘ مگر اسے وہاں سے ہٹادیا جاتاہے‘ اتنے میں اس کے غسلِ جنابت کا عمل آیا‘ جس نے اسکو ہاتھ سے پکڑااور لاکر میرے پہلو میں بٹھا دیا۔
۷:․․․میں نے اپنی امت کے ایک ایسے آدمی کو دیکھا کہ اس کے آگے ‘ پیچھے‘ دائیں‘ بائیں‘ اوپر‘ نیچے‘ ہرطرف ظلمت ہی ظلمت اور اندھیراہی اندھیرا ہے‘ وہ ان اندھیروں میں گھرا ہوا سخت پریشان ہے‘ اتنے میں اس کے حج وعمرے آئے اور اسکو اس ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کردیا۔
۸:․․․․میں نے اپنی امت کا ایک ایسا آدمی دیکھا کہ وہ اہلِ ایمان سے بات کرنا چاہتاہے‘ مگر اس سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ‘ اتنے میں صلہ رحمی کا عمل آیا‘ اس نے آتے ہی کہا: اے مومنین کی جماعت ! اس سے کلام کرو‘ چنانچہ اہلِ ایمان اس سے کلام کرنے لگے۔
۹:․․․میں نے اپنی امت کا ایک ایسا آدمی دیکھا جو اپنے ہاتھوں کے ذریعہ اپنے منہ سے آگ کے شعلوں اور اسکی لپٹوں کو ہٹا رہاہے‘ اتنے میں اس کا صدقہ آیا‘ اس کے اور آگ کے درمیان حائل اور اس کے سر پر سایہ بن گیا۔
۱۰:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کے ایک آدمی کو جہنم کے فرشتوں نے ہرطرف سے گھیر کر پکڑ رکھا ہے‘ اتنے میں اس کا امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا عمل آیا‘ جس نے اسے ملائکہٴ عذاب سے چھڑاکر ملائکہ رحمت کے سپرد کردیا۔
۱۱:․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کا ایک آدمی گھٹنوں کے بل گرا ہواہے‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے درمیان ایک حجاب حائل ہے‘ پس اس کے حسنِ اخلاق کا عمل آیا‘ جس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لاکر اسے بارگاہِ الٰہی میں کھڑا کردیا۔
۱۲:․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کے ایک آدمی کا نامہ عمل اس کے بائیں ہاتھ کی طرف بڑھ رہا تھا‘ اتنے میں اس کا خوفِ الٰہی کا عمل آگے بڑھا اور اس کے نامہ عمل کو اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا۔
۱۳:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کے ایک آدمی کی نیکیوں کا پلہ ہلکا اور گناہوں کا پلہ بھاری ہورہا تھا‘ اتنے میں اس کا لوگوں کے ساتھ حسنِ معاملہ اور حق سے زیادہ دینے کا عمل آیا جس نے اس کے میزانِ عمل کو جھکادیا۔
۱۴:․․․․میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جہنم کے کنارہ پر کھڑا ہے‘ اتنے میں اللہ کے خوف سے اس کے دل کی کپکپاہٹ آئی اور اسے نجات دلاکر لے گئی۔ ۱۵:․․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کا ایک آدمی جہنم میں گررہا تھا‘ اتنے میں اس کے وہ آنسو‘ جو دنیا میں اللہ کے خوف سے بہے تھے‘ آگے بڑھے اور اسے جہنم سے باہر نکال کرلے گئے۔
۱۶:․․․میں نے دیکھا کہ میری امت کا ایک آدمی پل صراط پر کھڑا ہے اور دوسرا جنت کے دروازے پر پہنچ چکا ہے‘ مگر آگے جنت کے دروازے بند ہوگئے‘ اتنے میں ”لا الہ الا اللہ“ کی شہادت کا عمل آیا‘ جسکی برکت سے اس کے لئے جنت کے دروازے کھل گئے اور وہ جنت میں داخل ہوگیا“۔
علامہ قرطبی  اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”قلت ہذا حدیث عظیم ذکر فیہ اعمالا خاصة تنجی من اہوال خاصة وااللہ اعلم“
ترجمہ:․․․ میں کہتاہوں یہ عظیم حدیث ہے جس میں ایسے خاص اعمال کا تذکرہ ہے‘ جو مخصوص قسم کی قیامت کی ہولناکیوں سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔
گویا اس حدیث شریف میں امت کویہ درس دیا گیا ہے کہ:
#:․․․اگر کوئی شخص لمبی عمر کا خواہش مند ہے تو اسے چاہیئے کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے‘ کیونکہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی برکت سے زندگی لمبی ہوجاتی ہے۔
#:․․․اگر کوئی عذابِ قبر سے نجات چاہتاہے تواسے اہتمام کے ساتھ باوضو رہنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
#:․․․اگر کوئی شخص شیاطین کے شر سے نجات چاہتاہے تو ذکر اللہ کا اہتمام کرے۔
#:․․․اگر کوئی ملائکہٴ عذاب سے بچنا چاہتاہے تو اسے چاہیئے کہ نمازوں کا اہتمام کرے۔
#:․․․اگر کوئی میدانِ حشر کی پیاس سے نجات چاہتاہے تو روزوں کا اہتمام کرے۔
#:․․․اگر کوئی شخص انبیأ کرام کا قرب چاہتاہے تو غسلِ جنابت کا اہتمام اور ناپاکی سے اجتناب کرے۔
#:․․․اگر کوئی قیامت کی ظلمت واندھیروں سے بچنا چاہتاہے تو کثرت سے حج وعمرے کیا کرے۔
#:․․․اگر کسی کی خواہش ہے کہ اہلِ ایمان قیامت کے دن اس سے بائیکاٹ نہ کریں تو صلہ رحمی کیا کرے۔
#:․․․اگر کسی کو جہنم کی آگ سے حفاظت کی خواہش ہے تو صدقہ کیا کرے۔
#:․․․اگر کوئی جہنم کے فرشتوں کی گرفت سے بچنا چاہتاہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرے۔
#:․․․اگر کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا خواہش مند ہے تو لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق کا معاملہ کیا کرے۔
#:․․․اگر کوئی شخص داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال کی خواہش رکھتاہے تو اسے ہر معاملہ میں خوف الٰہی کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔
#:․․․اگر کوئی اپنی نیکیوں کا پلہ بھاری دیکھنا چاہتاہے تو اسے لوگوں کے ساتھ حسنِ معاملہ اور حق سے زیادہ ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیئے۔
#:․․․اگر کوئی شخص جہنم میں گرنے سے بچاؤ کی خواہش رکھتاہے تو اسے دنیا میں اللہ کے خوف سے آنسو بہانا چاہیئے۔
#:․․․اگر کوئی شخص پل صراط سے بعافیت گزرنے کی خواہش رکھتاہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن کا معاملہ کرنا چاہیئے۔
#:․․․اگر کوئی شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے لئے جنت کے دروازے بند ہونے کے بجائے کھل جائیں تو اسے کلمہ لا الہ الا اللہ اور اسکی شہادت دینا چاہیئے۔
اللہ تعالیٰ ناکارہ راقم الحروف اور سب مسلمانوں کوبظاہران چھوٹے مگر بے حد مفید اعمال کی توفیق بخشے اور قیامت کی ہولناکیوں سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: نبی کی فرضی شبیہ کا حکم
Flag Counter