Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 10
امام شاہ ولی اللہ اور حنفیت
امام شاہ ولی اللہ اور حنفیت

بانیٴ جامعہ علوم اسلامیہ محدث العصرحضرت بنوری رحمہ اللہ نے یہ تحقیقی مقالہ آج سے کوئی ۶۸ برس قبل۱۳۵۹ئھ /۱۹۴۰ئئمیں بریلی سے مولانا محمد منظور نعمانی  کی زیرادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ”الفرقان “ کی خصوصی اشاعت برائے امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے لیے تحریر فرمایا تھا، حضرت بنوری اس وقت جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ، سرزمین ہند کے ان اکابر میں سے ہیں جن کی نظیر نہ صرف اپنے عصر میں اور نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ بہت سے قرون اور ممالکِ اسلامیہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی،حضرت موصوف، بقول حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبندان افراد امت میں سے ہیں کہ سرزمین ہندمیں اگر صرف شاہ ولی اللہ ہی پیداہوتے تو ہندوستان کے لئے یہ فخر کافی تھا۔ حضرت شاہ صاحب کی زندگی اور علمی و عملی کمالات کے اتنے گوشے ہیں کہ ہرایک مستقل تصنیف کا محتاج ہے۔ مثلاً حضرت ممدوح کی جامعیت اور تبحر، دقت نظر، ظاہری و باطنی علو م کا حیرت انگیز اجتماع، مکاشفات و کرامات، تصنیف و تالیف، ترجمہ قرآن کی بنیاد، نصابِ حدیث کی تاسیس، درس کی اصلاح، اسرارِ شریعت کی دل نشین اور موثر تشریح، کلام، تصوف، فلسفہ، اخلاق اور نظام حکومت میں ان کے خاص خاص قابل قدر نظریات، اصول تفسیر و اصول حدیث میں خاص خاص تحقیقات ،جہاد کا جوش، حکومت اسلامیہ کی خلافت راشدہ کے اصولوں پر تشکیل و تاسیس وغیرہ وغیرہ اتنے کمالات و خصائص ہیں جو اہلِ نظر و فکر کے لئے اور اہلِ دل و اہلِ ذوق اربابِ قلم کے لئے کافی جولانگاہِ تحقیق و تدقیق ہیں۔ حضرت موصوف کیا تھے؟ خدائے تعالیٰ کی ایک حجت قاطعہ تھی جو بارہویں صدی میں ہندوستان میں ظاہر ہوئی۔ میری بساط ہی کیا ہے کہ میں اربابِ نظر کے لئے شاہ صاحب کے کمالات کے کسی شعبہ پرایسا لکھ سکوں کہ حق ادا ہوسکے، تاہم حصولِ سعادت کے لئے ایک موضوع پر کچھ اظہار رائے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، عصر حاضر کے ذوق کے پیش نظر مجھے کوئی دلچسپ موضوع اختیار کرنا چاہئے تھا، مگر مندرجہ ذیل امور نے مجھے عنوان مندرجہ بالا پر کچھ اظہار کرنے کے لئے مجبور کیا۔
۱:۔حنفیت حقیقت میں ایک شرعی نظامِ قانون ہے جس کو اصحابِ درایت اور ائمہ مذہب نے نظامِ عالم کے لئے اصح ترین قانون سمجھا اور آخرت کے لئے ایک نافع ترین ذریعہ نجات و وسیلہ سعادت خیال کیا۔
۲:۔ ہند اور بیرونِ ہند کے مخالف تقلید حضرات نے حضرت شاہ ولی اللہ  کو بھی امام ابن حزم ظاہری ،علامہ ابن القیم اور خاص شوکانی کی طرح عدم تقلید کے لئے ایک رکن رکین سمجھا، بلکہ تقلید اور بالخصوص حنفیت کا دشمن ظاہر کیا ہے۔
۳:۔حضرت موصوف کی بعض تالیفات میں بعض ایسی عبارات بھی موجودہیں جس سے ایک سطحی النظر شخص دیانت داری کے ساتھ حضرت شاہ صاحب  کے متعلق یہ رائے قائم کرسکتا ہے۔
اس موقع پر مناسب ہوتا کہ کچھ تفصیلی نظر اجتہاد و تقلید پر ڈال سکتا، تاکہ کسی قدر واضح ہوجاتا کہ حضرت شاہ صاحب مجتہد تھے یا مقلد؟ لیکن مضمون بہت طویل ہوجائے گا، اس لئے اس کے متعلق چند ارشادات ہی پر اکتفا کرتا ہوں ،اور وہ ارشادات بھی نہایت مجمل ہوں گے، لیکن انشاء اللہ!اہلِ علم کے لئے وہ کافی بھی ہوں گے۔
۱:․․․․اگر قدما میں سے قاضی بکار اور امام طحاوی اور ابوبکر خصاف اور ابوبکر جصاص، قاضی ابوزید دبوسی ،شمس الائمہ سرخسی وغیرہ وغیرہ اور متاخرین میں سے امیر کاتب اتقانی، علاء الدین ماردینی، ابن الہمام ،ابن امیر الحاج، قاسم بن قطلو بغا وغیرہ مقلد ابوحنیفہ ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ حضرات بھی اپنے خصوصی مختارات رکھتے ہیں تو پھر حضرت شاہ صاحب کا انہی کی طرح حنفی ہونا کیوں مستبعد ہے ! !
نیز جبکہ قاضی اسماعیل، حافظ ابن عبدالبر،قاضی ابوبکر بن عربی، حافظ اصیلی، ابن رشد کبیر مالکی ہوسکتے ہیں اور دارقطنی، بیہقی، خطابی، ابوالمعالی، امام الحرمین، غزالی،عز ابن عبدالسلام، ابن دقیق العید وغیرہ شافعی ہوسکتے ہیں اور علیٰ ہذا جبکہ ابن جوزی، ابن قدامة، ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ حنبلی ہوسکتے ہیں تو پھر اسی درجہ میں حضرت شاہ صاحب کو مقلد ِمذہب حنفی ماننے میں کیا اشکال ہوسکتا ہے!!
۲:․․․اصولاًکسی امام صاحبِ مذہب کا متبع چند جزئی مسائل میں اگر اپنے امام کے خلاف رائے قائم کرے تو علمائے امت میں اس کو اتباع و تقلید کے منافی نہیں سمجھا جاتا، قریباً سب مذاہب کے علماء میں کثرت سے خاص خاص مسائل میں بہت سے اختیارات اپنے ائمہ کے خلاف ملتے ہیں۔ٍ
۳:․․․ پس اگر آپ نے تقلید کی وسیع حدود کو ان ارشادات اور امثلہ سے کچھ سمجھ لیا ہے تو پھر حضرت شاہ صاحب کی عبارات و ملفوظات سے یہ سمجھنا آپ کے لئے آسان ہوجائے گا کہ حضرت ممدوح حنفی تھے یا غیر حنفی۔
۴:․․․اجتہادو تقلید کے سمجھنے کے لئے ایک حد تک حضرت شاہ صاحب کی تالیف ”عقد الجید فی الاجتہاد والتقلید“ عربی میں اور اردو میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب ”الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد “اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہ کی کتاب ”ایضاح الادلہ“ کی دفعہ پنجم کافی و شافی ہیں۔
۵:․․․ہر محدث کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ فقیہ بھی ہو، جیسا کہ ہر فقیہ کا محدث ہونا ضروری نہیں، نیز تفقہ کا مرحلہ تحدیث سے کہیں زیادہ مشکل ہے، اس کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل دو واقعے پیش کرتا ہوں:
۱:․․․حافظ حدیث ابوعمرابن عبدالبر مالکی اندلسی (المتوفی ۴۶۳ھ) اپنی کتاب ”جامع بیان العلم“ میں فرماتے ہیں کہ امام حدیث اعمش (سلیمان بن مہران) کی مجلس میں ایک شخص آیا اور اعمش سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے ،دیکھا کہ امام ابوحنیفہ تشریف رکھتے ہیں، فرمایا کہ: کہئے نعمان! کیا ہے ،جواب؟ امام ابوحنیفہ  نے فوراً جواب دے دیا ۔ امام اعمش نے پوچھا : ابوحنیفہ! تم نے کہاں سے یہ جواب دیا؟ ابوحنیفہ نے فرمایا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے
”نحن الصیادلة وأنتم الأطباء“․
ترجمہ :”ہم تو عطار ہیں طبیب تو آپ لوگ ہیں۔“ (مختصر جامع بیان العلم ۱۸۲)
نیز امام ابن عبدالبر اسی کتاب میں نقل فرماتے ہیں کہ: ایک دفعہ اعمش نے امام ابویوسف سے ایک مسئلہ دریافت فرمایا، ابویوسف نے جواب دے دیا، آپ نے فرمایا: یعقوب! (امام ابویوسف کانام ہے) تم نے یہ کہاں سے کہا؟ فرمایا: اس فلاں حدیث سے جو آپ نے ہی مجھے بیان فرمائی ہے۔ اعمش فرمانے لگے:
”یایعقوب انی لاحفظ ھذا الحدیث من قبل ان یجتمع ابواک ماعرفت تاویلہ الی الآن ․“ ( مختصر جامع بیان العلم ص ۱۸۲)
ترجمہ :”یعقوب! یہ حدیث تو مجھے اس وقت سے یاد ہے کہ آپ کے والدین جمع بھی نہ ہوئے ہوں گے، لیکن آج تک مجھے اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔“
اور یہ اعمش وہ جلیل القدر امام ہیں جن کے متعلق امام بخاری کے استاد علی بن المدینی فرماتے ہیں:
”حفظ العلم علی امَّةِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ستة: عمرو بن دینار بمکة ،والزھری بالمدینة، وابواسحاق السبیعی ،والاعمش بالکوفة، وقتادة ویحیی بن ابی کثیر بالبصرة ․“ ( تہذیب التہذیب لابن حجر: ص ۴۲۴ ج:۲)
ترجمہ :․․․”امت محمدیہ کے لئے چھ محدثوں نے علم محفوظ کیا۔ عمرو بن دینار نے مکہ میں، زہری نے مدینہ میں اور ابواسحاق و اعمش نے کوفہ میں اور قتادہ و یحییٰ بن ابی کثیر نے بصرہ میں۔“
۲:․․․ امام حدیث ابو محمد رامہرمزی اپنی کتاب ”المحدث الفاصل“ میں فرماتے ہیں:
”عن انس بن سیرین اتیت الکوفة فرأیت فیھا اربعة الاف یطلبون الحدیث واربعمائة قد فقھوا․ الخ۔“ (مقدمہ نصب الرایة ص ۳۵ مطبوعہ مجلس علمی )
ترجمہ ؛انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں کوفہ آیا تو مشتغلین بالحدیث چار ہزار پائے اور علم فقہ صرف چار سوکو آیاتھا۔
اب توشاید ہر منصف کو معلوم ہوگیا ہوگاکہ فقہ کتنی مشکل چیز ہے اور صرف محدث بننے سے فقیہ نہیں بن سکتا، اس قسم کے سینکڑوں نہیں ،ہزاروں واقعات سے اسلام کا علمی ذخیرہ بھرا پڑا ہے، اس تمہید کے بعد اصلی مقصد کی طرف آرہا ہوں۔
حضرت شاہ صاحب  کا مسلک ان کی تالیفات کی روشنی میں
۱-تفہیمات الٰہیہ ،ص: ۱۴۸ و ۱۴۹ ج ۱ میں فرماتے ہیں :
”ان تشعب الدین طرقاً و مذاھب وکون الامة فیھا احزابا متحزبة،امر عظیم ھال خاصتھم وعامتھم، فمن اھل اللہ من کشف لہ عن ارتباط کل قول نطق بہ فقیہ من فقھاء الاسلام بالشریعة المحمدیہ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات، ولم یکشف لہ عن الجادة القویمة التی اقامھا اللہ تعالیٰ لعبادہ ورضی لھم، فسکت عن ترجیح بعض الاقوال علی بعض وحمل اختلافھا علی العزیمة والرخصة․․․․․․․․ومن اھل اللہ من یتراآی لہ الجادة القویمة التی تودی الی ظاھر الشریعة والتی توارثھا جماھیر المسلمین عن جھا بذة التابعین عن کبارالصحابة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذاظاھراکالتناول بالید، اولم یتوار ثواعین ذلک ولکنہ اشبہ بشئی بما توارثوہ… فرأی المتکلم فی ترجیح الراجح نصرً للدین وذبا عنہ کاکثرالفقھاء المحدثین فانھم قد بالغوافیہ
ومن اھل اللہ من کشف لہ عن الامرین فسلمھا کلہا علی معنی انھا من دائرة الشرع وأن المتعبد بھا فی فسحة من دینہ متدین للہ تعالیٰ معذور عندہ غیر ان الفضل للجادة القویمة وھی المرضیة عنداللہ تعالیٰ کل الرضا
ومن اعظم نعم اللہ تعالیٰ علی ان جعلنی من الحزب الثالث، وکشف لی عن اصل الشریعة وعن تبیانھا الحاصل علی لسان النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ثم عن تبیان تبیانھا الحاصل علی السنة الصحابة والتابعین، ثم عن ایضاحھا وتدوین اصولھا وفروعھا الحاصل علی ایدی المجتھدین المتقدمین․․․․․․․․․ ثم عن شرح مذاھبھم واقاویلھم والتخریج علی قواعدھم الحاصل علی ایدی المتاخرین من الفقھاء فی کل مذھب، فکشف لی عن کل ذلک بترتیبہ الواقع فی نفس الامرکانی اراہ ببصری، فرأیت کل قول قیل فی الدین مرتبطاًباصل الشریعة بواسطة اوبغیر واسطة․“
۲-پھر صفحہ۱۵۲ ج اول میں فرماتے ہیں :
”فکان من اعظم نعم اللہ علی ان کشف لی عن حقیقة حال المذاہب، وحال المتقید ببعضھا ،وحال من اراد الانتقال الی مذہب بعد ما کان متقیدا بمذہب آخر ، وحال من اخذ فی بعض المسائل بمذہب وفی البعض الآخر بمذہب آخر ، وھل خیّر الشارع او الزم لکل واحد ان یلتزم مذھبا واحدا․“
۳-پھر صفحہ ۱۵۳ ج ۱ میں فرماتے ہیں :
”وکشف لی ان الاختلاف علی اربعة منازل : ۱․․․․اختلاف مردود، لیس لقائلہ ولالمقلدہ من بعدہ عذر ،وھذا قلیل الوجود فی المذاھب الاربعة المدونة ،۲․․․ واختلاف مردودو لقائلہ عذر ما لم یبلغہ حدیث صحیح دال علی خلافہ فاذا بلغہ فلا عذر لہ ، ۳․․․․واختلاف مقبول قد خیر الشارع المکلفین فی طرفیہ تخییرا ظاہرا مطلقا کالاحرف السبعة من القرآن ،۴․․․․ واختلاف ادرکنا کون طرفیہ مقبولین اجتہادا واستنباطا من بعض کلام الشارع صلوات اللہ وسلامہ علیہ ،والانسان مکلف بہ لا مطلقا بل بشرط الاجتھاد وتاکد الظن وتقلید من حصل لہ ذلک ․
۴-اور ”فیوض الحرمین “ صفحہ ۶۲ میں فرماتے ہیں :
”سالتہ صلی اللہ علیہ وسلم سوالا روحانیا فنفح الی نفحة …ونفح نفحة اخری فبین ان المرادالحق فیک ان یجمع شملا من شمل الامة المرحومة بک ، فایاک․․․․․․․وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقضة المراد الحق، ثم کشف انموذجا ظھر لی منہ کیفیة وتطبیق السنة بفقہ الحنفیة من الاخذ بقول احدالثلاثة، وتخصیص عموما تھم والوقوف علی مقاصدھم والاقتصار علی ما یفھم من لفظ السنة، ولیس فیہ تاویل بعید ،ولا ضرب بعض الاحادیث بعضا ،ولا رفضا لحدیث صحیح بقول احد من الامة ،وھذہ الطریقة ان اتمہا اللہ واکملھا فہی الکبریت الاحمر والاکسیر الاعظم ․ الخ“
۵-پھر صفحہ ۴۸ میں فرماتے ہیں :
”عرفنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذھب الحنفی طریقة انیقة ھی اوفق الطرق بالسنة المعروفة التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ وذلک ان یوٴخذ من اقوال الثلاثة قول اقربھم بھا فی المسألة، ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقھاء الحنفیین الذین کانوا من علماء الحدیث (۱) فرب شیٴ سکت عنہ الثلاثة فی الاصول وما تعرضون لنفیہ ودلت الاحادیث علیہ فلیس بد من اثباتہ والکل مذہب حنفی ۔ الخ۔
عقد الجید میں ص ۳۱ سے لے کر دور تک اسی مضمون کو نہایت وضاحت و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
۶-پھر صفحہ ۶۴/۶۵ میں فرماتے ہیں :
”واستفدت منہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثة أمور خلاف ماکان عندی …وثانیھا الوصاة بالتقید بھذہ المذاھب الاربعة لا خرج منھا ، والتوفیق ما استطعت وجبلتی تأبی التقلید وتأنف منہ رأساو لکن شیٴ طلب منی التعبد بہ بخلاف نفسی ، الخ۔“
۷-پھر اسی کے صفحہ ۱۰۲ میں فرماتے ہیں :
”اعلم ان الملل والمذاہب بالحقیقةیقال ملة حقة․․․․․․․معنیین: احدھما جلی والآخر دقیق یری من بعد ……وکذلک معنی حقیة المذہب ان یکون احکامہ مطابقة لما قالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی نفس الامر ولما کان علیہ القرون المشہود لھا بالخیر ، وان کانت المسألة لا نص فیھا ولا روایة فحقیقتہا ان تکون محفوفة بقرائن تورث غالب الظن بان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو تکلم فی المسألة لما نطق بغیر ھذاالقول …… وکذلک المذھب ربما یکون العنایة المتوجہة الی حفظ ملة حقة متوجہة بحسب معدات الی حفظ مذہب خاص بأن یکون حفظة المذہب یومئذ ھم القائمین بالذب عن الملة ۔وھذا المعنی الدقیق لا یوقف علیہ الا بالنور النبوی …فنقول ترای لی ان فی المذھب الحنفی سراغا مضا ثم لم ازل اتحدث فی ھذا السر الغامض حتی شاہدت ان لھذا المذھب یومنا ھذا رجحانا علی سائر المذاھب بحسب ھذا المعنی الدقیق، الخ۔“
۸-اور حجة اللہ البالغہ ص:۴۴۲تا۴۴۴، ج: ۱ میں فرماتے ہیں :
”ومما یناسب ھذا المقام التنبیہ علی مسائل ضلت فی بوادیھا الافھام ،وزلت الاقدام، وطغت الاقلام ،منھا: ان ھذہ المذاھب الاربعةا لمدونة المحررة قد اجتمعت الأمة، او من یعتد بہ ،منھا علی جواز تقلیدھا الی یومنا ھذا، وفی ذلک من المصالح ما لا یخفی، لا سیما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدا، واشربت النفوس الھوی، واعجب کل ذی رأی برأیہ فما ذھب الیہ ابن حزم حیث قال: التقلید حرام لا یحل لاحدان یاخذ قول احد غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا برھان …انما یتم فیمن لہ ضرب من الاجتھاد ولو فی مسألة واحدة، وفیمن ظھر علیہ ظھورا بینا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر بکذا، ونھی عن کذا انہ لیس بمنسوخ، الخ۔“
اور حجة اللہ ص :۴۴۷،۴۴۸، ج: ۱ میں فرماتے ہیں:
۹:۔ ”ومنھا ان التخریج علی کلام الفقھاء، وتتبع لفظ الحدیث لکل منھما اصل اصیل فی الدین، ولم یزل المحققون من العلماء فی کل عصریأخذون بھما، فمنھم من یقل من ذاویکثر من ذاک… فلا ینبغی ان یھمل امر واحدمنھما… وانما الحق البحث ان یطابق احدھما بالاخر… الخ “
اور تفہیمات الٰہیہ ص ۲۰۲ ج ثانی میں فرماتے ہیں:
۱۰:۔” ونحن نأخذ من الفروع مااتفق علیہ العلماء لاسیما ھاتان الفرقتان العظیمتان الحنفیة والشافعیة وخصوصاً فی الطھارة والصلاة فان لم یتیسرالاتفاق واختلفوا فنأخذ بما یشھد لہ ظاھر الحدیث و معروفہ ونحن لانزدری احدا من العلماء فالکل طالبوا الحق ولا نعتقد العصمة فی احد غیرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الخ“
اور تفہیمات الٰہیہ ص ۲۰۲ ج ۲ میں فرماتے ہیں:.
۱۱:۔ لیس منا من لم یتدبرکتاب اللہ ولم یتفھم حدیث نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم، لیس منا من ترک ملازمة العلماء اعنی الصوفیة الذین لھم حظ من الکتاب والسنة ،اوالراسخین فی العلم الذین لھم حظ من التصوف، اوالمحدثین الذین لھم حظ من الفقہ، اوالفقھاء الذین لھم حظ من الحدیث“
نیز تفہیمات ص ۲۴۰ ج ۲ میں ایک وصیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
۱۲:۔” و در فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشندمیاں فقہ و حدیث کردن و دائما تفریعات فقہیہ برکتاب و سنت عرض نمودن آنچہ موافق باشد درحیزقبول آوردن والا کالائے بدبریش خاوند دادن الخ“
نیز اسی تفہیات ص ۱۱۸ ج ۲ میں فرماتے ہیں:
۱۳:۔” فاذارفع الیہ قضیة فلہ ان یجتھد فیھا برأیہ ویتحری الصواب فان کان قدسبق فیھا حکم لجماعة فعلیہ ان لایجاوزہ وھی القیاس والاجماع۔ الخ“
فائدہ:اس عبارت سے ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک جو اہل اجتہاد بھی ہو اگر اس کے سامنے بھی کوئی ایسا نیا قضیہ پیش کیا جائے کہ علماء سابقین کا اس کے متعلق کوئی حکم موجود ہو اس سے تجاوز نہ کرے۔
۱۴:۔نیز اسی صفحہ میں فرماتے ہیں:
”واذا تحمل رجل امراً ووافق ظنک فلا تجاوز عنہ وھوالاجماع دلیلاً ظنیاً ولا قیاس ولااجماع فی ماسوی ذلک ․“
۱۵:۔اور اسی تفہیمات کے ص ۲۱۵ ج ۱ میں فرماتے ہیں:
”وان قصرت افھامکم فاستعینوا برأی من مضی من العلماء ماتروہ احق واصرح واوفق بالسنة․“
۱۶:۔ورحجة اللہ البالغہ ص :۴۴،۴۵ ،ج: ۱میں حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ اپنے مسلک کی وضاحت مندجہ ذیل الفاظ میں فرماتے ہیں:
” وھا انا برییٴ من کل مقالة صدرت مخالفة لآیة من کتاب اللہ ،اوسنة قائمة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اواجماع القرون المشھود لھا بالخیر، اومااختارہ جمھور المجتھدین و معظم سوادالمسلمین ،فان وقع شئی فانہ خطا رحم اللہ من ایقظنا من سنتنا ،اونبّھنا من غفلتنا، اما ھولاء الباحثون بالتخریج والاستنباط من کلام الاوائل المنتحلون مذھب المناظرة والمجادلة فلایجب علینا ان نوافقھم فی کل مایتفوھون بہ، ونحن رجال وھم رجال، والامر بیننا وبینھم سجال․الخ
ان تمام مذکورہ اقتباسات سے باآسانی ہم عمومی طور پر حسب ذیل نتائج اخذ کرسکتے ہیں:
۱- مذاہب اربعہ کی تقلید کرنا چاہئے، بالخصوص شر و فساد کے اس دور اور اتباع ہوی کے اس زمانہ میں اس شخص کے لئے جو براہ راست کتاب و سنت سے استنباط نہ کرسکتاہو، ان مذاہب کی تقلید میں بہت سے مصالح ہیں۔
۲- کسی فقہی قیاسی مسئلہ میں اگرسلف کا کوئی قول موجو دہو اور اس کے علم میں کسی صحیح حدیث سے مخالف نہ ہو تو اسے ماننا ضروری ہوگا۔
۳- اگر ائمہ کے اقوال یا کسی ایک امام کے اقوال میں اختلاف ہو تو جو مسلک کتاب و سنت سے زیادہ قریب ہو اس کو اختیار کرنا چاہئے۔
۴- مذاہب اربعہ میں بہت کم ایساکوئی مسئلہ ملے گا جس کی کوئی دلیل موجود نہ ہو یا اس کے قائل یا اس کے مقلد کو معذور نہ سمجھ سکیں۔
۵- غور سے یہی معلوم ہوا کہ حنفی مذہب آج کل باقی مذاہب سے زیادہ بہتر ہے۔
۶- حنفی مذہب کی تقلید میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد بن الحسن، تینوں ائمہ کے اقوال میں سے اس کو لیاجائے جو حدیث سے زیادہ قریب ہو اور یہ مذہب حنفی کی تقلید کے مخالف نہیں۔
۷- صرف حدیث پر ہی قناعت کرکے فقہ سے بے بہرہ رہنا یا صرف فقہ پر کفایت کرکے حدیث سے محروم رہنا یہ غلو ہے، افراط و تفریط ہے جو درست نہیں،دونوں کوملانا اور ان سے تطبیق دینا ضروری ہے اور یہی بہترین طریقہ ہے۔
۸-کسی دلیل قوی کی وجہ سے اگر کوئی مقلد اپنے امام کا مسلک چند مسائل میں ترک کردے تو یہ تقلید کے منافی نہیں۔
۹-اگرکوئی مسئلہ فقہ حنفی کی کتب ظاہرالروایة میں موجود نہ ہو اور حدیث میں مذکور ہے تو اس کو ضرور لینا ہوگا اور یہ مذہب حنفی کی تقلید کے خلاف نہ ہوگا۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت
چنانچہ شاہ صاحب حجة اللہ البالغہ ص: ۱،۱ ج: ۲ میں فرماتے ہیں:
”ومن قال مذھب ابی حنیفة رحمہ اللہ ترک الاشارة بالمسبحة فقد اخطا، ولا یعضدہ روایة ولا درایة قالہ ابن الھمام نعم لم یذکرہ محمد فی الاصل وذکرہ فی الموطأ ووجدت بعضھم لایمیزبین قولنا : لیست الاشارة فی ظاھر المذہب، وقولنا ظاھرالمذھب انھا لیست․“
یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ تشہد میں اشارہ بالسبابہ نہ کرنا چاہئے ،اس نے غلطی کی، کیونکہ یہ عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے، جیسا کہ ابن الہمام نے فرمایا : ہاں! امام محمد نے اس مسئلہ کو مبسوط میں ذکر نہیں کیا۔ جو ظاہرالروایة کی کتابوں میں سے ہے۔ لیکن موطا میں اس کا ذکر فرمایا، اور دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ فقہاء کی ان دو تعبیروں میں فرق نہیں کرسکتے:
(۱) اشارہ ظاہر مذہب میں نہیں۔ (۲) ظاہر مذہب یہ ہے کہ اشارہ نہیں۔
حضرت شاہ صاحب کا مسلک
یہ تو شاہ صاحب کی مذکورہ بالا عبارات کے عمومی نتائج یا آپ کے اصولی نظریات تھے۔ ان کے علاوہ انہی اقتباسات سے ہم حضرت شاہ صاحب کے مسلک کے بارے میں خصوصی طور پر مندرجہ ذیل نتائج پر بھی پہنچتے ہیں:
۱- ائمہ اربعہ کے اختلافات کے بارے میں آپ کی پوری تشفی ہوگئی ہے اور اس کا صحیح منشا بھی سمجھ گئے ہیں۔
۲- نبی کریم انے آپ کو وصیت فرمائی ہے کہ مذاہب اربعہ کے دائرے سے باہر نہ نکلیں اور جہاں تک ممکن ہو ان میں تطبیق دیں۔
۳- آپ کواپنے طبعی رجحان یا میلان کے خلاف ان مذاہب کی تقلید پر مامور کیا گیا۔
۴- آپ کو حکم دیا گیا کہ فروعی مسائل میں بھی ”حنفیہ“ کے خلاف نہ کریں، جب تک صراحة کسی حدیث کی مخالفت نہ ہو۔
۵- اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنے علم و فہم سے نوازا جس کے ذریعہ ہندوستان میں رائج حنفیت کی اصلاح کرسکیں،عام حنفی علماء کے غلو سے جو اس کے حقیقی خدوخال چھپ گئے ہیں اس کو واضح کرسکیں۔
۶- حنفیہ اور شافعیہ جس پر متفق ہوں اس پر آپ ضرور عمل کرتے ہیں۔ اگر ان میں اختلاف ہو تو اس جانب کو اختیار کرتے ہیں۔ جس کی تائید حدیث سے ہوتی ہو۔
۷- آپ مجتہدین کی اتباع ضرور کرتے ہیں۔ متاخرین کی تخریجات جو وہ قدماء کے کلام سے کرتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ اسے بھی آپ قبول کریں۔
ان نتائج میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوا کہ حضرت شاہ صاحب ایک فقیہ النفس حنفی محدث ہیں اور ان فقہاء محدثین کے زمرے میں ہیں جو قوی و ضعیف، صحیح و غلط اور راجح و مرجوح میں پوری بصیرت کے ساتھ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ ظاہرہے کہ ہندوستان میں اس درجہ کا کوئی حنفی محدث اور فقیہ النفس محقق دوسرا پیدا نہیں ہوا۔ حتی الوسع آپ حنفی مذہب ہی میں اس قول کو اختیارکرتے جو حدیث اور دوسرے مذاہب سے متفق ہو۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقہاء حنفیہ میں شیخ ابن الہمام صاحبِ فتح القدیر اور آپ کے دو محقق شاگرد حافظ حدیث قاسم بن قطلوبغا اور محقق ابن امیر الحاج جو تفقہ نفس کے ساتھ تبحر حدیث، اطلاع رجال فن جرح و تعدیل اور اصول فقہ وغیرہ میں پوری دستگاہ رکھتے ہیں اور بہت سے فروعی مسائل میں اپنی اپنی خاص رائے رکھتے ہیں،اسی طبقہ میں حضرت شاہ صاحب کا بھی شمار ہونا چاہئے۔ بعض مسائل میں ان حضرات کا حنفیہ سے خلاف کرنا جسے مذہب حنفی کے خلاف نہیں سمجھا جاتا اور ا س کے باوجود ان کو فقہاء حنفیہ ہی میں شمار کیا جاتا ہے ، اسی طرح بعضے مسائل و احکام میں مذہب حنفی کے خلاف شاہ صاحب کا رجحان نفس حنفی مذہب کے خلاف نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کا عام مذہب حنفی تھا اور فتوحات ِاسلامیہ سے لے کر سلطان محمد شاہ کے آخری وقت تک یہی قانونی مذہب رہا۔ سلطان عالمگیر اورنگزیب رحمہ اللہ نے ”فتاویٰ عالمگیریہ“ تدوین کرایا۔ ان کے مدونین میں جیسا کہ ناظرین کو معلوم ہوگا حضرت شاہ صاحب کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم بھی شامل تھے اورآخری اسلامی دور کا یہی ہندوستان میں قانون رہا۔
ہندوستان کے حنفی محدثین میں شیخ محمد عابد سندھی صاحب ”المواھب اللطیفة علی مسند ابی حنیفة“، و”طوالع الانوار شرح الدرالمختار“ وغیرہ و شیخ محمد ہاشم سندھی، شیخ عبدالغفور سندھی، شیخ محمد قایم سندھی، شیخ ابوالحسن سندھی اور حضرت شاہ صاحب کے تلامذہ میں آپ کے جانشین شاہ عبدالعزیز اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی اور السید مرتضی بلگرامی زبیدی جو تبحر حدیث وغیرہ میں کچھ کم نہیں،سب حنفی المذہب ہی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب کے بعد شاہ عبدالعزیز حنفی محدث آپ کے جانشین رہے اور شاہ عبدالعزیز کی جانشینی شاہ محمد اسحاق آپ کے نواسے نے کی، اور شاہ اسحاق کے مسند نشین شیخ عبدالغنی مجددی ہوئے، یہ سب بھی حنفی المسلک محدث تھے۔ شاہ صاحب کے فقہی مسلک کے سمجھنے کے لئے آپ کی علمی تاریخ کا پیش نظر ہونا بھی ضروری ہے۔ جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ممدوح نے شروع میں حضرت والد ماجد شاہ عبدالرحیم وغیرہ علماء سے علوم حاصل کئے اور فقہ حنفی پڑھا اور جب تک ہندوستان میں تھے اور حرمین شریفین کی زیارت کو نہیں گئے تھے آپ پر فقہ حنفی کا اثر تھا۔ ۱۱۴۳ء میں جب مدینہ منورہ پہنچے اور شیخ ابوطاہر کردی شافعی سے تلمذ ہوا تو اس کے بعد فقہ شافعی کا اثر بھی ساتھ آتاگیا اور کتاب الام جو امام شافعی کی کتاب ہے، اس کے مطالعہ سے فقہ شافعی کا اثر اور بڑھتا گیا ، آخر میں امام مالک کی کتاب موطا کی طرف بہت توجہ ہوئی اور اس کی عربی و فارسی میں دو شرحیں مختصر لکھیں او راس کی وجہ سے مذہب مالکی کا اثر بھی آپ پر چڑھا،لیکن آپ اکثر امام مالک کا مذہب موطا کی روایتوں ہی کو ٹھہراتے ہیں، حالانکہ مالکیہ میں بہت سے موطا کے اقوال مہجور ہیں اور مذہب میں داخل نہیں۔
امام احمد کا مذہب حقیقت میں امام شافعی کے مذہب کی فرع ہے، بلکہ ظاہریت و اجتہاد میں ایک برزخ ہے۔ مشکل سے امام احمد کاکوئی ایسا قول ملے گا جو مذہب شافعی میں کوئی روایت اس کے مطابق نہ ہو۔ غرض اس طرح سے آپ کی طبیعت پر مذاہب اربعہ کی فقہ اثر انداز ہوتی گئی اور اس کی خواہش ہوئی کہ ایک ایسا جامع مسلک اختیار کیا جائے جس کے ذریعہ مذاہب میں تطبیق و توفیق ہوجائے۔ سارے احکام کے ذخیرہ میں بیس مسئلے ایسے نہیں ملیں گے جس میں امام ابوحنیفہ متفرد ہوں، یا ابوحنیفہ کاکوئی قول یا ابویوسف و محمد کا کوئی قول امام شافعی کے موافق موجود نہ ہو۔ اس لئے آپ نے جامعیت مذاہب کا یہ مسلک اختیار کیا۔ لیکن اس طرح پر کہ اس جامعیت کو اختیار کرکے بھی آپ حنفی رہ سکیں، کیونکہ” وایاک ان تخالف القوم فی الفروع “(خبردار! اپنی قوم یعنی اہل ملک کی فروعی مسائل میں مخالفت نہ کرنا) آپ کو سرکار مدینہ کا حکم مل چکا تھا۔ جیسا کہ” فیوض الحرمین“ کے مذکورہ بالا اقتباسات میں گزر چکا۔
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ شاہ صاحب کا ایک مکتوب”کلمات طیبات“ کے ص ۱۶۱ پر دیکھا جو کچھ میں لکھ چکا ہوں اس مکتوب سے اس کی تائید نکلتی ہے۔ ممکن ہے کسی کو کچھ غلط فہمی ہوجائے، اس لئے نقل کرکے چند جملے عرض کروں گا۔
”سوال آنکہ عمل تو در مسائل فقہیہ برکدام مذہب ست؟
”گفتم بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ مثلاً صوم و صلاة و وضوء و غسل و حج بوضعے واقع می شود کہ ہمہ اہل مذاہب صحیح دانند وعند تعذرا الجمع باقوی مذاہب از روے دلیل و موافقت صریح حدیث عمل می نمایم و خدائے تعالیٰ ایں قدرعلم دادہ است کہ فرق میان ضعیف و قوی کردہ شودودر فتوی بحال مستفتی کارمیکنم مقلدہر مذہبی کہ باشداد از ہماں مذہب جواب می گویم خدائے تعالیٰ بہر مذہبے ازمذاہب مشہورہ معرفتے دادہ است الحمدللہ تعالیٰ،“
اس سے صاف ظاہرہورہا ہے کہ آپ مجتہد مطلق نہ تھے، بلکہ ان محدثین و فقہاء امت میں سے تھے جو مذاہب کے احکام وادلہ سامنے رکھ کر قوی و ضعیف کا فیصلہ بخوبی کرسکتے ہیں،ورنہ جو شخص درجہ اجتہاد مطلق کو پہنچ جائے اس پر تقلید دوسرے کی حرام ہوجاتی ہے۔ وہاں تو اس کی گنجائش نہیں نکلتی کہ بناء بر احتیاط مذاہب میں تطبیق و توفیق دیتے ہیں۔ پس یہ جامعیت کا مسلک ہی خود ہمیں بتلا رہا ہے کہ آپ مجتہد نہ تھے ورنہ جواب میں صاف فرمادیتے کہ میں اپنے عصر کا خود مجتہد ہوں۔ کسی خاص مذہب کا پابندنہیں بلکہ غور سے کچھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ بجائے کسی ایک مذہب کے اتباع کے مذاہب اربعہ اور بالخصوص حنفیہ و شافعیہ سب کا اتباع ایک حد تک ضروری سمجھتے ہیں۔ نیز یہ معلوم ہوا کہ عوام امت کے لئے اپنے اپنے مذاہب کی تقلید ہی ضروری جانتے ہیں۔ اس لئے استفتاء میں مستفتی کا خیال کرتے ہیں اور اس کو اسی کے مذہب کے مطابق فتوے دیتے ہیں۔ اگر آپ مجتہد ہوتے تو اپنی رائے کے مطابق جس کو صحیح خیال فرماتے، وہی جواب دیتے۔ بہرحال مدارک اجتہاد کا سمجھنا بھی ہم جیسوں کا کام نہیں۔ حضرت شاہ صاحب  کے لئے یہ فخر کافی ہے کہ مختلف فضائل و کمالات کے ساتھ مدارک اجتہاد ائمہ کے منشاء اختلاف کو وہ سمجھتے ہیں اور ترجیح و تمیز پر بصیرت کے ساتھ قادر ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ مفتی فقیہ اور فقیہ محدث کے درجہ میں ایک جلیل القدر،دقیق النظر فقیہ، واسع الاطلاع محدث ہیں۔ اس موضوع کے اطراف و جوانب ابھی بہت کچھ تشنہ تحقیق ہیں۔ نیز حضرت شاہ صاحب کے مسلک کے متعلق آپ کی تصنیفات میں بہت کچھ ذخیرہ اس کے علاوہ بھی موجود ہے۔ لیکن اس وقت اس فرصت میں اسی مختصر مضمون پر کفایت کرتا ہوں۔ توقع ہے کہ اہل علم و طلبہ کے لئے بصیرت سے خالی نہ ہوگا۔
واللہ ولی التوفیق والھدایة
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: وادئ ثمود اور مدائن صالح میں ہم نے کیا دیکھا؟
Flag Counter