Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

6 - 10
وادئ ثمود اور مدائن صالح میں ہم نے کیا دیکھا؟
وادئ ثمود اور مدائن صالح میں ہم نے کیا دیکھا؟

جبل ناقہ
قبرستان کے علاقے سے گذر کرکچھ آگے فاصلے پر وہ چٹان موجود ہے جس سے اس قوم کے مطالبہ پر حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے بطور معجزہ اونٹنی نکل آئی تھی‘ اس چٹان کو ”جبل ناقہ“ کہتے ہیں‘ یہ بہت بڑا پتھر ہے جو چار ٹکڑوں سے مل کر بناہوا ہے‘ دائیں جانب میں ایک بڑا ٹکڑا ہے‘ اس کے ساتھ بائیں جانب میں دوسرا بڑا ٹکڑا جڑا ہوا ہے‘ تیسرا ٹکڑا آگے کی جانب سے اور چوتھا ٹکڑا پیچھے کی طرف سے ملا ہوا ہے‘ مربع شکل میں یہ بہت بڑی چٹان ہے‘ جو زمین پر اس طرح نصب ہے گویا کوئی حیوان بچہ جننے کے لئے بیٹھا ہوا ہے‘ اس چٹان کے ایک حصہ میں گڑھا ہے اسی کو ”فج الناقة“ کہتے ہیں اور اسی جگہ سے بطور معجزہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی نکلی تھی جو گابھن تھی اور کچھ وقت کے بعد اس نے بچہ جنم دیا‘ قوم ثمود کے مزاج کے مطابق جس طرح اس قوم کا اوڑھنا بچھونا اور رہنا سہنا چٹانوں اور غاروں میں تھا‘اسی طرح ان کا معجزہ بھی پتھر سے برآمد ہوا۔
ناقہٴ صالح علیہ السلام اور اس کے احوال
اس معجزاتی اونٹنی کو ناقة اللہ ‘ ناقہٴ صالح اور ناقہٴ ثمود کہا جاتاہے‘ بہرحال اس قوم کا فرمائشی معجزہ ان کے لئے وبال جان بن گیا‘ یہ اونٹنی جہاں چرتی تھی دوسرے جانور اس سے ڈرکر دور بھاگ جاتے تھے‘ جو جانور اسے دیکھ لیتا تھا وہ اس سے بدک کر بھاگ جاتا تھا ‘ جس کنوئیں سے یہ اونٹنی پانی پیتی تھی دوسرے جانوروں کے لئے پانی کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے پانی کی تقسیم کا حکم دیا تاکہ یہ تنازع ختم ہوجائے‘ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
”انا مرسلوا الناقة فتنة لہم فارتقبہم واصطبر‘ ونبئہم ان المآء قسمة بینہم کل شرب محتضر فنادوا صاحبہم فتعاطیٰ فعقر“۔ ( قمر:۲۷تا۲۹)
ترجمہ:․․․” ہم اس قوم کے جانچنے کے لئے ایک اونٹنی بھیج دیتے ہیں پس تم اس قوم کی تباہی کا انتظار کرو اور ان کی تکالیف پر صبر کرو اور ان کو بتادو کہ پانی ان کے درمیان باری پر تقسیم ہوگا‘ ہرفریق اپنی باری پر حاضر ہوگا پھر اس قوم نے اپنے ساتھی کو پکارا (جن کا نام قدار تھا)پس اس نے ہاتھ چلایا اور اونٹنی کو کاٹ ڈالا“۔
پانی کا وہ کنواں اب بھی موجود ہے جہاں سے قوم ثمود پانی حاصل کرتی تھی‘ یہ بہت بڑااور وسیع کنواں ہے اور لطف یہ کہ پورا کنواں پانی تک پتھر میں کھودا گیا اور گہرائی تک پتھر کو تراشا گیا ہے‘ باہر کا ایک پتھر بھی اندر لگا ہوا نہیں ہے‘ چٹان کا تراشا ہوا حصہ کنوئیں کی دیوار ہے‘ اس کنوئیں کے پاس ترکوں نے خلافت عثمانیہ کے دور میں بہت بڑا ریلوے اسٹیشن بنایاہے جس کی عمارت اب بھی موجود ہے ‘ اس میں ریل گاڑی کے دو ڈبے اورایک انجن کھڑا ہے‘ اور ایک ورکشاب ہے جس میں لوہا پگھلایا اور بنایا جاتا تھا‘ اس کنوئیں میں ترکوں نے لوہے کے کچھ گاڈر لگائے ہیں‘ اب آدھا کنواں مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے‘ ایسا معلوم ہوتاہے کہ خلافت ترکیہ میں یہ کنواں قابل استعمال تھا‘ اس اسٹیشن سے ریل کی پٹری براستہ خیبر مدینہ منورہ تک بچھائی گئی ہے اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریب اب بھی ریلوے اسٹیشن موجود ہے‘ ترکوں نے اسطنبول سے مدینہ منورہ تک ریل گاڑی چلائی تھی جس کے آثار اب تک موجود ہیں‘کاش! سعودی حکومت ریل گاڑی کے اس نظام کو فعال بنادیتی۔
قوم ثمود نے ناقة اللہ کو مارڈالا
بہرحال جبل ناقہ اور فج الناقہ کے بالکل سامنے کافی فاصلہ پرایک بڑا پہاڑ نظر آتاہے جس میں ایک گھاٹی اور گذرگاہ ہے‘ ہمارے ساتھی اور رہبر جناب سائر خان افغانی نے بتایا کہ اسی گھاٹی سے ناقہ صالح آگے چراگاہ کی طرف جارہی تھی کہ قوم ثمود کے ایک بدبخت شخص قدار نے کھات لگاکر اونٹنی پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا ۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اونٹنی کا بچہ بھاگ کر واپس جبل ناقہ میں داخل ہوکر غائب ہوگیا‘ جناب سائر خان نے بتایا کہ یہاں رات کے وقت جبل ناقہ سے اونٹوں کی آوازیں آتی ہیں‘ گویا اونٹنی کا بچہ ماں کے فراق میں فریادکر رہاہے۔ جناب سائر خان چونکہ اس علاقہ میں کئی سالوں تک کام کرچکا ہے‘ اس لئے اسے ہرجگہ کی صحیح معلومات تھیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ قوم ثمود میں ایک مالداراور بدکردار عورت تھی جس کا نام عنیزہ تھا‘ اس نے ایک بدبخت شخص قدار سے کہا کہ میرے مویشیوں کو اس اونٹنی سے بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے‘ اس لئے تم ا س کو قتل کردو‘ میں اپنی جوان بیٹی تجھے دے دوں گی‘ اس طرح لالچ میں آکر بدبخت قدار نے ناقہٴ صالح کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر تین دن کے اندر اندر اس قوم پر ایسا عذاب آیا جس سے وہ نیست ونابود ہوگئی۔
قوم ثمود کے چند آوارہ گردوں نے حضرت صالح علیہ السلام کے قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا‘ سورہٴ نمل میں ہے:
ترجمہ:․․․” اور اس شہر میں نو آدمی ایسے تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے‘ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم کھاؤ کہ صالح اور اس کے گھروالوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم تو اس کے کنبہ کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہ تھے اور بے شک ہم سچے ہیں اور انہوں نے ایک داؤ کیا اور ہم نے بھی ایسا داؤ کیا کہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی پھر دیکھو ان کے داؤ کا کیا انجام ہوا کہ ہم نے انہیں اور ان کی ساری قوم کو ہلاک کردیا‘ سو دیکھو یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کے سبب ویران پڑے ہیں‘ بے شک اس میں دانشمندوں کے لئے عبرت ہے اور ہم نے پرہیزگاروں اور ایمان والوں کو نجات دی“۔ (النمل:۴۸تا۵۳)
قوم ثمود کی اصل آبادی
قوم ثمود کی اصل بستیاں جس کی پوری آبادی سنگ تراش پہاڑوں میں ہے‘ ضروریات زندگی اور رہنے سہنے کے سارے لوازمات انہیں سنگ تراشیدہ مکانوں میں ہیں‘ لطف یہ کہ ایک پتھر بھی کسی مکان میں ایسا نظر نہیں آتا جو الگ سے لاکر اندر لگایاگیا ہو‘ جو کچھ ہے سب سنگ تراشی سے ہے‘ چنانچہ جب ہم قوم ثمود کے سنگ تراشیدہ قبرستان سے سیدھے ہاتھ کی طرف مڑے تو وہاں قوم ثمود کی بڑی آبادی کے آثار نظر آئے‘ یہ سب مکانات وہ ہیں جو انہوں نے پہاڑوں اور چٹانوں کو تراش کربنائے ہیں اور اس وقت اصلی حالت میں موجود ہیں اور ہر آنے والے کو دعوت دیتے ہیں کہ :
انقلابات جہان واعظ رب ہیں دیکھو ہرتغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
سعودی حکومت نے ان تمام مکانات کے سامنے تختی لگاکران کے حساب سے نمبر لگوائے ہیں‘ سو سے زائد نمبر لگے ہوئے ہم نے دیکھے ہیں‘ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں‘ رہائش کے اکثر مکانات پہاڑ کے بلند حصوں میں تراشے گئے ہیں جو زمین سے اندازہ کے مطابق دس سے لے کر چالیس فٹ تک کی بلندی پر ہوں گے‘ ان مکانات تک جانے کے لئے چٹان کی جڑ سے مکان کے دروازے تک اسی پتھر میں سیڑھیاں تراشی گئی ہیں‘ مگر آج کل سعودی حکومت نے ان کی جگہ لوہے کی سیڑھیاں لگا رکھی ہیں۔
قوم ثمود کے مکانات کی تعمیر کا انوکھا انداز
قوم ثمود کے مکانات بنانے اور طرز تعمیر کا عجیب انداز تھا‘ سب سے پہلے یہ لوگ پہاڑ کے اس حصہ کو کاٹ کر صاف کرتے تھے جہاں ان کو مکان بنانا ہوتا تھا‘مکان کے حساب سے چٹان کو تراش کر ایسا ہموار کرتے تھے گویا چاقو یا پتھر کاٹنے والی بجلی کی مشین چلائی گئی ہو‘ اس پورے حصہ میں نہ کوئی اونچ نیچ نظر آتی ہے اور نہ کوئی گڑھا معلوم ہوتا ہے‘یوں لگتاہے گویا کار پینٹر نے لکڑی پر رندہ چلایاہے۔ اس کے بعد یہ لوگ اسی ہموار حصہ میں نیچے کی جانب دروازہ تراشا کرتے تھے‘ نہایت سلیقہ سے پہاڑ میں دروازہ تراش کر چٹان کے اندر دائیں جانب ضرورت کے مطابق کھلا ہال بنایا کرتے تھے جو مکان کی شکل میں بالکل مربع ہوتا تھا‘ اس کھلی جگہ کے تراشنے کے بعد بعض لوگ اس کو ہال کی صورت میں چھوڑ کر اندر کی طرف الگ الگ کمروں کی شکل میں مزید پہاڑ کھودتے تھے اور ضرورت کے مطابق وہی کمرے بناتے تھے‘ تعجب یہ ہے کہ ایک کمرہ اور دوسرے کمرہ کے درمیان جو دیوار ہے وہ خود یہی چٹان ہے‘ پورے مکان میں ایک پتھر ایسا نظر نہیں آتا جو باہرسے لاکر الگ جوڑا گیا ہو‘ فرش بھی وہی تراشا ہوا پہاڑ ہے‘ چھت بھی وہی چٹان ہے‘ دائیں بائیں دیوار یں بھی یہی چٹان ہے‘ پڑوسی کے مکان کی طرف اگر کھڑکی ہے تو وہ بھی چٹان میں ہے‘ مکان کے اندر سامان رکھنے کے لئے جو طاق بنے ہیں وہ بھی پہاڑ میں تراشے گئے ہیں ۔پانی وغیرہ رکھنے کے لئے جو جگہیں ہیں وہ بھی سب چٹان کو تراش کربنائی گئی ہیں‘ ہوا اور روشنی کے لئے روشن دان بھی چٹان کو تراش کربنائے گئے ہیں‘ گھروں کے آس پاس بیٹھنے کے لئے عام مجالس اور بیٹھنے کی کرسیاں بھی چٹانوں کو تراش کر بنائی گئی ہیں‘ گھروں کے دروازوں کی جگہیں موجود ہیں‘ مگر پلے موجود نہیں‘ البتہ پلہ جوڑنے کے لئے کواڑ کی جگہ نظر آتی ہے‘ گھروں کے اندر ہتھوڑوں کے مارنے سے جو نشانات اور گڑھے پڑ گئے ہیں وہ اس طرح واضح ہیں گویا کل کسی نے کام کیا ہو‘ البتہ چھت میں نشان نظر نہیں آتا‘ کناروں کے یہ نشانات ڈیزائن اور زینت کا کام بھی دیتے ہیں‘ مکانات کی پیشانیوں پر اوپر کے حصوں میں تختی نماتراشہ ہوتا ہے جس پر نہایت سلیقہ سے لکھی ہوئی عبارت موجود ہے‘ خط کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندی یا بنگلہ دیشی یا انگریزی کے مشابہ حروف پرمشتمل زبان ہے‘ لفظ آرامی نبطی سے ا س زبان کو یاد کیا گیا ہے‘ عجیب یہ کہ یہ عبارت بھی چٹان کو تراش کر لکھی گئی ہے‘ مکانات کے بالائی حصوں میں دروازوں کے اوپر کے کواڑ پر دائیں بائیں بتوں کی تصاویر اور مجسمے بنے ہوئے ہیں اور درمیان میں شاہین کا مجسمہ ہوتا ہے‘ تعجب یہ کہ یہ سب کچھ بھی چٹان کو تراش کر بنایا گیا ہے۔
عجائبِ قدرت کو دیکھئے کہ ان مکانات کی تعمیر میں جو ہتھوڑا استعمال کیا گیا ہے اس کے نشان میں سفید برادہ بھی اس طرح نظر آرہاہے جیسا گذشتہ کل کسی مستری نے کام کیا ہو‘ چونکہ اللہ تعالیٰ آئندہ نسلوں کو قرآن عظیم کی صداقت اور نبی آخر زمان کی رسالت کے مظاہر دکھانا چاہتا تھا‘ اس لئے چار ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک ان نشانات کو اپنی خاص قدرت کے ساتھ باقی رکھا ہے‘ جب آدمی سامنے کسی چٹان پر کھڑے ہوکر ان مکانات کی طرف رخ کرتاہے اور پھر قرآن کریم کی یہ آیت : ”وثمود الذین جابوا الصخر بالواد“۔(الفجر:۹) پڑھتاہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا قرآن ابھی ابھی نازل ہورہاہے‘ قوم ثمود کی ان سہولیات ‘ خوش عیشی وتفریحات اور ان پر ہرقسم کی نعمتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے کیا ہے :
”اتترکون فیما ہٰہنا آمنین‘ فی جنات وعیون‘ وزروع ونخل طلعہا ہضیم‘ وتنحتون من الجبال بیوتا فارہین‘ فاتقوا اللہ واطیعون“۔ ( شعراء:۱۴۱)
ترجمہ:․․․” کیا تمہیں ان چیزوں میں یہاں بے فکری سے رہنے دیا جائے گا یعنی باغوں اور چشموں میں اور کھیتوں اور کھجوروں میں‘ جن کا خوشہ ملائم ہے اور تم پہاڑوں کو تراش کر تکلف کے گھر بناتے ہو‘ پس اللہ سے ڈرو‘ اور میری بات مان لو‘ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو“۔
قوم ثمود پر عذاب کی قسمیں
جیساکہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ قوم ثمود پر دو قسم کا عذاب آیا تھا‘ جہاں مکانات پہاڑوں کو تراش کربنائے گئے تھے وہاں حضرت جبرئیل یا کسی اور فرشتے کی بجلی نما کڑک دار آواز آئی تھی (اس لئے کہ آواز کا اثر غاروں میں زیادہ ہوتاہے)۔ ان علاقوں میں زلزلہ کے آثار بالکل نظر نہیں آتے ‘ ورنہ یہ پہاڑ ڈھیر ہوجاتے اور اس کی چٹانیں زمین پر آگرتیں‘ مگر ایسا کچھ نہیں ‘ بلکہ اس علاقے کے مکانات آج بھی بالکل محفوظ ہیں‘ لوگ مر گئے‘ مکانات رہ گئے۔ ارشاد الٰہی ہے:
”فاخدتہم الرجفة فاصبحوا فی دارہم جاثمین“۔(الاعراف:۷۸)
بہرحال گاڑی پر دو ڈھائی گھنٹہ گھوم پھرنے کے بعد ہم واپس اس علاقہ میں گئے جہاں قوم ثمود پر زلزلہ کا عذاب آیا تھا۔ یہ علاقہ العلیٰ کے بالکل قریب واقع ہے بلکہ العلیٰ کا حصہ ہے‘ یہاں ایک کھلا میدان ہے اور اس کی پشت پر ایک خوفناک بلند وبالا پہاڑ کھڑا ہے‘ پہاڑ کے دامن میں نیچے کھلے علاقے میں ثمودیوں کی وہ آبادی تھی جو انہوں نے محلات کی شکل میں زمین پربسائی تھی‘ زلزلہ سے یہ بستیاں بالکل تباہ ہوچکی ہیں اور مکانات کے پتھر جگہ جگہ بڑے بڑے ڈھیرکی صورت میں پڑے ہیں‘جن کا رنگ سرخ اینٹوں کی طرح ہے‘ سائر خان افغانی نے بتایا کہ ان پتھروں میں نہ کوئی پتھر باہر سے لایا گیا ہے اور نہ اندر سے کوئی پتھر باہر لے جایا گیا ہے۔
سعودی حکومت نے اس علاقہ کو خاردار تاروں سے بند کردیا ہے اور علاقہ کو آثار قدیمہ کی حیثیت سے باقی رکھا ہے۔ پانچ ہزار سال پرانے پتھر اب بھی موجود اور محفوظ ہیں‘ قوم ثمود کے اس زلزلہ زدہ علاقہ میں ساتھ والے اونچے پہاڑ سے بڑی بڑی چٹانیں زلزلہ کی وجہ سے نیچے آکر گری ہیں اور بے ترتیب انداز سے بڑے بڑے پتھر کھلے میدان میں پڑے ہیں اور ہر دیکھنے والے کو دعوت دیتے ہیں کہ :
انقلابات جہان واعظ رب ہیں دیکھو
ہرتغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
پاکستان میں آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو جو قیامت خیز زلزلہ آیا ‘ میں نے مظفر آباد لڑکیوں کے کالج کا ملبہ دسمبر ۲۰۰۵ء کو دیکھا تھااور اس کے بعد جنوری ۲۰۰۶ء کو مدائن صالح میں قوم ثمود کے زلزلہ والے علاقہ کو دیکھا‘ یقین کیجئے کہ یہاں کے پتھر اور سیمنٹ کے ردے جس طرح روڑے بن کر ڈھیر بنے ہوئے تھے‘ بالکل اسی طرح قوم ثمود کے مکانات کے پتھر روڑوں کی شکل میں تبدیل ہوکر ڈھیرپڑ ے تھے‘ جس طرح بڑے بڑے پتھر بے ترتیبی کے ساتھ ہمارے ہاں پڑے ہوئے نظر آرہے تھے‘ اسی طرح کھلے میدان میں وہاں بڑی بڑی چٹانیں گری ہوئی نظر آرہی تھیں‘فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ہاں پتھر سفید ہیں اور قوم ثمود کے پتھر سرخ ہیں ”فاعتبروا یا اولی الابصار“۔
قوم ثمود کے اس میدانی علاقہ میں حضرت صالح کی اونٹنی کے دودھ کا وہ پیالہ بھی موجود ہے جس میں اس اونٹنی کا دودھ رکھا جاتا تھا اور قوم ثمود کو دیا جاتا تھا‘ یہ پیالہ پتھر کا بناہوا ہے جو تقریباً تین میٹر چوڑا اور کئی میٹر گہرا ہے‘ ہم نے خار دارتار سے باہر کھڑے ہوکر اس کو دیکھا ہے‘ کیونکہ اس خاردارتار سے اندر جانے کا راستہ ہمیں نہیں ملا‘ اس پیالہ کا رنگ بھی سرخ ہے‘ کیونکہ یہ بھی سرخ پتھر تراش کر بنایاگیاہے۔ اندازہ ہے کہ ڈیڑھ میٹر تک زمین سے یہ پیالہ اونچا ہے‘ اس تباہ شدہ علاقے کے ارد گرد آج کل باغات اور کھیت ہیں‘ کیونکہ یہ علاقہ بالکل العلیٰ میں واقع ہے‘ ان باغات میں عمدہ اور اعلیٰ قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں‘ ان پھلوں میں امرود‘ انجیر‘ انار‘ انگور‘ کھجور اور مالٹاوغیرہ ہوتے ہیں‘ یہاں کے مسمی کا ایک دانہ ڈیڑھ پاؤ سے زیادہ وزنی ہوتاہے‘ اس قوم نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا‘ بلکہ ناشکری کرکے شرک میں مبتلا ہوگئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کیا اور رہتی دنیا کے لئے عبرت کا سامان بنادیا۔
چند عبرتیں
اس پورے منظر نامہ سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ دنیا کی زندگی ‘ انسان کا وجود‘ اس کی خوش عیشی اور وقتی طاقت وغرور سب دھوکہ ہے‘ پتھروں کے سینوں میں بسنے والے لوگ اپنے آپ کو جتنا مضبوط تصور کرتے تھے‘ وہ اتنے ہی کمزور اور پادر ہوا ثابت ہوئے‘ وہ ایک چیخ کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھے اور نہ زمین کی حرکت اور اس کے جھٹکوں کو سہنے کی ان میں طاقت تھی‘ یہی وہ لوگ تھے جو انتہائی متکبرانہ انداز سے کہتے تھے:
”وقالوا یا صالح ائتنا بما تعدنا ان کنت من المرسلین“۔(الاعراف:۷۷)
یعنی ان لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم سچے رسول ہو تو عذاب کا جو وعدہ تم ہم سے کررہے تھے اب وہ عذاب لے آؤ (کیونکہ اونٹنی کو ہم نے مار ڈالا ہے) پھر کیا ہوا ؟ ظاہر ہے وہی ہوا جو ایک سرکش قوم کے ساتھ کیا جاتا ہے
”فکانوا کہشیم المحتظر“ ۔(القمر:۳۰)
ترجمہ:․․․”پس وہ لوگ کانٹوں کی روندی ہوئی باڑ کی طرح ریزہ ریزہ ہوکر رہ گئے“۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ انسان ایک عارضی خواہش کی بناپر آخرت کی زندگی کو خراب کردیتا ہے اور ہمیشہ کے لئے دوزخ کا ایندھن بن جاتاہے‘اللہ تعالیٰ اسی خسارہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرماتاہے:
”یا حسرة علی العباد ما یاتیہم من رسول الا کانوا بہ یستہزؤن“۔ (یٰسین:۳۰)
ترجمہ:․․․” ہائے افسوس! انسان پر کہ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے ان کا مذاق اڑاتے ہیں“۔
علامہ سید آلوسی بغدادی فرماتے ہیں کہ ناقة اللہ کے ہلاک کر ڈالنے کے بعد قوم ثمود پر عذاب الٰہی کے آنے کی علامات ظاہر ہوئیں‘ چنانچہ اگلے روز صبح کے وقت اس قوم کے چہرے زرد پڑ گئے‘ دوسرے روز سرخ ہوگئے اور تیسرے روز چہرے سیاہ ہوگئے اور اس کے بعد رات کے وقت اس قوم کو ان کے گھروں میں ایک ہیبت ناک آواز نے ہلاک کرڈالا‘ حضرت صالح علیہ السلام کے ساتھ ایک سو بیس آدمی اس عذاب سے محفوظ رہے‘ کیونکہ وہ اسلام لائے تھے‘ اس کے علاوہ تقریباً ڈیڑھ ہزار گھرانے تباہ وبرباد ہوگئے‘ نہ معلوم اس میں کتنے ہزار افراد ہوں گے۔
قوم ثمود کی تباہی کے بعد حضرت صالح علیہ السلام اس قوم کے ملبہ پر آئے اور حزن وملال کے ساتھ ان سے اس طرح مخاطب ہوئے۔
”یا قوم لقد ابلغتکم رسالة ربی ونصحت لکم ولکن لاتحبون الناصحین“۔ (الاعراف:۷۹)
ترجمہ:․․․” اے میری قوم بلاشبہ میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچادیا اور تم کو نصیحت کی‘ لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے“۔
قوم ثمود کی ہلاکت کے بعد
یہ ایک تاریخی سوال ہے کہ جب ثمود کے لوگ ہلاک وبرباد ہوگئے تو حضرت صالح علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے ایک سو بیس مسلمانوں نے کہاں سکونت اختیار کی؟
۱-تفسیر خازن کے مصنف نے اس قوم کو ترجیح دی ہے کہ یہ لوگ مدائن صالح سے ہجرت کرکے فلسطین کے علاقہ ”رملہ“ میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔
۲- عام مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ لوگ مدائن صالح ہی میں قیام پذیر رہے اور کسی طرف نہیں گئے۔
۳- بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ لوگ حضر موت جاکر آباد ہوگئے‘ کیونکہ حضرت صالح علیہ السلام کا اصل وطن یہی تھا‘ اس علاقہ میں ایک قبر بھی ہے جن کے بارہ میں مشہور ہے کہ یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قبر ہے۔
۴- یہ لوگ مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے اور یہیں پر مقیم ہوگئے اور حضرت صالح علیہ السلام کا انتقال مکہ معظمہ میں ہوا اور ان کی قبر بیت اللہ سے مغربی جانب حرم کے اندر ہے۔ علامہ آلوسی بغدادی نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔
بہرحال میں اور شیخ انعام اللہ صاحب دونوں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے‘ ٹیکسی والا انتظار میں تھا‘ کیونکہ وہاں سے سواری بہت کم ملتی ہے ‘ عصر کے وقت ہمیں مسجد نبوی کے پاس اتار دیا اور عشاء کی نماز پڑھ کر رات کے بارہ بجے میں مدینہ منورہ سے ریاض کے لئے روانہ ہوا اور ریاض میں دو دن قاری عبد الحلیم صاحب اور قاری محمد حنیف صاحب اور مولانا قاضی رحمان صاحب کے ہاں قیام کیا۔
اس کے بعد ۲۴/جنوری ۲۰۰۶ء کو ریاض ایئرپورٹ سے براستہ دبی کراچی کے لئے روانہ ہوا‘ساڑھے گیارہ بجے کراچی ایئرپورٹ پر اترا‘ وہاں سے اپنی مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن پہنچ کر ظہر کی نمازادا کی‘اس کے بعد دورہٴ حدیث کے طلبہ کو مسلم شریف کا سبق پڑھایا اورکچھ سفری احوال سنایا۔ ان تمام انعامات پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتاہوں اور دعا کرتاہوں کہ اللہ پاک اس سفر کو شرف قبولیت سے نوازیں اور حالات لکھنے میں جو کمی وکوتاہی ہوگئی ہو اپنے فضل سے عفو ودرگزر کا معاملہ فرمائیں‘ آمین․
اللہم لک الحمد اولاً وآخراً وصلی اللہ علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین․
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ
Flag Counter