Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 9
مولانا عبدالرشید ارشد
مولانا عبدالرشید ارشد


حضرت اقدس مولانا خیر محمد جالندھری کے تلمیذ رشید‘ مکتبہ رشیدیہ لاہور کے بانی و روح رواں‘ ماہنامہ الرشید کے بانی‘ مدیر‘ مدیرو مسئول‘ حکیم العصر مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے رفیق و ہم درس‘ فکر نانوتوی کے پاسبان‘ مسلک دیوبند کے داعی و مناد‘ دسیوں کتابوں کے مصنف‘ دارالعلوم دیوبند اور ابنائے دیوبند کے ترجمان حضرت مولانا عبدالرشید ارشد معمولی بیمار رہنے کے بعد ۱۷/ جنوری ۲۰۰۶ء منگل اور بدھ کی درمیانی رات‘ آٹھ بجے رحلت فرما ئے عالم آخرت ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون،ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ باجل مسمیٰ
حضرت مولانا حافظ عبدالرشید ارشد سے یوں تو پرانی عقیدت و محبت تھی‘ مگر ان کی تصنیف ”بیس بڑے مسلمان“ دیکھ اور پڑھ کر ان کی عظمت کے نقوش دل و دماغ میں مزید گہرے ہوگئے‘ اپنے دل میں سوچتا تھا کہ وہ مجھ ایسے مجہول مطلق کو شاید ہی خاطر میں لائیں؟ لیکن جب حضرت لدھیانوی شہید کی برکت سے ان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں تو وہم و گمان کے برعکس انہیں نہایت ہی شفیق و خلیق اور بے حد متواضع پایا تو انتہائی خوشی ہوئی‘ بلکہ شبہ ہونے لگا کہ کیا یہ وہی شخصیت ہے جس نے اتنا بڑے کارنامے نمایاں انجام د یئے ہیں؟ پھر جوں جوں ملاقاتیں بڑھیں‘ ان کی عظمت بڑھتی چلی گئی اور ان سے محبت عقیدت میں بدلتی گئی ‘ بلاشبہ ان کے کسی قول و فعل اور چال ڈھال سے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ تن تنہا اتنا بڑا مسلکی اور تاریخی کارنامہ انجام دینے والا شخص ہے۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرشید ارشد قدس سرہ نے یکم ستمبر ۱۹۳۲ء کو جالندھر کی تحصیل نکودر کے ایک غیر معروف گاؤں ہری پور کے ایک باخدا انسان جناب الحاج تاج محمد کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد ماجد جناب حاجی تاج محمد کا فقیہ الامت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ ارشد حضرت مولانا صالح محمد ساکن رائے پور گجراں ضلع جالندھر سے عقیدت و ارادت کا تعلق تھا‘ یوں آپ کو شروع سے ہی اہل قلوب اور اکابر علمائے دیوبند کی سرپرستی اور محبت و عقیدت ورثہ میں ملی‘ یہ اسی کی برکت تھی کہ روز اول سے ہی آپ کی رگ و پے اور قلب و جگر میں اہل حق علمائے دیوبند اور مسلک حق کی خدمت جاں گزیں ہوگئی‘ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بن گیا‘ چنانچہ ز ندگی بھر کے لئے انہوں نے اس دشت پیمائی کو اپنا وظیفہ بنالیا‘ اور اس میدان کی ہر محنت و مشقت کو خندہ پیشانی‘ محبت‘ عقیدت اور جذب و جنون سے نبھایا‘ چنانچہ اپنی زندگی کے ان مراحل کو ”تحدیث نعمت“ کا خوبصورت عنوان دے کر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے ذیل میں نقل کردیا جائے‘ چنانچہ مولانا لکھتے ہیں:
”یکم ستمبر ۱۹۳۲ء کو جالندھر تحصیل نکودر کے ایک غیر معروف گاؤں ہری پور میں ایک سیدھے سادے مسلمان گھرانے میں میری پیدائش ہوئی‘ میرے والد ماجد حاجی تاج محمد صاحب … میرے اسکول داخل ہونے سے قبل بسلسلہ معاش دوسرے افرادِ خاندان کی طرح برطانیہ چلے گئے‘ مجھے ان کی تربیت نصیب نہ ہوئی‘ چھٹی جماعت نکودر ڈی ‘بی‘ ہائی اسکول میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب کا حکم آیا کہ یہ تعلیم چھوڑ کر قرآن مجید حفظ کرو‘ چنانچہ تعمیل ارشاد میں نکودر ہی میں مدرسہ خلیلیہ میں حضرت مولانا قاری تاج محمد صاحب سے سوا پارہ حفظ کرکے پنجاب کے معروف دینی مدرسہ رشیدیہ رائے پور گوجراں میں جانے لگا‘ حفظ قرآن پاک کے بعد ابتدائی فارسی تعلیم شروع کی‘ ارادہ جامعہ ملیہ دہلی جانے کا تھا لیکن پُر آشوب سیاسی حالات نے وہاں جانے نہ دیا۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان عمل میں آیا۔ میں تین سال رائے پور میں پڑھتا رہا اور بڑی گہری نگاہوں سے وہاں کے اساتذہ حضرت مولانا فضل احمد صاحب بانی و مہتمم‘ حضرت مولانا حافظ مفتی فقیر اللہ اور حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب (چک نمبر ۱۱ ۔ایل چیچہ وطنی) صاحبزادہ حضرت مولانا حافظ محمد صالح کو دیکھتا رہا اور ان کو اتنا قریب سے دیکھا جتنا کہ ممکن تھا … ان حضرات کو تاحیات ایسا دیکھا کہ ان کے بعد پھر کوئی نظروں میں نہیں جچا‘ انتہائی سادگی‘ صبر و قناعت ‘ زندگی کی مثال نہیں‘ ان کا صبر و شکر ضرب المثل تھا‘ کئی ماہ تنخواہ نہیں ملی اور جب مدرسہ میں رقم آئی تو لی نہیں کہ وقت جیسے گزر گیا‘ گزر گیا‘ کوئی قرض ذمہ نہیں کہ بقایا تنخواہ لیں‘ عمل و اخلاص کی جیتی جاگتی تصویر‘ کیا مجال ہے کہ کوئی فعل خلافِ سنت ہو‘ میں فکری طور پر اس رنگ میں رنگ گیا‘ حالانکہ ہمارے گاؤں یا خاندان میں سوائے والد صاحب کے کوئی اس مسلک کا نہ تھا‘ سب لوگ رسم و رواج کے پابند تھے‘ بچپن ہی سے مطالعہ کا اور ”تقریریں“ سننے کا انتہائی شوقین تھا ‘گھر میں والد صاحب کی کچھ کتب تھیں‘ وہ پڑھیں اور اس کے علاوہ منگواکر اور مدرسہ سے لے کر پڑھتا رہا اور ساتھ ساتھ تقابلی مطالعہ بھی کرتا تھا‘ لیکن اکابر دیوبند کا مسلک صحیح ترین نظر آیا‘ اسی دوران اکابرِ دیوبند کی تقریریں سنیں‘ یہ کوئی بڑائی کی بات نہیں‘ انسان اگر آنکھیں کھلی رکھے اور سوچ کے دریچے بند نہ کرے تو لوگوں کو چلتا پھرتا دیکھ کر معمولات و معاملات کو جانچ کر سمجھ میں آجاتا ہے کہ کون اپنی تقریر و تحریر اور قول و فعل میں مخلص ہے؟ اور یہاں جن کو دیکھا اعتقاد و عقیدت میں اضافہ ہی ہوا ‘کمی نہیں ہوئی…
قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میاں چنوں آباد ہوا تو وہاں دوسرے ہی سال مولانا آزاد کا شہرئہ آفاق ہفت روزہ ”الہلال“ ایک صاحب مولوی رحیم بخش چشتی کے پاس دیکھا اور مطالعہ کیا…
اس کے کئی سال بعد میاں چنوں مارکیٹ کمیٹی کی سیکریٹری چوہدری محمد صدیق صاحب کے سسر قریشی صاحب کے پاس ”الہلال“ کی ادھوری فائل پر دوبارہ مطالعہ کیا۔ ابتدا ئی عربی تعلیم میاں چنوں ہی میں حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب اور حضرت مولانا محمد عبداللہ دھرمکوٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۵۲ء میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں مشکوٰة و جلالین پڑھی۔ ۱۹۵۳ء میں مدرسہ عربی خیر المدارس سے درسِ نظامی کی سند لینے کے بعد خیال ہوا کہ جس مرکز سے دینی شعور حاصل کیا‘ اس کی خدمت کرنا چاہئے‘ چنانچہ ایک چارٹ ”شجرئہ روحانی علمائے ربانی“ ترتیب دیا‘ جس میں اکابر دیوبند کے سلسلہ بیعت و ارشاد کا اتصال رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تک دکھایا‘ تمام اکابر نے خصوصاً حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی‘ حضرت مولانا شمس الحق افغانی‘ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی‘ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ نے بہت تعریف کی۔ اس کے بعد خیال ہوا کہ جن بزرگوں نے برصغیر میں د ین کی خدمت کی اور لوگوں میں حریت ِ وطن کا شعور پیدا کیا‘ ان کے متعلق ایک کتاب ترتیب دینا چاہئے۔ چنانچہ ”بیس بڑے مسلمان“ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تریب دی‘ جس میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے لے کر حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور بانی تنظیم اہلِ سنت سردار احمد خان پتافی  تک بیس اکابر کی سوانح و خدمات کا مفصل تذکرہ ہے۔ اس کتاب کے بڑے سائز پر ۱۰۲۴ صفحات ہیں اور تین ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ یہ لاہور آکر شائع کی اور اس سے پہلے مکتبہ رشیدیہ کا آغاز بانی تبلیغی جماعت کے فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد یوسف دہلوی کے حالات ”تذکرہ مولانا محمد یوسف دہلوی رحمہ اللہ“ کی طباعت سے کیا۔ یوں تو ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک کے متعلق مولانا غلام رسول مہر‘ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی  نے سیرت سیّد احمد شہید پر ضخیم کتابیں لکھیں‘ لیکن اس عاجز کے اہتمام سے حضرت سیّد احمد شہید کے مکاتیب کا نادر مجموعہ ”مکاتیب سیّد احمد شہید“ حضرت سیّد نفیس الحسینی صاحب کی سرپرستی میں شائع ہوا جو اب تک شائع ہونے والے مجموعوں سے ضخیم ہے۔
ہندوستان میں سب سے بڑی تحریک‘ تحریکِ خلافت یا تحریک ترکِ موالات تھی‘ جس میں مولانا ابوالکلام آزاد مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا سیّد حسین احمد مدنی اور دیگر حضرات پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ مولانا آزاد پر کلکتہ میں اور دوسرے حضرات پر کراچی میں‘ دونوں مقدمے انتہائی تاریخی تھے‘ اس میں ہرسہ حضرات کے بیانات اور عدالت کا فیصلہ انتہائی تاریخی تھا اور تحریک ترکِ موالات کے فتویٰ پر ہندوستان کے سینکڑوں علماء کے دستخط تھے‘ اس کو محفوظ کرنا تاریخ کی اہم خدمت تھی‘ چنانچہ یہ سعادت بھی راقم کو حاصل ہوئی اور یہ تاریخی امانت از سر نو یکجا ”مقدمات و بیانات اکابر“ کے نام سے شائع کی گئی۔ تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الہند سے کون واقف نہیں‘ اس کے متعلق سی آئی ڈی کی رپورٹیں انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہیں۔ مولانا اسعد مدنی اسے وہاں سے لائے‘ اردو ترجمہ انڈیا میں شائع ہوا‘ اس کے بعد پاکستان میں پہلی مرتبہ راقم کے اہتمام اور مولانا سیّد حامد میاں کی نگرانی میں تحریکِ شیخ الہند کے نام سے شائع ہوا‘ اس کے شروع میں مولانا سیّد محمد میاں کا تفصیلی مقدمہ ہے‘ جس میں ”ایشیا اور یورپ کے دو دور“ کے عنوان سے عیسائیت اور اسلام کی مختصر اور جامع تاریخ ہے۔
اب باری تھی کہ ”دارالعلوم دیوبند“ کا مفصل تذکرہ ہو کہ جو پرائیویٹ سیکٹر میں پوری دنیا میں اسلام کا سب سے بڑا دینی ادارہ ہے‘ چنانچہ مولانا حبیب اللہ ناظم جامعہ رشدیہ ساہیوال کی تحریک پر یہ قرعہ فال بھی اس دیوانے پر پڑا اور آٹھ صد صفحات پر ماہنامہ ”الرشید“ کا ایک ضخیم دارالعلوم دیوبند نمبر اپریل ۱۹۷۶ء میں شائع کیا…“ (پیش لفظ ہفت روزہ ”الہلال“ ج۱ ص الف ، ب)
حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں صفات سے نوازا تھا‘ انہوں نے باقاعدہ کسی یونیورسٹی سے صحافت کا کورس نہیں کیا تھا‘ مگر ان کی انشاء پردازی‘ تحریر کی شستگی اور قلم کی شائستگی و روانی سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے صحافت پر پی ایچ ڈی کر رکھا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو سیال قلم عطا فرمایا تھا‘ بلاشبہ ان کو اپنے اظہار مافی الضمیر پر غیر معمولی طور پر قدرت تھی‘ اسی طرح ان کو اپنے قلم پر بھی مکمل کنٹرول تھا‘ وہ لکھنے بیٹھتے تو لکھتے چلے جاتے‘ ان کی تحریر کا ایک خاص اسلوب‘ جو عام انشاء پردازوں اور مصنفین میں کم نظر آتا ہے‘ یہ تھا کہ وہ لکھتے وقت مضمون کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے اور اس سے متعلقہ تاریخی واقعات کو جملہ معترضہ کے طور پر اس طرح درج فرماتے کہ پڑھنے والا نہ تو اکتاہٹ کا شکار ہوتا اور نہ ہی مضمون کا تسلسل ٹوٹتا‘ گویا ایک مضمون میں وہ کئی مضامین اور ایک تاریخ میں کئی تاریخیں‘ یا یوں کہئے کہ وہ کسی ایک کے سوانحی خاکہ میں کئی ایک سوانحی خاکے اس خوبصورتی سے مدون کرتے کہ قاری کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی۔
راقم الحروف نے ایک دن ان کی خدمت میں ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ حضرت آپ کی تحریر میں احاطہ اشتات ہوتا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں کہ ایک مضمون مکمل کرکے دوسرا پھر شروع کیا جائے؟ فرمایا: ہاں! آپ صحیح کہتے ہیں مگر میں نے ایک بار حضرت اقدس سید نفیس شاہ صاحب مدظلہ سے اس کا تذکرہ کیا کہ حضرت مجھے لکھتے لکھتے کچھ یاد آجائے تو اس کا کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا جو جو یاد آتا جائے اسے لکھتے جاؤ‘ تاریخیں ایسے ہی مرتب ہوا کرتی ہیں‘ فرمایا اس دن سے میں نے یہ انداز اپنالیا ہے کہ جو کچھ یاد آتا ہے‘ اس خیال سے کہیں بعد میں بھول نہ جائے لکھ دیتا ہوں۔ لیکن مولانا کا یہ کمال تھا کہ بایں ہمہ ان کی تحریر میں کسی قسم کا کوئی جھول‘ بے ربطی اور بے لطفی کا احساس نہیں ہوتا‘ بلکہ قاری ان کی تحریر کے اس تنوع سے لطف اندوز ہوتا اور اس میں کھو جاتا تھا۔ حضرت مولانا مرحوم نے جب بھی لکھا بے تکلف اور وارفتگی کے انداز میں لکھا‘ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں ”از دل خیز د‘ بردل ریزد“ کا مصداق ہوتی تھیں‘ بارہا ایسا ہوا کہ ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوجاتیں۔ موصوف نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت لکھا مگر بغیر کسی صلہ و ستائش محض اللہ کے لئے کے لکھا۔ موصوف کے قلم صداقت رقم سے درج ذیل کتب وجود میں آئیں:
تذکرہ مولانا محمد یوسف دہلوی‘ افادات مولانا محمد یوسف دہلوی‘ بیس بڑے مسلمان‘ بیس مردان حق اول دوم‘ ماہنامہ الرشید کا دارالعلوم دیوبند نمبر‘ الرشید کا ”مدنی و اقبال“ نمبر‘ دعوت و تبلیغ نمبر‘ ماہنامہ الرشید کا نعت نمبر دو جلد‘ تبلیغی جماعت کی دینی جدوجہد‘ الرشید کا حکیم محمد سعید شہید نمبر‘ الرشید کا مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی‘ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نمبر‘ واردات و مشاہدات اور الہلال کی تین جلدیں۔
اسی طرح آخری دنوں میں بھی دو کتابیں آپ کے زیر تصنیف تھیں: ایک حیات مستعار اور دوسری بیس علمائے حق‘ چنانچہ حیات مستعار کے تقریباً پانچ صد صفحات ہوچکے تھے‘ اسی طرح بیس علمائے حق پر بھی انہوں نے کئی ایک مضامین جمع کرلئے تھے۔ ان میں سے حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ بہلوی پر ایک مضمون راقم الحروف کے ذمہ بھی لگاتھا جو محض مولانا موصوف کی برکت سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ کہنے کو تو مولانا مرحوم نے مکتبہ رشیدیہ کے نام سے لاہور کے مشہور بازار شاہ عالم مارکیٹ میں ایک کتب خانہ بھی قائم فرما رکھا تھا‘ لیکن وہ کتب خانہ کم اور دارالتصنیف زیادہ تھا‘ یہی وجہ ہے کہ اس کتب خانہ نے کبھی معروف تجارتی انداز نہیں اپنایا‘ بلکہ وہ ہمیشہ نقصان میں ہی رہا‘ اور جو کچھ اس سے حاصل ہوتا دکان‘ مکان کے کرایہ اور گھریلو ضروری اخراجات کے علاوہ اس کی تمام آمد نئی کتابوں کی ترتیب و اشاعت پر صرف ہوجاتی‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر بچوں کے سر چھپانے کا کوئی ذاتی چھونپڑا تک نہیں بنایا‘ بلکہ کرایہ کے مکان و دکان سے ہی سوئے آخرت روانہ ہوگئے۔ اللہم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ مولانا مرحوم ایک عرصہ سے ضیق النفس حسی تکلیف دہ مرض کا شکار تھے‘ لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ مریض ہیں‘ چنانچہ کسی قسم کا کوئی مرض ان کے راستہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکا‘ ان کی عادت مبارکہ تھی کہ وہ رات کو دیر تک جاگتے رہتے چنانچہ فجر کی نماز‘ ناشتہ اور معمولات سے فارغ ہونے کے بعد آرام کرتے اور پھر کام میں مشغول ہوجاتے۔ حضرت مولانا کی ذات و صفات اور ان کے کمالات کا تقاضا ہے کہ ان پر ماہنامہ الرشید کا ایک یادگاری نمبر آنا چاہئے اور ان کے جاری کردہ منصوبہ جات کی تکمیل ہونی چاہئے۔ خدا کرے ان کا جاری کردہ ماہنامہ الرشید اور مکتبہ رشیدیہ حسب سابق جاری رہے اور ان کی زیر ترتیب کتب بھی منصہ شہود پر آجائیں۔ راقم الحروف نے یہ چند بے ترتیب تعزیتی سطریں عبرات غم کے طور پر سپرد قلم کی ہیں۔ بینات کے محدود صفحات کسی طویل مضمون کی اجازت نہیں دیتے ‘ اگر اللہ نے چاہا تو کسی دوسری صحبت یا فرصت میں حضرت مولانا مرحوم پر تفصیلی مضمون سپرد قلم کیا جائے گا‘ یہ ان کا ہم پر حق ہے اور انشاء اللہ اس حق کی ادائیگی کی سعی و کوشش کی جائے گی۔ بینات کے باتوفیق قارئین سے اس مرد حق آگاہ‘ مرد مجاہد اور مسلک دیوبند کے سپاہی کے لئے ایصال ثواب اور دعائے خیر کی درخواست ہے،ادارہ بینات حضرت کے متعلقین اور ابنائے غم میں برابر کا شریک ہے اور حضرت مرحوم کی وفات کے سانحہ کو ذاتی سانحہ تصور کرتا ہے۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا
Flag Counter