Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 9
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا


بدقسمتی سے ہم ایک ایسے دور سے گذر رہے ہیں کہ ہرنیا آفتاب ایک نئی آفت لے کر طلوع ہوتا ہے اور ہررات فتنہ وفساد اور ظلم وعدو ان کی نئی تاریکی چھوڑ کرجاتی ہے‘ دن بدن انسانی قدریں پامال ہورہی ہیں‘ دینی شعائر مٹ رہے ہیں‘ دل ودماغ مسخ ہورہے ہیں‘ جہل وعناد کی اس تاریک فضا میں دینی حقائق کو اجاگر کرنا اور دین کی بالکل واضح‘ بدیہی اور موٹی موٹی باتوں کا سمجھنا بھی بے حد مشکل ہوچکا ہے‘ جب بدی نیکی کا روپ دھار لے‘ جب صریح منکر کو معروف کا نام دیا جائے‘ جب سراپا جہل کو علم سمجھا جانے لگے اور جب بے حیائی اور بے حمیتی کو شرافت واخلاق کی سند مل جائے تو کون سمجھا سکتا ہے کہ یہ بات جسے تم دین سمجھ رہے ہو، بے دینی ہے اور جسے تم شرف ووقار سمجھتے ہو وہ ننگِ انسانیت ہے ،یوں تو دنیا میں حق وباطل کو گڈمڈ کرنے کی رسم بہت قدیم زمانے سے چلی آتی ہے اور حقائق اکثر ملتبس رہتے ہیں ،لیکن اب تو عقلوں پر ایسا پردہ پڑا ہے کہ کسی صحیح بات کا انکشاف ہی نہیں ہوتا، بلکہ باطلِ محض کو حق کے رنگ میں پیش کیا جاتاہے‘ شعائر ِ کفر کو اسلامی شان وشوکت کا ذریعہ بتایاجاتاہے‘ فسق وفواحش کو تقویٰ خیال کیا جاتاہے‘ آج کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے رسول اللہ ا کی توہین اور دینِ اسلام کی تذلیل ہوتی ہے، مگر بدفہمی کا یہ عالم ہے کہ انہی کو دینِ اسلام کے احترام کا ذریعہ بتایاجاتا ہے‘ جن چیزوں کو کل تک اعدائے اسلام رسول اللہ ا سے بغض ونفرت کے اظہار کے لئے استعمال کرتے تھے‘ آج انہی چیزوں کو اسلام کے نادان دوست اسلام سے عقیدت کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپناتے ہیں ‘ ذہن وقلب کے مسخ ہوجانے کا قبیح منظر اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟
دراصل جب کسی قوم کے اندر سے دین کی حقیقی روح نکل جاتی ہے اور صرف نمائشی ڈراموں پر اس کا مدار رہ جاتاہے تو گھٹیا قسم کے پست اور سطحی مظاہر اس کے فکر وعمل کا محور بن جاتے ہیں ،لایعنی حرکات کو حقیقی دین سمجھا جاتاہے‘ فواحش ومنکرات کو دینی قدروں کا نام دیا جاتاہے‘ سنت کی جگہ من گھڑت بدعات سے تسکین حاصل کی جاتی ہے۔ رسول اللہ ا کی سچی محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ مسلمانوں کا ظاہر وباطن رسول اللہ ا کی عظمت ومحبت سے سرشار ہوتا‘ قدم قدم پر آپ ا کی پیروی ہوتی‘ آپ اکے ایک ایک طریقے کو اپنانے کا ولولہ ہوتا‘ صورت وسیرت اور ظاہر وباطن میں رسول اللہ ا کے اسوہٴ حسنہ کی جھلک نظر آتی‘ آپ کی ایک ایک سنت کو زندہ کرنے اور ایک ایک حکم کو ہرشعبہٴ زندگی میں نافذ کرنے کی تڑپ ہوتی، لیکن جب قلوب رسول اللہ ا کی عظمت ومحبت سے خالی ہوگئے‘ ایمان ویقین کے چراغ دلوں سے گل ہوگئے‘ آپ ا کے اخلاق واعمال کی پیروی کا جذبہ یکسر ختم ہوکر رہ گیا تو محبتِ رسول ا کے صحیح تقاضوں کی جگہ سطحی مظاہر کو عینِ دین وایمان سمجھ لیا گیا‘ توہین وتذلیل کو اکرام واحترام اور دشمنی اور عداوت کو اظہارِ محبت تصور کرلیا گیا‘ واحسرتاہ
غیر مسلموں کی نقالی اور مسلمان
کسی قوم کی دینی حس کے ماؤف ہوجانے کا جو نقشہ اوپر پیش کیا گیا، اس کا سب سے پہلا مظاہرہ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں ہمیں ملتاہے‘ جب وہ اپنی بدبختی سے اپنے نبی کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر بیٹھے تو انہیں دین کے مردہ ڈھانچے کو محفوظ رکھنے کے لئے نمائشی تصویروں کا سہارا لینا پڑا‘ چنانچہ عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ حضرت مریم علیہمالسلام اور دیگر اکابر کی فرضی تصویریں بنائی گئیں اور ان کی پرستش کو جزوِ دین وایمان بنا لیا گیا‘ بعد ازاں اس محرف مسیحیت کی ترویج واشاعت کے لئے مصنوعی ڈرامے تیار کئے گئے اور ان کی فلموں کی نمائش کی گئی‘ مصر کے چند اشخاص نے سوچا کہ ہم عیسائیوں کی نقالی میں کیوں پیچھے رہیں، انہوں نے اس کے مقابلہ میں جامع ازہر کی مجلسِ اعلیٰ کے بعض ارکان کی سرپرستی میں ”فجرِ اسلام“ کے نام سے ایک فلم تیار کی اور عرب اسلامی ممالک میں اس کا خوب چرچا ہوا‘ بیس‘ بائیس ممالک میں اس کی نمائش ہوچکی ہے اور اب وہ سرزمینِ پاک کو ناپاک کرنے کے لئے کراچی پہنچ گئی ہے‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ اس کی ایسی تشہیر کی گئی گویا مسلمانوں کو تجدیدِ ایمان کے اہم ذریعہ کا انکشاف ہواہے‘ اخبارات کے مطابق یہاں کے بعض نام نہاد علمائے دین نے بھی اس کی شرعی منظوری دے دی ہے اور اب فرزندانِ اسلام اسکرین کے پردے پر ”اسلام کا تماشہ“ دیکھنے کے لئے جوق درجوق تشریف لارہے ہیں‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بسے نادیدنی را دیدہ ام من
مرا اے کاشکے مادر نزادے
تصویر سازی اور اسلام
کون نہیں جانتا کہ اسلام کی نظر میں تصویر سازی نہ صرف قبیح اور حرام ہے بلکہ لعنت اور غضبِ خداوندی کی مستوجب ہے‘ تصویر بنانے والے کے حق میں رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:
”ان اشد الناس عذابا یوم القیامة المصورون“(مسلم ج۲ص۲۰۱)
یعنی وہ قیامت کے دن سب سے سخت تر اور بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے جس مکان میں تصویریں ہوں‘ اس پر خدا کی لعنت آتی ہے‘ فرشتوں کو تصویروں سے بھی اسی طرح نفرت آتی ہے جس طرح کتے سے نفرت ہے‘ کیا ان وعیدوں کے ہوتے ہوئے کسی فلم کو جائز کہا جاسکتاہے؟ کیا فلموں کی ترویج وتشہیر پوری قوم پر خدا کے غضب ولعنت کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟
پھر اس سے بڑھ کر جسارت کیا ہوسکتی ہے کہ عہدِ نبوت اور عہدِ اسلام کی پاک اور روحانی زندگیوں کو تصویروں کے ذریعہ فلمایا جائے؟ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس چیز کو رسول اللہ ا نے لعنت قرار دیا ہو، آپ ا کے پاکیزہ دور کو اس لعنت میں ملوث کیا جائے؟ کیا اللہ ورسول ا کے نزدیک یہ ناپاک جسارت قابلِ برداشت ہوسکتی ہے؟ کیا مسلمانوں میں اتنی ایمانی حس بھی باقی نہیں رہی کہ وہ کم از کم نبوت کے پاکیزہ دور کو اس نجاست سے محفوظ رکھتے ؟
مزید برآں یہ کہ یہاں صورت یہ نہیں کہ جو واقعات پیش آئے، ہو بہو انہی کا عکس لے لیا گیاہو، بلکہ یہاں جو صحیح صورتِ حال ہے وہ یہ ہے کہ دور ِ نبوت کے واقعات کا مصنوعی سوانگ بنایاگیاہے۔،کچھ بہرو پیوں نے خاکم بدہن رسول اللہ ا کا پارٹ ادا کیا‘ کسی نے صحابہ وصحابیات کے مقدس اشخاص کا‘ کسی نے ابوجہل وابو لہب وغیرہ کافروں کا‘ پھر ان مصنوعی ڈراموں کی عکس بندی کرکے فلم تیار کی گئی اور اسے پردہٴ اسکرین پر لایاگیا‘ اب اگرکسی مسلمان میں ایمان کی کوئی رمق اور غیرت کی ادنیٰ حس موجود ہو، کیا وہ ایک لمحہ کے لئے برداشت کرے گا کہ وہ لوگ جن کا وجود ہی گندگی اور بے حیائی کا نشان ہے، انہیں رسول اللہ ا یا آپ ا کے مقدس صحابہ وصحابیات کی شبیہ بناکر پیش کیا جائے اور ان کے ادا کردہ پارٹ کو ان مقدس ہستیوں سے منسوب کیا جائے؟ اس سے بڑھ کر ان حضرات کی تذلیل وتوہین کیا ہوسکتی ہے ۔ پھر جن لوگوں نے ابوجہل وابولہب وغیرہ کافروں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کی کافرانہ حرکات کی نقل کی ہوگی اور صحابہ وصحابیات کو ظلم وستم کا نشانہ بنا یاہوگا، کیا وہ مسلمان بھی رہیں گے؟ اور ان کے وہ تماشائی جو اس تماشہٴ کفر کو تفریح ِ طبع کا سامان کرتے ہیں، ان کا اسلام محفوظ رہ جائے گا؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان ڈراموں میں بہت سی حرکات وسکنات اور بہت سے الفاظ وکلمات ایسے آئیں گے جن کو حقیقت کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں ہوگا‘ اس صورت میں ان مصنوعی واقعات کو حقیقی قرار دینا، بدترین قسم کا جھوٹ اور افترأ ہوگا‘ جس کے بارے میں آنحضرت ا کا ارشاد ہے:
”من کذب علیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ (مشکوة ص۱۳)
کہ جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنائے۔ امریکی اور مغربی اخبارات ورسائل میں جب کبھی آنحضرت ا کی فرضی تصاویر شائع ہوتی ہیں، آئے دن ہمارے اخبارات میں ان پر احتجاج ہوتا رہتاہے اور مسلمانوں میں ایک کہرام مچ جاتاہے، کیا اس قسم کی فلموں کے بعد مسلمانوں میں یہ حمیت باقی رہے گی کہ وہ اعدائے اسلام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں؟ جب مسلمان خود دورِ نبوت کی فلمیں بنانے سے نہیں شرماتے تو وہ کس منہ سے غیروں کو روکنے کی جرأت کریں گے؟
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ عرصہ بعد اعدائے اسلام نہ صرف ان مقدس ہستیوں کی فرضی تصویریں کھلے بندوں شائع کرنے لگیں گے ،بلکہ آپ ا کی حیاتِ طیبہ پر محض فرضی فلمیں وجود میں آنا شروع ہوں گی اور جس طرح اب تک مستشرقین آپ ا کی سیرتِ طیبہ کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی جسارت کرتے رہے ہیں ،آئندہ نہایت گھناؤنے انداز میں آپ کو پردہٴ فلم پر دکھا یا جائے گا ،اور یہ نام نہاد مسلمان جنہوں نے خود اس بدعت کو جنم دیا‘ ان کفار کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اب تک کافر قومیں صرف مسلمانوں کے احترام میں اس سے ہچکچاتی رہی ہیں‘ مسلمانوں کو شرم آنی چاہئے کہ جو کام کافر قومیں سرانجام نہیں دے سکیں اس مکروہ اور گندے کام کا آغاز خود ان کے ہاتھوں ہورہاہے‘ اور سب سے آخری بات یہ ہے کہ کیا لہو ولعب اور تفریح وتماشے کے لئے رسول اللہ ا اور آپ ا کے مقدس صحابہ کی ذات گرامی ہی رہ گئی تھی؟ کیا کوئی ویوث اور بے غیرت شخص بھی یہ گوارا کرسکتاہے کہ اس کے ماں باپ اور بہو بیٹیوں کا سوانگ بھرا جائے اور لوگ اس کا تماشہ دیکھیں؟ آخر اس مشقِ ستم کے لئے رسول اللہ ا اور صحابہ وصحابیات کی ذواتِ قدسیہ ہی کو کیوں منتخب کیا گیاہے؟ کیا ان کا احترام ہماری ماؤں اور بہنوں سے بھی کم ہے؟ منافقین رسول اللہ ا کی نقلیں اتار کر ہنسی مذاق کیا کرتے تھے اور ان سے جب احتجاج کیا جاتا تو جواب دیتے کہ ہم تو یوں ہی دل لگی اور تفریح کررہے تھے‘ قرآن کریم نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے:
”لاتعتذر وا قدکفرتم بعد ایمانکم“(التوبة :۶۶)
ترجمہ۔”بہانے نہ بناؤ! تم نے دعویٰ ایمان کے بعد کفر کا ارتکاب کیا ہے؟
اس سے واضح ہوجاتاہے کہ رسول اللہ ا کی ذاتِ گرامی یا اسلام کی کسی بات کو ہنسی دل لگی اور تفریح ِ طبع کا موضوع بناناکیسا ہے؟ اس کو وہی شخص اختیار کرسکتاہے جس کا دل دین وایمان سے خالی ہوچکا ہو‘ ان گذارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اول: ․․اسلام میں تصویر سازی حرام اور موجبِ لعنت ہے۔
دوم: ․اس حرام اور ملعون چیز سے دورِ نبوت کو ملوث کرنا نہایت ناپاک جسارت اور ان بزرگوں کی توہین ہے۔
سوم: ․․واقعات کے بہت سے اجزاء ومکالمات فرضی ہوں گے جو کذب وافترأ علی الرسول ہے۔
چہارم: ․․ایکڑوں اور ایکڑسوں کا آنحضرت ا اور صحابہ کرام کا پارٹ ادا کرنا شرمناک بات ہے۔
پنجم:․․ حضور ا اور صحابہ کرام کی مقدس زندگی کو لہو لعب اور تفریح کا موضوع بنانا شعبہٴ کفر ہے۔
ششم: ․․ایسی فلموں سے غیر مسلموں کے لئے فرضی تصاویر اور من گھڑت واقعات پر مبنی فلمیں بنا کر دورِ نبوت کی جانب منسوب کرنے کا دروازہ کھل جائے گا، جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے‘ اس لئے ہم اربابِ اقتدار کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اس قوم پر رحم فرمائیں اور اس فلم ”فجر اسلام‘ کی نمائش پر پابندی عائد کریں اور تمام مسلمانوں سے اپیل کریں گے کہ وہ نہ صرف اس فلم کا بائیکاٹ کریں بلکہ ہرممکن طریقہ سے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں‘ خصوصاً تمام علمائے کرام‘ ائمہ‘ خطباء اور دیگر راہنماؤں کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے‘ ایک حرام چیز کو اگر سارا جہاں بھی حلال کہہ دے اور اس کے جائز ہونے کے چاروں طرف سے فتوے صادر ہونے لگیں، تب بھی وہ چیز حلال اور جائز نہیں ہوجاتی‘ اس قسم کی صریح حرام چیزوں کو جائز کرنے کا انجامِ بد کچھ تو مسلمانوں کے سامنے آچکا ہے اور کچھ کسر باقی ہے وہ آئندہ پوری ہوجائے گی‘ ولافعل اللہ ذلک۔
لیجئے ابھی تک ”فجر اسلام“ ہی کا ماتم تھا‘ لیکن ابلیسِ لعین نے اس سے آگے بڑھ کر خود آنحضرت ا کی حیاتِ طیبہ کی فلم بھی تیار کرادی‘ کراچی کے بعض اخبارات کی یہ خبر پڑھئے:
”بارہ اسلامی ممالک میں حضور اکرم ا کی حیاتِ طیبہ پر فلم کی نمائش کی جائے گی۔ جامعہ ازہر اور شیعہ کونسل نے مناظر کی نمائش کی منظوری دے دی۔ تہران ۲۰ جولائی (یو پی پی) پیغمبرِ اسلام محمد ا کی حیاتِ طیبہ پر ایک فلم تیار کرنے کے معاہدہ پر اس ہفتہ کے دوران دستخط کردیئے گئے‘ اس معاہدے کی رو سے یہ فلم فارسی سمیت کئی زبانوں میں بارہ اسلامی ممالک میں نمائش کے لئے تقسیم کی جائے گی‘ یہ فلم لبنان‘ کویت‘ بحرین اور مراکش کی ٹیموں کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کی جارہی ہے‘ اس کے ڈائریکٹر مصطفےٰ عقاد ہیں اور اس نمائش کے مناظر کی منظوری لبنان کی اعلیٰ شیعہ کونسل اور قاہرہ کی جامع ازہر نے دے دی“۔ (روز نامہ آغاز‘ ۲۱ جولائی ۱۹۷۳ء)
اگر یہود ونصاریٰ اور منافقینِ اسلام کی ان مکروہ سازشوں سے اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ قلوب مسخ ہوچکے ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ کی جانب سے رسوا کن عذاب درعذاب میں یہ قوم مبتلا ہونے والی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون․
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: زلزلہ عذاب یا تنبیہ ؟ ایک فکری جائزہ
Flag Counter