Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 9
عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
(۳)

ایک توطبعی طور پر موت کی ناپسندیدگی ہے‘ جیساکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ  نے آنحضرت ا کی خدمت اقدس میں عرض کیا۔یہاں مسلمانوں کی زبوں حالی میں جس کراہیة الموت کا تذکرہ ہے‘ وہ طبعی موت نہیں‘ بلکہ قتال فی سبیل اللہ میں موت کے ڈر سے جہاد کو ترک کرنا مراد ہے‘ جیساکہ درج ذیل حدیث میں ارشاد ہے:
۵:․․․عن ابی ہریرہ  قال سمعت رسول اللہ ا یقول لثوبان کیف بک یا ثوبان اذا تداعت علیکم الامم کتداعیکم علی قصعة الطعام تصیبون منہ قال ثوبان بابی انت وامی یا رسول اللہ! امن قلة بنا؟ قال انتم یومئذ کثیر‘ ولکن یلقی فی قلوبکم الوہن‘ قالوا وما الوہن یا رسول اللہ! قال حبکم الدنیا وکراہیتکم القتال “۔(مجمع الزوائد للہیثمی: ج:۱۰ ص:۲۸۷)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ا سے حضرت ثوبان  کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: آپ ا نے فرمایا: اے ثوبان تمہاری حالت اس وقت کیسی ہوگی جب تمہارے خلاف کافر قوتیں ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی‘ جیسے تم ایک دوسرے کو ایسے دسترخوان پر بلاتے ہو جس سے تم کو کچھ ملنے کی توقع ہو‘ حضرت ثوبان  نے عرض کیا: ہماری یہ حالت ہماری کم تعداد کی وجہ سے ہوگی؟‘ آپ انے ارشاد فرمایا: نہیں تم اس دن بہت زیادہ ہوگے‘ مگر تمہارے دلوں میں وہن کی بیماری پیدا ہوجائے گی۔ عرض کیا: حضرت وہن کیا ہے؟ فرمایا: تمہارا دنیا سے محبت اور قتال سے نفرت کرنا“۔
قتال فی سبیل اللہ سب سے اعلیٰ کردار ہے‘ جیساکہ حدیث میں ہے:
اخبرنا الفضل بن الحباب الجمعی‘ حدثنا محمد بن کثیر‘ انبأنا سفیان عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر  قال: قال رجل یا رسول اللہ! ای الجہاد افضل؟ قال: ”ان یعقر جوادک ویہراق دمک “۔
(موارد الظمآن حدیث:۱۶۰۸)
ترجمہ:․․”حضرت جابر  فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ا سے درخواست کی کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا: جس میں تیرے گھوڑے کی کوچیں کاٹ دی جائیں اور تمہارا خون بہا دیا جائے“۔
۶:․․․ عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیہ ان رجلاً جاء الی النبی ا وہو یصلی‘ فقال حین انتہی الی الصف: اللہم انی اسئلک افضل ما تؤتی عبادک الصالحین‘ فلما قضی النبی ا الصلاة‘ قال: من المتکلم آنفاً؟ قال الرجل: انا یا رسول اللہ! اذا یعقر جوادک وتتشہد فی سبیل اللہ تعالیٰ “۔ (موارد الظمآن:۱۶۰۹)
ترجمہ:․․․”حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص  اپنے والد حضرت سعد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ا کے پاس آیا ‘آپ ا اس وقت نماز ادا فرمارہے تھے‘ جب وہ صاحب صف میں پہنچے تو اس نے کہا: اے اللہ! میں تجھ سے اس افضل چیز کا سوال کرتا ہوں جو تو اپنے نیک بندوں کو عنایت فرمائے گا‘ جب نبی کریم ا نے نماز پوری فرمائی تو فرمایا: کہ ابھی یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ اس صاحب نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ! میں نے۔ آپ انے فرمایا: یہ اس وقت ہوگا جب اللہ کے راستہ میں تمہارے گھوڑے کی کوچیں کاٹ دی جائیں اور تم اللہ کے راستہ میں شہید ہوجاؤ“۔
ایک صحابی کا اپنے نفس کو خطاب ملاحظہ ہو:
”عن انس بن مالک قال عملاً حرباً فقال عبد اللہ بن رواحہ یانفس انی لاراک تکرہین الجنة احلف باللہ لتنزلنہ طائعة او لتکرہنہ“
(مصباح الزجاجة ج:۳‘ ص:۱۶۳ احمد بن ابی بکر بن اسماعیل الکندی)
ترجمہ:․․․”حضرت انس بن مالک  فرماتے ہیں کہ ہم لڑائی کے لئے جارہے تھے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے فرمایا کہ: اے نفس! مجھے معلوم ہے کہ تو جنت کو ناپسند کرتاہے‘ میں اللہ کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ خوشی سے جاؤ‘ ورنہ تم پر جبر کرکے لیجا ئیں گے“۔
صحابہ کرام کی افضل الاعمال کے حصول کی تمنا ملاحظہ ہو:
”عن سفیان عن محمد بن جحادة عن ابی صالح قال: قالوا لو کنا نعلم ای الاعمال افضل؟ او احب الی اللہ؟ فنزلت: یا ایہا الذین آمنوا ہل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیم‘ تؤمنون باللہ ورسولہ وتجاہدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم‘ فکرہوہا‘ فنزلت: یا ایہا الذین آمنوا لم تقولون مالا تفعلون‘ کبر مقتاً عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاً کانہم بنیان مرصوص “۔ (کتاب الجہاد لابن المبارک ص:۲۸)
ترجمہ:․․․” حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے کہا : اگر ہم جان لیتے کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند اور کونسا عمل افضل ہے (تو ہم وہ عمل کرتے) تو یہ آیت نازل ہوئی‘ اے ایمان والو! کیا میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تم کو عذاب الیم سے نجات دے ؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے راستہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو‘ انہوں نے کچھ توقف کیا‘ تو یہ آیت نازل ہوئی“ ۔ اے ایمان والو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کیا نہیں کرتے ہو‘ اللہ اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں ‘ جو لوگ اللہ کی راہ میں قطاریں بناکر لڑتے ہیں‘ گویا کہ وہ سیسہ پلائی دیواریں ہیں‘ بے شک وہ اللہ کے محبوب ہیں“۔
اسلام کی عظمت وسربلندی‘ شان وشوکت‘ اسلام کی گہرائی و گیرائی اور اسلام کی بقاء کا راز ان لوگوں کے خون سے ہے جن کو دین اسلام پر اپنی جان نچھاور کرنا اتنا آسان تھا‘ جیسے ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کو اڑانا آسان ہوتاہے‘ نبی کریم ا کے صحابہ کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیں:
”عن جابر  قال: قال رجل للنبی ا یوم احد‘ ارأیت ان قتلت‘ فأین انا؟ قال فی الجنة فالقی تمرات فی یدہ ثم قاتل حتی قتل“۔
(مشکوٰة المصابیح‘ ص:۳۴۲)
ترجمہ:․․․”حضرت جابر  فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ا سے غزوہ احد کے دن عرض کیا کہ: مجھے بتائیں‘اگر میں (اللہ کی راہ میں)شہید کیا جاؤں تو کہاں ہوں گا؟ آپ ا نے فرمایا: جنت میں‘ ان کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں وہ پھینک کر قتال میں شریک ہوگئے‘ یہاں تک کہ شہید ہوگئے“۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے راستہ میں موت آنا اور اللہ کے دین کی عظمت وسربلندی کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا‘ ایک ایسی سعادت اور فضیلت ہے کہ سرور کائنات ا بنفس نفیس بار بار اس سعادت کے حصول کی تمنا کیا کرتے تھے: جیساکہ ارشاد ہے:
”عن ابی ہریرہ  قال: قال رسول اللہ ا والذی نفسی یبدہ لولا ان رجالا من المؤمنین لاتطیب انفسہم ان یتخلفوا عنی ولا اجد ما احملہم علیہ‘ ما تخلفت عن سریة تغزو فی سبیل اللہ‘ والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احی ثم اقتل ثم احی ثم اقتل ثم احی ثم اقتل “۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۳۲۹)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے‘ اگر مجھے یہ خوف ولحاظ نہ ہوتا کہ بہت سے وہ مسلمان جو اپنے بارے میں اس بات سے خوش نہیں ہوں گے کہ وہ مجھ سے پیچھے اور مجھ سے جدا رہیں اور مجھے اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں جن پر ان سب کو سوار کردوں تو میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کسی بھی لشکر سے پیچھے نہ رہتا‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے‘ میری خواہش اور تمنا تو یہی ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر مارا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر مارا جاؤں“۔
زندگی تو بہرحال گذر جاتی ہے‘ اللہ کے محبوبین بھی زندگی گذار کر گذر جاتے ہیں اور مبغوضین بھی زندگی گذار کر کئے ہوئے اعمال کا سامنا کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں‘ لیکن کچھ لوگوں کی زندگی قابل رشک ہوتی ہے‘ ایک تو قابل رشک ہونا انسانوں کے اعتبار سے ہے کہ ہم اور آپ کسی کی زندگی کو قابل رشک اور بہترین زندگی سمجھیں‘ ہماری سمجھ کا کوئی اعتبار نہیں‘ اس لئے کہ ہماری سمجھ کا اعتبار ظاہری احوال پر ہے‘ چاہے وہ ظاہری احوال دینی ہوں یا دنیوی‘ان کی وجہ سے کسی کو اچھا سمجھیں توممکن ہے کہ وہ صاحب احوال عند اللہ اچھا نہ ہو اور اگر دنیوی احوال کی وجہ سے کسی کو قابل رشک سمجھیں تو یقینی بات ہے کہ وہ قابل رشک نہیں ہے‘ دینی آدمی اس لئے قابل رشک ہے کہ اللہ کریم کی رحمت سے یہی امید ہے کہ اللہ نے اس کو جو حالت دنیا میں نصیب فرمائی ہے آخرت میں بھی اپنے فضل وکرم سے فیصلہ اسی حالت کے مطابق فرمائیں گے‘ لیکن ایک قابل رشک اور بہترین زندگی وہ ہے جس زندگی کو آنحضرت ا نے قابل رشک اور بہترین زندگی فرمایاہے حدیث میں ہے:
”عن ابی ہریرہ  قال:قال رسول اللہ ا ”من خیر معاش الناس لہم رجل ممسک عنان فرسہ فی سبیل اللہ‘ یطیر علی متنہ‘ کلما سمع ہیعة او فزعة‘ طار علیہ یبتغی القتل والموت مظانہ او رجل فی غنیمة فی رأس شعفة من ہذہ الشعف‘ او بطن واد من ہذہ الاودیة‘ یقیم الصلاة ویؤتی الزکوة ویعبد ربہ حتی یاتیہ الیقین‘ لیس من الناس الا فی خیر“۔ (مشکوٰةالمصابیح‘ص:۳۲۹)
ترجمہ:-”حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ا نے ارشاد فرمایا کہ: انسانی زندگی میں بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کو تیار کرکے رکھے اور جب کسی کی خوف زدہ آواز یا کسی کی فریاد سنے تو عجلت کے ساتھ گھوڑے کی پشت پر سوار ہوجائے اور اس آواز کی طرف دوڑتا ہوا چلا جائے اور اپنی موت کو یا اس جگہ کو تلاش کرتا پھرے جہاں موت کا گمان ہو‘ یا بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو کچھ بکریوں کے ساتھ ان پہاڑوں میں سے کسی ایک پہاڑ کی چوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی ایک وادی میں اقامت گزین ہو‘ نماز پڑھتا ہو اور زکوٰة ادا کرتاہو اور اپنے پروردگار کی عبادت اور بندگی میں مشغول رہتا ہو‘ یہاں تک کہ اس کو موت آجائے اور یہ شخص انسانوں کا شریک نہیں‘ بلکہ صرف بھلائی کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے“۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب کسی بندے سے راضی ہوجائیں تو اللہ کریم کی رضامندی اس شخص کوجنت کی شکل میں ملے گی‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت کو ایسا خوب صورت بنایاہے کہ دنیا میں اس کی کوئی تمثیل نہیں‘ کوئی چیز اس جیسی نہیں اور اس کی نعمتوں کا دنیا میں کوئی تصور نہیں‘ ظاہر ہے کہ ایسی جگہ جو انسان کے تخیل سے بھی وراء الوراء ہو‘ وہاں جب کوئی داخل ہو جائے تو واپسی کا خیال کیسے آسکتاہے‘ بالخصوص اس صورت میں جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے رضامندی کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی ہو کہ اب تم کو یہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے اور تمہیں کبھی بھی میری ناراضگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ‘ توایسی جگہ کو چھوڑ کر نکلنے کاکوئی تصور کرسکتا ہے؟ سوائے ایسی صورت کے کہ کوئی چیز اس سے بڑھ کر لذت وفرحت اور عظمت واکرام والی ہو‘ وہ کیا چیز ہے؟ درج ذیل احادیث میں آپ ا نے اس کی نشاندہی فرمائی ہے:
۱:․․․”عن انس  قال: قال رسول اللہ ا ما من احد یدخل الجنة یحب ان یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الارض من شئ الا الشہید یتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامة“۔
(مشکوٰة المصابیح:ص:۳۳۰)
ترجمہ:․․․”حضرت انس  کہتے ہیں کہ رسول کریم ا نے ارشاد فرمایا کہ: جنت میں داخل ہونے والا کوئی بھی شخص یہ پسند نہیں کرے گا کہ وہ دنیا میں واپس آجائے (اور جنت کی نعمتوں کے عوض دنیا کی تمام) چیزوں کو قبول کرے‘ سوائے شہید کے وہ یہ آرزو کرتاہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور دس بار خدا کی راہ میں شہید ہو ‘کیونکہ وہ شہادت کی عظمت اور ثواب کو جانتاہے“۔
۲:․․․․”وعن مسروق  قال: سألنا عبد اللہ بن مسعود  عن ہذہ الآیة: ولا تحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتا‘ بل احیاء عند ربہم یرزقون ‘ الآیة۔قال: انا قد سألنا عن ذلک فقال: ارواحہم فی اجواف طیر خضر لہا قنادیل معلقة بالعرش‘ تسرح من الجنة حیث شاء ت ثم تأوی الی تلک القنادیل فاطلع الیہم ربہم اطلاعة‘ فقال ہل تشتہون شیئا؟ قالوا: ای شئ نشتہی‘ ونحن نسرح من الجنة حیث شئنا‘ ففعل ذلک بہم ثلاث مرات فلما رأوا انہم لن یترکوا من ان یسألوا‘ قالوا یا رب! نرید ان ترد ارواحنا فی اجسادنا حتی نقتل فی سبیلک مرة اخری‘ فلما رای ان لیس لہم حاجة ترکوا“۔ ( مشکوٰة المصابیح‘ص:۳۳۰)
ترجمہ:․․․ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  سے اس آیت : ”جو اللہ کی راہ (جہاد) میں مارے جائیں ان کو تم مردہ خیال نہ کرو‘ بلکہ وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتاہے“۔کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول کریم ا سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ ا نے فرمایا کہ: ان شہدأ کی روحیں سبزرنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں‘ ان کے رہنے کے لئے عرش الٰہی کے نیچے قندیلیں لٹکائی گئی ہیں‘ وہ ارواح بہشت میں جہاں سے ان کا جی چاہے‘ میوے کھاتی ہیں پھر ان قندیلوں میں واپس آکر بسیرا کرتی ہیں‘ تب پروردگار ان شہدأ کی طرف جھانک کر فرماتاہے: تم کو کس چیز کی خواہش ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم کس چیز کی خواہش کریں‘ جبکہ ہم بہشت میں سے جہاں ہمارا جی چاہتاہے سیر کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تین مرتبہ یہ معاملہ کرتاہے یعنی تین مرتبہ پوچھتاہے‘ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں کچھ سوال کئے بغیر چھوڑا نہ جائے گا تو عرض کریں گے: اے ہمارے پروردگار! ہماری بس یہی خواہش ہے کہ ہماری ارواح کو ہمارے جسموں میں واپس کردے تاکہ ہم ایک بارپھر تیری راہ میں مارے جائیں‘ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی متعین حاجت نہیں تو ان کو چھوڑ دیا جاتاہے“۔
(جاری ہے )
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: دردمندانہ معروضات 
Flag Counter