Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

6 - 9
زلزلہ عذاب یا تنبیہ ؟ ایک فکری جائزہ
زلزلہ عذاب یا تنبیہ ؟ ایک فکری جائزہ


زلزلہ نے صرف ظاہری طور پر مکانات‘ بلڈنگیں‘ محلات‘ تعلیمی ادارے‘ مساجد ومدارس اور دیگر تعمیرات ہی تباہ نہیں کئے‘ بلکہ باطنی اور قلبی طوربھی اس نے اثرات مرتب کئے۔ زلزلے پہلے بھی آتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنی عظمت وقدرت کا احساس دلاتے رہے ہیں‘ لوگ اس کے ذریعہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجاتے ‘ انابت الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی‘ اللہ کی ذات پر ایمان رکھنے والے لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے رک جاتے‘ نیکیوں کی طرف متوجہ ہوجاتے مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ انسان کی قساوتِ قلبی انتہاء کو پہنچ گئی‘ اس زلزلہ سے ان کے دلوں میں رقت‘ توبہ اور معافی کی بجائے نعوذ باللہ باری تعالیٰ سے مقابلہ کرنے اور خدائی طاقت کے مقابلہ میں ڈٹ جانے اور بغاوت کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے‘مختلف علاقوں کے لوگوں سے ایسی باتیں سننے میں آرہی ہیں جس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ گویا وہ دوبارہ زلزلہ کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس الحاد ودھریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت کا احساس ہی باقی نہیں رہا‘ اس پر مزید یہ کہ نام نہاد دانشوروں‘ اخباری کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے قوم کے دلوں سے خوفِ خداوندی نکالنے اور ان کو الحاد وبے دینی کی راہ پر چلانے کی پوری کوشش کی‘ اس عذاب کو سائنسی پیمانوں سے ناپتے ہوئے قوم کو خوابِ غفلت میں سوئے رہنے کی تلقین کرتے رہے۔(تاکہ نعوذ باللہ عظمت خداوندی دلوں میں پیدا نہ ہو) اور سائنسی کرشمے سمجھتے ہوئے زمین کی پلیٹوں کے رد وبدل سے اس کا جوڑ پیدا کرتے رہے اس کا جواب ہم ان دانشوروں کی تحریرات میں نہ پاسکے کہ ان پلیٹوں میں رد وبدل کس کے حکم سے ہوتا ہے؟ جبکہ قرآن تو ہمیں سمجھاتاہے کہ درخت سے ایک پتہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں ہل سکتا ارشاد ہے:
”اور وہ تمام چیزوں کو جانتاہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں“۔ (سورہٴ انعام:۵۹)
تو کیا زمین کی پلیٹیں رب ذی الجلال کے حکم کے بغیر ہل سکتی ہیں؟ یہ نظریہ رب کی قدرتوں کے منکر کا تو ہوسکتا ہے کسی اور کا نہیں‘ ان کالم نگاروں نے زلزلہ کو عذاب بتانے والے علمأ پر خوب پھبتیاں کسیں۔
کسی نے علمأ کے بارے میں ”دورکعت کے امام“ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا۔ کسی نے اپنی دانشمندی کا یوں اظہار کیا ”کچھ لوگ اسلام کے نام پر قدرتی آفات کو گناہوں کی سزا قرار دے کر توبہ واستغفار کی اپیلیں کرتے ہیں تو عملی طور پر وہ انسان کو علم اور تحقیق کے راستہ پر چلنے سے روکتے ہیں جو احکام خداوندی سے روگردانی ہے“۔
کچھ لوگوں نے زلزلوں سے ہونے والی تباہی کو گناہوں کا نتیجہ قرار نہ دے کر ایک ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کو بطور دلیل پیش کیا کہ گناہوں کے سزا کے لئے قیامت کا دن مقرر ہے پھر ڈاکٹر صاحب کا قول مزید استدلال کے لئے پیش کیا کہ ”اگر یہ تباہ گناہوں کی وجہ سے ہوتی تو لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد اور راولپنڈی میں تباہی کیوں نہیں آئی جو ہمارے قومی گناہوں کے ہیڈکواٹر ہیں“ ڈاکٹر صاحب ما شأ اللہ قرآن کی تفسیر سے شغف رکھتے ہیں‘ نہ معلوم ان کی نگاہوں سے وہ قرآنی آیات کیوں اوجھل ہوگئیں جن میں عذاب‘ تکالیف اور مصائب کا تعلق اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال سے جوڑا ہے‘ چند آیات کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
۱-”اور تم کو (اے گناہ گارو) جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے کئے ہوئے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سے تو وہ درگذر کردیتاہے“۔ ( شوریٰ :۳۰)
۲-”اور اللہ تعالیٰ ایک ایسی بستی والوں کی حالت ِ عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ (بڑے) امن واطمینان میں (رہتے) تھے (اور) ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چہار طرف سے ان کے پاس پہنچاکرتی تھیں‘ سو انہوں نے خدا کی نعمتوں کی بے قدری کی‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا“۔ ( نحل:۱۱۲)
۳-”اور آپ کے رب کی دار وگیر ایسی ہی (سخت) ہے جب وہ کسی بستی والوں پر دار وگیر کرتا ہے جبکہ وہ ظلم کیا کرتے ہوں‘ بلاشبہ اس کی دار وگیری بڑی الم رساں (اور) سخت ہے“۔ ( ہود:۱۰۲)
۴- ”سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی وہ ڈھیلے کیوں نہ پڑے لیکن ان کے قلوب تو سخت رہے اور شیطان ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کرکے دکھلاتارہا“۔ ( انعام:۴۳)
۵- ”اور تم ایسے وبال سے بچو کہ خاص انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں“۔ (انفال:۲۵)
۶- ”ہاں تو کیا اللہ تعالیٰ کی اس (ناگہانی) پکڑ سے بے فکر ہوگئے سو (سمجھ رکھو) خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا“۔ (اعراف:۹۹)
قرآنی آیات کی مزید تشریح احادیث سے سنئے:
۱- ”حضرت انس آنحضرت ا کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:
جب میری امت پانچ چیزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو ان پر تباہی نازل ہوگی۔ ۱:․․․جب ان میں باہمی لعن طعن عام ہوجائے۔
۲:․․․مرد ریشمی لباس پہننے لگیں۔ ۳:․․․گانے بجانے اور ناچنے والی عورتیں رکھنے لگیں۔ ۴:․․․شرابیں پینے لگیں۔
۵:․․․مرد‘ مردوں سے اور عورتیں‘ عورتوں سے جنسی تسکین پر کفایت کرنے لگیں“۔ معاذ اللہ (کنز العمال :ج:۱۴ ص:۲۲۶)
۲-”حضرت حذیفہ حضور اقدس ا سے روایت کرتے ہیں کہ:
”جب یہ امت شراب کو مشروب کے نام سے‘ سود کو منافع کے نام سے‘ رشوت کو تحفے کے نام سے حلال کرے گی اور مال زکوٰة سے تجارت کرنے لگے گی تو ان گناہوں کی زیادتی اور ترقی کے سبب ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا“۔ (کنز العمال:ج:۱۴ ص:۲۲۶)
۳- ”حضرت انس  آنحضرت سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ا نے فرمایا:
”لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ ایک مومن‘ مسلمانوں کی جماعت کے لئے دعا کرے گا مگر قبول نہیں کی جائے گی‘اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو اپنی ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دعاکر‘ میں قبول کرتاہوں‘ لیکن عام لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا‘ اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیاہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں ان سے ناراض ہوں“۔ (کتاب الرقائق ص:۱۵۵‘۳۸۴)
۴- ”حضرت عبد اللہ بن مسعود  آنحضرت ا کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:
”اس امت میں خاص نوعیت کے چار فتنے ہوں گے‘ ان میں آخری اور سب سے بڑا فتنہ راگ ورنگ اور گانا بجانا ہوگا“۔ (اخرجہ ابو داودوابن شیبہ درمنثور ج:۶‘ ص:۵۶)
۵- ”حضرت عمران بن حصین  فرماتے ہیں کہ نبی کریم ا نے فرمایا:
”اس امت میں زمین میں دھنسنے‘ شکلیں بگڑنے اور آسمان سے پتھر برسنے کا عذاب نازل ہوگا‘ کسی صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب گانے اور ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ظاہر ہوجائے گا اور شرابیں اڑائی جائیں گی“۔
(ترمذی شریف ج:۲‘ص:۴۴)
مجموعی حیثیت سے احادیث میں ذکر کردہ گناہ وجرائم ہمارے معاشرے میں جس قدر گہرائی سے سرایت کرچکے ہیں‘ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں‘ حکومت وعوام سب مل کر اللہ تعالیٰ کی بغاوت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور مزید روز مرہ ان میں اضافہ ہورہاہے‘ خیر کی چیز پر بریک لگی ہوئی ہے جبکہ شر اور برائی تیز رفتاری سے رواں دواں ہیں‘ راگ ورنگ‘ رقص وسرور‘ فحاشی وبے حیائی احادیث کے مطابق رب کے غضب کو دعوت دینے والی چیزیں ہیں‘ صدر صاحب نے کراچی کارا فلم فیسٹول میں ارشاد فرمایا کہ: رقص وسرور تھیڑ وموسیقی کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ (اخبارات ۱۳ دسمبر)
میڈیا کی آزادی کے نام سے جو نئے نئے چینل فحاشی کے فروغ کے لئے کھولے گئے‘ ان کے زہریلے اثرات سے پورا معاشرہ تباہ ہورہاہے۔
ایک صاحب نے مجھے اپنے خط میں اس کی یہ تفصیل لکھی کہ:
ایک سنگین مسئلہ آپ کے نوٹس میں میں لانا چاہتاہوں کہ ”ڈیجیٹل ریسیور“ نیٹ ورک پر چند چینل اپنی نشریات میں ایسے پروگرام نشر کررہے ہیں جن میں کچھ نام کی ”مسلمان لڑکیاں“ بالکل برہنہ ہوکر ناظرین کو دعوت گناہ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں‘ جہاں یہ شرم کی بات ہے وہاں ہم مسلمانوں کے لئے شرمناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ جہاں یہ پروگرام چل رہے ہوتے ہیں‘ وہیں سکرین پر کونے میں ”کلمہ طیبہ“ لکھا نظر آرہا ہوتا ہے‘ اس کے ساتھ دوسرے مسلم ممالک کے جھنڈے بھی نظر آتے ہیں اور ساتھ موبائل نمبر اور ایڈریس لکھے ہوتے ہیں۔
میڈیا کی آزادی کے نام پر یہ ایک جھلک ہے‘ کچھ دانشوروں نے سائنس کے ذریعہ زمین کی پلیٹوں کی مسلسل حرکت کو ایسے یقینی طور پر پیش کیا ہے اور ایسے حتمی اندازے سے عوام کے دماغ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک شاید نظامِ کائنات انہی چیزوں پر موقوف ہے اور اس زمینی نقل وحرکت کا تعلق انسان کے اعمال وافعال سے نہیں اور مذہبی رہنماؤں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ عذاب کے فتوے لوگوں کو نہ سنائیں‘ یہ ساری جد وجہد صرف اس لئے ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہوں‘ انابت الی اللہ‘ توبہ واستغفار کی ضرورت محسوس نہ کریں‘ سائنس میں ترقی کرتے رہیں کہ یہی انسانیت کا عروج وارتقاء ہے۔
زلزلہ سے پہلے ہم جن گناہوں میں مبتلا تھے‘ زلزلہ کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی‘ بے انصافی اور ظلم کی جو داستانیں ہم نے رقم کی تھیں‘ اسی روِش پر ہم چل رہے ہیں‘ سینکڑوں مجاہدین کو امریکہ کے حوالے کرکے گوانتا اور افغانستان کے جیلوں میں بھجوادیا ‘ ان مجاہدین کی آہِ سحری جب عرش سے ٹکراتی ہوگی تو رب کے غیظ وغضب کا کیا حال ہوگا؟ زلزلہ کے بعد بھی ہم اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں ‘ طالبان کے ترجمان لطیف اللہ حکیمی کو گرفتار کرکے دشمنوں کے حوالہ کیا گیا‘ اس نے پاکستان کو کیا نقصان پہنچایاتھا؟ زلزلہ کے اثرات میں کچھ کمی آئی تو ملک کی پولیس اور حساس اداروں نے جہاد سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی‘ علمأ کو بستہ الف اور ب میں شامل کرکے اشتہاری بنایاگیا‘ مدارس میں غیر ملکی طلبہ کے بارے میں حکومتی بیانات شروع ہوگئے‘ امریکی منصوبوں کی تکمیل کا کام شروع کردیاگیا‘ مدارس کے بارے میں مذاق کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے مذہبی امور کا بیان کہ” ملک میں ایڈز کی بیماری دینی مدارس کی وجہ سے ہے“۔ (نوائے وقت:۲۶ نومبر)
ملک کے حساس اداروں کی ان سرگرمیوں میں مشغولیت سے پورا ملک ڈاکؤوں اور چورں کے حوالہ کردیا گیا ہے‘ جان ومال آج غیر محفوظ ہیں‘ اخباری رپورٹ کے مطابق تھوڑے عرصہ میں بے شمار گاڑیاں چوری ہوئیں‘ ملک کے عدالتی نظام کا اگر مشاہدہ کرنا ہو تو کسی شہر کی کچہری میں آپ چلے جائیں کہ کس قدر کرب میں لوگ مبتلا ہیں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں‘ ظلم وعداوت کا دور دورہ ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے‘ اخلاقی گراوٹ کایہ حال ہے کہ یہ رپورٹیں اخبارات میں آچکی ہیں کہ بدقماش لوگوں نے زلزلہ میں وفات شدہ عورتوں کے ہاتھ اور کان کاٹ کر زیوارات اتار لئے‘ ایک حساس ادارہ کے ملازم نے بالواسطہ مسئلہ پوچھا کہ: ایک سفاک شخص کو میں نے دور سے دیکھا کہ ایک مردہ عورت کے ہاتھ کو کلہاڑی سے کاٹ کر کنگن نکالے اور کان کی بالیاں قبضہ میں لے لیں‘ میں اس کریہہ اور سفاکانہ منظر کو دیکھ کر قریب گیا اور اس کی تلاشی لی توزیورات نکل آئے‘ مجھے اس کی اس حرکت پر انتہائی غصہ آیا اور پستول سے اس کو قتل کردیا۔ کیا میرا اس کو قتل کرنا جائز تھا؟
اصل مسئلہ جوموجودہ تجزیہ نگاروں نے باربار مختلف انداز سے ذکر کیا ہے کہ زلزلہ گناہوں کے وجہ سے نہیں آتا‘ اس کا لوگوں کی بداعمالیوں سے تعلق نہیں ہے‘ ان حضرات کا کہنا ہے کہ زلزلہ فورسز آف نیچر کی وجہ سے آتاہے کیونکہ کائنات بنانے والے نے کائنات بنادی ہے‘ اب یہ کسی نہ کسی اصول پر خود چل رہی ہے‘ یہ تصور ایک لادینی نظریہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے بعد اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے‘ نام نہاد دانشور کا یہ کہنا کہ: اگر گناہوں کی وجہ سے ہلاک کرنا تھا تو زلزلہ زدہ علاقوں سے دوسرے علاقوں میں گناہ زیادہ ہیں‘ لاہور ‘ کراچی‘ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کونسا گناہ ہے جو نہیں کیا جاتا‘ پھر یہ عذاب صرف ان پرکیوں آیا؟ زیادہ گناہ والے کیوں محفوظ رہے؟
اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو مخلوق چیلنج نہیں کرسکتی نہ اس سے کسی کو سوال کرنے کی اجازت ہے اور نہ اس سے کوئی سوال کرسکتاہے۔ اس بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”لایسئل عما یفعل وہم یسئلون“۔ (انبیاء :۲۳)
”وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے“۔
پھر اللہ تعالیٰ کے قدرتوں میں کچھ خاص حکمتیں ہیں‘ جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”واتقوا فتنة لاتصیبن الذین ظلموا منکم خاصة“۔ (الانفال:۲۵)
”اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جوخاص انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں“ ۔
میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کبھی ظالموں کے گناہوں کے اثرات ایسے لوگوں تک بھی پہنچتے ہیں جو گناہوں میں شریک نہیں تھے لیکن امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کے نہ ادا کرنے پر ان کو بھی عذاب میں مبتلا کیا جاتاہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ:
” اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ایک بستی ہلاک کرنے کا حکم فرمایا فرشتوں نے کہا یا رب اس میں تو فلاں شخص بہت نیک متقی وپرہیزگار ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاکہ: اس کو بھی ان کے ساتھ ہلاک کردو‘ اس لئے کہ جب یہاں میری نافرمانی ہورہی تھی تو اس کی پیشانی پر شکن تک نہیں آئی“۔
آج ہمارے ملک کے معاشرے میں صورتحال کتنی گھمبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی برملا نافرمانی کس قدر کی جارہی ہے‘ حالانکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس امت کے اہم فرائض میں سے ہے‘ قرآن کریم نے اس کی اہمیت بار بار واضح کی ہے۔ زلزلہ زدہ علاقوں کے علمأ سے اس بارے میں بار ہا گفتگو ہوئی‘ کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ ان علاقوں میں عملی نفاق‘ ایک دوسرے سے بغض اور علمأ کی بے قدری بہت زیادہ ہے۔ ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں رسمی عبادت رہ گئی ہے‘ عبادت کی روح نہیں ہے جبکہ قرآن نے فرمایا:
”تبارک الذی بیدہ الملک وہو علی کل شئ قدیر“- (الملک:۲)
”جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے“۔
نیز حقوق العباد کی پامالی بہت زیادہ ہے‘ وراثت میں بہن‘ بیٹی اور ماں کا حصہ نہیں دیا جاتا‘ دوسروں کی زمین اور جائیداد پر قبضہ ان علاقوں کی ثقافت ہے‘ ہیروئن‘ افیم اور منشیات کا استعمال اور کاروبار بہت زیادہ ہے‘ چوری ڈاکے بھی بہت ہیں‘ یہ ذی رائے علمأ کے ارشادات ہیں ‘ خیرات وصدقات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سلسلہ نہیں ہے‘ جن شہروں کو ہمارے تجزیہ نگارگناہوں کے ہیڈکواٹر کہتے ہیں‘ ان میں انفاق فی سبیل اللہ ماشأ اللہ بہت ہے‘ صاحبِ ثروت لوگ اپنے ذوق کے مطابق مال خرچ کرنے میں پیش پیش ہیں‘ صدقہ وخیرات اللہ تعالیٰ کے غضب کو روکتے میں زبردست اثر رکھتے ہیں‘ آپ ا کا ارشاد ہے:”صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتاہے“ ”صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے“۔
حضرت مفتی رشید احمد صاحب نے اس سوال پر جب مانسہرہ میں ایک بستی طوفان سے تباہ ہوگئی تھی‘ اس پر یہ کہنا کہ یہ عذاب الٰہی ہے جبکہ دوسرے بہت سے شہروں میں اس سے بھی زیادہ فواحش ومنکرات موجود ہیں‘ وہاں ایسی کوئی تباہی نہیں ہورہی‘ جواب میں حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ
: ” حسنات کی کمیات وکیفیات کے مجموعہ اور سیئات کی کمیات وکیفیات کے مجموعے میں سے جو غالب ہو‘ اس کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں“۔
”جس کی تشریح یہ ہے کہ اعمال اچھے ہوں یا برے‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف ان کی مقدار وتعداد (جس کو کمیت کہاجاتاہے) نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس عمل کے دوران انسان کے جذبات اور کیفیات کا بھی لحاظ رکھا جاتاہے۔ مثلاً ایک شخص نماز پڑھتا ہے تو نیکیوں کے اندراج اور اجر وثواب کی مقدار طے کرتے ہوئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں‘ بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ دوران نماز اللہ تعالیٰ کا دھیان کتنا تھا‘ اخلاص ‘ خشوع وخضوع کس درجہ کا تھا‘ اس حساب سے بعض اوقات ایک شخص کی دو نفل دوسرے کی سو نفلوں سے زیادہ وزنی ہوتی ہیں‘ کیونکہ اس نے خشوع وخضوع سے دورکعت نماز ادا کی تھی جبکہ دوسرے نے سو رکعت نماز بے دھیانی سے پڑھی تھی‘ یہی حال گناہوں کا ہے دو شخص ایک گناہ کرتے ہیں مگر ایک کا گناہ دوسرے سے بڑھ جاتاہے‘ مثلاً ایک شخص نے گناہ سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا اور دوسرے نے اس کے حرام ہونے کا انکار کرتے ہوئے وہی فعل انجام دیا‘ ایک نے چھپ کر شرماتے ہوئے گانا سنا اور دوسرافخر سے کھلم کھلا ناچ ورنگ کی محفلوں میں شریک ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ کسی علاقے کے لوگوں کی ظاہری بود وباش ان کے اخلاق وکردار اور وہاں صالحین وفساق کی تعداد کے تناسب سے ہم یہ اندازہ تو لگاسکتے ہیں کہ یہاں کمیت یعنی تعداد اور مقدار کے لحاظ سے گناہ زیادہ ہیں یا نیکیاں۔ (اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو جہاں گناہ غالب نہ ہوں) مگر کس جگہ نیکیوں کی کیفیت غالب ہے اور کہاں گناہوں کی کیفیت؟ اس کا اندازہ اس علیم وخبیر ذات کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا جو دلوں کے بھید جانتاہے“۔ (روز نامہ اسلام ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
بہرحال پریس کے ذریعہ سے لوگوں کو باور کرانا کہ زلزلہ عذاب خداوندی نہیں ہے اور ان حالات میں توبہ واستغفار اور انابت الی اللہ کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ تو قدرت کی طرف سے ایک فطری نظام ہے‘ حضرات علمأ کرام نے قوم کو یہ بتلا نیکی کوشش فرمائی ہے کہ یہ زلزلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زبردست آزمائش ہے‘ ہمارے گناہوں کی بناء پر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے‘ ہمیں اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ معصیتوں اور نافرمانیوں کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی والے کاموں کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: سائنسی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی
Flag Counter