Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

2 - 9
حالت حیض میں نمازودیگر عبادات کا حکم
حالت حیض میں نمازودیگر عبادات کا حکم


کیا فرماتے ہیں علمأ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ میں کہ:
ایامِ حیض ونفاس میں عورت کے لئے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ ایک عورت قرآن پاک کا درس دیتی ہے اور وہ ایامِ حیض میں خود بھی نماز پڑھتی ہے اوردوسری عورتوں کو بھی ان ایام میں نماز پڑھنے کا کہتی ہے اور نماز پڑھواتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ: حالتِ حیض ونفاس میں نماز نہ پڑھنے کا ثبوت قرآن میں نہیں ملتا۔ ہاں حدیث سے ثابت ہے‘ لیکن میں تو قرآن پاک کے حکم سے پڑھوں گی‘ میں نے کافی مفتیانِ عظام سے فتویٰ بھی لیا ہے‘ اس فتویٰ کے روسے پڑھوں گی‘ اور اب تو اس حالت میں حرم شریف بھی جاؤں گی۔ اس کا ساتواں حج ہے۔ اس کے بیان سے متاثر ہوکر کافی عورتیں حالتِ حیض ونفاس میں نماز پڑھنے لگ گئی ہیں اوراس حالت میں قرآن شریف کی تلاوت بھی کرتی ہیں‘ اب آپ مفتیان کرام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ اس کے بارے میں آپ حضرات کا شریعت کی روشنی میں کیا فرمان ہے؟
والسلام۔
المستفتیہ: ام عبد اللہ‘ ابوہریرہ مسجد‘ گارڈن‘ کراچی
الجواب باسمہ تعالیٰ
واضح رہے کہ ایامِ حیض میں عورت کے لئے نماز پڑھنا شرعاً ناجائز ہے‘ یہی مذہب تمام صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا ہے۔ اس بارے میں دلائل ملاحظہ ہوں:
۱-”عن ابی سعید الخدری قال: خرج رسول اللہ ا فی اضحیٰ او فطر الی المصلی‘ فمر علی النساء‘ فقال: یا معشر النساء! تصدقن‘ فانی اریتکن اکثر اہل النار‘ فقلن وبم؟ یا رسول اللہ! قال تکثرن اللعن‘وتکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین اذہب للب الرجل الحاذم من احدکن‘ قلن وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللہ؟ قال الیس شہادة المرأة مثل نصف شہادة الرجل‘ قلن بلیٰ! قال فذالک من نقصان عقلہا۔ الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم‘ قلن: بلیٰ‘ قال:فذلک من نقصان دینہا“۔ (صحیح بخاری ج:۱‘ ص:۴۴)
ترجمہ:․․حضرت․ابوسعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ا عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لئے عیدگاہ تشریف لے گئے تو آپ کا گزر عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا‘ آپ ا نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ وخیرات کرو‘ کیونکہ میں نے تم عورتوں کی اکثریت کو دوزخ میں دیکھا ہے (یہ سن کر) عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! اس کا سبب؟ آنحضرت ا نے فرمایا کہ: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی وناشکری کرتی رہتی ہو‘ اور میں نے عقل ودین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا (یہ سن کر) عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کمی کیسے ہے؟ آپ ا نے فرمایا: کیاایک عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں؟ (یعنی کیا ایسا نہیں ہے کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے) ان عورتوں نے کہا‘ جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ آپ ا نے فرمایا: یہی ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ہے ۔ (آپ ا نے فرمایا) کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حیض کی حالت میں ہوتی ہے نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا : جی ہاں! ایسا ہی ہے‘ آپ انے فرمایا: یہ ان کے دین میں ناقص ہونے کی دلیل ہے“۔
۲- ”عن عائشة  انہا قالت فاطمة بنت ابی حبیش لرسول اللہ ا یا رسول اللہ! انی لا اطہر افادع الصلوة؟ فقال رسول اللہ ا! انما ذلک عرق ولیس بالحیضة‘ فاذا اقبلت الحیضة فاترکی الصلوة‘ فاذا ذہب قدرہا فاغسلی عنکِ الدم وصلی“۔ (صحیح بخاری ج:۱‘ ص:۴۴)
ترجمہ:․․․ حضرت عائشہ صدیقہ راویہ ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش نبی کریم ا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ!( میں ایک ایسی عورت ہوں جسے برابر بیماری کا خون آتا رہتاہے چنانچہ میں) کسی وقت پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑد وں؟ آنحضرت ا نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ سے خون بہتا ہے‘ حیض نہیں ‘ (جوکہ رِحم سے آتاہے)جب تجھے حیض آنے لگے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہوجائے تو جسم سے خون کو دھو ڈالو اور نہاکر نماز پڑھ لو“۔
۳- ”عن معاذة قالت: سالت عائشة ‘ فقلت: ما بال الحائض تقضی الصوم ولاتقضی الصلوة؟ فقالت: احروریة انتِ؟ فقلت: لست بحروریة‘ ولکن اسئل۔ قالت: کان یصیبنا ذلک فنومر بقضاء الصوم ولانومر بقضاء الصلوة“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۱۵۳)
ترجمہ:۔حضرت معاذہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا : کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزوں کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی؟ حضرت عائشہ نے فرمایا: کیا تو حروریہ (خوارج سے) ہے؟ میں نے کہا: میں تو حروریہ نہیں ہوں‘ بلکہ جاننا چاہتی ہوں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتاتھا“۔
ان تمام احادیث سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ایام حیض میں نماز معاف ہے‘ چونکہ آپ ا وحی الٰہی کے مخاطب ‘ احکام خداوندی کے تعمیل کنندہ اور مطیع وفرمانبردار تھے‘ اللہ تعالیٰ نے آپ ا کو لوگوں کے لئے نمونہ بناکر مبعوث فرمایا‘ آپ ا وحی الٰہی کے منشأ ومراد سمجھنے اور سمجھانے والے تھے‘ اس لئے آپ ا کی اطاعت‘ عین خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ آپ ا کا ہر ایک حکم دین کے معاملہ میں ایسا ہی واجب التعمیل اور ضروری ہے‘ جیساکہ خداوند تعالیٰ کا حکم واجب التعمیل اور ضروری ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللہ ا کی اطاعت اور اتباع کا حکم اور آپ ا کی نافرمانی سے منع کیاگیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“۔ (النساء:۱۱)
ترجمہ:- ”جس نے حکم مانا رسول کا‘ اس نے حکم مانا اللہ کا“۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
”قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ“۔ (آل عمران: ۴)
ترجمہ:-”تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ چلو تاکہ محبت کرے تم سے اللہ“۔
اور ایک جگہ یوں فرمایا:
”ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہو“ (الحشر:۷)
ترجمہ:-”اور جودے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو“۔
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں قسم اٹھا کر یہ حکم بیان کیا ہے کہ تیرے رب کی (یعنی مجھے اپنی ذات کی) قسم کہ یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ آپ کو ہربات اور ہرمعاملہ میں اپنا فیصل اور حکم تسلیم نہ کریں اور پھر دل میں ذرہ بھر تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردن تسلیم خم نہ کردیں‘جیساکہ ارشاد ہے:
”فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک الخ“ ۔(النساء:۶۵)
قرآن کریم میں آپ ا کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لئے جس طرح لازم اور ضروری قرار دیا گیا ہے‘ اسی طرح خود آنحضرت ا نے بھی واضح الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
”لایؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعالما جئت بہ“ ۔ (مشکوٰة:ص:۳۰)
ترجمہ:۔”تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا تا وقتیکہ اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیاہوں“۔
بہرحال گذشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضورا کے واضح ارشادات اس کے متعلق موجود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام  کے نزدیک یہ مسئلہ بالکل واضح تھا‘ اس کے ساتھ اگر فقہأ کرام اور مجتہدین کے اقوال ومذاہب کا جائزہ لیں تو دنیا میں کسی بھی فقیہ کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا اور سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ حیض کی حالت میں عورت نماز نہ پڑھے اور یہ ایک ایسا اجماع ہے جو یقینی اور پختہ ہے۔
امام ابن منذر لکھتے ہیں:
”اجمعوا علی ان الحائض لاصلوة علیہا فی ایام حیضتہا فیجب علیہا القضاء“۔ (الاجماع ص:۳۲)
ترجمہ:-”فقہأ کا اس پر اجماع ہے کہ حائضہ پر ایام حیض میں نماز نہیں کہ جس کی بنا پر اس پر (نماز کی) قضا ہو“۔
موسوعة الاجماع میں ہے:
”اجمع المسلمون علی انہ یحرم علی الحائض والنفساء فی حال حیضہا الصلوة فرضہا ونفلہا وہذا الاجماع متیقن“ (ج:۲‘ص:۶۳۲)
ترجمہ:-”مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ حائضہ اور نفاس والی عورت پر حالت حیض (اورنفاس) میں فرض‘ نفل ہرقسم کی نماز حرام ہے اور یہ اجماع یقینی ہے“۔
حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
”وہذا اجماع من علمأ المسلمین نقلتہ الکافة کما نقلتہ الاحاد العدول ولامخالف فیہ الاطوائف من الخوارج‘ یرون علی الحائض الصلوة‘ اما علمأ السلف والخلف واہل الفتوی فکلہم علی ان الحائض لاتصلی ولاتقضی الصلوة ایام حیضہا“۔ (الاستذکار‘ ص:۲۳۸)
ترجمہ:۔”اور یہ علمأ مسلمین کا اجماع ہے جس کو بہت بڑی جماعت نے نقل کیا ہے ․․․ اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں‘ سوائے خارجی ٹولہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ حائضہ پر نماز ہے۔ رہے علمأ سلف وخلف اور اہل فتویٰ سب کا یہی قول ہے کہ حائضہ نماز نہ پڑھے اور نہ حیض کی دنوں کی نماز قضاء کرے“۔
”عن معمر عن الزہری قال: الحائض تقضی الصوم ولاتقضی الصلوة قلت عمن؟ قال: اجتمع الناس علیہ ولیس فی کل شئ تجد الاسناد“۔ ( حوالہ بالا‘ج:۱‘ ص:۳۳۹)
ترجمہ:۔”حضرت معمر راوی ہیں کہ امام زہری نے کہا: حائضہ روزے کی قضاء کرے اور نماز کی قضا نہ کرے۔ میں نے کہا: کیا وجہ ہے؟ امام زہری نے کہا لوگوں کا اس پر اجماع ہے ․․․․“۔
امام نووی صحیح مسلم کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
”وہذا نہی لہا عن الصلوة فی زمن الحیض وہو نہی تحریم‘ ویقتضی فساد الصلوة ہنا باجماع المسلمین‘ وسواء فی ہذا الصلوة المفروضة والنافلة‘ لظاہر الحدیث‘ وکذلک یحرم علیہا الطواف‘ وصلوة الجنازة‘ وسجود التلاوة‘ وسجود الشکر‘ وکل ہذا متفق علیہ‘ وقد اجمع العلماء علی انہا لیست مکلفة بالصلوة‘ وعلی انہ لاقضاء علیہا“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۱۵۲)
ترجمہ:۔”اور یہ نہی ہے عورت کے لئے زمانہ حیض میں نماز سے‘ اور یہ نہی تحریمی ہے۔ اور مسلمانوں کا اجماع تقاضا کرتاہے حائضہ عورتوں کے لئے فساد صلوة کا ‘ حدیث کی بنا پر۔ اس حکم میں نماز فرض اور نفل برابر ہے اسی طرح ان حائضہ عورتوں پر بیت اللہ کا طواف‘ نماز جنازہ‘ سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر حرام ہے‘ اور ہر ایک کا یہ حکم اتفاقی ہے‘ اور علمأ کا اس پر اجماع ہے کہ حائضہ نماز کی مکلف نہیں‘ اور اس پر بھی اجماع ہے کہ حائضہ پر نماز کی قضاء نہیں“۔
جب اس مسئلہ پر تمام ائمہ وفقہأ کا اجماع ہے اوراجماع سے ثابت ہونے والا حکم قطعی ہوتا ہے تو اس حکم پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے۔ کشف الاسرار میں ہے:
”الاصل فی الاجماع ان یکون موجبا للحکم کالکتاب والسنة“۔ (کشف الاسرار ص:۳۷۲)
ترجمہ:۔” اجماع میں اصل یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کی طرح حکم کو واجب کرتاہے“
”ان یثبت المراد بہ حکما شرعیا علی سبیل التیقن“۔ (الکافی شرح البزدوی ص:۱۶۱)
ترجمہ:۔”اجماع سے حکم شرعی کی مراد یقینی طور ثابت ہوتی ہے“۔
لہذا جب اس بات پر اجماع ہے کہ حیض کی حالت میں عورت پر نماز نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اجماع سے حکم قطعی ثابت ہوتاہے ‘جس کی مخالفت ہرگز جائز نہیں اور اجماع کو جھٹلاناگویا دین کے ایک حصہ کوباطل کرنا ہے‘ تو اب موصوفہ کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ وہ آیات قرآنی‘ احادیث رسول اللہ اور اجماع کی مخالفت کرکے حیض کی حالت میں نماز پڑھنے کوجائز اور ضروری سمجھ کر کہاں کھڑی ہے ؟ کیا موصوفہ نے احادیث رسول اللہ کا انکار اور خارجیوں کی طرح ”حسبنا کتاب اللہ“ کا نعرہ لگاکر مسلمانوں سے خروج کرکے منکرین حدیث اور خارجیوں میں شامل ہونے کا اعلان نہیں کردیا؟
یاد رہے کہ مذہبی لحاظ سے سطح ارضی پر اگرچہ بے شمار فتنے رونما ہوئے ہیں اورحضور ا کی پیش گوئی کے مطابق قیامت تک رونما ہوتے رہیں گے‘ لیکن فتنہ ”انکار حدیث“ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا فتنہ ہے‘ کیونکہ باقی فتنوں سے توصرف شجرہ اسلام کے برگ وبار کوہی نقصان پہنچتاہے ‘لیکن اس فتنے سے شجرہ اسلام کی جڑیں اور بنیادیں ہی کھو کھلی ہوکر رہ جاتی ہیں اور اسلام کا کوئی بدیہی مسئلہ بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا‘ اس عظیم فتنے سے عقائد واعمال‘ اخلاق ومعاملات‘ معیشت ومعاشرت اور دنیا وآخرت کا کوئی مسئلہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا‘ حتی کہ قرآن کریم کی تفسیر وتشریح کچھ سے کچھ ہوکر رہ جاتی ہے۔ آج کل قرآن کا نام اس لئے استعمال کیا جاتاہے تاکہ حدیث کا انکار کیا جائے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو حدیث کی تشریح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں‘ قرآن کا خدائی کتاب ہونا خود حدیث سے ثابت ہے‘ اگر حدیث پر ایمان نہ ہو تو قرآن کریم پر ایمان معتبر نہیں ہوسکتا‘ قرآن کریم تشریح اور فصاحت میں بھی حدیث کا محتاج ہے‘ قرآن کریم کی تشریح کرنا‘ نبی کریم ا کی ذمہ داری ہے‘ بسا اوقات قرآن کریم کے ایک لفظ سے کئی کئی معانی نکلتے ہیں‘ لیکن کون سا معنیٰ ومطلب مراد لینا درست ہے؟ یہ حدیث سے ہی معلوم ہوتاہے۔
حضرت علی نے حضرت ابن عباس  کو خوارج کے ساتھ مناظرے کے لئے جب بھیجا تو بھیجتے وقت یہ تاکید کی کہ خوارج کے سامنے قرآن کریم کو بطور دلیل پیش مت کرنا‘حضرت ابن عباس  نے حیرت سے پوچھا کہ مجھے نبی کریم ا نے یہ دعا دی ہے ”اللہم فقہہ فی الدین وعلمہ التاویل“ حضور ا کی دعا کی برکت سے مجھے قرآن کا علم حاصل ہے تو پھر میں کیوں نہ ان کے سامنے قرآن کریم کو بطور دلیل پیش کروں؟ حضرت علی  نے جواب دیا کہ: قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے بہت سے معانی نکلتے ہیں‘ تم قرآن کریم پڑھو گے اور جواب میں خوارج بھی قرآن کریم پڑھیں گے تم ایک معنی مراد لو گے‘ خوارج اسی آیت سے دوسرا مطلب نکالیں گے‘ اس طرح حق واضح نہیں ہوگا‘ اس لئے ان کے سامنے سنت کو پیش کرنا‘ کیونکہ سنت میں کوئی ابہام نہیں‘ سنت سے غلط معنی مراد نہیں لیا جاسکتا۔ حضرت عمر  کا ارشاد گرامی ہے کہ:
”و انہ سیاتی ناس یجادلونکم بشبہات القرآن فخذوہم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بکتاب اللہ“۔ (مسند دارمی‘ج:۲‘ ص:۴۷)
ترجمہ:۔” عنقریب کچھ لوگ تم سے جھگڑا کریں گے اور قرآن کا نام لے کر شکوک وشبہات پیدا کریں گے‘ ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو حضور ا کی سنتوں سے پکڑو‘ کیونکہ سنت وحدیث کا علم رکھنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی کتاب کو صحیح سمجھنے والے ہیں“:
یہ حقیقت ہے کہ آج کل قرآن کریم کا نام لے کر سادہ لوح مسلمانوں کو دین سے دور کیا جارہاہے‘ آج کل مسلمان بہت جلد فتنوں کا شکار ہوجاتے ہیں‘ قرآن کریم کا نام سنتے ہیں فوراً متاثر ہوجاتے ہیں‘ حالانکہ ہر فتنہ اپنی تائید میں قرآن کریم کوبطور دلیل پیش کرتاہے‘ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ آپ کو ایسے فتنوں سے پُرنظر آئے گی‘ خوارج قرآن مجید کی آیت ”ان الحکم الا للہ“ (یوسف:۴۰) اور ”للہ الامر من قبل ومن بعد“ (الروم:۴)پڑھ کر سیدنا حضرت علی کے مقابلے کے لئے نکلے تھے‘ خود حضور ا کا ارشاد ہے:
” عنقریب ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو تم سے زیادہ عبادت گزار ہوں گے‘ قرآن کریم بھی تم سے زیادہ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے اترکر ان پر اثر نہیں کرے گا“۔
ہم مسلمان اتنی جلدی کیوں بھول جاتے ہیں‘ دین کے بارے میں ہمارا حافظہ اتنا کمزور کیوں ہے؟ حالانکہ حضور ا کا ارشاد ہے کہ: مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا‘ ہم ہزار بار ڈسے جاچکے ہیں‘ پھر بھی ہمیں ہوش نہیں‘ کیاابھی کل کی بات نہیں؟ کہ ”مرزاغلام احمد قادیانی“ قرآن کریم کی آیت
”ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین“ (الاحزاب:۴۰)
پڑھ کر اپنے آپ کو نبی کہتا تھا‘ کیا قرآن کریم پڑھنے سے قادیانی برحق ہوگئے؟ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ ہر قرآن کریم پڑھنے والا برحق نہیں ہوتا۔
محترمہ! قرآن کریم کی آیات ضرور پڑھتی ہیں‘ لیکن ان آیات کا محترمہ کے مقصد اور دعویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ محترمہ اپنے تئیں اپنے آپ کو اگر حق پر سمجھتی ہے تو کیا ام المؤمنین حضرت عائشہ‘ حضرت خدیجہ‘ حضرت زینب‘ حضرت رقیہ‘ حضرت ام کلثوم‘ حضرت فاطمہ‘ حضرت عاتکہ‘ حضرت صفیہ اورحضرت بریرہ رضی اللہ عنہن سب صحابیات ناحق پر تھیں؟ کیونکہ یہ سب عورتیں تھیں‘ عورتوں کی مخصوص بیماری ان میں بھی پائی جاتی تھی‘ کیاحیض کی وجہ سے نماز چھوڑ کر یہ صحابیات عذاب جہنم کی مستحق ہوئیں؟
معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ اللہم انی بری مما یقول ہؤلاء الزنادقة الائمة الفجرة الفسقة المردة۔
حافظ ابن بطہ ابانہ میں لکھتے ہیں کہ:
” ولیعلم المؤمنون من اہل العقل والعلم ان قوما یریدون ابطال الشریعة‘ ودروس آثار العلم والسنة فہم یموہون علی من قل علمہ وضعف قلبہ بانہم یدعون الی کتاب اللہ ویعملون بہ وہم من کتاب اللہ یہربون وعنہ یدبرون ولہ یخالفون“۔ (فتح المنان ج:۲‘ ص:۷۰‘۷۱)
ترجمہ:۔”: مؤمنین اہل عقل ودانش کو جاننا چاہئے کہ ایک فرقہ جو شریعت کو باطل کرنا ‘ سنت اور علم کے آثار کو مٹانا چاہتاہے‘ وہ علم سے ناواقف اور کمزور دل والوں کوگمراہ کرتاہے۔ یہ فرقہ‘ بظاہر اللہ کی کتاب اور اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتاہے ‘ حالانکہ یہ خود کتاب اللہ سے دور بھاگتاہے اور کتاب اللہ سے پیٹھ اور قرآن کریم کی مخالفت کرتا ہے“۔
حضرت حذیفہ  کا صدیوں پہلے کا ارشاد آج حرف بحرف صحیح ثابت ہورہاہے:
”وروینا عن حذیفة انہ سیکون لیکونن قوم فی آخر ہذہ الامة یکذبون اولاہم ویلعنونہم‘ ویقولون: جلدوا فی الخمر ولیس ذلک فی کتاب اللہ‘ ورجموا ولیس ذلک فی کتاب اللہ‘ ومنعوا الحائض الصلوة ولیس ذلک فی کتاب اللہ“۔ (الاستذکارج:۱‘ ص:۳۴۰)
ترجمہ:۔ حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو پہلے لوگوں کو جھٹلائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے اور کہیں گے کہ: پہلوں نے شرابی کو کوڑے لگائے‘ حالانکہ یہ حکم قرآن میں نہیں اور انہوں نے لوگوں کو رجم کیا جبکہ یہ بھی قرآن میں نہیں‘ ایسے ہی انہوں نے حائضہ عورت کو نماز پڑھنے سے منع کیا‘ حالانکہ یہ بات بھی اللہ کی کتاب میں نہیں ہے“۔
دیکھئے: حضرت حذیفہ نے آج کل کے حالات کی مکمل تصویر صدیوں پہلے پیش فرما دی‘ بلکہ واضح الفاظ میں فرمایا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو کہیں گے کہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنی چاہئے‘ کیونکہ قرآن کریم میں حیض والی عورت کو نماز سے نہیں روکا گیا۔
حضرت حذیفہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ ا نے ان کو قیامت تک پیش آنے والے فتنوں کا حال بتا دیا تھا‘ حق اور ناحق ہمارے سامنے ہے‘ اب یہ فیصلہ ہم خود کریں کہ ہمیں حضورا اور آپ کے صحابہ کی بات ماننی چاہئے یا آج کے کسی منکر حدیث‘ خارجی اور نام نہاد روشن خیال کی؟
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری شعیب عالم صالح محمد کاروڑی
محمد عبد القادرابوبکر سعید الرحمن محمد انعام الحق
کتبہ
سید صلاح الدین
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: مغربی دنیا کی دریدہ دہنی توھین آمیز خاکے 
Flag Counter