Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

9 - 10
حضرت مولانا نعیم امجد سلیمی
حضرت مولانا نعیم امجد سلیمی
بزم لدھیانوی کااک چراغ

جمعرات ۲۴/نومبر ۲۰۰۵ء مطابق ۲۰/ شوال ۱۴۲۶ھ بعد نماز عصر ہمارے قدیمی رفیق‘ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے محب صادق‘ تربیت یافتہ اور خلیفہ مجاز حضرت مولانا نعیم امجد سلیمی اچانک رحلت فرمائے عالم آخرت ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمّٰی۔
مولانا نعیم امجد سلیمی بہاولنگر‘ تحصیل چشتیاں کے مضافاتی چک اور ارائیں برادری کے زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ۱۹۵۹ء میں آپ کی ولادت ہوئی اور غالباً خاندان کے اکلوتے عالم دین تھے۔ شروع سے ہی طبیعت میں سلامتی اور فیاضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ابتدا ہی سے انہیں اکابر و اسلاف سے والہانہ عشق و تعلق تھا۔ وہ ابھی نوخیز و نو عمر طالب علم تھے کہ دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ کانفرنس کا اعلان ہوگیا۔ وہ اسی جذبہ‘ شوق اور لگن سے مجبور ہوکر ہندوستان جانے کو بے تاب ہوگئے‘ جیسے تیسے کرکے دارالعلوم دیوبند پہنچے‘ وہاں کے تاریخی مقامات میں سے ایک ایک پر گئے۔ اکابر کی نایاب و نادر کتب کا ذخیرہ خرید کر لائے۔ یہاں بھی ان کا ہمیشہ سے کتاب ہی سے رشتہ استوار رہا۔ ابتدائی تعلیم چشتیاں وغیرہ کے مختلف مدارس میں ہوئی‘ فوقانی درجات کی تعلیم کے لئے انہوں نے جامعہ علوم اسلامیہ کا رخ کیا اورجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے ہی فاتحہ فراغ پڑھا۔ فراغت کے بعد ان کے خاندانی بزرگوں نے انہیں چشتیاں اور مضافات میں رکھنے کے لئے ان سے عربی اسکول ٹیچر کی ملازمت کی درخواست دلائی اور سرکاری ملازمت کی منظوری بھی آگئی‘ مگر ان کے والد ماجد کے بقول انہوں نے اسکول کی ملازمت سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ: میرے اساتذہ نے مجھے کراچی میں رہ کر کام کرنے کا فرمایا ہے‘ لہٰذا میں چشتیاں نہیں آسکتا۔ مولانا نعیم امجد سلیمی اپنے اساتذہ کے مشورہ سے محکمہ اوقاف کے خطیب و امام مقرر ہوئے اور کراچی کی پسماندہ بستی ڈالمیا‘ کی چہار مینار مسجد ان کی عملی جولان گاہ قرار پائی۔ مگر جلد ہی اس محکمہ سے ان کا دل بھر گیا اور انہوں نے اسے خیر باد کہہ دیا‘ اور حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ :میں آپ کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت شہید نے ان کے جذبہٴ خلوص کو سراہتے ہوئے انہیں ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کی ترتیب و تدوین کے کام کے لئے منتخب فرمایا۔ یوں حضرت لدھیانوی شہید کی شہرئہ آفاق کتاب ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کی ترتیب و تدوین کا ابتدائی کام ان کی برکت سے شروع ہوا اور تادم آخر موصوف اسی شعبہ سے منسلک رہے۔ مولانا مرحوم کا نکاح چشتیاں شہر کی مشہور علمی اور روحانی شخصیت حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب خلیفہ مجاز حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کے ہاں ہوا۔ مولانا سلیمی کی اہلیہ بھی ماشاء اللہ عالمہ فاضلہ تھیں‘ گھر والوں کو کراچی لائے تو ایک عرصہ تک کرایہ کے مکان میں رہے اور آئے دن کرایہ کا مکان بدلنے کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ خدا خدا کرکے انہوں نے ڈالمیا کی کچی آبادی کے ایک پسماندہ علاقہ کچھی پاڑہ میں معمولی رقم کے عوض ایک پلاٹ خرید کر اس پر عارضی مکان بناکر رہائش اختیار کرلی۔ جہاں پانی‘ بجلی اور گیس نام کی کوئی سہولت موجود نہ تھی‘ مگر مولانا نہایت ثبات و استقلال سے جمے رہے‘ ابتدا میں انہوں نے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے حکم اور مشورہ پر اپنے گھر کے ایک حصہ میں علاقے کے غریب لوگوں کے بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ حضرت لدھیانوی شہید کو گھر لے گئے ‘ دعا کرائی‘ بیان کرایا اور کام شروع کردیا۔ ان کے خلوص و اخلاص‘ گھر والوں کی محنت اور حضرت لدھیانوی شہید کی دعاؤں کی برکت سے اس مکتب نے باقاعدہ مدرسہ کی شکل اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے کام بڑھ گیا۔ چنانچہ موصوف نے بچیوں کے والدین کے اصرار پر اپنے مکان کی چھت پر ہی باقاعدہ رہائشی طالبات رکھنے کا نظم قائم فرمالیا۔ ابتدائی طور پر مولانا کے مکان کی چھت پر کچھ عارضی چھپر ڈال کر اسے دارالاقامہ اور درس گاہ کا درجہ دیا گیا۔ لیکن حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی توجہ‘ مولانا مرحوم اور ان کے گھر والوں کی قربانیوں نے ایسا رنگ دکھلایا کہ اس مدرسہ نے سالوں کی ترقی دنوں میں کی۔ چنانچہ مدرسہ کے لئے باقاعدہ زمین کا ایک ٹکڑا خریدا گیا‘ نقشہ بنوایا گیا‘ اکابر علماء اور اہل قلوب سے دعائیں کرائی گئیں اور محض توکلاً علی اللہ اس کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا‘ تو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس کی تعمیر مکمل کرادی اور مدرسہ قرآن کریم یوسفیہ کی عالی شان عمارت میں حفظ‘ ناظرہ‘ فہم دین کورس سے لے کر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے بنات کے دورئہ حدیث تک کی پوری تعلیم ہونے لگی۔ چنانچہ مدرسہ قرآن کریم یوسفیہ کے دورئہ حدیث کے دو سال مکمل ہوئے اور تیسرے سال کی شروعات تھیں‘ داخلے ہورہے تھے۔ مزید اساتذہ کے تقرر کا مرحلہ زیر بحث تھا کہ مولانا نعیم امجد سلیمی نے رخت سفر باندھ لیا۔ ہوا یوں کہ مولانا مرحوم رمضان کے پہلے عشرہ میں اسکوٹر سے گر کر زخمی ہوگئے تھے‘ ایکسرے سے معلوم ہوا کہ بائیں ٹانگ اور کندھے پر معمولی چوٹیں آئی ہیں اور گھٹنے کی ہڈی کسی قدر متاثر ہوئی ہے۔ حسب معمول ٹانگ پر پلستر چڑھا کر چھ ہفتے تک آرام کرنے کا مشورہ دے دیا گیا۔ مولانا مرحوم نے اپنے رفقاء کو حکم دیا کہ ”آپ کے مسائل“ کی جدید ترتیب و تبویب کا کام ان کے گھر پہنچادیا جائے اور مولانا نے گھر پر بیٹھے بیٹھے یہ ذمہ داری نبھانا شروع فرمادی۔ رمضان میں راقم الحروف کو فون پر اس حادثہ کی اطلاع دی اور دعا کے لئے کہا۔ واپسی پر عید کے دوسرے دن ناکارہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا‘ معمول کی گفتگو رہی‘ دعائے خیر کے بعد واپس آگیا۔ چند دن پیشتر بھی انہوں نے فون پر تفصیلات بتلائیں اور مدرسہ کے لئے اساتذہ کے تقرر کی بابت مشورہ ہوا۔ جمعرات ۲۰/شوال کو ان کا پلستر کھلنا تھا‘ اسی دن صبح تمام رفقاء کو فون کیا‘ سب کی خیریت دریافت کی اور صاحبزادہ مولانا محمد طیب لدھیانوی سلمہ کو فون کرکے ایمبولینس منگوائی۔ عصر کے وقت گھر پر لدھیانوی ٹرسٹ کی ایمبولینس آگئی۔ آج مولانا نسبتاً زیادہ ہشاش بشاش تھے۔ ہسپتال جانے سے قبل انہوں نے بال بنوائے‘ مونچھیں صاف کیں اور مکمل تیاری فرمائی ‘ باتھ روم سے فارغ ہوئے‘ گھر والوں سے کہا: لوٹا اور ایکسرے وغیرہ دے دو‘ شاید ضرورت پیش آئے‘ خدام انہیں لینے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ گر کر بے ہوش ہوگئے‘ رفقاء نے دل کی جگہ کو زور زور سے دبایا اورسہلایا تو ہوش میں آگئے‘ فرمایا: بٹھادو اور پانی پلادو‘ اسی اثنا میں رفقاء نے انہیں ایمبولینس میں سوار کیا تو فرمانے لگے: اسٹریچر پر بٹھا دو‘ مگر وہ زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکے اور اسٹریچر پر اچانک گر سے گئے‘ ان کے منہ سے آخری الفاظ یہ سنے گئے: ”اے اللہ! آسانی فرما‘ اے اللہ! آسانی فرما“ ایمبولینس جب قریبی ہسپتال پہنچی تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا کی رحلت کی اطلاع ملی تو یقین نہیں آرہا تھا‘ مگر نوشتہٴ تقدیر سے کس کو مفر ہے؟ اسی وقت ہسپتال سے ان کی میت لاکر غسل و کفن دیا گیا‘ رات کو میت مدرسہ میں رکھی گئی‘ دوسرے دن جمعہ کے بعد نماز جنازہ ہوئی اور اس خزانہ خوبی کو ڈالمیا کے قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سپرد خاک کردیا گیا۔
اللہم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔
مولانا نعیم امجد سلیمی کا سلوک و احسان کا پہلا تعلق یاپہلی بیعت قطب الارشاد حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ سے تھی۔ ان کی رحلت کے بعد آپ نے حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی طرف رجوع کیا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان ہی کے ہوکر رہ گئے۔ حضرت لدھیانوی شہید نے بھی انہیں روحانی بیٹے سے بڑھ کر حقیقی عزیزوں کا سا سلوک دیا۔ چنانچہ مجھے وہ منظر آج تک یاد ہے اور حضرت کی رس گھولنے والی آواز اب تک میرے سامعہ میں گونج رہی ہے کہ: ”ہمارے مولانا نعیم امجد سلیمی صاحب نے اس علاقہ میں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی ہے‘ یہ مدرسہ ہمارا ہے‘ یہ مدرسہ ترقی کرے گا اور جو لوگ اس سے وابستہ ہوں گے‘ ان کو دنیا و آخرت کی فلاح نصیب ہوگی۔“
بلاشبہ حضرت کی دعاؤں اور سرپرستی نے اس مدرسہ کو چار چاند لگادیئے۔ ایک ایسا مدرسہ جو ظاہری اسباب سے محروم ہو‘ علاقہ غریب و پسماندہ ہو اور جہاں مسلک کا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے دل شکنی کی جاتی ہو‘ وہاں کام کرنا اور کسی کی داد و تحسین اور صلہ و ستائش کی پرواہ کئے بغیر قدم بڑھائے جانا بلاشبہ مولانا نعیم امجد سلیمی ایسے اصحاب عزیمت ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ مولانا موصوف نے اس مدرسہ کے لئے کس قدر محنت و قربانی کی لازوال تاریخ مرتب کی ہے‘ اس کا اندازہ مقامی آبادی میں دینی‘ اصلاحی انقلاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ کل تک جہاں مولانا کا ایک ہم نوا نہ تھا‘ آج ماشاء اللہ ان کے قافلہ میں دسیوں نیک دل افراد شامل ہیں‘ اور وہ گھرانے جن کو اس مرد درویش نے دین و دیانت اور علم و عمل سے روشناس کرایا‘ وہ ان کے اسیر عقیدت ہیں‘ اس وقت مدرسہ میں حفظ و ناظرہ سے لے کر دورئہ حدیث تک تقریباً چار صد طالبات ہیں‘ جن میں سے ایک سو کے قریب طالبات مدرسہ میں رہائش پذیر ہیں‘ جن کے قیام و طعام کا کفیل مدرسہ ہے‘ مجموعی طور پر اساتذہ‘ معلّمات اور دیگر عملہ کے ۲۵‘ افراد مصروف کار ہیں اور مدرسہ کے ماہانہ اخراجات کا میزانیہ تقریباً ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ مولانا مرحوم کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ مرد درویش اتنا بڑا کام کس خاموشی سے انجام دے رہا تھا؟ اتنا بڑا مدرسہ اور اس کے اخراجات کا انتظام وہ کس محنت و مجاہدہ سے پورا کررہے تھے؟ اے اللہ! مولانا مرحوم کے لگائے ہوئے اس باغ کو سدا سرسبز و شاداب رکھ‘ ان کی حسنات کو قیامت تک جاری و ساری رکھ اور ان کی بلندی درجات کا ذریعہ بنا۔ آمین۔
اللہ تعالیٰ کے کاموں کی حکمت اور اس کے راز انسانوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں‘ بلاشبہ ان کی حیات مستعار پوری ہوگئی‘ وہ چلے گئے‘ ان کا اتنا ہی وقت تھا‘ وہ اس سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے‘ مگر بہرحال ہم ایسے کوتاہ فہموں کے لئے یہ مرحلہ انتہائی جاں گسل ہے کہ ان کے بچے ابھی چھوٹے ہیں‘ سب سے چھوٹی بیٹی نو ماہ کی ہے اور بڑا بچہ فہیم امجد ۱۷سال کا ہے اور درجہ ثانیہ کا طالب علم ہے۔ بظاہر مشکلات ہیں‘ مگر اس ذات کریم سے امید ہے کہ وہ ان کی کفایت و کفالت فرمائیں گے اور اس ادارہ کو حسب معمول ترقیات سے سرفراز فرمائیں گے۔
مولانا مرحوم نے اپنے گاؤں میں بھی حفظ و ناظرہ کا ایک مدرسہ قائم کررکھا تھا‘ جس کے تمام اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی وفات کے موقع پر ان کے والد ماجد نے کہا کہ اس مدرسہ کا اب کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کی بھی کفایت فرمائے اور خزانہ غیب سے اس کے اخراجات کا انتظام فرمائے۔ میرے مشاہدے اور اندازہ کے مطابق آج سے بیس سال قبل ان کے پاس جو ففٹی موٹر سائیکل تھی‘ آج بھی ان کے پاس وہی تھی۔ انہوں نے اتنا اونچا اور خوبصورت مدرسہ بنالیا مگر اپنی ذات کو ہمیشہ تنگی میں ہی رکھا‘ انہوں نے راحت و آرام کو کبھی پاس نہیں آنے دیا۔
مولانا مرحوم نے مدرسہ کے ساتھ ساتھ اصلاح و ارشاد کے خانقاہی نظام سے بھی بے اعتنائی نہیں برتی۔ چنانچہ انہوں نے ”زکریا عارفیہ یوسفیہ“ کے نام سے ایک خانقاہ کو بھی رجسٹرڈ کرا رکھا تھا اور پہلے اپنے گھر میں اور اب مدرسہ قرآن کریم یوسفیہ میں انہوں نے ہفتہ واری مجلس ذکر کا اہتمام بھی کررکھا تھا۔ انہوں نے ہر سال عشرہ اخیرہ میں اپنے شیخ کی قائم کردہ مسجد خاتم النبیین میں اعتکاف کا معمول بھی جاری رکھا۔ وہ ہر جمعرات کو مسجد خاتم النبیین میں قائم مجلس ذکر میں باقاعدگی سے شریک ہوتے‘ نہایت سوز سے ذکر کرتے اور درد سے دعا مانگا کرتے۔ یوں تو مولانا مرحوم ساری زندگی شعبہ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ سے منسلک رہے مگر آج کل وہ اس شعبہ کا اہم کام سر انجام دے رہے تھے‘ جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت لدھیانوی شہید کے خدام نے طے کیا کہ حضرت لدھیانوی شہید کی شہرئہ آفاق کتاب ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کو جدید انداز سے مرتب کیا جائے‘ جس میں اس کی تخریج کے ساتھ ساتھ ان مسائل کو بھی شامل کیا جائے جو ابھی تک شامل نہیں ہوسکے تھے۔ چنانچہ مولانا مرحوم روزنامہ جنگ کے صفحہ اقرأ کے گزشتہ پچیس سالہ ریکارڈ کو کھنگال کر ان مسائل کو منتخب کررہے تھے جو تاحال اشاعت پذیر نہیں ہوسکے تھے‘ اسی طرح جو مسائل مکرر آگئے تھے‘ ان کو حذف کرکے کتاب کو جامع مانع اور مہذب فرمارہے تھے۔ چنانچہ موصوف نے قریب قریب یہ کام انجام دے لیا تھا‘ بہت ہی معمولی کام باقی تھا کہ ان کا وقت موعود آگیا‘ ان کے کام کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ جدید مسائل کس جلد کے کس باب میں اور کس مسئلہ کے آگے یا پیچھے درج ہوں گے؟ بہرحال مولانا مرحوم کی رحلت سے اس ناکارہ کا ذاتی اور ادارہ آپ کے مسائل کا عظیم نقصان ہوا ہے‘ خدا کرے کوئی اللہ کابندہ اس کام کے لئے مہیا ہوجائے۔
مولانا مرحوم نے جس طرح اپنی خانقاہ کو رجسٹر کرا رکھا تھا‘ اسی طرح انہوں نے اپنے مدرسہ کو بھی رجسٹر اور ٹرسٹ کرارکھا تھا‘ حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی زندگی میں انہوں نے حضرت کو اپنا سرپرست بنائے رکھا ‘ان کی شہادت کے بعد حضرت کے خدام کو اپنا سرپرست بنالیا تھا۔ خدا کرے آیندہ بھی ان کے مدرسہ کو اچھے کارکن اور خیر خواہ خدام مل جائیں تاکہ یہ دینی ادارہ قیامت تک چلتا رہے اور مسلک حق مسلک دیوبند کی ترجمانی کرتا رہے۔ مولانا مرحوم نے والدین‘ ایک بیوہ‘ تین بیٹے اور تین بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ہم مولانا مرحوم کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کی دستگیری فرمائے اور انہیں اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے ۔آمین۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: استاذ محترم شاہ جی
Flag Counter