Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

6 - 10
بدعملیوں کی سزا
بدعملیوں کی سزا


یکم محرم الحرام ۱۴۲۷ھ سے ہجری تقویم کے سالِ نو کا آغاز ہوچکا اور ہم ۱۴۲۶ھ سے ۱۴۲۷ھ میں داخل ہوگئے۔ ہم سب خوش ہیں کہ ہماری اور ہمارے بچوں کی عمر ایک سال بڑھ گئی‘ اور ہمارا بچہ جوانی کی سرحد سے قریب تر ہوگیا۔ مگر فرشتہ اجل ہماری اس سادگی پر انگشت بدنداں ہے کہ بے چارے ماں‘ باپ‘ بیٹے اور ہر انسان کی زندگی کا ایک سال کم ہوگیا‘ موت کی دہلیز کی طرف بڑھتے انسان بلکہ ہر ذی روح کی مسافت کا ایک سال گھٹ گیا اور وہ اپنی اجل کی مسافت کا ایک سال مزید طے کرکے فنا کی طرف قریب تر ہوگیا۔
عصرِ حاضر‘ قربِ قیامت کا دور ہے۔ اس کا ایک‘ ایک دن ہمیں قیامت کے قریب سے قریب تر کر رہا ہے‘ اور ”کل یوم ابتر“ کے مصداق ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے زیادہ بھیانک اور خوفناک نظر آتا ہے‘ اور یہ بھی مسلّم ہے کہ زندہ قومیں اپنے ماضی سے مستقبل کی راہیں سنوارتی ہیں‘ وہ ماضی کی دھندلکی لکیروں سے روشن مستقبل کی شاہراہیں تعمیر کرتی ہیں۔ وہ ان بھیانک کرداروں کو نہیں دہراتیں‘ جن سے نشانِ منزل اوجھل ہوتا ہو‘ یا شاہراہِ حیات میں مشکلات پیش آنے کا امکان ہو‘ اسی طرح وہ ان اقوال‘ اعمال‘ اخلاق اور کردار سے بھی کوسوں دور بھاگتی ہیں‘ جو مشکلات‘ مصائب‘ مسائل یا کسی سانحہ کا ذریعہ بن سکیں۔ اس لئے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں عالم اسلام اور مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں‘ اس کے اسباب و علل کیا ہیں؟ اور اس کے سدِّباب کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
سال رفتہ میں عالمِ اسلام او ر مسلمان کن حالات‘واقعات‘ سانحات‘ مصائب‘ مشکلات اور مسائل سے دوچار ہوئے؟ ان سب کا احاطہ کرنا اور انہیں ضبطِ تحریر میں لانا نہایت مشکل اور دِقَّت طلب‘ بلکہ ناممکن ہے۔ اس لئے کہ : ان میں سے بہت سے اجتماعی اور قومی ہوں گے تو بے شمار شخصی‘ انفرادی اور کسی خاص خطے اور علاقے سے متعلق ہوں گے‘ جبکہ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کی تفصیل بین الاقوامی میڈیا کی اسکرین پر نہیں آسکی‘ یا قصداً انہیں اجاگر و نمایاں کرنے سے گریز کیا گیا ہوگا۔ پھر کچھ ایسے بھی ہوں گے جو انسانی بداعمالیوں کی نحوست اور کھلے عام عذابِ الٰہی کی شکل میں ہوں گے‘ مگر ہم ایسے بدکردار و باغی انسان اپنی پاکی ٴ داماں کے باعث اس عذاب الٰہی کو عذاب کی بجائے ایک عادت اور معمول کا حصہ گردانتے ہوں گے۔ بہرحال ان سب کا احاطہ نہ سہی‘ اجمالاً چند امور ہر ایک کے سامنے ہیں اور موعظت و عبرت کے لئے ایک آدھ قصہ اور واقعہ ہی کافی ہوتا ہے۔
فاعتبروا یا اولی الابصار۔
………………………………
زمانہ سب سے بڑا استاذ اور حالات سب سے بڑے واعظ ہیں‘ اگر عقل و شعور کی رمق اور احساس و عبرت سے کچھ علاقہ اور نسبت ہو‘ تو کسی استاذ و واعظ کے بغیر بھی انسان اس سے درسِ عبرت حاصل کرسکتا ہے‘ اور ہر انسان اپنی انفرادی و نجی زندگی کا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”وفی الارض آیات للموقنین‘ وفی انفسکم افلا تبصرون۔“ (الذاریات: ۲۰/۲۱)
ترجمہ: … ”اور یقین لانے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی اور کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا۔“
یعنی اپنے اندر کا جائزہ لو‘ تو تمہیں سب کچھ نظر آجائے گا۔
موجودہ دور میں ہر جگہ شر و فساد اور بدامنی و بے قراری ہے‘ کوئی کہیں بھی ہو‘ وہ امن و سکون سے محروم ہے‘ جو جہاں ہے‘ فتنہ و آزمائش سے دوچار ہے‘ شہر ہوں یا دیہات‘ سمندر ہوں یا خشکی‘ حتیٰ کہ گھروں میں بھی چین و سکون سے محروم ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہر ایک اپنی‘ اپنی فہم و دانست میں اس کی توجیہ پیش کرتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘ جیسا کہ ارشا د الٰہی ہے:
”ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقہم بعض الذی عملوا لعلہم یرجعون۔“ (الروم: ۴۱)
ترجمہ: … ”پھیل پڑی ہے خرابی جنگل میں اور دریا میں لوگوں کے ہاتھ کی کمائی سے‘ چکھانا چاہئے ان کو کچھ مزہ ان کے کام کا ‘تاکہ وہ پھر آئیں۔“
یعنی خشکی‘ تری‘ جنگلوں اور دریاؤں میں جو کچھ فتنہ و فساد نظر آتا ہے‘ یہ سب انسانی بداعمالیوں کا ثمرہ ہے‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو ان کی بداعمالیوں پر تنبیہ کی جائے‘ تاکہ وہ اپنے مقصد ِحیات کی طرف لوٹ آئیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا‘ چنانچہ ارشاد ہے:
”ان اللہ لایظلم الناس شیئاً ولکن الناس انفسہم یظلمون۔“ (یونس: ۴۴)
ترجمہ:… ”اللہ ظلم نہیں کرتا لوگوں پر کچھ بھی‘ لیکن لوگ اپنے اوپر آپ ظلم کرتے ہیں۔“
اسی طرح ایک اور جگہ ہے:
”ان اللہ لایظلم مثقال ذرة۔“ (النساء:۴۰)
ترجمہ:… ”بے شک اللہ حق نہیں رکھتا کسی کا ایک ذرہ برابر۔“
گزشتہ سال رمضان المبارک کے شروع میں صوبہ سرحد اور کشمیر کے بعض اضلاع میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے‘ جس میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں آنا فاناً موت کے منہ میں چلے گئے‘ کروڑوں بلکہ اربوں کی املاک تباہ ہوگئیں‘ شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں‘ زندہ بچ جانے والے مرد‘ عورتیں‘ بچے اور بوڑھے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے‘ لمحہ بھر پہلے کے لکھ پتی کنگال ہوگئے ‘وہ جو فلک بوس عمارتوں کے مالک تھے‘ ان کو سر چھپانے کے لالے پڑ گئے‘ قلعہ نما محلات کے مکین اپنے ہی راحت کدوں کے نیچے دب کر راہِ عدم کے راہی ہوگئے‘ جو زندہ بچ گئے‘ ان میں سے بیشتر اپنے قیمتی اعضا سے محروم ہوگئے اور کچھ تو اپنے ہوش و حواس سے محروم ہوگئے‘ ہزاروں معصوم بچے یتیم‘ خواتین بیوہ ہوگئیں اور بوڑھے والدین اپنے جگر گوشوں پر آنسو تک نہ بہاسکے‘ ہر طرف آہ و بکا اور قیامت کا منظر تھا‘ ہر ایک کو اپنی جان کی فکر تھی‘ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی‘ جب حواس بحال ہوئے تو ان کی دنیا لٹ چکی تھی اور شہر و دیہات قبرستان کا منظر پیش کررہے تھے۔
اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور جتنا بھی رویا جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ مرنے والوں کے حال پر رحم فرمائے‘ زندہ بچ جانے والوں کی کفایت و کفالت فرمائے اور ہمیں اس سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کی توفیق بخشے۔آمین۔ اس موقع پر مسلمانانِ پاکستان اور دنیا بھر کے انسان دوستوں نے جس کھلے دل سے تعاون کیا اور اس مشکل گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کی‘ وہ قابل ستائش اور لائق صد تبریک ہے۔
مگر افسوس کہ اس عظیم نشانِ عبرت سے بھی لوگوں نے کوئی خاص نصیحت حاصل نہیں کی‘ بلکہ اس کو بھی ایک سطحی انداز سے دیکھا اور معمول کی چیز تصور کیا گیا‘ بلکہ کچھ ”بزر چمہروں“ نے اس کو نشانِ عبرت اور درسِ موعظت کہنے اور لکھنے پر خفگی کا اظہار کیا‘ جبکہ کچھ ”دانشوروں“ نے تو اس پر باقاعدہ مضامین و مقالات سپردِ قلم کئے کہ یہ ہماری کسی بدعملی کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ ارضی نظام کی معمول کی حرکت ہے‘ کچھ ”خوش فہموں“ نے اسے زمین میں جمع ہوجانے والی گیسوں کے اخراج کا نتیجہ اور کچھ ”عقلائے زمانہ“ نے اسے زمین میں موجود نام نہاد پلیٹوں کے ہلنے کا نام دیا‘ جبکہ مغرب سے مرعوب کچھ افراد اور اپنے تئیں اسلام کا دفاع کرنے والوں نے یہ فلسفہ بگھارا کہ یہ عذابِ الٰہی ہوتا تو اس سے معصوم بچے اور نیک و صالح افراد کیوں متاثر ہوتے؟
بلاشبہ ہمیں ان کی عقل و فہم اور علم و معلومات پر کوئی شبہ نہیں اور نہ ہی ان کے اخلاص پر کوئی کلام ہے۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے تئیں یہ سب کچھ اخلاص سے کہا ہوگا؟ مگر بایں ہمہ ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ یہ ان کی محدود معلومات کا نتیجہ ہے‘ غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے پیش نظر نہیں ہوگا کہ:
”عن ام سلمة انہ قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعوذ عائذ بالبیت فیبعث الیہ بعث فاذا کانوا ببیداء من الارض خسف بہم‘ فقلت یا رسول اللہ! فکیف بمن کان کارہا؟ قال: یخسف بہ معہم ولکنہ یبعث یوم القیمة علی نیتہ۔“ (صحیح مسلم ص:۳۸۸ ج۲)
ترجمہ:… ”ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”ایک پناہ لینے والا (حضرت مہدی علیہ الرضوان) بیت اللہ کی پناہ لے گا تو اس کی طرف لشکر کشی کی جائے گی‘ جب (حضرت مہدی کے خلاف پیش قدمی کرنے والا) وہ لشکر مقام بیدأ میں پہنچے گا تو ان کو دھنسادیا جائے گا۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جو شخص زبردستی سے (دل میں بُرا جان کر) اس لشکر کے ساتھ ہو وہ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کو بھی ان کے ساتھ دھنسادیا جائے گا‘ لیکن وہ قیامت کے دن اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔ “
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے:
”عن زینب بنت جحش… قلت یارسول اللہ! انہلک وفینا الصالحون؟ قال نعم اذا کثر الخبث۔“ (صحیح مسلم ص:۳۸۸ ج۲)
ترجمہ:… ”حضرت زینب بنت جحش سے روایت ہے… میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ایسی حالت میں بھی ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ ہمارے درمیان نیک لوگ موجود ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جب (گناہوں کی) گندگی زیادہ ہوجائے گی۔“
صحیح مسلم ہی میں اسی سلسلہ کی ایک اور حدیث میں ہے:
”عن عائشة انہ قالت… قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: العجب ان ناساً من امتی یؤمون البیت برجل من قریش قدلجأ بالبیت حتی اذا کانوا بالبیداء خسف بہم‘ فقلنا یا رسول اللہ! ان الطریق قد یجمع الناس‘ قال نعم! فیہم المستبصر‘ والمجبور‘ وابن السبیل یہلکون مہلکاً واحداً ویصدرون مصادرشتی‘ یبعثہم اللہ علی نیاتہم۔ “
(صحیح مسلم ص ۳۸۸ ج ۲‘ طبع کتب خانہ رحیمیہ دیوبند)
ترجمہ:… ”حضرت عائشہ  سے روایت ہے… حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تعجب ہے! میری امت کے کچھ لوگ ایک شخص کے خلاف کعبہ کا قصد کریں گے‘ جو قریش میں سے ہوگا اور خانہ کعبہ کی پناہ لے گا‘ جب وہ بیداء (مدینہ اور مکہ کے درمیان واقع میدان) میں پہنچیں گے تو زمین میں دھنسادیئے جائیں گے‘ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! را ستہ میں تو ہر قسم کے لوگ چلتے ہیں؟ آپ ا نے فرمایا: ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو قصداً آئے ہوں گے اور بعض ایسے بھی جو مجبوری سے اور بعض مسافر بھی ہوں گے‘ لیکن یہ سب یک بارگی ہلاک ہوجائیں گے‘ پھر (قیامت کے دن) اللہ ان کو ان کی نیتوں پر اٹھائے گا۔“
اس خسف اور دھنسائے جانے کا مصداق اسلام دشمن سفیانی کا وہ لشکر ہوگا جو حضرت مہدی علیہ الرضوان کے خلاف مکہ مکرمہ پر چڑھائی کے لئے آرہا ہوگا ‘مگر وہ عذابِ الٰہی سے دوچار ہوجائے گا اور اس کے ساتھ راہ چلنے والے وہ بے قصور بھی دھنس جائیں گے جو اس لشکر کے ہمراہی ہوں گے‘ مگر قیامت کے دن ہر ایک کے ساتھ ان کی نیت کے اعتبار سے معاملہ ہوگا۔ پھر کوئی ان عقلمندوں کی خدمت میں گزارش کرے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے زلزلہ‘ خسف‘ مسخ اور سرخ آندھیوں کے عذابوں کی نشاندہی فرمائی ہے اور امت کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: جب یہ‘ یہ کام کئے جائیں تو سرخ آندھیوں‘ زمین میں دھنسائے جانے‘ شکلیں بگڑنے اور زلزلوں کا انتظار کرو‘ تو سوال یہ ہے کہ: اگر یہ معمول کی چیزیں ہیں؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ چنانچہ زلزلہ کے اسباب سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ملاحظہ ہو:
”عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اذا اتخذ الفیء دولاً‘ والامانة مغنماً‘ والزکٰوة مغرماً‘ وتعلم لغیر الدین‘ واطاع الرجل امراتہ وعق امہ‘ وادنی صدیقہ واقصٰی اباہ‘ وظہرت الاصوات فی المساجد‘ وساد القبیلة فاسقہم‘ وکان زعیم القوم ارذلہم‘ واکرم الرجل مخافة شرہ‘ وظہرت القینات والمعازف وشربت الخمور‘ ولعن آخر ہذہ الامة اولہا‘ فلیرتقبوا عند ذالک ریحاً حمراء‘ وزلزلة وخسفًا ومسخًا وقذفاً وآیات تتابع کنظام بال قطع سلکہ فتتابع۔“
(جامع ترمذی ج:۲‘ ص: ۴۴)
ترجمہ:… ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مال غنیمت کو دولت‘ امانت کو غنیمت اور زکوٰة کو تاوان سمجھا جائے‘ دنیا کمانے کے لئے علم حاصل کیا جائے‘ مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے اور اپنی ماں کی نافرمانی‘ اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور‘ مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں‘ قبیلے کا بدکار ان کا سردار بن بیٹھے اور رذیل آدمی قوم کا قائد (چوہدری) بن جائے‘ آدمی کی عزت محض اس کے ظلم سے بچنے کے لئے کی جائے‘ گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہوجائے‘ شرابیں پی جانے لگیں‘ پچھلے لوگ پہلوں کو لعن طعن سے یاد کریں‘ اس وقت سرخ آندھی‘ زلزلہ‘ زمین میں دھنس جانے‘ شکلیں بگڑ جانے‘ آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو جس طرح کسی بوسیدہ ہار کا دھاگا ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔“
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اسباب زلزلہ کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”پہلا زلزلہ اس وقت آیا جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا‘ چنانچہ اس وقت سات دن تک زمین میں زلزلہ برپا رہا۔“
(کشف الصلصلہ عن وصف الزلزلہ‘ ص:۳۱)
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی اس کی نشاندہی ہوتی ہے‘ جیسا کہ ارشاد ہے کہ:
”دخلت علی عائشة فقال رجل: یا ام المومنین! حدثینا عن الزلزلة؟ فقالت: ان المرأة اذا خلعت ثیابہا فی غیر بیت زوجہا‘ ہتکت مابینہا وبین اللہ من حجاب‘ واذا تطیبت بغیر زوجہا کان علیہا نارا وشناراً ‘ واذا استحلو الزنا‘ وشربوا الخمور‘ وضربوا المعازف غاراللہ فی سمائہ‘ فقال تزلزلی بہم‘ فان تابوا او نزعوا‘ والا ہد مہا اللہ علیہم‘ فقال انس: عقوبةً لہم؟ قالت: رحمةً وبرکةً وموعظةً للمؤمنین‘ ونکالاً وسخطةً علی الکافرین۔“ (اخرجہ ابن ابی الدنیا والحاکم وصححہ‘ کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة‘ ص:۳۱‘۳۲)
ترجمہ:… ”حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ  کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایک شخص نے عرض کیا: اماں جان‘ زلزلہ سے متعلق ارشاد فرمایئے! حضرت عائشہ نے فرمایا: جب کوئی خاتون اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے اپنا لباس اتارتی ہے تو اللہ اور اپنے مابین حجاب کو پھاڑ ڈالتی ہے‘ اور جب شوہر کے علاوہ کسی کے لئے خوشبو لگائے تو اس کے لئے آگ اور عیب و عار ہے‘ جب لوگ زنا کو حلال جاننے لگیں‘ شرابیں پی جانے لگیں اور گانے باجے سنے جانے لگیں تو اللہ تعالیٰ کو آسمان میں غیرت آتی ہے‘ پس اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دیتے ہیں کہ ان کو ہلا ڈال! پس اس میں زلزلہ آجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو فبہا‘ ورنہ اللہ تعالیٰ ان پر زمین کو گرادیتے ہیں‘ پس حضرت انس نے عرض کیا: یہ ان کے لئے سزا ہوتی ہے؟ فرمایا: مومنوں کے لئے تو رحمت‘ برکت اور نصیحت ہوتی ہے اور کفار کے لئے سزا ‘ناراضی اور غضب ہوتا ہے۔“
ان تصریحات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ سرخ آندھیاں‘ خسف‘ مسخ اور زلزلے انسانوں کے گناہوں کے باعث آتے ہیں‘ البتہ اس سے جو اہل ِ ایمان متاثر ہوتے ہیں‘ ان کے لئے رحمت و برکت ہے‘ زندہ بچ جانے والوں کے لئے نصیحت اور کفار (زندہ و مردہ سب) کے لئے عذاب اور سزا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان آیات و نشانات سے عبرت حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کی توفیق بخشے اور جو اہلِ ایمان اس سے متاثر ہوئے‘ ان کے لئے باعثِ رحمت و نجاتِ آخرت بنائے۔آمین۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: ہمارے شاہ جی مرحوم
Flag Counter