Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

5 - 10
ہمارے شاہ جی مرحوم
ہمارے شاہ جی مرحوم

شیراز خراسان کے مضافات میں ایک مختصر سا قصبہ ہے جس نے علم وعمل اور تزکیہ وتصوف کی تعمیر وترقی اور دنیائے علم وتصوف میں شہرت پائی ، دنیا کے مختلف اطراف سے تشنگان علم وتصوف اور طالبان حقیقت ومعرفت بغرض استفادہ یہاں آآکر اپنا کشکولِ علمی بھربھر کر لوٹتے رہے ،اسی پر اکتفا نہیں ،خود یہاں کی شخصیات نے بھی مختلف اطراف کے اسفار کیے ،ان کا مقصدچونکہ دینِ الہی کی ترویج اور نشر واشاعت ہی تھا ،اس لیے جہاں بھی گئے وہی ان کا وطن مالوف بن گیا ، اسی خانوادہ شیراز کے ایک فرزند ،چراغِ علم وہدایت لیے بٹ خیلہ سے ہوتے ہوئے سرزمین ہزارہ کے ایک گمنام دیہی علاقہ چنار کوٹ میں جا پہنچے اور زندگی بھروہی علم کی شمع روشن کرتے رہے ، ان کی مخلصانہ محنتوں اور کاوشوں کی بدولت شب وروز شمعِ علم کے پروانے بڑھتے رہے ، چنار کوٹ اور اس سے ملحقہ دیہات اچھڑیاں وغیرہ علم وعمل میں مرجع خلائق بنتے گئے جنہیں بجا طور پر مردم خیز مٹی سے تعبیر کیا جانے لگا ، اچھڑیاں کی مردم خیزی کے ثبوت کے لیے استاذ الکل فی الکل حضرت مولانا رسول خان ہزاروی رحمہ اللہ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب مدظلہم کا نام نامی اسم گرامی کافی ہے ، جبکہ چنار کوٹ سے تعلق رکھنے والی دو ایسی ہستیاں گذری ہیں کہ مکتبِ علم کا ہر عام وخاص ان کے اسماءِ گرامی اور ان کی خدمات جلیلہ سے واقف ہے ۔ ایک شخصیت توحضرت اقدس مولانا سید فیض علی شاہ صاحب رحمہ اللہ کی تھی جن سے میرا دوہرا روحانی رشتہ بھی ہے ، وہ اس بنا پر کہ ایک تو وہ تحصیل بالاکوٹ کے کئی کبار علماء کرام کے علاوہ میرے والد ماجد مدظلہم کے جامعہ اشرفیہ لاہور کے زمانہ تدریس میں استاذ رہ چکے ہیں اور حضرت والد صاحب کو ان سے خصوصی نیاز حاصل تھی ، جو الحمدللہ حضرت رحمہ اللہ کے وصال پرملال کے بعد تک جاری ہے ، دوسرے یہ کہ حضرت مولانا فیض علی شاہ صاحب رحمہ اللہ میرے شیخ ومربی حضرت شامزئی شہید رحمہ اللہ کے ترمذی شریف کے استاذ تھے اور میں نے ترمذی شریف حضرت شیخ شامزئی شہید سے پڑھی ہے ،تو گویا حضرت مولانافیض علی شاہ صاحب رحمہ اللہ دو طرف سے میرے روحانی دادا ہیں ۔
چنار کوٹ کو چشمہ علم ومعرفت کی حیثیت سے متعارف کرانے والی دوسری ہستی ہمارے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب رحمہ اللہ تھے ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ جن کی عمر عزیز کے کم وبیش ۷۱سال تعلیم وتعلم اور علم دین کی خدمت و اشاعت میں گزرے ۔
۱۳۷۵ھ میں ٹنڈوالہ یار میں حضرت کیملپوری حضرت بنوری  اوردیگر کئی کبار مشائخ سے استفادہ کے بعد ،صادق آباد اور گوجرانوالہ کے بعض مدارس میں علوم نبوت کے طلباء کو فیض یاب فرماتے رہے ، مگرجامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے تعلیمی شباب کو آپ کی جولانیاں درکار تھیں ، اس لیے حضرت بنوری رحمہ اللہ نے(۱۹۶۵ء میں) انہیں بلاکر جامعہ کے تعمیری وارتقائی سفر میں اپنا ہم سفر اور ہم مشن بنا لیا ،اپنی زندگی کے آخری لمحات،۸ جمادی الاخری۱۴۱۶ھ بروز جمعرات کی عصر تک اپنے شیخ کے چلائے ہوئے راستہ پرگامزن اوروابستہ رہے، اور۱۰جمادی الاخری جمعہ اورہفتہ کی درمیانی شب میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرکے اپنے شیخ کے پاس جاپہنچے ۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنے پسماندگان میں گلشن بنوری کے اکابر واصاغراساتذہ اور جامعہ کے طلبہ اور لاتعداد مخلصین ومحبین کے علاوہ اپنی نسبی اولاد میں چار فرزند چھوڑ ے ، جو فی الواقعہ حضرت شاہ صاحب  کا صدقہ جاریہ اور اولاد صالح کا مصداق ہیں ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے تیسرے نمبر کے صاحبزادے ہمارے محترم ومحبوب ساتھی حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ شیرازی جو ان ساری یادوں کا باعث بن رہے ہیں ،جو ۲۵رجب ۱۴۲۶ھ بمطابق ۳۰اگست ۲۰۰۵ء کو اچانک ہم سے بچھڑ گئے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
برادرم مولانا سید عنایت اللہ شاہ شیرازی مرحوم تقریبا ۱۹۷۱ء میں چنار کوٹ کے مقام پر پیدا ہوئے ، ابتدائی دینی تعلیم گھر پر حاصل کی ، سن شعور کے بعدکراچی منتقل ہوئے اور جہانگیر روڈ پر واقع ایک اسکول میں داخل ہوئے ، مقامی ہائی اسکول سے میٹرک کیا ، اس کے بعد درس نظامی کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی میں داخل ہوئے اور ۱۴۱۶ھء میں جامعہ سے فراغت تعلیم حاصل کی ، فراغت کے بعد جامعہ ہی میں مدرس اور بطور معاون ناظم دفتری امور کے عہدہ پر تقرر ہوا ، تادم واپسیں ہمارے شاہ جی جامعہ سے وابستہ رہے ، شعبان ۱۴۲۶ئھ بروز بدھ صبح سے امتحان ہال میں نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے ،دن کے ساڑھے بارہ بجے دفتری اوقات کے وقفہ کے دوران سائٹ ایریا کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے گئے ، نماز کے بعد واپسی پر حبیب بینک چورنگی کے پاس ایک تیز رفتار بس کی ٹکر سے اللہ تعالی کو پیارے ہوگئے ۔
ہر انسان میں اللہ تعالی نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کی بعض خوبیاں دوسروں کے لیے قابلِ تقلید اور شخصیتوں میں نکھار کا ذریعہ ہوا کرتی ہیں ، اللہ تعالی نے ہمارے شاہ جی کو ملنساری ، تواضع ، فرمانبرداری ،اطاعت شعاری ، عبادت گذاری اور احساسِ ذمہ داری جیسے کئی اوصاف میں کمال عطا فرما رکھا تھا ، خادمین طلباء یا اساتذہ کی کسی بھی محفل میں بیٹھے ہوں تواللہ تعالی نے آپ کو نمایاں کرنے اور بڑا ظاہر کرنے کی کمزوری سے محفوظ رکھا ہوا تھا ، ساتھیوں اور دوستوں میں بحث ومباحثہ ہوتا اور کوئی ساتھی اپنی بات منوانے پر مصر ہوتا توشاہ جی ”اچھا بھئی آپ صحیح کہہ رہے ہو “ کہہ کر اپنے آپ کو فضول گوئی سے بچا لیا کرتے تھے ، جامعہ کے اساتذہ اور ذمہ دار جو کچھ بھی آپ سے فرماتے،آپ اسے بڑی ذمہ داری اور نہایت سلیقہ سے انجام دینے کی کوشش فرماتے ، نمازوں کی پابندی اور تلاوت کا اہتمام دیکھ کر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی یاد تازہ ہوتی تھی ،مفوضہ امور اور ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لیے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی طرح وقت سے پہلے پہنچتے اور پورا وقت ڈیوٹی دیتے ،اگردرمیان میں وقت سے کچھ پہلے جانے کی شدید ضرورت پیش آجاتی تو کسی ذمہ دار آدمی کو اپنی ذمہ داری کی نیابت سونپ کر جاتے، برادرم شاہ جی مرحوم سے ۷سالہ رفاقت کے عرصہ میں کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ڈیوٹی کے اوقات کے بارے میں آپ سے کوئی قابلِ شکایت امر سرزد ہوا ہو ۔ برادرم شاہ جی مرحوم کی یہ ناگہانی رحلت جہاں ان کی والدہ محترمہ ، بہن بھائیوں اور بچوں کے علاوہ پورے خاندان کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے ،وہاں جامعہ کے اساتذہ کرام ،طلباء اور خادمین بھی اس عظیم حادثہ کے رنج وغم سے چور چور ہوئے ہیں ، لیکن اہل ایمان کا عقیدہ ہے کہ اس مرحلہ سے ایک نہ ایک دن ہر ذی روح نے گذرنا ہے ، مگر شاہ جی رحمہ اللہ کی حادثاتی موت ،جو ارشادات نبویہ کی رو سے شہادت کی موت ہے ،موت وحیات کے الہی نظام کو سمجھنے کے لیے بڑی قوت کے ساتھ جھنجھوڑ رہی ہے کہ ایک تندرست وتواناجسم ہنس مکھ چہرہ ہم سے زندہ رخصت ہو کر ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد خون میں نہا کر کفن میں لپٹا ہوا آجاتا ہے ، اور لمبی لمبی امیدیں باندھ کر خواب غفلت میں سونے والوں کو متوجہ کررہا ہوتاہے کہ دل وجان سے یہ تسلیم کر لو :
”تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شییء قدیر الذی خلق الموت والحیاة لیبلوکم ایکم احسن عملا وھو العزیز الغفور“ (الملک :۱)
ترجمہ ”:بڑی برکت ہے اس کی جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے جس نے بنایا مرنا اور جینا تاکہ تم کو جانچے کون تم میں اچھا کرتا ہے کام اور وہ زبردست ہے بخشنے والا “۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے برادر مکرم حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ شیرازی رحمہ اللہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی والدہ محترمہ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں سمیت تمام سوگواروں کو صبر جمیل اور اجرجزیل عطا فرمائے ، آمین۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: عالَم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
Flag Counter