Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

2 - 10
باغات جنت کی حفاظت کیجئے
باغات جنت کی حفاظت کیجئے !

مالک ارض و سماء نے جب سے کائنات کو وجود بخشا‘ آسمان کو رفعت عطا کی‘ زمین کو بچھایا اور پھیلایا‘ اس کے ساتھ ہی اس ذاتِ حی و قیوم نے اس زمین کی آبادکاری اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے بطور عبادت گاہ اور نشانِ ہدایت‘ اس پر اپنا گھر بیت اللہ بھی بنایا‘ جس کو ظاہری‘ باطنی‘ حسی اور معنوی برکات سے معمور کیا اور سارے جہاں کی ہدایت کا سرچشمہ ٹھہرایا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اسلام کے پیروکاروں کو اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا،اس گھر کے معمار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ حضرت آدم علیہ السلام‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ملائکہ رہے ہیں۔
اس گھر کے بعد اپنا ایک اور گھر بیت المقدس اس زمین پر سجایا‘ جس کو حضرت آدم علیہ السلام‘ حضرت سلیمان علیہ السلام اور جنات کے ہاتھوں تعمیر کرایا‘ اس کے علاوہ بھی ہر زمانہ میں اپنی عبادت اور اپنے سامنے مخلوق کی جبینِ نیاز جھکانے کی غرض سے اپنے مخلصین بندوں کے ہاتھوں نیکی کے یہ نشانات تعمیر کرائے‘ جو کبھی صَوَامِع‘ کبھی بِیَع‘ کبھی صَلَوَات اور پھر مساجد کے نام سے یاد اور آباد کئے جاتے رہے‘ جن کی حفاظت و صیانت کی تدبیر مالک الملک مختلف طریقوں سے کرتے رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے‘ بیت اللہ اور سر زمین ِمکہ کے ساتھ عشق و محبت اور رب البیت کے سامنے آدابِ بندگی بجا لاتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت اللہ سے عشق و محبت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ کفار مکہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے حزین و غمگین انداز میں سر زمینِ مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
”اے مکہ!توکتنا پاکیزہ شہر ہے،اور تو مجھے کتنا محبوب ہے، اگرمیری قوم مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تجھے چھوڑ کر کہیں اور نہ جاتا۔“ (ترمذی،ج:۲،ص:۲۳۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد تعمیر کی‘ نہ صرف یہ کہ آپ نے خود مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا‘ بلکہ دوسروں کو بھی مساجد بنانے کی ترغیب دی اور اس کے فضائل و مناقب ارشاد فرمائے‘ مثلاً: مسجد نبوی سے متصل زمین کا ایک ٹکڑا پڑا تھا‘ جسے مسجد کی توسیع کی غرض سے مسجد میں ملانے کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من یشتریھا و یوسعہا فی المسجد و لہ مثلہا فی الجنة۔“ (کنزالعمال ج: ۸‘ ص:۳۱۴)
ترجمہ: ”جو زمین کے اس ٹکڑے کو خرید کر مسجد کی توسیع کرے گا‘ اسے جنت میں اس جیسا گھر ملے گا۔“
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو ایسے کاموں میں ہمیشہ سبقت لے جاتے تھے‘ اس موقع پر بھی وہ سبقت لے گئے اور وہ جگہ خرید کر مسجد نبوی میں شامل کرکے جنت میں اپنا محل بنا لیا۔ قرآن کریم میں مساجد کی تعمیر کو اہل ایمان کی صفت قرار دیا گیا ہے‘ جیسا کہ ارشاد ہے:
”انما یعمر مساجد اللّٰہ من آمن باللّٰہ و الیوم الآخر و اقام الصلوٰة و اتی الزکوٰة و لم یخش الا اللّٰہ… الخ۔“ (التوبہ:۱۸)
ترجمہ: ”اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو اور نہ ڈرا سوائے اللہ کے۔“
مساجد بنانے والے اور ان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والے‘ نبی آخر الزمان‘ حضرت محمد مصطفی‘ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ”اللہ کے پڑوسی‘ اللہ کے اہل‘ اللہ کے عذاب کو روکنے کا سبب اور اللہ کے محبوب“ کا خطاب پانے والے ہیں‘ جیسا کہ درج ذیل احادیث اس پر شاہد ہیں:
۱: ”عن انس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اللّٰہ تعالیٰ ینادی یوم القیامة این جیرانی؟ فتقول الملائکة و من ینبغی ان یجاورک؟ فیقول: این عمار المسجد۔“ (کنزالعمال ج:۷‘ ص: ۵۷۸)
ترجمہ: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے: میرے پڑوسی کہاں ہیں؟ ملائکہ عرض کریں گے: آپ کے پڑوسی کون ہوسکتے ہیں؟ اللہ پاک فرمائیں گے: مسجد کے آباد کرنے والے کہاں ہیں؟ (وہ میرے پڑوسی ہیں) ۔“
۲: ”عن انس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عمار مساجد اللّٰہ ہم اہل اللّٰہ عزوجل۔“ (کنزالعمال‘ ج:۷‘ ص:۵۷۸)
ترجمہ: ”حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی مساجد آباد کرنے والے اللہ عزوجل کے اہل ہیں۔“
۳: ”عن انس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ یقول اللّٰہ عزوجل: انی لاَہَمُّ باہل الارض عذاباً فاذا نظرت الی عمار بیوتی‘ المتحابین فی‘ والی المستغفرین بالاسحار صرفت عنہم۔“ (کنزالعمال: ج:۷‘ ص:۵۷۹)
ترجمہ: ”حضرت انس  سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اہل زمین پر عذاب کا ارادہ کرتا ہوں‘ پھر اپنے گھروں (مساجد) کے آباد کرنے والوں‘ میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والوں اور سحری کے وقت استغفار کرنے والوں کو دیکھتا ہوں تو وہ عذاب ان سے پھیر لیتا ہوں۔“
۴: ”عن ابی سعید الخدری قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اَلِفَ المسجد اَلِفَہُ اللّٰہ تعالیٰ۔“ (کنزالعمال ج:۷‘ ص:۶۴۹)
ترجمہ: ”حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مسجد سے محبت کی‘ اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتے ہیں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش راہ کی پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کو اپنا نصب العین بنائے رکھا‘ چنانچہ کنزالعمال میں ہے:
”عن عثمان بن عطاء قال: لما افتح عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ البلدان‘ کتب الی ابی موسیٰ الاشعری وھو علی البصرة یا مرہ ان یتخذ للجماعة مسجداً و یتخذ للقبائل مسجداً فاذا کان یوم الجمعة انضموا الی مسجد الجماعة فشہدوالجمعة‘ وکتب الی سعد بن ابی وقاص وہوعلی الکوفة بمثل ذالک‘ وکتب الی عمرو بن العاص وہو علی مصر بمثل ذالک …الخ۔“ (کنزالعمال‘ ج: ۸‘ ص:۳۱۳)
ترجمہ: ”حضرت عثمان بن عطا راوی ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے کئی شہر فتح کرلئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری جو بصرہ کے گورنر تھے‘ ان کو فرمان جاری کیا کہ بصرہ میں جامع مسجد بنائی جائے‘ اور قبائل میں بھی مسجدیں بنائی جائیں اور جمعہ کے دن سب جامع مسجد میں آئیں اور نماز جمعہ میں شریک ہوں‘ حضرت سعد بن ابی وقاص جو کوفہ کے امیر تھے اور حضرت عمرو بن عاص جو مصر کے امیر و گورنر تھے‘ ہر ایک کو اسی طرح کا فرمان جاری کیا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد بنانے اور مسجد کے قریب رہنے والے کی اہمیت و فضیلت اپنے فرامین میں کچھ اس طرح ارشاد فرمائی ہے کہ: مساجد زمین میں اللہ کے گھر‘ مساجد زمین کے بہترین ٹکڑے‘ مسجد میں آنے والے اللہ کے مہمان‘ مساجد جنت کے باغات‘ مساجد آخرت کے بازار‘ مسجد کے قریب رہنے والے کی ایسی فضیلت جیسے مجاہد کی جہاد سے معذور پر‘ مساجد ہر مومن کا گھر ہیں‘ مساجد بنانے اور اس کو وسعت دینے والے جنت میں اپنا محل بناتے ہیں‘ مسجد میں قندیل (بلب‘ ٹیوب لائٹ وغیرہ) لٹکانے والے کے لئے اس وقت تک ستر ہزار فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ قندیل باقی رہے‘ اسی طرح مسجد میں چٹائی (فرش وغیرہ) بچھانے والے کے لئے ستر ہزار فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ چٹائی استعمال ہوتی رہے۔
جیسا کہ ایک حدیث شریف میں ہے:
”عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اللّٰہ اذا احب عبداً جعلہ قیم مسجد‘ واذا ابغض عبداً جعلہ قیم حمام۔“ (کنزالعمال ج:۷‘ ص:۶۵۳)
ترجمہ: ”حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اسے مسجد کی دیکھ بھال پر مقرر فرمادیتے ہیں اور جب کسی بندے سے ناراض ہوتے ہیں تو اسے حمام جیسی گھٹیا چیزوں پر لگادیتے ہیں۔“
اسی طرح ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”تذہب الارضون کلہا یوم القیامة الا المساجد فانہا ینضم بعضہا الی بعض۔“ (کنزالعمال ج ۷‘ ص: ۶۵۲)
ترجمہ: ”حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تمام زمینیں ختم ہوجائیں گی‘ سوائے مساجد کے‘ ان سب مساجد کو ایک دوسرے میں ضم کردیا جائے گا (اور ان کو جنت میں لے جایا جائے گا)۔“
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
”عن انس قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کل بناء وبال علی صاحبہ یوم القیامة الا المسجد۔“ (کنزالعمال ج: ۷‘ ص:۶۴۸)
ترجمہ: ”حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر عمارت قیامت کے دن اپنے مالک پر وبال ہوگی‘ سوائے مسجد کے۔ “
مساجد کی ظاہری تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ مساجد کو ذکر‘ تلاوت‘ اذان‘ نماز اور اعتکاف جیسی عبادات سے بھی شاد و آباد رکھا جائے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”اذا مررتم بریاض الجنة فارتعوا‘ قیل: یا رسول اللّٰہ! وما ریاض الجنة؟ قال المساجد‘ قیل وما الرتع یا رسول اللّٰہ! قال:سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر۔“ (مشکوٰة: ۷۰‘ بحوالہ ترمذی)
ترجمہ: ”جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو چر لیا کرو‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: جنت کے باغات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (وہ) مساجد ہیں۔ آپ سے پوچھا گیا: چرنا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللّٰہ‘ الحمد للّٰہ‘ لا الہ الا اللّٰہ اور اللّٰہ اکبر پڑھنا۔“
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو عبادات سے آباد رکھنے والوں کے لئے کئی ضمانتیں دی ہیں‘ مثلاً: ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں راحت اور آخرت میں رحمت ہے‘ ایسے لوگ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرنے والے ہوں گے‘ اسی طرح مسجد کی طرف جانے کو رحمت کے نزول کا سبب اور انہیں ویران کرنے کو نفاق کا سبب فرمایا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے:
”عن ابی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من توضأ فاحسن الوضوء ثم اتی مسجداً من مساجد اللّٰہ لاتعمدہ الا الصلٰوة یتبشبش اللّٰہ بہ کما یتبشبش احدکم بالغائب منہ اذا قدم علیہ۔“
(کنزالعمال ج:۷‘ ص:۵۷۴)
ترجمہ: ”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا‘ پھر اللہ کی مساجد میں سے کسی مسجد میں نماز کے ارادہ سے آیا‘ اللہ پاک اس بندے سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی ایک اپنے عزیز کے سفر سے (کافی عرصہ بعد) واپس آنے پر خوش ہوتا ہے۔“ ایک حدیث میں ہے:
”عن ابی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا نزلت الرحمة علی اہل المسجد بدأت بالامام‘ ثم اخذت یمیناً ثم عطفت علی الصفوف۔“ (کنزالعمال: ج:۷‘ ص: ۵۶۶)
ترجمہ: ”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل مسجد پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے امام پر نازل ہوتی ہے‘ پھر امام کے دائیں طرف سے شروع ہوکر تمام صفوف پر (نازل ہوتی) ہے۔“
کسی بستی میں اذان کا ہونا اس بستی کے اللہ کے عذاب سے بچنے کا سبب اور آسمان والوں تک اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ ہے‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل ارشادات اس پر شاہد ہیں:
۱: ”عن انس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا اذن فی قریة امنہا اللّٰہ من عذابہ ذالک الیوم۔“ (کنزالعمال جلد: ۷‘ ص: ۶۸۱)
ترجمہ: ”حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی بستی میں اذان ہوتی ہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس دن اس بستی کو عذاب سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔“
۲:”عن معقل بن یسار قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایما قوم نودی فیہم بالاذان صباحاً کان لہم اماناً من عذاب اللّٰہ تعالیٰ حتی یمسوا‘ وایما قوم نودی فیہم بالاذان مساء کان لہم اماناً من عذاب اللّٰہ حتی یصبحوا۔“ (کنزالعمال ج:۷‘ ص:۶۸۲)
ترجمہ: ”حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں صبح کی اذان دی جاتی ہے‘ ان کے لئے شام تک اللہ کے عذاب سے حفاظت ہوجاتی ہے اور جس قوم میں شام کو اذان دی جاتی ہے‘ ان کے لئے صبح تک اللہ کے عذاب سے حفاظت ہوجاتی ہے۔“
۳: ”عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اہل السماء لا یسمعون شیئاً من اھل الارض الا اذان۔“ (کنزالعمال ج:۷‘ص:۶۸۲)
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک آسمان والے زمین میں رہنے والوں کی کوئی آواز نہیں سنتے سوائے اذان کے۔“
تاثیر ِ اذان اور ہندوؤں کا اعتراف
حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی فرماتے ہیں:
”۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا تو مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہوگیا‘ تو وہاں کے ہندوؤں نے ایک بہت بڑا مشاعرہ کیا‘ جس کا صدر مولانا حبیب الرحمن کو بنایا گیا۔ جب مولانا تشریف لائے تو لوگ گلے مل کر روئے اور بہت روئے‘ اور پھر کہنے لگے کہ: مولانا! آپ گئے تو ہمارا دین و دھرم بھی لیتے گئے۔ مولانا نے فرمایا کہ: بھائی! ہم تمہارا دین و دھرم کیسے لے گئے؟ انہوں نے کہا کہ: آپ لوگ تھے تو یہاں کی مسجدیں آباد تھیں‘ پانچ وقت اذان ہوتی تھیں‘ اذانیں سن کر ہمارے دلوں میں بھی جذبہ اٹھتا تھا کہ ہم بھی بھگوان کا نام لیں‘ مگر اب نہ اذانیں ہیں اور نہ نماز روزہ کا منظر ہے‘ اس لئے ہم تو ٹھنڈے پڑگئے‘ ہمارا دین و دھرم ختم ہوگیا‘ جو تمہارے دم سے قائم تھا۔ اس پر حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے فرمایا کہ: میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے گھروں تک علم دین نہ بھی پہنچے‘ تو اذانوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا نام ان کے گھروں تک ضرور پہنچتا ہے۔ ایک زمانے میں دارالعلوم کی مسجد کے موذن جان محمد ترکی تھے‘ جب وہ اذان کہتے تھے تو لاؤڈ اسپیکر نہ ہونے کے باوجود بلاتکلف ان کی اذان اسٹیشن سے سنی جاتی تھی۔ ان کی آواز اتنی تیز تھی کہ کافی دور تک جاتی تھی‘ جب ان کی اذان شروع ہوتی تھی تو بہت سے ہندو بیٹھ جایا کرتے تھے کہ اب اللہ کا نام لیا جارہا ہے۔“
(مجالس حکیم الاسلام جلد اوّل ص ۴۹)
ماضی اور حال گواہ ہیں کہ ہمیشہ مساجد اور مدارس ہی دینِ اسلام کی آبیاری اور تبلیغ و ترویج کے مراکز رہے ہیں اور مستقبل میں بھی قیامت تک انشأاللہ! یہی مراکزدین کی آبیاری اور سیرابی کا ذریعہ بنتے رہیں گے، انہیں کے سائے میں بیٹھ کرہرزمانہ میں، قراء نے تعلیمِ قرآن ،مفسرین نے تفسیرِقرآن،محدثین نے حدیث، اور علمأنے آپ اکے جلال، جمال، اخلاق، کرداراور دینِ متین کا ایک ایک طریقہ، ایک ایک مسئلہ اور حکم، امت کو پڑھایا،سمجھایا اور ان تک پہنچایا،اسی لئے ان مراکز کی ترقی اور حفاظت ہر مسلم پر فرض ہے، خواہ وہ کسی خطّہ کا باشندہ ہو۔ پاکستان کے جن علاقوں میں زلزلہ آیا ہے‘ ان میں جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ دینی نقصان بھی بہت ہوا ہے‘ بہت سی مساجد اور مدارس اس زلزلہ کی زد میں آئے ہیں‘ ان کی دوبارہ تعمیر و ترقی اور بحالی مسلمانوں کی اولین ضرورت ہے‘ جو غیر ملکی امداد آئی ہے‘ اوّل تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ اگر کچھ ہے بھی تو ان امداد دینے والوں کے اپنے مقاصد اور ترجیحات ہیں‘ جن میں سرفہرست مشنری قسم کے اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں وغیرہ بنانا ہے‘ نہ تو حکومت نے مساجد اور مدارس کی تعمیر نو کے لئے کوئی پروگرام اور منصوبہ بنایا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ارادہ معلوم ہوتا ہے‘ الٹا ہمارے حکمران بیرونی ممالک سے یہ کہہ کر امداد وصول کر رہے ہیں کہ ہمیں امداد دو‘ ورنہ مولوی‘ مسجدیں اور مدرسے بنادیں گے۔ اب یہ مسلم عوام کی اپنی ذمہ داری ہے کہ ان دینی مراکز کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے کر باغاتِ جنت کی حفاظت کریں اور اللہ کی عظمت کے ان نشانات کو بحال کرکے وہ تمام بشارات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں دی ہیں‘ ان کو سمیٹ کر دنیا اور آخرت میں سرخرو اور کامیاب و کامران ہوں۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: تحفظ مدارس کی تحریک
Flag Counter