Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

4 - 10
عالَم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
عالَم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
(۲)

ملا علی قاری  لکھتے ہیں:
”قال الغزالی مثال المال مثال الحیة التی فیہا تریاق نافع وسم نافع‘ فان اصابہا المعزم الذی یعرف وجہ الاحتراز عن شرہا‘ وطریق استخراج تریاقہا کانت نعمة‘ وان اصابہا السوادی الغبی فہی علیہ بلاء مہلک‘ وتوضیحہ ما قالہ الخواجہ عبید اللہ النقشبندی: ان الدنیا کالحیة‘ فکل من یعرف رقیتہا یجوز لہ اخذہا والا‘ فلا۔ فقیل: ومارقیتہا؟ فقال: ان یعرف من این یاخذہا وفی این یصرفہا“ (مرقاة المفاتیح:ج:۹‘ ص:۳۵۴)
ترجمہ:․․․ ”امام غزالی فرماتے ہیں کہ مال کی مثال اس سانپ جیسی ہے جس میں زہر قاتل اور تریاق جیسی مفید دوا ہوتی ہے‘ اگر یہ سانپ ایسے منتر پڑھنے والے کے ہاتھ لگ جائے جو اس کے شر سے بچاؤ کا طریقہ جانتا ہے اور تریاق کے نکالنے کا طریقہ‘ تو یہ نعمت ہوتاہے اور اگر کسی غبی دیہاتی کے ہاتھ لگ جائے تویہ ہلاک کردینے والی مصیبت ہے‘ اس کی وضاحت خواجہ عبید اللہ نقشبندی نے یہ فرمائی ہے کہ مال کی مثال سانپ کی طرح ہے پس جس کو اس کا منتر آتاہو تو اس کے لئے تو اس کا لینا جائز اور اگر منتر نہ جانتا ہو تو پھر لینا جائز نہیں‘ آپ سے پوچھا گیا کہ اس کا منتر کیا ہے؟ فرمایا کہ:وہ یہ جانتا ہو کہ مال کہاں سے حاصل کرنا ہے اور کہاں خرچ کرناہے“۔
عموماً دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی وجہ سے لوگ آخرت برباد کر دیتے ہیں‘ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کیا حیثیت ہے؟ رسول اللہ ا نے دنیا کی حیثیت کے بارے فرمایا:
”عن المستور د بن شداد  قال: سمعت رسول اللہ ا یقول: ”واللہ ما الدنیا فی الآخرة الا مثل ما یجعل احدکم اصبعہ فی الیم؟ فلینظر بم یرجع“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۳۹)
ترجمہ :․․․حضرت مستورد بن شداد  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا‘ اللہ کی قسم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیساکہ تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبوئے پھر دیکھے انگلی کیا چیز لے کر واپس آئی ہے۔“
ملاعلی قاری لکھتے ہیں:
”وحاصلہ: ان منح الدنیا ومحنہا فی کسب الجاہ والمال من الامور الفانیة السریعة الزوال‘ فلاینبغی لاحد ان یفرح ویغتر بسعتہا ولایجزع ویشکو من ضیقہا‘ بل یقول فی الحالتین: لاعیش الا عیش الآخرة‘ فانہ قالہ ا مرة فی یوم الاحزاب‘ واخري فی حجة الوداع وجمعیة الاصحاب‘ ثم یعلم ان الدنیا مزرعة الآخرة‘ وان الدنیا ساعة فیصر فہا فی الطاعة“۔ (مرقاة المفاتیح:ج:۹‘ ص:۳۴۶)
ترجمہ:․․․”اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کا ملنا اور مال وجاہ کے حصول میں اس دنیا میں کوشش کرنا سریع الزوال اور فناہونے والے امور میں سے ہے‘ پس انسان کو چاہئے کہ جلد فنا ہونے والی دنیا کی نعمتوں پر خوش نہ ہو اور نہ وسعت دنیا پر مغرور ہو اور نہ اس کی تنگی وسختیوں پر روئے پیٹے اور نہ شکوہ شکایت کرے‘ بلکہ دونوں حالتوں میں کہے ”اے اللہ ! اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے“ نبی کریم ا نے ایک مرتبہ جنگ احزاب کے موقعہ پر یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا‘ اور ایک مرتبہ حجة الوداع کے موقعہ پر صحابہ کرام  کی بھاری جمعیت کے سامنے‘ نیز یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ ”دنیا آخرت کی کھیتی ہے“ اور یہاں کی زندگی بس ایک ساعت کی ہے اس کو اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں صرف کرنا چاہئے“۔
دنیا ایک بے وقعت اور ناکارہ چیز ہے‘ اس کی مثال مردار کی طرح ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
عن جابر  ان رسول اللہ ا مر بجدی اَسَکّ میت‘ قال: ایکم یحب ان ہذا لہ بدرہم فقالوا ما نحب انہ لنا بشئ‘ قال فواللہ للدنیا اہون علی اللہ من ہذا علیکم “ ۔ (مشکوٰة المصابیح ‘ص:۴۳۹)
ترجمہ:․․․”حضرت جابر  سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ا بکری کے ایک ایسے مردہ بچے کے پاس سے گذرے جس کے کان بہت چھوٹے چھوٹے یا کٹے ہوئے تھے یا اس کے کان ہی نہیں تھے‘ چنانچہ آپ ا نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ تم میں ایسا کوئی شخص ہے جو اس کو ایک درہم کے عوض لینا پسندکرے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم تو اس کو کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں کرتے‘ آنحضرت ا نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ دنیا اللہ کے نزدیک اس بکری کے مردہ بچہ سے کہیں زیادہ بے وقعت وکمتر ہے “۔
ملا علی قاری  لکھتے ہیں:
ویؤیدہ ما سیاتی ان الدنیا لو کانت تزن عند اللہ جناح بعوضة ما سقی کافراً منہا شربة ماء‘ والمقصود منہ التذہید فی الدنیا والترغیب فی العقبیٰ ‘فان حب الدنیا راس کل خطیئة علی ما رواہ البیہقی عن الحسن مرسلاً ‘کما ان ترک الدنیا راس کل عبادة‘ والسبب فی ذلک ان محب الدنیا ولو اشتغل بامور الدین تکون اعمالہ مدخولة باغراض فاسدة‘ وتارک الدنیا ولو اشتغل بامر دنیوی یکون لہ مطمح اخریٰ‘ ولذا قال بعض العارفین من ارباب الیقین: من احب الدنیا لم یقدر علی ہدایتہ جمیع المرشدین‘ ومن ترک الدنیا لم یقدر علی ضلالتہ جمیع المفسدین“۔ (مرقاة :ج:۹‘ ص:۳۴۷)
ترجمہ:․․․”اس کی تائید عنقریب آنے والی حدیث بھی کرتی ہے کہ اگر دنیا کی قدر ومنزلت اللہ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی توکسی کافر کو ایک گھونٹ پانی میسر نہ آتااور اس حدیث سے مقصود دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی ترغیب ہے‘ جیساکہ امام بیہقی نے حضرت حسن سے مرسل روایت کی ہے کہ:” دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے“ جیساکہ ترک دنیا ہر عبادت کی اصل ہے‘ سبب اس میں یہ ہے کہ دنیا سے محبت رکھنے والا اگر بالفرض کسی دینی کام میں مشغول بھی ہوجائے تو اس کے اعمال پھر بھی فاسد اغراض کے ساتھ ملتبس ہوتے ہیں اور تارک الدنیا اگر بالفرض دنیوی امور میں مشغول بھی ہوجائے تو بھی اس کا مطمح نظر دوسرا ہوتاہے‘ اسی وجہ سے بعض عارفین‘ ارباب یقین نے فرمایاہے کہ جو دنیا سے محبت رکھتا ہو اس کی ہدایت پر تمام مرشدین بھی قدرت نہیں رکھتے اور جو تارک الدنیا ہو اس کی گمراہی پر تمام مفسدین کو قدرت نہیں ہوتی“۔
۳:․․․”وعن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہا تعس عبد الدینار وعبد الدراہم وعبد الخمیصة‘ ان اعطی رضی وان لم یعط سخط۔ تعس وانتکس واذا شیک فلاانتقش۔ طوبیٰ لعبد اٰخذ بعنان فرسہ فی سبیل اللہ اشعث راسہ مغبرة قدماہ ان کان فی الحراسة کان فی الحراسة وان کان فی الساقة کان فی الساقة ان استاذن لم یؤذن لہ وان شفع لم یشفع “۔ (بخاری‘ مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۳۹)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو ہریرة  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: ہلاک ہوا جو دینار‘ درہم اور چادر کا غلام ہوا ‘ اگر ملے تو خوش اور راضی ہو اور اگر نہ ملے تو ناراض وناخوش ہو‘ (ایسے شخص کی اس مذموم خصلت کی وجہ سے گویا حضور ا نے مکرر بددعا دی) ہلاک ہو ایسا شخص اور ذلیل وسرنگوں ہو! اور دیکھو جب اس شخص کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے توکوئی اس کو نہ نکالے۔ سعادت اور خوش بختی ہے اس بندے کے لئے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے کھڑا ہے‘ اس کے سر کے بال پراگندہ اور قدم غبار آلود ہیں‘ اگر اس کو لشکر کی اگلی صفوں کے آگے نگہبانی پر مامور کیا جائے تو پوری طرح نگہبانی کرتاہے اور اگر اس کو لشکر کے پیچھے رکھا جائے تو لشکر کے پیچھے ہی رہتا ہے‘ اگر وہ لوگوں کی محفلوں میں شریک ہونا چاہے تو اس کو شرکت کی اجازت نہیں دیجاتی‘ اور اگر کسی کی سفارش کرتاہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی “۔
دنیا کے فانی اور آخرت سدابہار ہونے کے بارے آپ ا کا ارشاد گرامی ہے:
”عن ابی موسیٰ  قال: قال رسول اللہ ا من احب دنیاہ اضر بآخرتہ ومن احب آخرتہ اضر بدنیاہ فاثروا ما یبقیٰ علی ما یفنیٰ“۔(مشکوٰة المصابیح‘ ص:۴۴۱)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو موسیٰ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا کو اپنا محبوب ومطلوب بنا ئے گا وہ اپنی آخرت کا ضرور نقصان کرے گا اور جو کوئی آخرت کو محبوب بنائے گا وہ اپنی دنیا کا ضرور نقصان کرے گا‘ (پس جب دنیا وآخرت میں سے ایک کو محبوب بنانے سے دوسری کا نقصان برداشت کرنا لازم اور ناگزیر ہے تو عقل ودانش کا تقاضا یہی ہے کہ) فنا ہونے والی (دنیا) کے مقابلہ میں‘ باقی رہنے والی (آخرت)کو اختیار کرو“۔
۴:․․․”عن ابی ہریرة  ان رسول اللہ ا قال: الا ان الدنیا ملعونة‘ ملعون ما فیہا الا ذکر اللہ وما والاہ وعالم او متعلم“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۴۱)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: خبر دار دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے‘ اس پر خدا کی پھٹکارہے اور اس کے لئے رحمت سے محرومی ہے‘ سوائے خدا کی یاد کے اور ان چیزوں کے جن کا خدا سے کوئی تعلق اور واسطہ ہے اور سوائے عالم اور متعلم کے“۔
۵:․․․”عن انس  قال: قال رسول اللہ ا‘ ہل من احد یمشی علی الماء الا ابتلت قدماہ؟ قالوا لا یا رسول اللہ! قال: کذلک صاحب الدنیا لایسلم من الذنوب“ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۴۴)
ترجمہ:․․․”حضرت انس  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ایک دن فرمایا: کیا کوئی ایسا ہے کہ پانی پر چلے اور اس کے پاؤں نہ بھیگیں؟عرض کیا گیا حضرت ایسا تو نہیں ہوسکتا‘ آپ ا نے فرمایا: اسی طرح دنیادار گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا“۔
۶:․․․”عن قتادة بن النعمان ان رسول اللہ ا قال: اذا احب اللہ عبدا حماہ الدنیا کما یظل احدکم یحمی سقیمہ الماء“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۴۸)
ترجمہ:․․․”حضرت قتادہ بن نعمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتاہے تو دنیا سے اس کو اس طرح پرہیز کراتاہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتاہے (جبکہ اس کو پانی سے نقصان پہنچتا ہو)“۔
۷:․․․”عن عمرو  ان النبی ا خطب یوماً‘ فقال فی خطبتہ الا ان الدنیا عرض حاضر یاکل منہ البر والفاجر‘ الا وان الآخرة اجل صادق ویقضی فیہا ملک قادر‘الا وان الخیر کلہ بحذافیرہ فی الجنة‘ الا وان الشر کلہ بحذافیرہ فی النار‘ الا فاعلموا وانتم من اللہ علی حذر‘ واعلموا انکم معرضون علی اعمالکم فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شرایرہ“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۴۵)
ترجمہ:․․․”حضرت عمرو بن العاص  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ایک دن خطبہ دیا اور فرمایا کہ: سن لو اور یاد رکھو کہ دنیا ایک وقتی اور عارضی سودا ہے جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے (اور اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں اسی لئے) اس میں ہر نیک وبد کا حصہ ہے اور سب اسی سے کھاتے ہیں اور یقین کرو کہ آخرت مقرر وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے اور اس میں سب کچھ پر قدرت رکھنے والا شہنشاہ فیصلہ کرے گا‘ یاد رکھو کہ ساری خیر اور خوشگواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں اور سارا شر اور دکھ اور اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں‘ پس خبردار ! (جو کچھ کرو) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو‘ اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کئے جاؤگے‘ پس جس شخص نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا“۔
۸:․․․”وعن جابر  قال: قال رسول اللہ ا ان اخوف ما اتخوف علی امتی الہویٰ وطول الامل‘ فاما الہویٰ فیصد عن الحق واما طول الامل فینسی الآخرة وہذہ الدنیا مرتحلة ذاہبة‘ وہذہ الآخرة مرتحلة قادمة‘ ولکل واحد منہا بنون‘ فان استطعتم ان لا تکونوا من بنی الدنیا فافعلوا‘ فانکم الیوم فی دار العمل ولاحساب‘ وانتم غداً فی دار الآخرة‘ ولاعمل‘ ‘۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۴۴۴)
ترجمہ:․․․”حضرت جابر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتاہوں‘ ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں ”ہویٰ“ اور ”طول امل“ ہے۔ ہویٰ (نفسانی رجحانات) تو آدمی کو قبول حق سے مانع ہوتی ہے اور طول امل (لمبی لمبی آرزوئیں) رکھنے والا آخرت کو بھلادیتاہے اور اس کی فکر اور تیاری سے غافل ہوجاتاہے‘ دنیا دم بدم چلی جارہی ہے‘ گذررہی ہے اور آخرت (ادھر) سے چل پڑی ہے اور ان دونوں کے بچے ہیں‘ پس اے لوگو! اگر تم کر سکو تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اور اس کے بچے نہ بنو‘ پس تم اس وقت دار العمل میں ہو اور یہاں حساب یعنی جزا وسزا نہیں اور کل تم آخرت میں پہنچ جانے والے ہو اور وہاں کوئی عمل نہ ہوگا“۔
حب دنیا کے ساتھ دوسری بیماری جو آپ ا نے ارشاد فرمائی وہ کراہیة الموت ہے‘ اس کے بارے میں آنحضرت ا کے ارشادات ملاحظہ ہوں:
۱:․․․”وعن عبادة بن الصامت  قال: قال رسول اللہ ا ”من احب لقاء اللہ احب اللہ لقاء ہ ومن کرہ لقاء اللہ کرہ اللہ لقاء ہ‘ فقالت عائشة او بعض ازواجہ: انا لنکرہ الموت‘ قال: لیس ذلک‘ ولکن المؤمن اذا حضرہ الموت بشر برضوان اللہ وکرامتہ‘ فلیس شئ احب الیہ مما امامہ‘ فاحب لقاء اللہ‘ واحب اللہ لقاء ہ‘ وان الکافر اذا حضربُشر بعذاب اللہ وعقوبتہ‘ فلیس شئ اکرہ الیہ عما امامہ‘ فکرہ لقاء اللہ وکرہ اللہ لقاء ہ“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۱۳۹)
ترجمہ:․․․”حضرت عبادہ بن صامت  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: کہ جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتاہے‘ اللہ اس کی ملاقات کو پسند فرماتے ہیں اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرے‘ اللہ اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں‘ یہ سن کر حضرت عائشہ  یا کسی دوسری زوجہ مطہرہ نے عرض کیا کہ: ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں‘ آپ ا نے فرمایا کہ: یہ مراد نہیں‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ جب مؤمن کی موت آتی ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور اس کے اعزاز واکرام کی خوشخبری دی جاتی ہے ‘ چنانچہ وہ اس چیز سے جو اس کے آگے آنے والی ہے‘ سے زیادہ کسی چیز کو محبوب نہیں رکھتا‘ اس لئے بندہ مؤمن اللہ کی ملاقات کو پسند کرتاہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو پسند کرتاہے۔ اور جب کافر کی موت آتی ہے تو اس کو خدا کے عذاب اور سخت سزا کی خبر دی جاتی ہے‘ چنانچہ وہ اس چیز سے جو آگے آنے والی ہے سے زیادہ کسی چیز کو ناپسند نہیں کرتا‘ اس لئے وہ اللہ کی ملاقات کو نا پسند کرتاہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں“۔
ملا علی قاری  لکھتے ہیں:
”یعنی لایمکن رؤیة اللہ قبل الموت بل بعدہ‘ أو المراد ان من احب لقاء اللہ احب الموت‘ لانہ یتوصل بہ الی لقائہ ولایتصور وجودہ قبلہ‘ وفیہ دلالة علی ان اللقاء غیر الموت“۔ (مرقاة المفاتیح:ج:۴‘ص:۴)
ترجمہ:․․․” یعنی اللہ کا دیدار موت سے پہلے ممکن نہیں‘ بلکہ موت کے بعد ہوگا‘ مراد یہ ہے کہ جس کو اللہ کی ملاقات محبوب ہو‘ اس کو موت محبوب ہوتی ہے۔ اس لئے کہ موت کے ذریعہ اس کی رسائی اللہ کی ملاقات تک ہوتی ہے‘ موت سے پہلے ملاقات کا تصور نہیں ہوسکتا‘ اس حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ یہ ملاقات موت کے علاوہ ہے“۔
موت سے طبعی ناپسندیدگی اس میں تو کوئی قباحت نہیں‘ کیونکہ طبعاً ہر جاندار وذی روح کو موت ناپسند ہوتی ہی ہے۔ اور ایک موت کو اعتقاداً ناپسند کرناہے‘ مؤمن طبعاً توموت کو ناپسند کرتاہے لیکن موت کے بعد اس کو نیک اعمال کا جو صلہ ملنے کی امید ہوتی ہے‘ اس کی وجہ سے اور اللہ کے دیدار کے اشتیاق کی وجہ سے وہ اعتقاداً موت کو پسند کرتاہے ‘ کافر اور منافق طبعاً اور اعتقاداً بھی موت کو ناپسند کرتے ہیں‘ اس لئے کہ وہ آگے اپنی سزا کو دیکھتے ہیں تو موت کو ناپسند کرتے ہیں تو اللہ کریم بھی ان کو اور ان سے ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں۔
۲:․․․وعن عبد اللہ بن عمرو  قال: قال رسول اللہ ا ”تحفة المؤمن الموت“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۱۴۰)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: مومن کا تحفہ موت ہے“۔
۳:․․․”وعن عاصم الاحول دخلنا علی انس بن مالک نعزیہ علی ابن لہ مات فقلنا لہ یا ابا حمزہ انا نرجوا لہ النعیم‘ قال واکثر من ذلک سمعت رسول اللہ ا یقول:” الموت کفارة لکل مومن“۔ (شعب الایمان بیہقی)
ترجمہ:․․․”حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک  کے پاس ان کے صاحبزادے کی فوتگی پر تعزیت کے لئے گئے‘ ہم نے عرض کیا کہ ہم اس کے لئے نعمتوں کی امید رکھتے ہیں‘ انہوں نے فرمایا کہ: اس سے بھی زیادہ کی امید ہے‘ میں نے نبی کریم ا کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا‘ کہ موت ہر مؤمن کے لئے کفارہ ہے“۔
۳:․․․وعن ابن مسعود  ان نبی اللہ ا قال ذات یوم لاصحابہ: استحیوا من اللہ حق الحیاء‘ قالوا انا نستحی من اللہ یا نبی اللہ! والحمد للہ‘ قال لیس ذلک‘ ولکن من استحی من اللہ حق الحیاء فلیحفظ الراس وما وعیٰ‘ ولیحفظ البطن وما حویٰ‘ ولیذکر الموت والبلی‘ ومن اراد الآخرة ترک زینة الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحی من اللہ حق الحیاء“۔ (مشکوٰة المصابیح‘ ص:۱۴۰
ترجمہ:․․․”حضرت ابن مسعود  سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم انے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ: اللہ سے حیا کرو جیساکہ حیاء کا حق ہے‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! الحمد اللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں‘ آپ ا نے فرمایا کہ: حیاسے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیاء کا حق ادا کرے تو اسے چاہئے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے‘ پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہئے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتاہے‘ وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتاہے‘ پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیأ کی‘ جس طرح حیأ کا حق ہے“۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: عقیدہ حیات النبی کی مختلف تعبیرات
Flag Counter