Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

53 - 756
اللہ تنادوا ھلمووا الخ اورمتبع احادیث سے احقر کو معلوم ہوا گو بندہ کو اس پر اطمینان نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اصول دعاء کو ثنائے باری اور سوال کے اندر محصور فرمادیاہے، ثناء جیسے تسبیح تحمید تہلیل تکبیر وحوقلہ ہے اور سوال یا تو سوال ماینفعہ ہے یا تعوذ عمایضرہ ہے، جس کے شعب میں استغفار اور صلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور تبرک باسماء ہ الحسنیٰ ثنا میں داخل ہے اور یہ بخدا جمل مفیدہ ہیں یا بصورت خبر یا بصورت انشاء اوربندہ ناچیز کی نظر میں کہیں تکرار اسم ذات بصورت افراد نہیں گزرا۔ایک حدیث میں اللہ اللہ ربی لااشرک بہ شیئا ہے، وہ بھی جملہ مفیدہ ہے اور حضرت سید کائنات کا ذکر اللہ کو ان الفاظ ماثورہ میں بیان فرمانا اور کہیں تکرار اسم ذات کا بصورت انفراد بیان نہ فرمانا عزبن عبدالسلام کا ضرور مؤید ہے ،ورود اثر اور بات ہے اور استنباط اور بات ہے، ہاں اگر تکریرجلالہ کو بحذف حرف ندا اختیار کی جائے تو ممکن ہے جملہ مگر سنت سے جب بھی ثابت نہیں اور شراح حدیث نے 
قاطبۃ ذکر اللہ سے الالفاظ التی ورد الترغیب فی قولھا ذکر کیا ہے فی فتح الباری:
 ’’والمراد بذکر اللّٰہ ھھنا الاتیان بالالفاظ التی ورد الترغیب فی قولھا والاکثار فیھا وقد یطلق ذکر اللّٰہ ویراد بہ المواظبۃ علی العمل بما اوجبہ اللّٰہ تعالیٰ او ندب الیہ کقراء ۃ القراٰن وقراء ۃ الحدیث ومدارسۃ العلم والتنفل بالصلوٰۃ ‘‘۔
پس اخیر میں گزارش ہے کہ حضرات چشتیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے یہاں جو اسم ذات کا وظیفہ معمول ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ طریقہ یوں رواج پاگیا ہو کہ نفی واثبات کرتے کرتے بعضے بزرگوں نے صرف الااللہ پر اکتفاء کیا اور پھر بوجہ ورود تجلیات کے الا بھی غائب ہوگیا رہ گیا فقط اللہ، بہر حال جو کچھ ہو بندہ نے عرض کردیا جو کچھ ارشاد ہو بالراس والعین ہے۔
الجواب :
توجیہ ابتداء تو وہی اقرب ہے جو آخر خط میں لکھی ہے ،باقی دلیل مشروعیت کی اگرنقل جزئی نہیں ہے اور حدیث لاتقوم الساعۃ حتی لا یقال فی الارض اللّٰہ اللّٰہ کو نقل جزئی نہ مانا جائے تو نقل کلی استنباط کے دعوی کی ضرور گنجائش ہے ،کما نقل عن کثیر من الاکابر فی السوال اور اس دعویٰ میں اختلا ف مضر نہیں کشان سائر الاجتھادیاتاور استنباط بھی ثبوت بالنص ہی کی ایک فرد ہے، فان القیاس مظھر لا مثبت اور گو اس صورت میں اس طریق ذکر کو طریق منقول صریح سے مفضول کہا جائے گا ،لیکن عارض نفع خاص کے سبب(کہ وہ دفع وساوس وجمع خواطر ہے جو کہ مشاہد ہے)بعض کے لئے اس کو عملا ترجیح دی جاسکتی ہے، جیسا کہ ایسے ہی مصالح کے سبب ذکر جلی کو ذکر خفی پر کہ دلائل سے اس کا افضل ہونا ثابت ہے ،اسی طرح اعلان صدقہ کو اخفاء صدقہ پر بعض کے لئے عملا راجح ہو نے کو فقہاء نے لکھا ہے اور اگر مستنبط بھی نہ کیا جائے ،جیسا ابن عبدالسلام کی رائے ہے ،مگر تاہم منہی عنہ بھی نہیں اور مشاہدہ سے اس کا جمع خواطر میں جو کہ مامور بہ ہے، معین ہونا معلوم ہے، پس مثل دیگر تدابیر امور مطلوبہ شرعیہ کے یہ بھی مطلوب ہوگا، ولو لغیرہ اور گو تقریرحرف ندا سب سے اچھی توجیہ ہے، مگر غالبا تاویل القول بما لایرضی بہ قائلہ میں داخل ہے اور نبیک کے تغیر پر انکار نہی نہیں ،ترک اولی پر انکار ہے اور ابن عمر ؓ کا انکار تغییر موظف پر ہے اور یہاں تکرار جلالہ کے وقت کوئی ذکر موظف نہ تھا ،پس ان دونوں کو مبحث سے مس نہیں۔ ۶جمادی الاخری ۱۳۳۷ھ

Flag Counter