Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

483 - 756
علیین میںہے اور جیسے اہل ارض کو کب سماء کی طرف نظر کرتے ہیں اور ہم کو شیخ ابا یزید کا یہ قاعہ پہنچا ہے کہ ان کے لئے مقامِ نبوت میں سے ایک سوئی کے ناکہ کے برابر کھل گی تھا اور وہ بھی کشف کے طور پر نہ کہ اس مقام میں داخل ہونے کے طور پر سو اس سے جل جانے کے قریب ہوگئے (اس میں تصریح ہے کہ اولیاء مقامِنبوت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ سو اگر وہ نبوت کے ساتھ متصف ہوتے تو داخل نہ ہونے کے کیا معنی اتصاف تو بدون دخول کے ممکن نہیں) اور اسی لئے اس قول کو نقل کر کے امام شعرانی کہتے ہیں کہ واللہ جس شخص نے شیخ پر افتراء کیا وہ کاذب ہے اور اس کی سعی ناکام ہے اور فتوحات کے باب میں چار سو باسٹھ میں فرمایا کہ جاننا چاہئے کہ ہم کو مقامِنبوت میں ذرا بھی ذوق نہیں تاکہ ہم اس پر کلام کر سکیں اس پر ہم صرف اسی قدر کلام کر سکتے ہیں جس قدر ہم کو مقام ارث سے عطا ہوا ہے کیونکہ ہم میں سے کسی کو مقامِ نبوت میں داخل ہونا ممکن نہیں ہم اس کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے نجوم آسمان پر (اس میں اولیاء اللہ سے ذوق نبوت تککی نفی کر دی جو دخول واتصاف سے بہت ادون ہے تو اتصاف کی نفی تو اس سے بدرجۂ ابلغ ہوگئی اور باب تین سو ترپن میں فرمایا کہ جاننا چاہئے کہ ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل اس پر نہیں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی احکام  کا وجود ہو ہمارے لئے صرف وحی الہام ہے (جو وحقی حقیقی مصطلح شرعی سے عام ہے جیسے آیت میں شہد کی مکھی وحی ثابت فرمائی گئی ہے آگے اس وحی حقیقی کی نفی پر دلیل فرماتے ہیں کہ ) لالہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تحقیق آپ کی طرف اور آپ سے پہلے لوگوں کی طرف وحی بھیجی گئی اور یہ نہیں ذکر فرمایا کہ آپ کے بعد کبھی بھی وحی ہے (اس میں وحی حقیقی کی نفی تصریحاً بھی فرمادی اور الہام کے وجود کو حصرکے ساتھ فرما کر بھی وحی حقیقی کی نفی کر دی) 
	اور رسالہ شہاب میں فتوحات سے نقل کیا ہے کہ آج بعد ارتفاع نبوت کے اولیاء کے لئے بجز خاص طرز کی تعلیمات کے (جن کی مثال عنقریب آتی ہے اور جو کہ احکام نہیں ہیںچنانچہ ان کیانتفاء کی دلیل اوپر گذری ہے اور اب بھی آتی ) اور کچھ باقی نہیں رہا اور اوامر ونواہی الٰہیہ کے ابواب بند ہو گئے ہیں پس جو شخص بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کا دعویٰ کرے وہ (وحی) شریعت کا دعویٰ کرتا ہے۔ جس کی اس طرف وحی کی گئی ہے خواہ ان اوامر ونواہی میں وہ ہمارے شرع کے موافق ہو خواہ مخالف ہو( ہر حال میں مدعی وحی شریعت کا ہے کیونکہ شریعت ان ہی اوامر ونواہی کا نام ہے اور وحی شریعت منقطع ہو چکی ہے اورانبیاء کے ساتھ یہی وحی خاص تھی) اور شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ بس معلوم ہوا کہ اولیاء کے لئے صرف وہ وحی رہ گئی جو الہام کہلاتا ہے بکون الاضافۃ للبیان۔اور فتوحات کے چودھویں باب میں ایک کلام طویل کے بعد فرمایا ہے کہ فرشتہ نبی پر دو حالت پر وحی لاتا ہے کبھی تو اس کے قلب پر نازل ہوتا ہے اور کبھی اس کے پاس خارج سے صورت جسد میں آتا ہے۔ آگے کہا ہے کہ یہ ایک باب ہے جو وفات نبوی کے بعد بند کر دیاگیا اور قیامت تک کسی کے لئے کھلئے گا۔ لیکن اولیاء کے لئے وہ وحی جس کی حقیقت الہام ہے باقی رہ گئی ہے جس میں تشریع (یعنی احکام) نہیں ہے وہ صرف ایسی باتوں سے متعلق ہوتا ہے جیسے کسی مسئلہ کی عدم صحت جس کی دلیل کی صحت کے بعد لوگ قائل ہوگئے ہوں اور اسی کے مثل اور کوئی بات( وہ مثال موعود قریب کی عبارت بالامیں یہی ہے) پس وہ اس پر اپنی ذات خاص عمل کر لیتا ہے (وہ بھی ظنی طور پر کما تقرر فی محلہ اور دوسروں پر بھی حجت نہیں تو اس کا درجہ مجتہد کے اجتہاد سے بھیکم ہوا کیونکہ وہ مقلد کے لئے حجت ہے چنانچہ یہ مضمون ایک خاص عنوان سے شیخ کے کلام سے بھی عنقریب فائدہ نمبر ۲ کے تحت میں نقل کروںگا اور ظاہر ہے کہ ایسے الہام سے کون شخص نبی ہو سکتا ہے کیا نبی کا درجہ مجتہد سے بھی کم ہوا کرتا ہے)۔ 
	اور فتوحات کے اکیسویں باب میں فرمایا ہے کہ جو شخص یہ کہے اللہ تعالیٰ نے اس کو کسی امر کا حکم دیا ہے سو وہ صحیح نہیں یہ محض تلبیس ہے اس لئے حکم دینا کلام کی قسم اور صفت ہے اور اس کا (یعنی کلام کا) دروازہ تمام آدمیوں کے آگے بند کردیاگیا ہے (کہ وہاں تک کسی کی رسائی 
Flag Counter