Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

273 - 756
 	کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس صورت میں کہ شادی کی تقریب پر تاشوں کا نچوانا کیسا ہے۔ تحفۃ المشتاق جواز لکھا ہے اور تحفۃ الزوجین میں عدم جواز کے متعلق درج ہے۔ ایک مرتبہ یہاں پر حضرت مولوی شیخ حسین صاحب انصاری بھوپال سے تشریف فرماہوئے تھے اس موقعہ پر تاشے پیش کر کے دریافت کیا گیا تھا تو جواز ہی کا حکم فرمایا تھا۔ آپ اس کے متعلق کیا فتویٰ دیتے ہیں چونکہ میری خصوصاً اور یہاں کے لوگوں کے نزدیک عموماً آپ کا فتویٰ معتبر ہے فلہذا اسکے متعلق شافی تحریر فرمائیں۔
جواب:
	 چونکہ مجھ کو کبھی اہتمام کے ساتھ اس مسئلہ کی تحقیق کا اتفاق نہ ہوا تھا اس لئے بنابر قول مشہور مذکور علی لسان الجمہور یہ سمجھتا تھا کہ شادی میں دف بجانا جائز ہے۔ دوسرے باجے نا جائز مگر تھوڑا زمانہ ہو اکہ ایک مضمون جو ضمیمہ اخبار الفقہ الجمہوریہ سمجھتا تھا کہ شادی میں دف بجانا جائز ہے۔ دوسرے باجے نا جائز مگر تھوڑا زمانہ ہوا کہ ایک مضمون جو ضمیمہ اخبار الفقہیہ امرتسر ۵نومبر  ۱۹۱۹؁ھ میں بعنوان ’’باجوں پر تحقیق کی ایک زبردست چوٹ‘‘ شائع ہوا ہے نظر سے گذرا تب سے متعارف ضرب دف کے جواز میں بھی شبہ ہوگیا اور احتیاطاً ترک اور منع کا عزم کرلیا افادہ عامہ کے لئے اس کی نقل کی جاتی ہے۔ وھو ھذا 
باجوں پر تحقیق کی ایک زبردست چوٹ
	کس قدر افسوس اور حسرت کا مقام ہے کہ حضور شارع علیہ السلام تو فرمائیں کہ خدا نے مجھے ہدایت کے واسطے رسول بنایا اور حکم دیا کہ تمام جہاں سے راگ باجہ شتادوں (رواہ ابوداؤد والطیالسی واللفظ لہ واحمد بن منبع واحمد بن حنبل والحارث) اور یہ بھی فرمایا کہ میری امت سے ایک قوم آخر زمانہ میں مسخ ہو کر سور بند ہو جائیں گے۔ اصحاب نے پوچھا کہ یہ لوگ مسلمان ہوں گے یا کون حضور نے فرمایا ہاں یہ سب مسلمان ہوں گے خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی شاہدت دیتے ہوں گے اورروزہ بھی رکھتے ہوں گے مگر آلات یعنی باجہ اور دف بجائیں گے اور گانا سنیں گے اور شراب پئیں گے تو مسخ کر دیے جائیں گے( رواہ منذر وابن حبان عن ابی ہریرۃ)
	ان احادیث کی رو سے تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ حضرات علماء جو شریعت کی حامل اور نائب رسول تھے۔ یہ لوگ پوری کوشش کر کے کل راگ وباجہ اٹھا دیتے مگر بجائے اس کے الٹی کوشش کے کسی نے ڈھولک وسارنگی کو قوالی کے ساتھ جائز کیا اور کسی نے دف کو مطلقاً جائز سمجھا اور تحریراً وتقریراً اس کا جوازشمائع کیا اور مولوی وحید الزمان سرگروہ غیر مقلدین نے تو اور غضب ڈھایا اپنی کتاب نزل الابرار جو باہتمام مولوی ابو القاسم بنارس میں چھپی ہے اس کے صفحہ تین میں صاف لکھ دیا ہے کہ شادیوں میں ہر طرح کا باجہ وگانا بہتر ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے اور جو حرام کہتا ہے وہ گمراہ ہے۔ انتھی انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اہل حدیث کا دعویٰ اور حدیث کی یہ قدر کیاور کھلم کھلا مخالفت رسول پر کمر باندھی ہے چونکہ ہمارے علماء اختلاف کل باجے وگانے کو حرام کہتے ہیں اور اس میں کسی کا خلاف نہیں ہے البتہ سماع کے ساتھ ڈھولک اور شادیوں میں دف بجانے میں اختلاف ہے لہٰذا ضرورت معلوم ہوئی کہ اس مسئلہ پر تحقیق کی پوری روشنی ڈالی جائے تاکہ حق اور باطل میں فیصلہ جائے اور برادران سنی حنفی کو اپنا مذہب معلوم ہو جائے۔ 
پہلی روشنی:

Flag Counter