Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

109 - 756
کے قیام کی بھی کوئی مستقل رائے قائم نہیں ہوئی۔ اب دریافت طلب یہ ہے کہ فتح پور میرا وطن رہا یا نہیں اور میں وہاں جا کر قصر کیا کروں یا اتمام۔ صرف اتنا تعلق میرا باقی ہے کہ نانی صاحب وہاں رہتی ہیں وبس۔ نیز نانی صاحب کے وہاں نہ ہونے کی صورت میں اگر کسی وجہ سے جانا ہو تو کیا حکم ہے ایسی حالت میں قنوج کا کیا حکم ہے قصر کیا کروں یا اہتمام۔ نکاح کر نے سے فقہاء اتمام کا حکم دیتے ہیں بشرطیکہ وہیں قیام کا ارادہ ہوجائے حتیٰ کہ اگر دو تین جگہ نکاح کر لئے اور عورت کو وہاں سے لانے کا ارادہ نہ ہو تو تینوں جگہ اتمام کا احکم ہے اور میری حالت یہ ہے جو مذکور ہوئی لہٰذا تردد ہی رہا کرتا ہے کہ مجھ پر قصر ہے یا اتمام۔
جواب:
	 فتح پور یقینا ایک زمانہ تک آپ کا وطن اصل رہ چکا ہے اب جب تک دوسرے مقام کو وطن اصلی بنانے کا عزم نہ کیا جائے گا وہ بدستور وطن اصلی رہے گا اور چونکہ ابھی اس پر آپکی رائے قرار نہیں پائی لہٰذا فتح پور میں اتمام واجب ہے، فی الدرالمختار الوطن الصلی یبطل بمثلہٖ وفیہ الاصل ان الشیٔ یطبل بمثلہٖ وبما فوقہ لا بما دونہ۔ اور اب تک مجھ کو اس مسئلہ میں شرح صدر نہیں ہوا کہ صرف تزوج سے وہ جگہ اس کے لئے وطن اصلی ہوجاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ تزوج سے جب کہ اہل کو وہاں سے لئے جانے کا ارادہ نہ ہو غالباً اس شخص کا بھی ارادہ اس کو وطن اصلی بنانے کا اور خود ہمیشہ کے لئے بودوباش کرنے کا ہو جاتا ہے اس بناء پر اس کو وطن بنانے کا سبب قرار دے دیا ہے ورنہ مدار خود اس کی نیت اتخاذ وطن اصلی پر ہے اگر میرا یہ سمجھنا صحیح ہے تب تو قنوج ہنوز آپ کا وطنِ اصلی نہیں بنا اور اگر مطلق تأمل سے وطنِ اصلی ہوجاتاہے تو وطنِ اعلی میں تعدد ممکن ہے جیسا کہ فقہاء نے تصریح کی ہے اس کے وطن اصلی ہونے سے فتح پور کا وطنِ اصلی نہ ہونا لازم نہیں آتا۔ قاضی خاں کی ایک جزئی میری مؤید ہے المسافر اذا جاوز عمران مصرہ الی قولہ ان کان ذلک وطنا اصلیاً بن کان مولدہ ومسکن فیہ اولم یکن مولدہ ولٰکنہ تٔھل بہ وجعلہٗ داراالخبڑھایا ہے جیسا کان مولدہ کے بعد وسکن فیہ بڑھایا ہے، پس جس طرح صرف کان مولدہ بدون سکن فیہ کے ونط اصلی نہیں بنتا۔ اسی طرح تاھل بہ سے بدون جعلہدارا کے وطن اصلی نہ ہوگا۔فافہم ۱۸ ربیع الاول  ۱۳۲۱؁ھ
چوتھی حکمت
تخصیص وجود اعادہ وبترک واجب داخل صلٰوۃ
سوالـ:
	ہماری کتب فقہ میں ہے کہ اگر فاسق یا بدعتی کے پیچھے نماز پڑحنے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آُ نے ادازت دی اور یہ نہیں فرمایا کہ پڑھ کے پھر اعادہ کر لیا کرو حالنکہ بلوائیوں سے زیادہ اور کون فاسق اور بدعتی ہوگا خصوصا ایسے بلوائی جنہوں نے خلیفہ بر حق امیر المؤمنین دامادِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم داخل عشرہ مبشرہ پر بلوہ کیا۔
جواب:
	 یہ روایت مجھ کو نہیں ملی اگر چہ حوالہ لکھا جائے تو تحقیق کی جائے البتہ در مختار میں یہ عاقدہ لکھا ہے واجباتِ صلوۃ میں کل صلوٰۃ ادیت مع کراہۃ التحریم تجب اعادتھا اور رد المحتار میں ہے اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کر کے تصحیح کے لئے یہ توجیہ کی ہے 
Flag Counter