Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 9 تا 15 مئی 2014

ہ رسالہ

8 - 11
یومِ شہداء کا پیغام / یومِ شہداء کا تقاضا
    تحریر مولانا محمد اسماعیل ریحان 
جس وقت یہ تحریر لکھی اُس دن 30 اپریل ہے… پورے ملک میں یہ دن سرکاری سطح پر ’’یومِ شہدائ‘‘ کے طورپر منایا جارہا ہے۔ ان جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جارہا ہے جنہوںنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے دیے۔ بلاشبہ یہ ان کاحق ہے کہ قوم انہیں یاد رکھے جو انہیں سلاکر خود بیدار آنکھوں کے ساتھ راتیں کاٹ دیتے ہیں۔ لازم ہے ہم ان کے شکر گزار ہوں جن کے دم سے وطن کی سرحدیں محفوظ ہیں۔ ایک ملک جہاں مسلمان بستے ہیں، جہاں مساجد قائم اور مدارس بحال ہیں، جہاں محراب و منبر سے حق کی آواز بلند ہورہی ہے، جہاں قادیانیوں سے جیسے غدارانِ ملت کو ان کے پورے اثر و رسوخ اور عالمی طاغوتوں کی سرپرستی کے باوجود آئینی طور پر غیرمسلم قرار دے دیا جاتا ہے، جہاں کے ایٹمی پلانٹ کو دنیا اسلامی ایٹم بم تصور کرتی ہے، جہاں سے پوری دنیا میں دعوت وتبلیغ کے لیے جماعتیں نقل و حرکت کررہی ہیں، جہاںکی اکثریت مسلمان اور اسلام پسند ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی غیرمسلموں کی غلامی قبول نہیں کرسکتی۔ ایسے ملک، ایسے وطن، ایسے خطے کو کفارکی دسترس سے بچائے رکھنا ایک دینی فریضہ کیوں نہ ہوگا؟
اگر کسی مسجد میں نمازِ عید کے لیے سینکڑوں مسلمان جمع ہوں جن میں پکے نمازیوں کے ساتھ دنیادار بھی شامل ہوں، بلکہ ماڈرن لوگ اکثریت میں ہوں، اس مسجد کا انتظام بھی دین کو صر ف نماز روزے تک محدود سمجھنے والے غیرمتشرع وضع قطع کے لوگوں کے ہاتھو ں میں ہو، بلکہ ان میں سے بعض سود خور، بعض رشوت خور اور بعض عوام پر ظلم و ستم کرنے والے افسران ہوں تو کیا اس سے مسجد کی حیثیت بدل جائے گی؟ کیا وہاں نمازیں ادا کرنے والے سب واجب القتل ہوجائیں گے؟

اگر ایسے میں کفار کا کوئی گروہ وہاں حملہ کردے تو کیا ہم اپنے ولی اللہ اور فرشتۂ صفت ہونے کی تسبیح پڑھتے ہوئے یہ سمجھ کر گھر میں بیٹھے رہیں گے کہ مسجد بے دین لوگوں کی ہے، نمازی بھی بے دین ہیں۔ اس کی حفاظت اسلام ہے نہ وہاں مرناشہادت۔ مسجدہی نہیں اگر بازار میں جمع ہونے والے کلمہ گو مسلمانوں پر ایسی اُفتاد آجائے تو کیا اس کا دفاع ایک شرعی و اخلاقی ذمہ داری نہ ہوگی؟ کیا اس ذمہ داری کو انجام دیتے ہوئے کام آنے والے شہید نہ ہوں گے؟
پس وطن کی حفاظت بلاشبہ ایک دینی فریضہ ہے۔ اس کی خاطر اپنا لہو نچھاور کرنے والے واقعی اس قابل ہیں ان کی قربانیو ں کو موقع بموقع یاد کرکے اپنے لہو کو گرمایا جائے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں 1948ء میں گرم ہونے والا محاذِ کشمیر جب انڈیانے اپنی افواج برطانوی جرنیلوں کی قیادت میں کشمیر میں داخل کیں اور وہاں غاصبانہ قبضہ کیا۔ کشمیر کے مسلمان اکثریت میں ہوتے ہوئے ہندو اقلیت کی غلامی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ وہ اپنی خودارادیت کی حفاظت کے لیے میدان میں اُترے۔


ہمیں 1965ء کی جنگ بھی یاد ہے جب بھارتی سینا نے راتوں رات دھاوا بول کر پاکستان کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت سرحدوں پر تعینات ہمارے جوانوں نے جان پر کھیل کر وطن کا دفاع کیا

اہلِ پاکستان نے ایک ملت اور ایک دین کے پیروکار ہونے کے ناطے ان کی مدد کی۔ محاذِ جنگ کی حرارت بڑھی۔ قبائلی جوانوں کی پیش قدمی مظفرآباد سے سری نگر کی طرف ہونے لگی تو انڈیا کو دن میں تارے دکھائی دینے لگے۔ اقوام متحدہ ہکا بکا رہ گئی۔ فوراً مذاکرات کا ڈول ڈال کر جنگ رُکوائی گئی۔ ورنہ کشمیری مسلمان اپنا آزاد وطن لے چکے ہوتے۔ تب سے آج تک کشمیر کا محاذ بند نہیں ہوا۔ پاکستان کو اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ لائن آف کنڑول پر تعینات رکھنا پڑتا ہے جس میں سیاچن جیسے دنیا کے سرد اور بلند ترین نقاط بھی شامل ہیں۔ ایسے مقامات پر موسم سے جنگ ہی کچھ کم نہیں ہوتی چہ جائے کہ دشمن بھی سامنے ہو اور ہر وقت جھڑپوں کا خطرہ لاحق رہتا ہو۔ کتنے ہی وطن کے سجیلے جوان یہاں برفانی تودوں کے نیچے دب گئے۔ کتنے ہی دشمن کے حملوں کی زد میں آکر ملت پر قربان ہوگئے، مگر جیتے جی دُشمن کو ایک انچ آگے نہیں سرکنے دیا۔
ہمیں 1965ء کی جنگ بھی یاد ہے جب بھارتی سینا نے راتوں رات لاہور، واہگہ، سیالکوٹ اور قصور کے محاذوں پر بیک وقت دھاوا بول کر پاکستان کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت سرحدوں پر تعینات ہمارے جوانوں نے جس طرح جان پر کھیل کر وطن کا دفاع کیا وہ اُمت کی تاریخ کا ایک سنہرا ورق بن چکا ہے، تاہم اگر کوئی ان سنہرے اوراق کو بھلا بھی دے تواس سے شہیدوں کے مقام و مرتبے میں کوئی کمی نہیں آجاتی۔ شہادت خود ایک ایسا رُتبہ ہے جس کی آرزو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے سارے گناہ معاف ہونے کا مژدہ زبانِ رسالت دے چکی ہے۔ احادیث میں یہ بھی ہے کہ شہید کی شفاعت اُمت کے 70 افراد کے بارے میں قبول ہوگی۔ یہ بھی ہے کہ شہید کی اروح سبز جنتی پرندوں کے قالب میں سرایت کرکے جنت کے باغات کی سیر کیا کرتی ہیں۔
کتنی بشارتیں ہیں ان شہداء کے لیے جو اللہ کے دین کے لیے اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرتے ہوئے اپنی جانیں دیتے ہیں، بشرطیکہ یہ جاں سپاری خلوصِ نیت کے ساتھ ہو۔ اللہ کی رضا، دین کی بقا اور ملت کی فلاح کے سوا کوئی اور غرض اس میں شامل نہ ہو۔ ورنہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے والے بعض منافقین نے بھی تو موت کو گلے لگایا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بشارت دی نہ خوشخبری، بلکہ کہا کہ وہ جہنم میں ہے۔ تحقیق کی گئی تو لاش کے لباس سے چند روپوں کے معمولی موتی نکلے جو اس نے مالِ ـغنیمت سے چرائے تھے، چونکہ نیت خالص نہ تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت بھی اس کے جہاد کوعنداللہ مقبول نہ بناسکی۔
ایک اُمتی کی حیثیت سے ہم کسی کی نیت پر شک کرسکتے ہیں نہ اس کے جہاد یا شہادت کو غیرمقبول قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔ حسنِ ظن کا تقاضا یہی ہے کہ شرعی طور پر مطلوب مقاصد کے لیے جان دینے والے سبھی بھائیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔ واقعی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی جانیں کسی نیک مقصد کے لیے استعمال ہوگئیں۔ ان میں سینکڑوں ایسے ہیں جنہیں تمغے جاری ہوتے ہیں اور اخبارات میں ان کے نام آتے ہیں۔ ان کی تصاویر چھپتی ہیں اور فیچر شایع ہوتے ہیں۔ ان میں میجر عبدالعزیز بھٹی بھی ہے جو سخت گرمی میں بھی روزے رکھ کر چالیس چالیس میل پیدل مارچ کرتا تھا۔ جس کی جرأت و بسالت نے انڈین آرمی کو 1965ء میں چھٹی کا دودھ یاد دلادیا تھا۔ ان میں کیپٹن سرور، میجر شبیر شریف اور میجر طفیل بھی ہیں جو وطنِ عزیز کی حفاظت کو ایک مقدس فرض مانتے ہوئے اس پر نثار ہوئے۔ ان میں ہزاروں ایسے ہیںجن کے نام کسی ریکارڈ میں ہیں، جن کا کوئی پرسانِ حال ہے جن کے گھروں کو حکومت سے پنشن مل رہی ہے، مگر ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ وطن کی سرحدوں پر قربان ہونے والے اَن گنت جوان ایسے گمنام ہیں کہ کوئی انہیں جانتا ہے نہ ان کے خاندان کو۔ کوئی ان کی ذمہ داری قبو ل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کون کہہ سکتاہے کہ کشمیر کی جنگ پاکستان کی جنگ نہیں۔ 1948ء سے لے کر اب تک کشمیر کے محاذ پر جتنی قربانیاں دی گئی ہیں وہ پاک بھارت تین جنگوں میں مجموعی طور پر نہیں دی گئیں۔
یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس محاذ پر فوج سے زیادہ سویلین رضاکار کام آئے ہیں۔ کوئی شہدائے کشمیر کے گھرانوں کا کھوج لگا کر ذرامعلوم توکرے کہ وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں؟ یہ ایک دو نہیں سینکڑوں خاندانوں اور ہزاروں افراد کا مسئلہ ہے۔ ’’یوم شہدائ‘‘ کا تقاضا ہے کہ ہم شہداء کے گھرانوں کا حال احوال معلوم کرکے ان کی مستقل کفالت کا انتظام کریں۔ کیا ہمارے لیے شرم کی بات نہیں کہ شہداء کی بیوائیں گھر کا خرچ چلانے کے لیے دوسروں کے گھروں میں ماہانہ 2 یا اڑھائی ہزار پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے معصوم بچے مزدوریاں کرکے یومیہ 25، 30 روپیہ لاکر ماں کی ہتھیلی پر رکھتے ہیں۔ ان کی بچیاں اپنے باپ کو یاد کرکے روتی ہیں کہ ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں۔ کیا اپنے محسنوں کے گھرانوں کا یہ حال ہمارے لیے باعثِ عار نہیں؟ یہ ان شہداء کے ساتھ کتنی بڑی بے انصافی اور کتنی سخت ناقدری ہے جن کی زندگیاں ہماری حفاظت کی ضمانت بنی رہیں۔
Flag Counter