تاریخ کے سازشی کردار
تحریر اشتیا ق احمد
افواہوں والے کالم میں ذکر کیا تھا کہ سا زشیں کرنے والے افواہوں سے کام لیتے ہیں، کیونکہ افواہوں کے پیر نہیں پر ہوتے ہیں۔ یہ ایسے اُڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہیں کہ کوئی تیز ترین سواری بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی... تاریخ کے ایک بد ترین کردار سے ملیے۔ نام ہے ’’عبدا للہ بن سبا‘‘... عملاً یہودی تھا... یمن کے شہر صنعا کا باشند ہ تھا۔ وہی شہر جس میں مصنوعی کعبہ بنایا گیا تھا اور طواف کر ایا گیا تھا... ہاں تو عبد اللہ بن سبا بھی یہیں کا تھا... اس شخص نے حضرت عثمان غنیؓ کے عہد میں مسلمان ہونے کا اعلان کیا... یعنی جھوٹا اعلان، اصل میں تو مسلمان کا روپ دھا کر افواہوں کے دوش پر سا زشوں کا بیج بونا چاہتا تھا۔ اسلام کی کشتی میں سوراخ ہی سوراخ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں اپنا کام جس ڈھنگ سے شروع کیا، ہم اس کی جھلک ذرا ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں... کیونکہ ہمارا دور بھی ڈرامائی دور سے اور ہم ڈراموں کے بہت رسیا ہیں... لہٰذا ڈراموں کی زبان میں بات کرتاہوں...
عبداللہ بن سبا اپنے گھر میں بہت بے چینی سے ٹہل رہا تھا کہ دو آدمی اندر داخل ہوئے... اس نے بے تابانہ انداز میں کہا: ’’بہت دیر کر دی، کیا خبر ہے؟ مسلمانوں نے کسے خلیفہ چنا ہے؟‘‘ ’’عمر (رضی اللہ عنہ) نے مرنے سے پہلے 6 آدمیوں کے نام لیے تھے... کہ خلیفہ ان میں سے ہو گا... ان 6 نے 2 آدمیوں کے بارے میں اتفاق کر لیا یعنی خلیفہ عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بنایا جائے یا علی (رضی اللہ عنہ)۔ آخر کار عثمان (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ چنا گیا ہے۔ تمام مسلمانوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے...
کسی نے اس کے خلیفہ بننے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘‘
عبدا للہ بن سبا یہ سن کر اچھلا او ر کہنے لگا: ’’اب آئے گا مزہ ! عمر میں حد درجے سختی تھی... وہ کسی سے ذرا بھی نرمی نہیں کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے بیٹے کو بھی سزاد ی، لیکن عثمان نرم آدمی ہے... اب ہمارا کام آسان ہو گیا ہے... میں ساز ش کا ایسا جال بنوں گا جو آیندہ نسلوں تک مدد گار ثابت ہو گا... میں اسلا م پر ایسا زخم لگائو ں گا جو قیامت تک نہیں بھر سکے گا... لیکن ابھی میں انتظار کروں گا... حکومت میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے دو... پھر میں حرکت کروں گا۔‘‘
عبداللہ بن سبا گھوڑ ے پر اُڑا جا رہا تھا... آخر ایک گھر کے دروازے پر وہ اترا... گھر کے مالک نے اسے حیرا ن ہو کر دیکھا۔ اس سے پوچھا : ’’کون ہو بھائی؟‘‘ ’’عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’پہلے تم اپنا نام بتائو۔‘‘ ’’میں حکیم بن عبد اللہ ہوں۔‘‘ ’’اور میرا نام عبد اللہ ہے... باپ کا نام پھر بتائوں گا، مسافر ہوں، بہت دور سے آیا ہوں... کیا بصریٰ کے لوگ مہمانوں کو بٹھاتے بھی نہیں۔‘‘ حکیم بن عبداللہ نے چونک کرکہا: ’’ایسی کوئی بات نہیں... آپ اندر آجائیں۔‘‘ مہمان کی خاطر تواضع کے بعد حکیم بن عبداللہ نے کہا: ’’ہاں ! اب بتائیے آپ کون ہیں، آپ کو مجھ سے کیا کام ہے۔‘‘ اب عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’مجھے آپ کے دوست سے کچھ کام ہے، لیکن میں خود اس کے گھر نہیں جانا چاہتا... آپ ذرا اسے بلا کر لے آئیں... میں آپ کے دوست حکیم بن جبلہ کی بات کر رہاہوں... جسے خلیفہ عثمان کے حکم سے شہر میں نظر بند کر دیا گیا ہے... یعنی وہ شہر سے باہر نہیں جا سکتا، فی الحال گھر سے باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں، وہ آپ کا بچپن کا دوست ہے، آپ کو تحفے تحائف بھی دیتا رہا ہے نا... میں بھی آپ کے لیے ایک تحفہ لایا ہوں... یہ دیکھیے... ایک چھوٹا سا ہیرا چند اشرفیاں۔‘‘ ’’اوہ شکریہ... حکیم بن جبلہ واقعی میرا دوست ہے... آپ کی معلومات پر مجھے حیرت ہو رہی ہے، خیر میں اسے بلالاتا ہوں، آپ اپنا پورا نام بتا دیں۔‘‘ ’’راز داری کی وجہ سے میں ابھی پور انام نہیں بتا سکتا، احتیا ط ضروری ہے۔‘‘ ’’اچھی بات ہے... میں اسے لے آتا ہوں۔‘‘
جلدہی حکیم بن جبلہ اندر داخل ہوا۔ عبداللہ بن سبا کو دیکھ کر اچھل پڑا... اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا، خود وہ نقاب میں چہرہ چھپاکر آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں د و دھاری خنجر تھا... اس نے سرد لہجے میں کہا:
’’تم کون ہو؟ مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘ میں کسی عبداللہ کو نہیں جانتا... خلیفہ عثمان نے میرے بارے میں بصریٰ کے گورنر کو ہدایات جاری کی ہیں کہ مجھ پر نظررکھے... ایک طرح سے میں گھر میں نظر بند ہوں... ان حالات میں اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ میں نے کسی سے ملاقا ت کی ہے تو گورنر مجھے طلب کر لے گا۔‘‘ اب عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’میںعبداللہ بن اسود ہوں... میرا دوسرا نام عبداللہ بن سبا ہے۔‘‘ یہ سن کر حکیم بن عبداللہ اچھل پڑا... پھر وہ بیٹھ گیا... اس نے دبی آواز میں کہا: ’’ہاں ! میں آپ کو جانتا ہوں، آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن سبا مسکرایا، پھر اس نے کہا: ’’حکومت کی نظروں میں آپ اچھے آدمی نہیں ہیں... سازشی ذہن کے ہیں، اسی لیے مجھے آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو حکومت کی نظروں میں اچھے نہ ہوں۔‘‘
’’ہاں ! میں اس حکومت کے خلاف ہوں، اس حکومت نے میری آزادی چھین لی ہے، حالانکہ میرا جرم اتنا سا ہے کہ میں نے اسلامی لشکر میں شامل ہو کر کچھ ذمیّوں کو لوٹ لیا تھا... اب چونکہ ذمیّوںکی حفاظت مسلمانوں کے ذمّے ہے، اس بنیاد پرمیری شکایات گورنر تک پہنچیں... اس نے تفصیلات لکھ کر خلیفہ کو بھیج دیں، اس نے مجھے نظر بند کرنے کا حکم دے دیا، لہٰذا میں بھی اب اس حکومت کے خلاف ہوں... تم مجھ سے کیا کام لینا چاہتے ہو۔‘‘ عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’میرے پاس ایک پروگرام ہے... لیکن پروگرام حد درجے خفیہ ہے... ورنہ ہماری گردنیں ماردی جائیں گی۔‘‘ جواب میں عبداللہ بن جبلہ نے کہا: ’’عبداللہ بن حکیم میرا دوست ہے، یہ بھی ہمارا ساتھی ہوگا۔‘‘ عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’بس تو پھر، فی الحال ہمار ی یہ جماعت تین آدمیوں کی ہو گی، جو کام بھی کریں گے خفیہ کریں گے...کسی کے سامنے کھل کر نہیں آئیں گے... میں جانتا ہوں تم بھی میری طرح نام کے مسلمان ہو... تم نے ذمیّوں کو اسی لیے تو لوٹا تھا کہ مسلمان ذمیّوں میں بدنا م ہو جائیں... یہ بات مشہور ہو جائے کہ مسلمان جو وعدہ کرتے ہیں، اسے پورا نہیں کرتے... اس طرح ان کی ہوا اکھڑ ے گی، یہی تھا نا تمہارا منصوبہ؟‘‘ عبداللہ بن جبلہ نے جلدی جلدی کہا: ’’ہاں !یہی تھا۔‘‘
’’اچھا منصوبہ تھا... اب میرا منصوبہ سنو! مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے... مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دو... ہم مسلمانوں کے خلیفہ کے بارے میں افواہیں اڑائیں گے، خلیفہ کو بدنام کریں گے، ان پر الزامات لگائیں گے، ان پر الزامات عاید کریںگے... میں نے اپنی یادداشت میں تم دونوں کے نام سب سے اوپر لکھ لیے ہیں... حالات دیکھ کر میں تمہیں بتائوں گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے... وقت کے ساتھ ساتھ میری ہدایات ملاکریں گی... یہ کچھ اشرفیاں رکھ لو... ان معاملات میں خرچ بھی کرنا پڑتا ہے...‘‘
اس پر حکیم بن جبلہ نے کہا: ’’تو کیا آپ اور لوگوں کو بھی اس طرح اشرفیاں دیں گے... آپ اتنی اشرفیاں کہاں سے لائیں گے؟‘‘ عبداللہ بن سبا مسکرایا۔ پھر اس نے کہا: ’’تما م یہودی ان سازشوں میں میری مدد کررہے ہیں... ہم مسلمانوں کانام ونشان دنیا سے مٹا دیںگے... لہٰذا تم اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس دولت کہاں سے آئے گی۔‘‘ پھر عبداللہ بن سبا منہ چھپائے رات کی تاریکی میں نکل گیا... اس طرح وہ منزلوں پر منزلیں مارتا رہا... پھر ایک وقت آیا، وہ ایک سرائے میں لوگوں سے یہ کہتا نظر آیا... ’’بھائیو ! کیا یہ بات درست نہیں کہ عیسؑیٰ دنیا میں دوبارہ آئیں گے... تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عیسؑیٰ تو دنیا میں دوبارہ آئیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نہ آئیں... جب کہ افضل آپ ہیں، لہٰذا میں کہتا ہوں، آپ ضرور دنیا میں دوبارہ آئیں گے... دیکھیے! ہر نبی کا ایک خلیفہ اور ایک وصی ہوتا ہے اور حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کے وصی حضرت علیؓ ہیں... جس طرح آپ آخری نبی ہیں، خاتم الانبیا ہیں، اسی طرح حضرت علیؓ خا تم الاولیا ء ہیں یعنی وہ آخری وصی ہیں... وصی کا مطلب ہے جس کے بارے میں وصیت کی گئی ہو... اب جب آپ کے وصی حضرت علیؓ ہیں اور آپ نے ان کے حق میں یہ وصیت کی ہے تو پھر ان کے ہوتے ہوئے دوسروںؒ کو خلیفہ بنانا کہاں کا انصاف ہے...؟ یہ توکھلی نا انصافی ہے... حضرت علیؓ کے ساتھ سخت نا انصافی ہوئی ہے... خلافت انہیں ملنی چاہیے تھی... یہ حق ان کا تھا جب کہ دیا گیا ابو بکر کو، پھر عمر کو اور ان کے بعد عثمان کو... خیر پہلے دو تو دنیا سے رخصت ہو چکے، لیکن عثمان تو زندہ ہیں... اصل حق دار کی موجودگی میں وہ خلیفہ بنے ہوئے ہیں... لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ حضرت عثمانؓ کو خلافت سے ہٹایا جائے اور ان کی جگہ حضرت علیؓ کو خلیفہ بنا دیا جائے۔‘‘
اس طرح یہ بحث شروع ہوئی... جلدہی وہ ایک اور شہر میں نظر آیا... وہاں اس نے لوگوں سے اسی قسم کی باتیں شروع کیں۔ ساتھ میں یہ بھی کہ لوگ حضر ت عثمانؓ کو پسند نہیں کرتے... اگر کوئی کہتا: ہم نے تو ایسی کوئی بات نہیں سنی تو کہتا، تو پھر جو لوگ ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں... ان سے خبر دار تو رہنا چاہیے... اس طرح حضرت عثمانؓ کے بارے میں باتیں ہونے لگیں... وہ دمشق کے شہر شام میں پہنچا تو وہاں بصریٰ کے لوگوں کے بارے میںکہا کہ بصریٰ کے لوگ ایسی ایسی باتیں کہہ رہے ہیں... کوفے گیا تو وہاں کے لوگوں سے کہا، دمشق کے لوگ ایسا ایسا اور ایسا کہہ رہے ہیں... اس طرح افواہوں کا بازار اس نے گرم کر کے رکھ دیا... غرض جس شہر میں جاتا، وہاں اپنے خیالا ت کے شوشے چھوڑ جاتا... مصر پہنچا تو اس نے وہاں کے لوگوں سے کہا: ’’تمہیں کچھ خبر بھی ہے... میں کوفہ، بصریٰ، شام سے ہو کر آرہا ہوں، وہاں لوگوں میں ایسی ایسی اور ایسی باتیں پھیل رہی ہیں۔‘‘ مصر کے لوگوں نے کہا: ’’ایسی باتیں یہاں تو سننے میں نہیں آئیں۔‘‘
ان باتوں کے جواب میں وہ لوگوں کو خطوط دکھاتا... جو اس کے اپنے آدمیوں نے اسے اور اس نے اپنے آدمیوں کو لکھے تھے... ان کا مضمون اس قسم کاتھا... ’’یہاں کے گورنر نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں... رعایا کی کوئی خبر گیری نہیں رکھتے... انہوں نے لوگوںکا جینا حرام کر رکھا ہے... لوگ حضرت عثمان کی خلافت پر اعتراضات کر رہے ہیں... اور بر ملا کہہ رہے ہیں... خلافت کے حق دار تو حضرت علیؓ ہیں۔‘‘
اس قسم کے خطوط شہروں میں گردش کرنے لگے... حالانکہ اس میں سچ بالکل بھی نہیں تھا...لیکن آہستہ آہستہ یہ زہر پھیلتا چلا گیا... افواہوں نے رفتار پکڑ لی۔ پھر حضر ت عثمانؓ پر اعتراضات گھڑے گئے... ان کاخوب چرچہ کیا گیا... یہاں تک کہ مصر سے ایک وفد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا... ا س میں کوفہ اور بصریٰ کے لوگ بھی شامل تھے... انہوں نے اپنے کچھ مطالبات طے کیے تھے... تحریری شکل میں لکھ کر لائے تھے... حضرت علیؓ کے سمجھانے پر یہ لوگ واپس لوٹ گئے، لیکن اس وفد کو راستے میں ایک شخص ملا... اس کے پاس ایک خط تھا... خط پر حضر ت عثمانؓ کی مہر تھی... وہ خط مصر کے گورنر کے نام تھا... گورنر کو لکھا گیا تھا کہ جب یہ وفد مصر میں واپس پہنچے تو ان سب کو قتل کر دیا جائے... یہ خط پڑھتے ہی وہ وفد واپس پھر مدینہ کی طرف لوٹ آیا... حضر ت عثمانؓ کے علم میں جب یہ خط لایا گیا تو آپ نے فوراً فرمایا: ’’یہ خط میں نے نہیں لکھا۔‘‘ یہ جعلی خط بھی دراصل عبداللہ بن سبا کی جماعت کے کسی شخص کا لکھا ہوا تھا... ان لوگوں نے حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ کی طرف سے اسی قسم کے کئی جعلی خط لکھ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجے تھے... بعد میں اسی حربے سے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ میں جنگ کر ا دی تھی... حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ میں جنگ ہو ئی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ صرف اور صرف افواہوں کو بنیاد بنا کر اس بنیاد پر افواہوں کی اینٹوں سے عمار ت کھڑی کی۔
حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا گیا... اس شہادت کے بعد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں کاسلسلہ ختم نہیں ہو سکا... آج بھی ہمارا ملک ان سازشوں اور افواہوں کا شکارہے... الیکٹرانک میڈیا نے ایسے لوگوں کا کام آسان بنا دیا ہے... افواہوں کی رفتار تو 14 سو سال پہلے ہی بہت تھی... اس دور میں تو اس کی رفتار کا احاطہ کرنا ہی ممکن نہیں رہا... اللہ تعالیٰ رحم فرمائے... آمین۔