Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 9 تا 15 مئی 2014

ہ رسالہ

5 - 11
مزار کے بدلے مجسّمے
    تحریر مفتی ابولبابہ شاہ منصور 
زمانہ بھی کیسے کیسے دن دکھاتا ہے؟ ایک ہی چیز کا ایک پہلو کیسا ہوتا ہے اور دوسرا کیسا؟ اس کی ایک جھلک آج کی محفل میں دیکھیے گا، مگر ذرا دل تھام کر اور افراط و تفریط سے بچ کر، کہ یہ تحریر ہے ہی غلو و مبالغہ کے منفی نتائج سے آگاہی کے لیے۔
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی عقیدت کا حال یہ ہے کہ جس چیز کی ادنیٰ نسبت بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ہو، وہ اس سے عقیدت ومحبت کے اظہار میں بچھے جاتے ہیں۔ صرف لاہور شہر میں ایک درجن سے زیادہ حضرات ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ’’اصل موئے مبارک‘‘ موجود ہے۔ اس کی کوئی سند ان کے پاس نہیں کہ یہ تبرک ان تک کس ذریعے سے پہنچا؟ کس شخصیت نے کس شخصیت سے حاصل کر کے کس سلسلۂ سند سے ان کو یہ عظیم متبرک امانت سپرد کی؟ کسی کی طرف سند کے بغیر نسبت کردینا انتہائی بے احتیاطی ہے، ایسا تو آثارِ قدیمہ والے نہیں مانتے۔ چہ جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف غیر محتاط نسبت جس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ دنیا میں جتنے مستند آثارِ قدیمہ ہیں، ان میں سب سے مستند ترین اسلامی آثارِ قدیمہ (حجر اسود، مقام ابراہیم، صفا مروہ، زمزم، وغیرہ) ہیںجن کے استناد کی مثال روئے زمین پر نہیں، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی روایت اور ثقافت برقرار رکھتے ہوئے آپؐ کی ذاتِ اقدس کی طرف کسی چیز کی نسبت کو پوری طرح پرکھے، جانچے بغیر ہر گز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے ایمان وعقیدہ اور ہماری عقیدت وعشق کا تقاضا ہے۔

لاہور کی شاہی مسجد میں موجود تبرکات کی سند مفقود تھی، مگر حیرت انگیز طور پر شہر بھر میں ایک درجن سے زائد مقامات پر زرِ کثیر خرچ کر کے (بعض راویوں کے مطابق 10 سے 20 لاکھ تک خرچ کر کے) مواجہہ شریف کی مصنوعی شبیہ بنائی گئی ہے

، جس کے دروازے سے داخل ہوں تو اندر اندر عود و لوبان کی دھونیوں میں رچے بسے حجرے میں موئے مبارک کی زیارت کروائی جاتی ہے۔ احقر جس حد تک معلومات کرسکا ہے یا معلومات کرنے والوں کو بھیجا ہے ’’موئے مبارک‘‘ کی اصلیت کا دعویٰ کرنے والے حضرات میں سے اب تک کوئی صاحب اس پر تیار نہیں ہوئے کہ اس عظیم تبرک کے حصول کی ’’غیرمسلسل سند‘‘ یا پہلے تین واسطے ہی بیان کرسکیں۔ ’’سند مسلسل‘‘ لانا تو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔
ہمارے ایک کرم فرما تو ایسے حضرات کی کسی اور انداز میں ان کی غیرمطلوب عقیدت کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ وہ ان سادہ لوح حضرات سے کہتے ہیں کہ علمی و تاریخی سند نہیں تو کسی علامت یا قرینہ ہی سے جانچ لینا چاہیے۔ آؤ چلو! اس تبرک کو لے کر دھوپ میں چلتے ہیں۔ اس پر بادل سایہ کرتا ہے یانہیں؟ اس تبرک کا اپنا سایہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر دھوپ میں سائے کا پتہ نہ چلے تو ہم اندھیرے میں پس منظر میں پردہ تان کر مختلف زاویوں سے ٹارچ یا بلب کی روشنی ڈالتے ہیں، سایہ ہوتا ہے یا نہیں؟ درود شریف پڑھنے پر اس میں حرکت ہوتی ہے یا نہیں؟ سال بہ سال اس کی افزائش ہوتی ہے یا نہیں؟ اس طرح کے مختلف سوالات وہ کرتے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ یہ سوالات کس حد تک معیاربن سکتے ہیں؟ لیکن لاسند حضرات اکثر لاجواب ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف تو سرکار ِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت مبارکہ کا یہ عالم ہے کہ اُمتی بس اتنا سن لیں کہ اس چیز کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، بے تاب ہوجاتے ہیں۔ تحقیق اور استناد کی پروا نہیں کرتے۔ ایسا افراط ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ تھا، نہ ان کی تعلیمات میں ایسے غالیانہ جذبات کی حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ جزیرۃ العرب، ارضِ حرمین اور دارالتوحید (مکہ مکرمہ) و دارالہجرۃ (مدینہ منورہ) میں جو مقدس ومستند آثار تھے، مٹائے جارہے ہیں۔ تڑپتے اُمتیوں کی ترستی آنکھوں کا آخری قرار نابود ہورہا ہے۔ دنیا کے ستائے ہوئے یہ محمدی جب تھکے ہارے ارضِ قرآن اور اور ارضِ وحی میں پہنچتے ہیں تو ہر آنے والے سال نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مستند و ثقہ ترین اسناد کے ساتھ منسوب کسی نہ کسی چیز کو ختم ہوتا، اجڑتا، اور منہدم ہوا پاتے ہیں۔ وہ جگہیں جن پر محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لمس کی وجہ سے رحمتِ الٰہی موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے، وہ روئے زمین سے ختم کی جارہی ہیں، لہٰذا گناہوں کی ظلمت ونحوست سے زمین و فضا اَٹ گئی ہے، جبکہ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے حاصل ہونے والی برکتیں اور رحمتیں کم یا ختم،مفقود یا معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ بات دوطرفہ ستم کی ہوتی تو سہہ بھی لیتے، یہاں تو مزاج اور نظریے کی انفرادیت سہ طرفہ یلغار کررہی ہے۔
اور سمجھ نہیں آتا کہ یہ افراط وتفریط کہاں لے جائے گی؟ پہلے یہ خبر، یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ پھر مل کر آہ و زاری کریں گے: ’’آپ کو معلوم ہے کہ حجاز میں تمام آثارِ قدیمہ نابود اور سلطنت عثمانیہ کے تعمیر کردہ تاریخی قلعے مسمار ہوچکے ہیں۔ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مکانات کی جگہ کار پارک بن گئے ہیں، البتہ سعودی عرب اب روم کے کھنڈرات کی تعمیر نو پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے والا ہے۔ روم کے وسط میں شہنشاہ آگسٹس کا خستہ حال مزار ان دنوں خانہ بدوشوں، طوائفوں اور بے گھر لوگوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ روم کا میئر کشکول لے کر ریاض گیا۔ ایک سعودی شہزادے سے ملا اور کروڑوں ڈالر کا عطیہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ معاہدہ طے پایا کہ روم کا میئر ایک شاہکار مجسمہ جس کا نام ’’The Dying Gaul‘‘ ہے۔ ریاض میں چند ماہ کی نمائش کے لیے عاریتاً دے گا۔ روم کا میئر سعودی عرب نو قدیم عمارتوں کی فہرست لے کر گیا تھا، لیکن میزبانوں کی نظر کرم صرف آگسٹس (Augustus)کے مزار پر پڑی۔ یہ روم کا پہلا شہنشاہ تھا جس نے 31 قبل مسیح میں انتھونی اور افسانوی حسن کی مالک قلو پطرہ (Cleopatra) کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا اور بادشاہ بن گیا۔‘‘(روزنامہ دنیا، 22-04-2014، یورپ کی سیر، نسیم احمد باجوہ)

اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن! یعنی ارضِ اسلام وارضِ نبوت سے تو اسلامی آثار اور نبوی یادگاریںدنیا بھر کے مسلمانوں کے آہ وفغاں کے باوجود منہدم کرنے کا عمل جاری ہے۔ ارضِ شرک وحرب میں مشرک بادشاہوں کے مزارات کی تعمیرات جیسے کارِ خیر کے لیے کروڑوں ڈالر کا ’’صدقہ وخیرات‘‘ معاہدے کے تحت ہورہا ہے۔ معاہدے کے عوض میں ملے گا کیا؟ معلوم کیا تو پتا چلا’’The Dying Gaul‘‘ ایک مرد کا برہنہ مجسمہ ہے۔ مجسمہ اور وہ بھی مادرزاد برہنہ حالت میں۔ یعنی ایک مشرک کا یادگاری مجسمہ بمع تمام اعضائے خفیہ و مستور ہ کے ارضِ اسلام میں لایا جائے گا۔ مردوزن، بچے بوڑھے اس کی پرویزی زیارت سے مشرف ہوں گے۔ یہ کیسی توحید ہے کہ شرک وبدعت پھیلنے کے ڈر سے تو آثارِ مقدسہ کا وجود گوارا نہ ہواور مشرکین کے مرکز شرک مزارات کی تزئین وآرائش اس اجر کی امید پر کی جائے کہ مادر زاد برہنے مجسمے عارضی وعاریتی زیار ت کے لیے بدلے میں اہلِ اسلام کو دیے جائیں گے۔آسمان خون کے آنسو برسائے تو ایسی احمقانہ حرکتوں کی مضحکہ خیزی اور رُسوائی پھر بھی کم نہ ہوگی۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں کے معمار بھی اہلِ کلیسا کی ایسی حرکت کا مقصد سمجھ جاتے تھے، اب شہزادے بھی نہیں سمجھتے۔ حضرت مولانا تقی محمد عثمانی صاحب دامت برکاتہم ’’جہانِ دیدہ ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے رہنما خیر اللہ دمرسی صاحب نے اسی دور کا ایک عجیب واقعہ سنایا۔ وہ یہ کہ جامع سلیمانیہ کی تعمیر کے دوران یورپ کے کسی ملک (غالباً اٹلی) کے ایک کلیسا نے اپنے ملک کے سرخ سنگ مرمر کی ایک بہترین سل تحفے میں بھیجی۔ یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ سل اس مسجد کی محراب میں لگائی جائے۔ جب سل پہنچی تو زینان معمار نے سلیمان اعظم سے کہا کہ میں یہ سل محراب میں لگانا مناسب نہیں سمجھتا۔ اگر آپ فرمائیں تو اسے مسجد کے ایک دروازے کی دہلیز میں لگا دیا جائے۔ سلیمان اعظم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور وہ پتھر دہلیز میںلگا دیا گیا۔

زینان کو یہ شبہ بھی تھا کہ ان اہلِ کلیسا نے اس پتھر میں کوئی شرارت نہ کی ہو۔ چنانچہ اس نے ایک روز امتحاناً اس پتھر کو کسی خاص مسالے سے گھس کر دیکھا کہ اس کے اندر کیا ہے؟ گھسنے کے بعد اسی پتھر کے اندر سیاہ رنگ کی ایک صلیب بنی ہوئی نمودار ہوئی۔ یہ پتھر آج بھی دروازے کی دہلیز میں نصب ہے۔ اس میں صلیب کا نشان آج بھی واضح نظر آتا ہے، جو اب قدرے دھندلا گیا ہے، لیکن پھر بھی خاصا واضح ہے، جو ان اہل کلیسا کے مکر و فریب اور مسجد کے معماروں کی فراست و بصیرت کی گواہی دے رہا ہے۔‘‘(جہانِ دیدہ: 361)
کچھ عرصہ پہلے ایک صلیبی معمار نے متحدہ عرب امارات کی مشہور عمارت ’’برج العرب‘‘ کانقشہ ایسا بنایا کہ سمندر کی طرف سے صلیب نظر آئے اور دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں۔ کوئی کچھ نہ کر سکے۔ اس سے سبق نہیںلیا گیا اور ایک مرتبہ پھر اہلِ کلیسا کی طرف سے ننگے مجسمے کی عارضی نمائش کے عوض مزار کی تعمیر کے لیے کروڑوں ڈالر ہتھیا لیے گئے ہیں، مگر کسی کو اچنبھا تک نہیں ہوا کہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ کیا جا رہا ہے؟ ملاحظہ فرمائیے! عقیدہ ہو یا عقیدت، افراط و تفریط، مبالغہ و غلو، کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے؟ کیا ہے کوئی صاحبِ دل جو برادر ملک کے کار پردازان تک یہ بات پہنچائے کہ خدارا! مسلمانوں کی جگ ہنسائی پہلے ہی بہت ہو چکی ہے، ایسا کچھ نہ کریں جس سے دل کے گھاؤ مزید گہرے ہوجائیں۔
Flag Counter