Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 9 تا 15 مئی 2014

ہ رسالہ

3 - 11
عقیدت و محبت کے مرکز میں
    تحریر مولانا سید عدنان کا کا خیل 
دہلی میں پہلی رات جمعیت علماء ہند کے مہمان خانے میں بسر ہوئی۔ رات کے کھانے پر صدر جمعیت حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم بڑی محبت اور اپنائیت سے اپنے ہاتھ سے سب مہمانوں کی پلیٹوں میں کھانا ڈالتے رہے اور ہم نے بھی تبرک سمجھ کر جلد ہاتھ کھینچ لینے کو بے ادبی سمجھا۔ حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی صاحب کے معمولات جان کر اس قدر حیرت ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ ماشاء اللہ! 75 سال کی عمر مبارک ہے اور رقبہ کے اعتبار سے پاکستان سے 5 گنا بڑے ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی جماعت کی صدارت اور عالمِ اسلام کے مؤثر ترین دینی تعلیمی ادارے کی مسند حدیث جیسی اہم ترین ذمہ داریاں سپرد ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ملک کے طول و عرض میں جہاں بھی کوئی جلسہ ہو، کوئی مسئلہ ہو یا ملت اسلامیہ ہندیہ کی کوئی پریشانی یا اُلجھن ان کو وہاں لے جائے، کوشش فرماتے ہیں کہ رات گئے تک دہلی پہنچ جائیں۔ عموماً دہلی پہنچتے پہنچتے رات کے 12 یا
ایک تو بج ہی جاتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ تاخیر ہوجاتی ہے۔ خواہ کتنی ہی تاخیر سے کیوں نہ پہنچیں، ساڑھے تین بجے بیدار ہوکر تہجد کی نماز سے فراغت کے بعد اپنے ذکر، اذکار کے معمولات پورے فرماتے ہیں اور پھر دیوبند کی طرف سفر شروع کردیتے ہیں۔ فجر کی نماز کہیں راستے میں ادا کرتے ہیں۔ سات، سوا سات بجے دیوبند پہنچ

کر تھوڑی دیر مطالعہ فرماتے ہیں اور ٹھیک 8 بجے صبح ترمذی شریف کا گھنٹہ پڑھانے دارالحدیث تشریف لے جاتے ہیں۔ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے، مگر حضرت مدنی کے ان معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا۔
اُس رات بھی ہم کو کھانا کھلا کے رات گئے آرام فرمانے تشریف لے گئے اور ہماری رعایت کرتے ہوئے فرمایا کہ اوّل وقت میں فجر کی جماعت کراکے ان شاء اللہ دیوبند کے لیے روانہ ہوں گے۔ چنانچہ فجر کی نماز پڑھ کر حضرت کے ساتھ ہی کار میں دیوبند کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب نے فرمائش کی کہ حضرت کچھ اکابر کے واقعات سنائیے۔ حضرت نے کچھ ایسے دلنشین واقعات سنائے کہ حضرت ڈاکٹر صاحب جن کی رقت قلبی معروف ہے، اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکے۔ گلوگیر لہجے اور رندھی ہوئی آواز میں فرمایا: ’’اُوْلٰئِکَ آبَائیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِہِمْ۔‘‘ ترجمہ: ’’یہ تھے میرے آبائواجداد، اگر کسی کے پاس ان جیسے لوگ ہوں تو سامنے لے کر آئے۔‘‘


مدرسہ سے ایک، دو کلومیٹر دور جی ٹی روڈ پر ہزاروں طلبہ نکل آئے اور پُرجوش خیرمقدمی نعروں کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کیا۔ ایک استاذ فرمانے لگے کہ یہ ’’سربکف سربلند، دیوبند دیوبند‘‘ کا نعرہ پاکستان میں ایجاد ہوا، مگر اب ہندوستانی جلسوں میں بھی پورے جوش و خروش سے لگایا جانے لگا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے طلبہ اور اساتذہ تو گویا محبت و اپنائیت اور خلوص و وفا کے گندھے ہوئے پتلے ہوں۔ پاکستانی علماء کے وفد کا اتنا پُرجوش اور محبت بھرا استقبال کیا کہ بیشتر اراکین وفد کی آنکھیں اتنی محبت پر بھر آئیں۔
مدرسہ سے ایک، دو کلومیٹر دور جی ٹی روڈ پر ہزاروں طلبہ نکل آئے اور پُرجوش خیرمقدمی نعروں کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کیا۔ ایک استاذ فرمانے لگے کہ یہ ’’سربکف سربلند، دیوبند دیوبند‘‘ کا نعرہ پاکستان میں ایجاد ہوا، مگر اب ہندوستانی جلسوں میں بھی پورے جوش و خروش سے لگایا جانے لگا ہے۔ ہم سب کا قیام دارالعلوم دیوبند کے وسیع و عریض مہمان خانے میں تھا۔ پندرہ بیس کمروں پر مشتمل اور تمام ضروری سامان سے آراستہ و پیراستہ دارالعلوم کے مہمان خانے میں مہمانوں کی راحت کے تمام سامان مہیا تھے۔ حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب کے کمرے سے متصل دوسرے کمرے میں راقم السطور اور مولانا سعید خان سکندر فروکش ہوگئے۔ ناشتہ سے فارغ ہوتے ہی دارالعلوم دیوبند کی زیارت کو دل مچلنے لگا۔ حضرت مولانا سیّد اسجد مدنی دامت برکاتہم شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور جمعیت علماء ہند کے مرکزی رہنما ہیں۔ مہمانوں کی خاطر مدارات جس جفاکشی اور اپنائیت کے ساتھ انہوں نے انجام دی، اس کے بیان کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ سڑک کے ذریعہ آنے والوں کو واہگہ بارڈر سے وصول کرکے دیوبند لائے اور پھر 24 گھنٹے ان کی راحت رسانی کے لیے خود کو وقف کردیا۔ آپ خود سوچیے کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کا صاحبزادہ گرامی ہونے کی نسبت کسی قدر عالی ہے؟ اور پھر ہم جیسے عقیدت کیش غلام جو ان عالی نسبت بزرگوں کے جوتے اپنے سر پر رکھنا اپنی سعادت سمجھتے ہوں، ان کے لیے ان عالی نسب مخدوموں سے خدمت لینا کس قدر باعث خفت ہوگا؟ مگر ان حضرات کے آگے یہ تمام فریادیں بے سود ثابت ہوئیں۔
دوپہر کے کھانے پر حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ کو مدعو کر رکھا تھا۔ چنانچہ دارالعلوم کے مہمان خانے میں کھانے کے دسترخوان پر کھانے کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے جلیل القدر اساتذہ کی زیارت اور ان کے محبت بھرے جذبات سے آگاہی ایک نعمت غیرمترقبہ تھی۔ اسی دن مغرب کی نماز کے بعد دارالعلوم دیوبند کی سب سے وسیع و عریض مسجد ’’مسجدِ رشید‘‘ میں پاکستان سے آئے علماء کے وفد کے اعزاز میں استقبالیہ اور خیرمقدمی تقریب تھی۔ تقریب کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری جبکہ روح رواں حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی دامت برکاتہم تھے۔ دارالعلوم کے جملہ اساتذہ اور تمام طلبہ شریک مجلس تھے۔ واضح رہے کہ دارالعلوم میں تین مساجد ہیں۔ ایک مسجد چھتہ جہاں سے دارالعلوم دیوبند کی ابتدا ہوئی۔ دوسری مسجد جدید جو کہ چھتہ مسجد کے ناکافی ہونے پر بنائی گئی، اس لیے جدید کہلائی اور تیسری مسجدِ رشید جو کہ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے دولت کدہ کے بالکل سامنے ہے اور اس کی تعمیر میں فدائے ملت مولانا سیّد اسعد مدنیؒ نے بڑی سرگرمی اور جانفشانی سے حصہ لیا تھا۔ مسجدِ رشید میں ہونے والی استقبالیہ تقریب میں خیرمقدمی کلمات حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی صاحب نے ادا فرمائے اور پاکستان سے آئے علماء کے لیے بڑے اونچے الفاظ اور اپنے دل میں ان کی قدر و منزلت کا بڑا گہرا تأثر ذکر فرمایا۔
اس کے بعد مہمان علماء کو خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا۔ حضرت مولانا عزیز الرحمن ہزاروی دامت برکاتہم کو سب سے پہلے خطاب کی دعوت دی گئی۔ حضرت نے دارالعلوم دیوبند اور اس کے عالی مقام اکابر کے متعلق اپنے دلی جذبات اور قلبی کیفیات کا اظہار کیا۔ خصوصاً سلوک و احسان کے حوالے سے اکابر کی جامعیت اور آج اس کی ضرورت کے احساس پر زور دیا۔ حضرت ہزاروی دامت برکاتہم کے بعد حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے خیالات کا اظہار فرمایا۔ انہوں نے بھی اُمّ المدارس دارالعلوم دیوبند کی خدمات اور پاکستان میں اس مدرسہ کے اثرات و احسانات پر گفتگو فرمائی۔ اس کے بعد راقم السطور کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرے۔ مسجدِ رشید کے منبر سے دارالعلوم دیوبند کے اکابر اساتذہ کی موجودگی میں خیالات کا اظہار ایک آزمائش تھی جو اچانک آن پڑی۔ بہرحال ہمت مجتمع کرکے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ (جاری ہے)
Flag Counter