Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 9 تا 15 مئی 2014

ہ رسالہ

7 - 11
جنوبی ایشیاء کے مستقبل کا منظرنامہ
    تحریر الف اللہ / انوار الحق 
ہو سکتا ہے یہ خبر آپ کے لیے زیادہ معنی نہ رکھتی ہو، لیکن اس خبر نے مجھے چونکا کر رکھ دیا۔ خبرکے مطابق: ’’بھارت اور رُوس کے درمیان ایک ایسا معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت روس افغانستان کو چھوٹے ہتھیار فراہم کرے گا۔ اس کی قیمت بھارتی حکومت براہِ راست ماسکو کو ادا کرے گی۔ اس معاہدے کے تحت نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا ء کے بعد افغانستان میں قیام امن کے لیے اورافغان فوج کو مضبوط بنانے کے لیے روس افغان فوج کو چھوٹے ہتھیار اور مارٹر گولوں کے علاوہ دیگر سامان فراہم کرے گا۔ اس کی قیمت براہ راست بھارت ادا کرے گا۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ افغان حکومت بھارت سے التجا کر رہی ہے کہ وہ معاہدے میں بھاری ہتھیاروں کو بھی شامل کرے۔ امکانات یہی ہیں مستقبل قریب میں بھارتی حکومت اس معاہدے میں ٹینکوں اور لڑاکا ہیلی کاپٹروں سمیت دیگر بھاری ہتھیاروں اور سامان کو بھی شامل کر لے گا۔‘‘
یہ خبر پڑھتے ہی دو بنیادی سوالوں نے سراٹھایا: ایک، بھارت افغانستان کو اسلحہ خرید کر کیوں دے رہا ہے؟ اس کے عزائم کیا ہیں؟ دوسرا، بھارت روس سے کیوں اسلحہ خرید رہا ہے؟ وہ اپنا اسلحہ افغانستان کو کیوں نہیں دے رہا؟ پہلے سوال کی طرف آنے سے پہلے دوسرے سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ ایک یہ کہ اس وقت بھارت کے پاس افغان افواج کو دینے کے لیے اضافی اسلحہ موجود نہیں۔ دوسرا بھارت کی افغانستان تک براہِ راست زمینی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی افغان افواج کوہتھیاروں کی ترسیل نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں بھارت

اور روس مشترکہ تعاون سے افغان دارالحکومت کابل کے قریب ایک پرانی اسلحہ ساز فیکٹری کی بحالی میں بھی افغانستان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ وہاں بھی اسلحہ سازی کے لیے روسی مشینری نصب کی جائے گی۔ آپ جانتے ہیں بھارت افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے۔ بھارت افغانستان میں فوجی تعاون میں اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا 2013ء میں 574 افغان فوجیوں نے بھارت میں تربیت حاصل کی تھی۔ یہ اب بڑھ کر 1100 ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت افغان فوج کو گاڑیوں اور طبی آلات سمیت دیگر سامان بھی فراہم کررہا ہے۔ اب سوال یہ ہے بھارت ایسا کیوں کر رہا ہے؟
یہ جاننے کے لیے ہمیں ذرا سا ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ افغانستان پہلے اگر رُوس کی آنکھ کا کانٹا تھا تو امریکا اس کا حمایتی اور پاکستان نے امریکا روس جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر سوویت یونین کے ٹوٹنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اُسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان میں جنگ مسلط کی گئی تو ایک بار پھر پاکستان امریکا کے ساتھ کھڑا تھا، لیکن اس مرتبہ وہ مجاہدین جو کل تک امریکا اور پاکستان کے بلاتنخواہ سپاہی بن کر لڑ رہے تھے، وہ نشانہ بن گئے، وہ مجرم ڈکلیئر ہوگئے۔ یہ وہ سازش تھی جس کے ذریعے افغانستان میں سوویت یونین کا کانٹا تو نکل گیا، لیکن اسلام پسند طالبان کی اقتدار پر گرفت امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی۔ امریکا نے پرویز مشرف کو شیشے میں اُتارا۔ کل کے مجاہدین اور آج کے طالبان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ یہ جنگ رفتہ رفتہ افغانستان سے نکل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پہنچ گئی۔ امریکا افغانستان میں اسلام کے لہراتے جھنڈے کو ملیا میٹ کر نے کے بعد پاکستان میں دواہداف کے تعاقب میں تھا۔ ایک سخت جان طالبان کا قلع قمع اور دوسرا پاک فوج کو کمزور کرنا، لیکن امریکا ان دونوں مقاصد میں بُری طرح ناکام ہوا۔


افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ، عبداللہ عبداللہ اور نریندرمودی کی کامیابی کو سامنے رکھ کر نئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

اب منظر بدل چکا۔ اب سوچیں بدل چکیں۔ پالیسیوں پر نظرثانی ہو چکی۔ 10 برس کی امریکا کی اندھی تقلید، دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کی حمایت و تعاون اور 80 بلین ڈالر کے خسارے کے بعد ہماری آنکھیں کھل چکیں۔
شاید یہی وجہ ہے موجودہ حکومت نے طالبان سے مذاکراتی عمل آگے بڑھایا۔ یہ مذاکراتی عمل اس امریکا کے لیے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت ہے جو دہشت گردی کو ہوا دے کر پاکستان کو معاشی لحاظ سے کنگال کرنا چاہتا ہے۔ اب جب امریکا نے سمجھ لیا ہے پاکستان مزید تعاون اور دبائو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تو اُس نے پاکستان کے بجائے بھارت کو افغانستان میں حد سے زیادہ اہمیت دینا شروع کردی ہے۔
اس اہمیت کی ایک وجہ تو یہ ہے امریکا پاکستان کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ اس کے بغیر بھی افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت افغانستان کی طرف سے بھی پاکستان کو نقصان پہچانے کی پوزیشن میں آ جائے، بلکہ وہ ایسا کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے، کیونکہ پاک افغان سرحدی علاقوں اور قبائلی علاقہ جات میں جو دہشت گرد تنظیمیںپل رہی ہیں۔ وہ غیر ملکی امداد کے بغیر خود کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے بھارت کے افغانستان میں سوسے زائد قونصل خانوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بھارت کے 4 ہزارسے زائد اہلکار افغانستان میں مختلف تعمیراتی، تعلیمی، ترقیاتی اور طبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ افغانستان کی ہمدردی میں نہیں، بلکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے۔ آپ شاید یہ بھی جانتے ہوںبھارت ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں بعض ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ ان منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ 270 کلو میٹر طویل سورینج دل آرام سڑک ہے جو ایران سے افغانستان تک بچھائی گئی ہے۔ اس کا مقصد افغان تجارت کے لیے آسان راستہ مہیا کرنا ہے۔
اب آتے ہیں پہلے سوال کی طرف۔ بھارت افغانستان کو روس سے اسلحہ اس لیے خرید کر دے رہا ہے کہ وہ اس اسلحے کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔ بھارت افغانستان میں اثرورسوخ کے بعد پاکستان کے اندر دراندازی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ افغانستان کے راستے وہ بڑی آسانی سے بلوچستان میں دراندازی کر بھی رہا ہے۔ وہاں موجود پاکستان مخالف قوتوںکو اسلحہ اورمالی امدادبھی فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں سے اکثر کے پیچھے انڈین جاسوسوں کا ہاتھ ہے۔ یہ افغانوں کے ذریعے، بھارتیوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا مقصد بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔ پاکستان کے پڑوسیوں سے تعلقات خراب کر کے خود خطے کا چودھری بننا چاہتا ہے۔
اب آتے ہیں مستقبل کی طرف۔ مستقبل کا منظرنامہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ افغانستان میں صدارتی الیکشن میں عبداللہ عبداللہ کی برتری کے بعد پاکستان افغانستان تعلقات کو مزید ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی پاکستان مخالفت سے سبھی آشنا ہیں۔ یہ سخت گیر لیڈر بھی امریکا اور بھارت نواز ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی کامیابی کے بعد پاکستان کو افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں شدید مشکلات پیش آئیں گی۔ دوسری طرف بھارت میں انتخابات جاری ہیں۔ نریندرمودی جیسا انتہا پسند ہندو کی برتری یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ وہ نریندرمودی ہے جو پاکستان پر دشنام طرازی اور یاوہ گوئی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ نریندر مودی کی تمام تر سیاست کا دارومدار صرف اور صرف پاکستان مخالفت پر ہے۔ اپنی الیکشن مہم میں نریندرمودی پاکستان کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو بھی پاکستان مخالفت میں مودی کو وزیراعظم کے منصب پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی عالمی سازش ہے۔ امریکا جو پہلے ہی بھارت کو جنوبی ایشیاء میں چودھری بنانا چاہتا ہے، جو اپنے مفادات کے لیے بھارت کی پشت تھپتھپا رہا ہے۔
وہ ایک طرف پاکستان کے خلاف بھارت کو اوپر لا رہا ہے تو دوسری جانب چین کے ہم پلہ لانے کے لیے بھی بھارت کی سپورٹ کر رہا ہے، چنانچہ اس صورتحال میں مودی کا وزیراعظم بننا عالمی مذموم عزائم کا شاخسانہ ہے۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد یہ خطہ ایک بار پھر ساٹھ، ستر برس پیچھے کے دور میں پہنچ جائے گا۔ آتش فشاں کا منظر پیش کرتا جنوبی ایشیاء مودی طرز کے تعصب پسند سیاستدان کی ایک تیلی سے جل کر راکھ ہو جائے گا۔ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو پڑوس میں بدلتی سیاست، اغیار کی ان سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنے ہمسایوں کے بارے دوبارہ سوچنا ہوگا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ، عبداللہ عبداللہ اور نریندرمودی کی کامیابی کو سامنے رکھ کر نئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
Flag Counter