Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

9 - 17
***
مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی
بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں ، صاحب شعور اور حساس مسلمان مستقبل کے بارے میں سخت فکر وتشویش میں مبتلا ہیں ، اگرچہ مسلم انجمن اور ادارے اپنی جیسی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں ، مگر کامیابی کے آثار دور تک نظر نہیں آتے ، مسلمان سخت حیرانی کے عالم میں سوچتے ہیں کہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ناکامی ہی کی شکل میں کیوں برآمد ہوتا ہے ؟! کچھ ایسے ہی احساسات تھے جن کے زیر اثر ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم نے اپنی ایک خیالی ملاقات میں مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ :
پڑھ لیے میں نے علوم شرق وغرب
روح میں باقی ہے اب تک درد وکرب
یعنی پڑھنے کو تو میں نے مشرق ومغرب کے سارے علوم پڑھ ڈالے، لیکن یہ علوم میرے درد کی دوا اور میرے دکھوں کا درماں نہ ثابت ہوسکے، پس اے مرشد ورہنما! اب آپ ہی میری کچھ رہنمائی فرمائیے ۔ بقول اقبال جور رہ نمائی مرشد رومی نے ان کی فرمائی تھی، وہ یہ تھی #
دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
نااہلوں سے علاج کراؤگے تو وہ تمہاری بیماری میں اضافہ ہی کا باعث ہوں گے ، لہٰذا تم نااہلوں کو چھوڑو اور اپنی مادر مہربان کا رخ کرو، اسی کی تیماداری، دکھوں سے تمہاری نجات کا باعث ہو گی ، یہاں مادر سے مولانا کی مراد قرآن مجید تھا، گویا مسلمانوں کو انہوں نے فہمائش کی کہ تمہارے تمام مسائل او رمشکلات کا حل قرآن مجید میں موجود ہے ، ادھر ادھر بھٹکتے پھرنے سے تمہیں کچھ حاصل نہ ہو گا ، قرآن کو اپنا رہ نما بنالوگے تو تمہارے سارے ہی مسائل حل ہو جائیں گے۔
یہ تھا مولاناجلال الدین رومی کا ارشاد، جودر حقیقت وہی بات ہے جو الله تعالیٰ قرآن مجید کی نسبت ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ قل ھو للذین آمنوا ھدی وشفاء﴾․ (حم سجدہ:44)
” کہہ دو! وہ ( یعنی قرآن) ہدایت ہے ایمان والوں کے حق میں اور نسخہ شفا ہے۔“
اور دوسرے موقع پر فرمایا گیا:﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة اللمؤمنین﴾․ (بنی اسرائیل:82)
”اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن میں ایسی چیزیں جو ایمان لانے والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں۔“
الله تعالی نے جب قرآن مجید کو ہمارے حق میں ہدایت اور شفا بنایا ہے، یعنی دنیا وآخرت کی ہماری ساری مشکلات اور ہمارے تمام مسائل قرآنی ہدایات پر عمل پیرا ہونے ہی سے حل ہو سکتے ہیں ، تو ہمیں قرآن ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، کیوں کہ قرآنی ہدایات کی تعمیل کیے بغیر ہماری کوششیں خواہ وہ کتنی بھی مخلصانہ کیوں نہ ہوں لاحاصل اور بے کار ہی ثابت ہوں گی ،… اگر ہم دنیوی مشکلات سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے قرآن شریف کی طرف رجوع کریں گے تو الله تعالیٰ کا فقط یہی ایک ارشاد ہماری رہ نمائی کے لیے بالکل کافی ہو گا:
﴿یا ایھا الذین آمنوا إن تتقوا الله یجعل لکم فرقانا ویکفر عنکم سیاٰتکم ویغفرلکم والله ذو الفضل العظیم﴾․ (سورہ انفال:29)
”اے ایمان والو! اگر تم الله سے ڈرتے رہوگے تو وہ تمہیں امتیازی شان عطا فرمائے گا اور تم سے دور کر دے گا تمہارے گناہ اور تم کو بخش دے گا اور الله تو ہے ہی بڑے فضل والا۔
اس آیت میں عزت ووقار اور قوموں کے درمیان امتیازی شان کے حصول کا طریقہ یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان تقوی والی زندگی اختیار کریں … اس آیت کا مضمون اگرچہ بالکل صریح ہے، تاہم یہاں انداز اجمال ہی کا ہے۔ دوسرے موقع پر یہ مضمون حسب ذیل الفاظ میں مفصل بیان فرمایا ہے:
﴿وعد الله الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الأرض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لایشرکون بی شیئا﴾․ ( سورہ نور:؟)
”تم میں جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک کام بھی انہوں نے کیے ہیں ،ان سے الله کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں اس زمین کا حکم راں بنا دے گا، جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کو حکم راں بنایا تھا اور الله ان کے حق میں اس دین کو، جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، مستحکم اور پائیدار بنا دے گا او ران کی حالت خوف کو امن وبے خوفی کی حالت میں تبدیل کر دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے ، اس طور پر کہ میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔“
یہاں شرک سے دور رہتے ہوئے نیک عمل کرنے والے اپنے ایمان والے بندوں سے اسی دنیا میں جو تین عظیم نعمتیں عطا فرمانے کا الله تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، وہ نعمتیں یہ ہیں:
انہیں زمین میں اقتدار عطا فرمائے گا۔
اپنے پسندیدہ دین کو ان کے حق میں استحکام اور پائیداری عطا کرے گا۔
ان کی حالت خوف کو امن وبے خوفی کی حالت میں تبدیل فرمادے گا۔
کتنی عظیم نعمتیں ہیں جن کے اسی دنیا میں عطا کیے جانے کا ایمان والے بندوں سے وعدہ فرمایا گیا ہے ، کیا ان کے علاوہ بھی ایمان والوں کو کسی چیز کی تمنا ہو سکتی ہے ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی صریح طور پر فرما دیا گیا کہ ان نعمتوں کے مستحق وہ تب ہی قرار پا سکیں گے جب ان کا حال یہ ہو کہ وہ شرک سے بالکل پاک رہ کر الله کے اطاعت شعار بندے بن جائیں … یہ الله کی عائد کی ہوئی شرائط ہیں اور اس حقیقت کو سب ہی جانتے او رمانتے ہیں کہ کوئی چیز اس کی شرط پوری ہوئے بغیر حاصل نہیں ہوتی ، پس ہم اگر چاہتے ہیں کہ یہ نعمتیں الله تعالیٰ ہمیں عطا فرمادے تو لازم ہے کہ ہم اپنے عقائد واعمال کی پوری پوری اصلاح کر لیں اور جن لوگوں کے عقائد میں شرک اور دیگر اقسام کی بے دینیاں اور بداعمالیاں شامل ہو گئی ہوں، ان کی اصلاح کو بھی ہم اپنا فرض یقین کرتے ہوئے دعوت واصلاح کی جدوجہد میں کسی طرح کی کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لیں۔
ایک اہم سوال
تمام ہی مسلمان، خواہ وہ خواص ہوں یا عوام، سب ہی لوگ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کے سخت آرزو مند نظر آتے ہیں، ہر مسلمان اتحاد کی تمنا کااظہار کرتا سنا جاتا ہے ، اخبارات ورسائل اتحاد کے تذکروں اور اس کی اپیلوں سے بھرے دکھائی دیتے ہیں ، لوگ حیرانی کے عالم میں سوچنے لگتے ہیں کہ جب اتحاد کے بغیر ہمارے موجود مسائل حل ہو ہی نہیں سکتے اور سب کو اتحاد کی ضرورت کا شدید احساس بھی ہے ، تو پھر ہم متحد کیوں نہیں ہو جاتے ، آخر اس میں رکاوٹ کس بات کی ہے ؟!
اس سوال کا نہایت ہی آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ اتحاد کے حصول کا جو طریقہ الله تعالیٰ نے تجویز فرمایا ہے فقط اسی کے اختیار کرنے پر ہماری صفوں میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے ، خالی آرزؤوں اور محض اتحاد کی اپیلوں سے ہر گز اتحاد وجود میں نہیں آسکتا، اس سلسلہ میں الله تعالیٰ کا یہ ارشاد پاک ہماری رہ نمائی کے لیے بالکل کافی ہے بشرط کہ ہم اس پر پوری طرح غور بھی کر لیں ، فرمایا گیا:﴿ واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا﴾․ ( آل عمران)
”اور الله کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو ( اور اسے چھوڑ کر ) باہم منتشر نہ ہوجاؤ۔“
حبل الله کی تفسیر ” قرآن مجید“ بھی منقول ہے اور ”دین “ بھی، حاصل دونوں کایہی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو دین لے کرآئے سارے مسلمان اپنی زندگیوں کو اس کے سانچہ میں ڈھالیں اور اپنے نظریات وخیالات اور رائے اور پسند سب کو اسی کے تابع کر دیں ، اگر وہ ایسا کریں گے تو بہت بڑی حد تک انتشار اور تفرقہ سے محفوظ رہیں گے اور یہی حقیقت ہے اسلامی اتحاد کی ……لیکن ہمارا خیال اگر یہ ہو کہ الله کی شرطوں کو پورا کرنا تو فی الحال ہمارے لے تو بہت ہی دشوار با ت ہے، لہٰذا اس طویل اور دشوار گزار کام کو تو فی الحال ملتوی رکھاجائے اور اپیلوں ہی کے ذریعہ حصول اتحاد کی کوشش کی جائے ، تو ہم عرض کریں گے کہ شاید اسی انداز سے سوچنے والوں سے کسی نے کہا تھا #
ایں خیال است ومحال است وجنوں

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter