Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

6 - 17
***
یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی
اس وقت فلسطینی مسلمانوں پر جو ظلم وستم اور زیادتی ہو رہی ہے اس سے پورا عالم بے چین ، پریشان اور خو دکو اذیت میں محسوس کر رہا ہے ، یہودی ذہنیت رکھنے والے اسرائیلی درندے، اپنے آقاؤں کے اشاروں پر دم ہلانے والے اپنے خود ساختہ نظریات اور اپنے اقتدار کی بالادستی کے لیے جبر واستبداد کی انتہا کیے ہوئے ہیں اور ایسا صرف اسلام کی بالا دستی کو ختم کرنے اور اس کی روشن تعلیمات، جو انسان کے فطری تقاضوں سے بالکل ہم آہنگ ہیں، اسے دنیا سے ختم کرکے غیر اسلامی تہذیب وتمدن کو رواج دینے کے لیے ہے۔
یہودی ذہنیت تاریخ کے ہر دور میں اپنے علاوہ کی ترقی میں رکاوٹ بنی رہی اور اپنے احساس برتری کو باقی رکھنے کے لیے منظم انداز سے خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر امن وسکون اور باہمی اتحاد واتفاق کی فضا کو مسموم کرتی رہی اور اپنی عظمت ، امارت اور حکومت کرنے کے لیے صدیوں خفیہ کانفرنسیں کرتی رہی ۔ بالآخر1897ء میں انہوں نے بڑے غور وخوض کے بعداپنی تمام تر مساعی ان تین نکات پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کا قیام۔
دنیا کے مالی نظام پر قبضہ وتسلط۔
اسلامی ممالک کو نیست ونابود کرنا۔
مذکورہ بالا تین نکات کی روشنی میں باقاعدہ ایک دستور مرتب کیا گیا، جس پر دنیا کے تمام یہودی نمائندوں نے اپنے اپنے دستخط کیے۔ یہی دستاویز ”یہودی پروٹوکول“ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
1920ء سے دنیا کے مختلف خطوں سے یہود آکر فلسطین میں آباد ہونے لگے اور 1935ء تک فلسطین میں ساٹھ ہزار یہودی آباد کیے جاچکے تھے، پھر یہ تعداد جیسے جیسے بڑھتی گئی باہمی خانہ جنگی میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کی جانے لگی، بالآخر1948ء میں فلسطین میں اسرائیل نامی ایک یہودی ملک کے قیام کا اعلان کر دیا جاتا ہے، اس طرح غاصبانہ طور پر ایک نیا ملک دنیا کے نقشہ پر ابھر آتا ہے اور یہودیوں کا سب سے پہلا منصوبہ عملاً سامنے آتا ہے۔
پھر اس شاطر ذہنیت نے اسرائیل کو مضبوط تر کرنے اور عربوں کے داخلی انتشار واختلاف کو ہوا دینے پر زیادہ توجہ دی ۔ اسرائیل کو ایٹمی طاقت بنانے کا منصوبہ تیزی سے پورا ہونے لگا، اسرائیل کو امریکاکی ہر طرح سے حمایت حاصل ہونے کے باعث اس کا ایٹمی پلان شروع ہی سے جاری تھا، ایٹمی پلان کا رازB.B.C نے اپنے نشریہ میں کھول کر امریکا، اسرائیل کو مصیبت میں مبتلا کردیا۔ مارچ2003ء میں نشر ہونے والے اس راز کے افشا کے وقت، جس کا سب سے بڑا ذریعہ اسرائیلی اسلحہ خانہ میں کام کرنے والے ایک ماہر ” موروخانی فانونو“ ہے، اس نے بتایا کہ اسرائیل کے پاس 1986ء میں ایک سو سے دو سو تک ایٹمی ہتھیار موجود تھے۔ فانونو کی رپورٹ1986/10/5ء میں برطانیہ کے سنڈے ٹائمز نے شائع کی تھی، اب اس وقت ان مہلک ہتھیاروں کی تعداد کتنی زیادہ ہو چکی ہو گی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک طرف تو امریکا، ایران، شمالی کوریا وغیرہ کو اس کے ایٹمی پلان کے لیے دھمکی دے رہا ہے او رایٹمی تنصیبات کو بین الاقوامی سروے کے لیے کھولنے کو کہتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے بارے میں معائنہ کرانے کی ہر آواز کو دبا دیتا ہے۔
”دنیا کے مالی نظام پر قبضہ وتسلط اور اسلامی ممالک کو نیست ونابود کرنا“ یہ نظریہ اور سوچ چوں کہ صرف اور صرف اسلام دشمنی پر مبنی ہے، اس لیے اس کے نافذ کرنے میں عیسائیت بھی یہودیوں کی ممدو معاون بن گئی اور امریکا نے مذکورہ بالا نظریہ پر بڑی تیز رفتاری سے کام کیا۔ چناں چہ امریکی دانش وروں نے یہ پلان بنایا کہ تیزرفتار اقتصادی ودفاعی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ عرب ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے اور پٹرول کے اتنے کثیر ذخائر اپنے پاس محفوظ کر لیے جائیں کہ دس بیس سال تک اگر ایک قطرہ بھی تیل نہ مل سکے تو ہماری معیشت اور ٹریفک وغیرہ پر کوئی اثر نہ پڑے۔
1983ء کے تیل کے بحران کے دوران امریکا نے مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے سعودی عرب اور کویت پر حملہکرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ برطانیہ کو 1983ء میں اپنے خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی طرف سے امریکا کو تیل فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی تو امریکا نے فیصلہ کیا تھا کہ سعودی عرب اور کویت میں تیل کے کنوؤں پر امریکی چھاپہ ماردستوں کی مدد سے قبضہ کر لیا جائے ۔ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ” ان کے خیال میں اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں قوت کااستعمال نہیں کرسکتا“۔
11ستمبر2001ء میں عالمی تجارتی سینٹر پر حملہ تو ایک بہانہ تھا، جس کے ذریعہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جواز فراہم کرنا تھا۔ اسی سلسلہ میں فرانس کے ایک حق گو مصنف نے ”2001ء کا سب سے بڑا جھوٹ“ نامی کتاب لکھ کر واضح کر دیا ہے کہ حملہ آور سب امریکی تھے، یہ بات بھی بہت مشہور ہو چکی ہے کہ اگر یہ حملہ نہ ہوتا تب بھی افغانستان پر حملہ طے تھا، پھر عراق وایران اور شام کا نمبر تھا۔
اس وقت پوری دنیا میں جوا تھل پتھل اور انقلاب وتغیر رونما ہو رہا ہے اس یہودی منصوبہ کے تناظر میں اس کا مطالعہ کرنے سے یہ خوب واضح ہوتا ہے کہڈور کہیں اور سے ہلائی جارہی ہے ، پس پردہ کیا کچھ ہو رہا ہے خوب پتا چلتا ہے ۔ گزشتہ چند سالوں کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالم اسلام، جس سے یہودی دنیا سب سے زیادہ خائف ہے، ہمیشہ ایک نئے فتنے سے دو چار رہا ہے ۔ اسلامی مدارس میں غیر اسلامی نصاب کی دخل اندازی، تقریباً ایک سال تک پورا عالم اسلامی بڑی کرب وبے چینی میں مبتلا رہا کہ کیا اب مسلمان اپنے مدارس ومکاتب میں اپنا دین اور صحیح اسلامی تعلیمات تک نہیں سیکھ سکتے ؟ لیکن یورپ اور یہودیوں کی چلائی ہوئی اس تحریک کے کچھ مسلم ممالک حامی ہو گئے اور یہ مسئلہ بظاہر سرد پڑ گیا۔ اس کے بعد جعلی قرآن ”الفرقان“ کی اشاعت کا مسئلہ کھڑا کر دیاگیا اور شوروش نامی ایک یہودی نے قرآن کا متبادل ( بزعم خود) دنیا کے سامنے پیش کر دیا، مسلمانوں کا ذہنی انتشار اور بڑھ گیا اوررات ودن کا سکون غارت ہو گیا، اس موضوع پر مضامین ومقالات شائع کیے جانے لگے ، ہوتے ہوتے یہ مسئلہ ٹھنڈا ہوا ،پھر پردہ، نقاب اور اسکارف کو غیر مہذب طریقہ اور کم علمی کا شعار بتا کر مسلمانوں کو مشتعل کیا گیا۔ علمائے اسلام پردہ کی اہمیت اور ضرورت پر وعظ تقریر اور تحریر کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان عمل میں آئے، پھر ہندوستان میں طلاق ثلاثہ اور تعداد ازواج کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا، مسلمان اس کے پیچھے سالوں لگے رہے ، پھر حرمت مصاہرت پر گرما گرم بحثیں شروع ہوئیں۔ ٹی وی کے جواز اور عدم جواز پر بحث کا دروازہ کھولا گیا اور چوں کہ یہ سب یہودی مشینریوں کی تخریب کار ذہنیت کی پیداوار تھے، اس لیے انہیں مسلمانوں ہی میں سے کچھ کرائے کے مولوی اور ملامل گئے اور یہ سب بحثیں خوب گرم رہیں۔ پھر تو ہین رسالت کا مذموم عمل سامنے آیا اور اس کی خوب خوبتشہیر کی گئی اور پورے عالم اسلام کو مشتعل کیا گیا۔
ان سب واقعات کا اگر واقعی جائزہ لیا جائے تو صرف اور صرف یہی بات سامنے آئے گی کہ اس طرح کے اشتعال انگیز مسائل بشکل مصائب امت مسلمہ کے درمیان اٹھا کر دشمنان اسلام، اسلام کی شبیہ کو داغ دار کرنا چاہتے ہیں اور حامیان اسلام کے دلوں سے اسلامی تہذیب ، اسلامی فکر کے ساتھ مسلمانوں کو غور وفکر اور تدبر کا موقع ہی نہیں دینا چاہتے، بلکہ اس میں وہ بڑی حدتک کام یاب بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے کہ بقول انہیں کے ان کے پاس میڈیا کا سرکش گھوڑا ہے، اس کی باگ انہیں کے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں اس کو موڑ دیتے ہیں۔
ہوش مندی اور عقل وخرد کی بات تو یہ ہے کہ دشمن کی چال کو سمجھا جائے اس کے پینتروں سے واقف ہوا جائے ، اشتعال میں آنے کے بجائے سنجیدگی سے اس پر غور کیا جائے کہ یہ مسئلہ ہمارے درمیان اٹھا کر ہمارا دشمن ہم سے کیا چاہتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ عقل مند آدمی ہمیشہ دشمن کی منشا کے خلاف ہی کرتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اشتعال میں آکر اپنے دینی شعائر اور اسلامی احکام کو پس پشت ڈال دیں تو ہمیں چاہیے کہ دین اور اسلامی احکامات کی بجا آوری میں اور پختگی دکھائیں، دشمن، غیر اسلامی نظریات اور دین وایمان سوز تہذیب وتمدن کو خوش حال معاشرتی نظام باور کراتے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی معاشرتی نظام میں اور تصلب اختیار کریں ، وہ تہذیب وتمدن جو رسول عربی صلی الله علیہ وسلم کی سیرت وتاریخ سے ہمارے درمیان موجود ہے اس پر سختی سے جم جائیں۔ متاع دنیا کے حرص وہوس کے ساتھ ظاہر سی بات ہے یہ چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں، اس لیے دشمنان اسلام مال ومتاع کے جو خوش نما مناظر ہمیں دکھا کر اپنا شکار بناتے ہیں ان سے بچنا ہو گا ، آسائش دنیا ترک کرنا ہو گا اور یہ دشمنان اسلام تو کبھی ہم سے خوش ہو ہی نہیں سکتے، ہاں! اگر ان کے افکار ونظریات کی پیروی کی جائے، ان کا اتباع کیا جائے تو یہ خوش ہوں گے ۔ قرآن میں رب العالمین نے فرمایا:﴿ولن ترضی عنک الیھود ولا النصاریٰ حتی تتبع ملتھم﴾․
خدارا اپنے حال کو درست کریں، دشمنان اسلام کی چالوں کو محسوس کریں۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter