Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

4 - 17
***
دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی 
الحمدلله الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا الله، لقد جاء ت رسل ربنا بالحق، صلوات الله علیھم، وعلی کل من اتبعھم باحسان․
دینی بھائیو اور دوستو!
سب سے پہلے ہم آپ، الله تعالیٰ کے اس کرم اور احسان کا شکرادا کریں کہ اس نے ہمیں ایک ایسے مقصد کے لیے یہاں جمع ہونے کی توفیق دی جو الله کی نگاہ میں دوسرے تمام مقاصد سے زیادہ عزیز اور قیمتی ہے… ہمارا یہ مجمع حاضرین کی کثرت تعداد کے لحاظ سے کوئی خاص امتیاز نہیں رکھتا۔ آج کی دنیا میں اس سے بڑی تعداد میں ہر منڈی اور ہر بازار میں انسانوں کی بھیڑ موجود رہتی ہے ۔ کھیل تماشوں میں اور سینما، تھیڑ جیسے شیطانی اڈوں میں اس سے بھی بہت زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں … اسی طرح علم وفن اور دولت وثروت یا دنیوی وجاہت کے لحاظ سے بھی ہمارا یہ مجمع کوئی ممتاز مجمع نہیں ہے ، بلکہ ظاہر بات ہے کہ اس حیثیت سے یہ بہت کم حیثیت مجمع ہے۔
لیکن اس اعتبار سے ان شاء الله یہ دنیا کا ایک بہترین مجمع ہے کہ اس کا مقصد الله تعالیٰ کے ساتھ اپنی بندگی کے تعلق کو صحیح کرنا اور اس کی رضا ورحمت حاصل کرنا ہے ۔ ایسا مجمع اگر صرف پھٹے، ٹوٹے غریبوں مسکینوں کا اور بالکل ناتعلیم یافتہ اور پسماندہ قسم کے بند گان خدا کا ہو جب بھی الله تعالیٰ کو وہ بہت عزیز ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ الله کے فرشتے ایسے مجمعوں اور ایسی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
الغرض سب سے پہلی بات میں آپ سے یہ کہناچاہتا ہوں کہ ہم آپ الله تعالیٰ کے اس احسان کی عظمت کو سمجھیں کہ اس نے ہمارے دلوں کو اس طرف موڑا اور ہمیں اس بہترین مقصد کے لیے جمع ہونے کی توفیق دی۔ اگر اس کی طرف سے یہ توفیق نہ ملتی تو یقینا ہم اس سعادت سے محروم رہتے۔ میں پھر اپنی اور آپ کی طرف سے قرآن کریم کے الفاظ میں عرض کرتا ہوں: ﴿ الحمدلله الذی ھدانا لھذا وماکنا لنھتدی لولا ان ھدانا الله﴾․
میرے محترم بھائیو!
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے اس وقت انسانوں کی اس دنیا میں، اس زمانہ او رماحول کے معیار کے مطابق سب کچھ تھا، ہاں! الله پر ایمان او راس سے صحیح تعلق رکھنے والے اور اس کی طرف بلانے والے بندے موجود نہیں تھے ، ایسے بندوں کے وجود سے اس وقت یہ دنیا گویا خالی تھی اور اس وجہ سے گویا یہ پوری دنیا بحر ظلمات بنی ہوئی تھی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اسی لیے معبوث ہوئے کہ انسانوں کو الله تعالیٰ سے آشنا اور وابستہ کریں اور زندگی کا صحیح طریقہ یعنی دین حق ان کو بتائیں… آپ جب نبی کی حیثیت سے اس دنیا میں کھڑے ہوئے اور دین حق یعنی زندگی کے صحیح طریقے کی آپ نے دعوت دینی شروع کی تو اس وقت تنہا آپ ہی اس دین اور اس زندگی کے حامل تھے ، شروع میں آپ کی دعوت کو ایک ایک، دو دو آدمیوں نے قبول کیا اور ہدایت کا کام بہت سست رفتاری سے چلا ۔ اسی حال میں قریباً تیرہ سال آپ مکہ معظمہ میں رہے۔ اس کے بعد الله کے حکم سے آپ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی ، وہاں کی زمین دین حق کی دعوت کے لیے زیادہ تیار اور ساز گار تھی ۔ تھوڑی ہی مدت میں وہاں کی قریب قریب پوری آبادی نے دین حق قبول کر لیا۔ اس وقت دنیا کے بحر ظلمات میں مدینہ طیبہ نور اور ہدایت کا گویا ایک جزیرہ اور مرکز تھا۔
آپ کی دعوت اور تعلیم وتربیت کے نتیجہ میں مدینہ طیبہ کی قریب قریب پوری آبادی آپ کے رنگ میں رنگ گئی ۔ اس وقت مدینہ طیبہ اس طرز زندگی کا پورا نمونہ تھا جس کی دعوت رسول الله صلی الله علیہ وسلم دیتے تھے اور جو خود آپ کی زندگی تھی۔
اس زندگی کا اگر تجزیہ اور تحلیل کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے چار بنیادی امتیازات تھے۔
1۔ ایک الله کی ذات وصفات پر اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تمام غیبی حقیقتوں پر کامل یقین، ایسا یقین جو الله سے اور ان حقیقتوں سے کبھی غافل نہ ہونے دے۔
2۔ دوسرے اس بات کا یقین کہ ہر قسم کی فلاح وسعادت الله اور رسول کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے اور اس بنا پر پوری اطاعت اور فرماں برداری اور معصیتوں سے پرہیز۔
3۔ تیسری چیز دنیا کی ساری فکروں کے مقابلے میں آخرت کی فکر کا غلبہ اور اس کی وجہ سے تنہائیوں میں بھی الله کے حضور میں رونا۔
4۔ چوتھے اس بات کی فکر کہ یہ ایمان اور ایمان والی زندگی، جس کی دعوت رسول الله صلی الله علیہ وسلم دیتے ہیں اور جس کی توفیق ہم کو مل گئی ہے، ساری دنیا میں پھیل جائے اور سارے انسان اس سعادت کو اپنا کے الله کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح کر لیں اور پھر دنیا اور آخرت میں الله تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کے مستحق ہو جائیں۔
یہ چار باتیں وہ تھیں جو خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات پاک میں بدرجہ کمال موجود تھیں ۔ اور آپ کی دعوت او رتعلیم وتربیت کے نتیجہ میں آپ کے عام صحابہ کرام فرق مراتب کے باوجود ان صفات او رامتیازات کے حامل تھے۔ گویا اس وقت مدینہ طیبہ ایک ایسی بستی تھی جس کے ہر شخص کا یہ حال تھا کہ اس کو الله کی ذات وصفات پر اور دوسری ایمانی حقیقتوں پر ایسا یقین تھا جو اس کی پوری زندگی پر حاوی تھا۔ آخرت کی فکر دوسری تمام فکروں پر غالب تھی اور جو ان کو رات کے اندھیروں میں بھی رلاتی تھی، نفس کے تقاضوں کے مقابلہ میں الله ورسول کے احکام پر چلنا ان کا شعار تھا۔ عام انسانوں کی ہدایت اور الله تعالیٰ کے ساتھ ان کے معاملے کے صحیح ہونے کا مسئلہ ان کے نزدیک اپنے تمام دنیوی مسئلوں سے مقدم اور اہم تھا۔
یہ تھی وہ زندگی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے تھے اوراس زندگی کی حامل امت کا تیار کرنا آپ کا وہ خاص کام تھا جس کے لیے آپ کو الله تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔
اس زندگی کی دو خاصیتیں تھیں۔ ایک یہ کہ اس کے ساتھ الله تعالیٰ کی مدد او ررحمت تھی۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا کی جو طاقت سرکشی اور استکبار کے ساتھ اس زندگی سے ٹکرائی الله تعالیٰ نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور پھر اس زندگی کی حامل امت کے قدموں میں ڈال دیا۔ پہلے الله کی نصرت کا ظہور عرب میں ہوا اور فتح مکہ پر گویا اس کی تکمیل ہو گئی ۔ بعد میں روم اور فارس کی حکومتوں کے ساتھ یہی ہوا۔ اور یہ دونوں حکومتیں اس امت کے قدموں کے نیچے آگئیں … بہرحال ایک خصوصیت اس زندگی کی یہ تھی کہ اس کے ساتھ الله تعالیٰ کی نصرت اور مدد تھی ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے او رقیامت تک کے لیے یہ الله تعالیٰ کا وعدہ او رگویا ازلی ابدی آسمانی منشور ہے:﴿انا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیوة الدنیا ویوم یقوم الاشھاد﴾․
یعنی ایمان اور ایمانی زندگی کے داعی اپنے رسولوں کی او ران کی راہ چلنے والے اہل ایمان کی ہم مدد اور حمایت کریں گے ۔ اس دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس دن بھی جب کہ خدا وندی عدالت قائم ہو گی اور اس میں گواہ پیش ہوں گے۔
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے ﴿وانتم الاعلون ان کنتم مومنین﴾ ( یعنی تمہارے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ میں تم کو بالا اور برتر رکھا جائے گا، بشرطے کہ تم ایمان کی راہ پر قائم رہو گے)۔
دوسری خصوصیت اس ایمانی زندگی کی یہ ہے کہ اس میں الله نے ایک خاص کوشش او رتاثیر بلکہ تسخیر کی طاقت رکھی ہے، جو شخص اس زندگی کو صحیح صورت میں دیکھے گا اور اس کا تجربہ کرے گا وہ اس سے ضرور متاثر ہو گا اور اس کا گرویدہ ہو جائے گا۔
صحابہ کرام جن ملکوں میں گئے او رجن قوموں نے انہیں دیکھا اور ان کی مومنانہ اور خدا پرستانہ زندگی کا تجربہ ومشاہد ہ کیا وہ اس کی گرویدہ ہو گئیں اور بہت تھوڑی مدت میں وہ پورے ملک کے ملک دارالاسلام بن گئے ۔ یہ شام، یہ عراق ، یہ مصر، یہ ایران، یہ سب وہی تو ہیں جنہوں نے شروع میں اسلام کا سخت مقابلہ کیا تھا۔ اب سے کچھ دنوں پہلے تک فتوح الشام اور فتوح العجم وغیرہ کتابیں مسلمانوں میں عام طور سے پڑھی جاتی تھیں ۔ آپ میں سے بہت سوں نے یہ کتابیں پڑھی یا سنی ہوں گی اور آپ کو یاد ہو گا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں یہ ملک اور ان کے بسنے والے اسلام کے کیسے سخت دشمن تھے ۔ لیکن ان ملکوں پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہونے کے بعد جب مسلمان ان ملکوں میں رہے، بسے اور یہاں کے رہنے والوں نے ان کو دیکھا، برتا تو انہوں نے عام طور پر ان کے دین او ران کے طریق زندگی کو اپنالیا۔
بہت سے لوگ ناواقفیت سے یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ ملک جب فتح ہو گئے تو یہاں کے لوگوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست کھا جانے کی وجہ سے اسلام قبول کر لیا ۔ ایسا سمجھنا تاریخ سے ناواقفی اورجہالت کے علاوہ حماقت بھی ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جنگ کے نتیجہ میں جو قوم غالب آجاتی ہے مغلوب اور مفتوح قوم کے دل میں اس کی نفرت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ اس لیے یہ ناممکن ہے کہ شام وعراق اور ایران کے لوگوں نے مفتوح ہونے کے بعد صرف شکست کھا جانے کی وجہ سے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا ہو … اور دین کے بارے میں جبر کرنا خود اسلام کے اصولوں کے خلاف تھا۔ قرآن مجید میں پوری صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ ﴿لا اکراہ فی الدین﴾ ( کہ دین کے معاملہ میں جبروا کراہ کا کوئی جواز نہیں) بلکہ قرآن پاک اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم تھی کہ جو آدمی اپنے کو مسلمان کہے او راس کے دل نے پوری طرح اسلام قبول نہ کیا ہو وہ منافق ہے اور بدترین قسم کا کافر ہے ۔ ایسی صورت میں یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ صحابہ کرام لالچ اور زبردستی سے کسی سے کلمہ پڑھواتے…۔
بلکہ ہوتا یہ تھا کہ جو شہر یاعلاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آجاتا تھا اسلامی فوجیں اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی تھیں او روہاں امن وغیرہ قائم رکھنے کے لیے کوئی چھوٹا سادستہ چھوڑ دیا جاتا تھا، جس کی حیثیت پولیس کے دستے کی ہوتی تھی اور عوام کے باہمی جھگڑوں کے فیصلے کرنے اور اس طرح کی دوسری حکومتی خدمتیں انجام دینے کے لیے کسی کو شہر کا والی یعنی حاکم اور قاضی مقرر کر دیا جاتا تھا۔ وہ سب لوگ شہر سے باہر وہاں کے عوام سے الگ تھلگ اس طرح نہیں رہا کرتے تھے جس طرح ہمارے ملک میں انگریزی دورحکومت میں انگریز حکام آبادیوں سے الگ رہا کرتے تھے ، بلکہ یہ اپنے آپ کو عوام کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال کا ذمہ دار سمجھتے تھے ۔ اس لیے ان سے رابطہ رکھتے تھے او رعوام کے ہر طبقے کے لوگ ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح دیکھتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ فاتح قوموں کے سپاہی کیسے فرعون اور بداطوار ہوتے ہیں، لیکن وہ ان مسلمانوں کو دیکھتے تھے کہ ان میں کاہر شخص راہبوں اور درویشوں سے زیادہ پاک باز اور خدا ترس ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ مسلمان انتہائی دل سوزی اور سچی دردمندی کے ساتھ ان کو دعوت دیتے تھے کہ وہ ایمانی زندگی کے اس طریقہ کو اپنالیں جس کو الله کے سارے پیغمبر لے کر آئے تھے اور سب سے آخر میں مکمل شکل میں اس کو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور اس طرح خدا سے براہ راست اپنا رشتہ جوڑ کے اس کی رحمت اور جنت کے مستحق ہو جائیں … ان مسلمانوں کا حال او ران کی زندگی اس کی گواہی دیتی تھی کہ یہ سچے او رمخلص بندے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل سچائی اور درد مندی سے کہہ رہے ہیں ۔ اس کا یہ اثر ہوتا تھاکہ وہ لوگ اکا دکا نہیں ،بلکہ اجتماعی طور پر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرتے تھے اور اس طرح علاقے کے علاقے اور قومیں کی قومیں اسلام میں داخل ہوتی تھیں اور ﴿یدخلون فی دین الله افواجاً﴾ کا منظر سامنے آتا تھا۔ یہ ملک بہت تھوڑی مدت میں دارالکفر سے دارالاسلام بنے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے قریباً90 برس کے بعد جب کہ صحابہ کا نہیں بلکہ ان کے فیض یافتہ تابعین کا زمانہ تھا۔ خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے دور میں افریقا کے ایک علاقے کے عام لوگوں نے اسلام کو اس طرح قبول کیا کہ وہاں کے مسلمان حاکم کو اس میں شبہ ہوا کہ یہ لوگ واقعتا دل کی رغبت اور شرح صدر کے ساتھ اسلام قبول کر رہے ہیں یا حکومت کا مذہب ہونے کی وجہ سے دنیوی نفع اٹھانے کے لیے اپنے اسلام کا اعلان کررہے ہیں، چناں چہ انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ اس علاقہ کے سارے لوگ بڑی تیز رفتاری سے اسلام قبول کر رہے ہیں اور حکومتی کاروبار پر اس کا خاص اثر یہ پڑے گا کہ جزیہ کی مد کی آمدنی بالکل ختم ہو جائے گی، اس لیے یہ مسئلہ غور طلب ہے ۔ اگر آپ کی رائے ہو تو یہ قانون بنا دیا جائے کہ سرکاری طور پر صرف انہیں لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو فلاں فلاں طریقوں سے اپنا سچا اور مخلص مسلمان ہونا ثابت کر دیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ الله تعالیٰ ان کی قبر کو منور فرمائے۔ اپنے اس جواب میں انہوں نے اسلام اور اسلامی حکومت کا نصب العین کتنے محکم او راچھے انداز میں واضح کیا ۔ انہوں نے افریقا کے اپنے اس والی یعنی گورنر کو اس کے خط کے جواب میں لکھا:
ویحک، ان محمداً انما بعث ھادیا ولم یبعث جابیاً
اس مختصر سے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا برا ہو ، تمہارے سوچنے کا ڈھنگ کتنا غلط ہے؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیے ہمارا کام حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے مشن کو پورا کرنا ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم ہدایت کا او رالله کے بندوں کو دین کی طرف بلانے کا مشن لے کر آئے تھے ، ٹیکس وصول کرکے خزانے بھرنے نہیں آئے تھے ، اس لیے اگر الله کے بندے الله کا دین قبول کر رہے ہیں ۔ تو شکر ادا کرو اور خوش آمدید کہو، ٹیکس اور جزیہ کی اور حکومت کے مالیہ کی کوئی فکر نہ کرو۔
اس واقعہ سے انداز ہ کیا جاسکتا ہے کہ تابعین کے زمانے تک جب کہ مسلمانوں پررسول الله صلی الله علیہ وسلم والی زندگی غالب تھی اور عام طور سے لوگ اس کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے تو الله کے بندوں کے دل کس طرح ان کی طرف تھے اور وہ اسلام کے کیسے گرویدہ ہوتے تھے۔
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو زندگی لے کر آئے اور جس کی آپ دعوت دیتے تھے او رجو صحابہ کرام نے آپ سے حاصل کی تھی… اور اسی زندگی کا نام دراصل اسلام ہے … اس کی دو خاصیتیں تھیں ایک یہ کہ اس کے ساتھ الله تعالیٰ کی نصرت وحمایت تھی اور غیبی لشکروں سے اس کی مدد کی جاتی تھی اور دوسری یہ کہ انسانی قلوب اور انسانی فطرت کے لیے اس میں کشش تھی اور سخت سے سخت دشمن بھی تعصب سے خالی ہو کر جب اس کو دیکھتے تھے تو اس کے گرویدہ ہو کر اس کو اپنانے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ لیکن یہ خاصیتیں اسلام کے نام میں نہیں تھیں، بلکہ اس زندگی میں تھیں جس کا نام اسلام تھا۔ جس طرح شکر کی مٹھاس شکر کے نام میں نہیں ہے، بلکہ اس چیز میں ہے جس کا نام شکر ہے۔
میرے دینی بھائیو!… جس طرح پانی کی ٹھنڈک اور آگ کی گرمی اور سورج کی روشنی دائمی خاصیتیں ہیں اسی طرح اسلام کی یہ دونوں خاصیتیں بھی دائمی اور ابدی خاصیتیں ہیں، لیکن یہ اجتماعی اسلام کی خاصیتیں ہیں، جب دنیا میں کوئی امت اسلام کی حامل ہو گی تو یقینا اس کے ساتھ الله کی نصرت و حمایت ہو گی اور اس کے مسائل ومشکلات میں غیب سے اس کی مدد کی جائے گی اور دنیا کی جو قومیں اس امت کو دیکھیں اور برتیں گی وہ یقینا اس کی گرویدہ اور معتقد ہوں گی۔
آج صورت یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والی امت دنیا میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہے ، ابھی اسی ہفتہ میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد سوا ارب ہوچکی ہے۔سوا ارب بولنے اور لکھنے میں تو کوئی بہت بڑا ہندسہ نہیں ہے لیکن در حقیقت یہ بہت بڑی تعداد ہے ۔ صحابہ کرام کے کبھی تصور میں بھی نہ ہو گا کہ کسی وقت مسلمان دنیا میں سوا ارب ہوں گے ۔ لیکن حالت یہ ہے کہ دنیا میں ان کا کوئی وزن نہیں ۔ میں یہ بات ہندوستان ہی کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں جہاں ہم اقلیت میں ہیں او رحکومتی اقتدار ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ میں ان سب ملکوں کو بھی سامنے رکھ کر کہہ رہا ہوں جو آج اسلامی ممالک کہلاتے ہیں اور جن میں اقتدار مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی میزان میں آج ان کا کوئی وزن نہیں ہے ۔ان میں سے ہر ایک کوامریکا یا روس کی سرپرستی اور امداد کی ضرورت ہے ۔ یہ خدا کی نصرت وحمایت سے محرومی نہیں تو اور کیا ہے ؟ یہ صرف اس بات کا نتیجہ ہے کہ سوا ارب کی تعداد میں مسلمان کہلانے والے تو موجود ہیں لیکن دنیا میں ایسی امت موجود نہیں ہے جس کی زندگی رسول الله صلی الله علیہ وسلم والی زندگی ہو ۔ بے شک اس گئی گزری حالت میں بھی صحیح اسلامی زندگی کے حامل افراد موجود ہیں ۔ اور ان کو الله تعالیٰ یقینا وہ سب کچھ عطا فرمائے گا جو نیک صالح افراد کے لیے الله کا وعدہ ہے لیکن اسلامی زندگی کی جن خاصیتوں کا میں نے ذکر کیا وہ انفرادی زندگی کی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی خاصیتیں ہیں۔
اب ہمارے ،آپ کے اور سب مسلمانوں کے لیے دوراستے ہیں، ایک یہ کہ جس روش پر ہم چل رہے ہیں اسی پر چلتے رہیں اور اس کے نتیجہ میں الله سے او راس کے دین سے اور زیادہ دور ہوتے چلے جائیں ۔ اور پھر خدا نہ کرے ہمارا وہ حشر ہو جوقرآن مجید میں بنی اسرائیل کا بیان کیا گیا ہے کہ انہیں الله تعالیٰ نے ہدایت کی نعمت سے نوازا اور دنیا میں بھی عزت اور سربلندی عطا فرمائی ۔ لیکن جب انہوں نے اپنے نبیوں کا راستہ چھوڑ کر نفس پرستی اور خدا فراموشی کا طریقہ اختیار کیاتو الله تعالیٰ نے اپنی دی ہوئی ساری نعمتیں ان سے چھین لیں ۔ اور پھر اس حد تک ان پر الله کا غضب نازل ہوا کہ ان میں سے بہت سوں کو بند روں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : ﴿وجعل منھم القردة والخنازیر وعبدالطاغوت﴾․
اور سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے نافرمانی اور خدا فراموشی کا طریقہ اختیار کیا اور وہ اس میں حد سے بڑھ گئے تو الله تعالیٰ نے ان کے اوپر نہایت بے رحم اور جلاد صفت وشمنوں کو ان پر مسلط کیا، پھر انہوں نے بنی اسرائیل کو بری طرح پیسا جس کی تفصیل بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس قدر لرزہ خیز بیان کی گئی ہے کہ آج بھی اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میرے بھائیو! خدا کا کسی قوم سے اور کسی نسل سے رشتہ نہیں ہے ، اس کا قانون بڑا بے لاگ ہے ۔ نو ح علیہ السلام اس کے پیغمبر تھے، لیکن ان کے بیٹے نے جب کفر کی راہ اختیار کی تو اس وقت کے دوسرے کافروں کے ساتھ وہ بھی خدا کے غضب کا شکار ہوا۔ اور جب نوح علیہ السلام نے ایک غلط فہمی کی بنا پر اس کے حق میں کچھ عرض کیا تو بڑے جلال کے ساتھ ان سے فرمایا گیا:﴿انہ لیس من اھلک، انہ عمل غیر صالح، فلاتسئلنی مالیس لک بہ علم، انی اعظک ان تکون من الجاھلین﴾․
یعنی تمہارا بیٹا بد کارہے، اس لیے وہ ہمارے قانون کے مطابق تمہارے لوگوں میں نہیں ہے ، ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ نا دانی کی بات نہ کرو۔
میرے بھائیو اور دوستو! سوچو اور سمجھو! یہ ہے الله کی شان اور یہ ہے اس کا جلال ! میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ الله کا قانون بڑا بے لاگ ہے، ہمیں ڈرنا چاہیے اگر مسلمان قوم یا اس کی غالب اکثریت رسول الله صلی الله علیہ وسلم والی زندگی سے اسی طرح دور ہوتی گئی جس طرح بنی اسرائیل اپنے پیغمبروں کی لائی ہوئی زندگی سے دورہوتے چلے گئے تو ہمارا بھی وہی انجام نہ ہو جو بنی اسرائیل کا ہو چکا ہے۔
میں آپ سے عرض کر رہا تھاکہ ہم مسلمانوں کے سامنے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ ہم اپنی دینی اصلاح کی فکر نہ کریں اور زندگی کی گاڑی جس طرح چل رہی ہے اس کو اسی طرح چلنے دیں ، اس کے متعلق مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ میں آپ سے صاف صاف کہہ چکا۔ اور میرا کہنا یا نہ کہنا کیا چیز ہے ۔ اپنے اس طرز عمل کا نتیجہ تو ہم صدیوں سے بھگت رہے ہیں۔
اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم اصلاح کی فکر کریں، الله کی طرف پلٹیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی زندگی کو اپنی زندگی بنائیں اور اس کو امت کی اجتماعی زندگی بنانے کی فکروکوشش کریں ، پھر دنیا اور آخرت میں الله کی نصرت ورحمت کے مستحق بنیں اور پھر﴿یدخلون فی دین الله افواجا﴾ کا منظر قائم ہو۔
شیطان کا یہ بہت بڑا فریب ہے کہ جب یہ بات سامنے آتی ہے تو وہ ہمارے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ تو اس زمانہ میں ناممکن ہے حالاں کہ یہ محض اس دشمن خدا کا فریب ہے ۔ آپ خدا را سوچیے! کیوں ناممکن ہے؟ کیا خدا کی ذات وصفات اور دوسری ایمانیات پر یقین حاصل ہونا نا ممکن ہے؟ کیا آخرت کی فکر کا دنیا کی دوسری فکروں پر غالب ہو جانا ناممکن ہے ؟ کیا خداکے حکموں پر چلنا او رگناہوں سے بچناناممکن ہے ؟ کیا ان باتوں کو الله کے دوسرے بندوں میں عام کرنے کی کوشش کرنا ناممکن ہے ؟ … کیا انسانوں میں اچھی باتوں کے قبول کرنے کی صلاحیت بالکل نہیں رہی اور پیغمبروں کے لائے ہوئے راستہ پر چلنا کیا اب قانوناً جرم ہو گیا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے۔ صرف شیطان کا او راپنے نفس کا فریب ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ ہم اس بارہ میں اپنے ذہنوں کو صاف کریں اور جس طرح اپنے دنیوی کاموں کے سلسلہ میں عزم کے ساتھ فیصلہ کرکے کام شروع کر دیتے ہیں اسی طرح اپنی پچھلی کوتاہیوں سے الله کے حضور میں توبہ او راستغفار کرکے آئندہ کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے غائبانہ بیعت کی تجدید کریں اور آپ کے طریقہ پر چلنے اور اسی پر چلتے ہوئے جینے اور مرنے کا عہد کریں ۔﴿یا ایھا الذین آمنوا توبوا الی الله توبة نصوحا عسی ربکم ان یکفر عنکم سیاتکم ویدخلکم جنات تجری من تحتھا الانھار یوم لایخزی الله النبی والذین آمنوا معہ نورھم یسعی بین ایدیھم وبایمانھم یقولون ربنا اتمم لنا نورنا واغفرلنا انک علی کل شیء قدیر﴾․

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter