Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

2 - 17


***
جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں
مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ
﴿واذا اردنا ان نھلک قریة امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فدمرناھا تدمیراً وکم اھلکنا من القرون من بعد نوح، وکفی بربک بذنوب عبادہ خبیراً بصیراً﴾․
”اور جب ہم نے چاہا کہ غارت کریں کسی بستی کو، حکم بھیج دیا اس کے عیش کرنے والوں کو، پھر انہوں نے نا فرمانی کی اس میں، تب ثابت ہو گئی ان پر بات، پھر اکھاڑ مارا ہم نے ان کو اٹھاکر۔ اور بہت غارت کر دیے ہم نے قرن نوح کے پیچھے او رکافی ہے تیرارب اپنے بندوں کے گناہ جاننے والا د،یکھنے والا۔“
ربطِ آیات
اس سے پہلی آیات میں اس کا بیان تھا کہ حق تعالی کی عادت یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کے پاس انبیا علیہم السلام کے ذریعہ الله تعالیٰ کی ہدایات نہ پہنچ جائیں اور پھر بھی وہ اطاعت نہ کریں اُس وقت تک اُن پر عذاب نہیں بھیجتے۔ مذکورہ آیات میں اس کے دوسرے رخ کا بیان ہے کہ جب کسی قوم کے پاس رسول اور الله کے پیغام پہنچ گئے، پھر بھی انہوں نے سرکشی سے کام لیا تو اس پر عذاب عام بھیج دیا جاتا ہے۔
خلاصہ تفسیر
اور جب ہم کسی بستی کو ( جو اپنے کفرونافرمانی کی وجہ سے بہ مقتضائے حکمت الہیہٰ ہلاک کرنے کے قابل ہو) ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ( اُس کو بعثتِ رسل سے پہلے ہلاک نہیں کرتے بلکہ پہلے کسی رسول کی معرفت) اُس ( بستی) کے خوش عیش ( یعنی امیر ورئیس) لوگوں کو ( خصوصاً اور دوسرے عوام کو عموماً ایمان واطاعت کا) حکم دیتے ہیں، پھر ( جب) وہ لوگ ( کہنا نہیں مانتے، بلکہ ) وہاں شرارت مچاتے ہیں تب ان پر حجت تمام ہو جاتی ہے ۔ پھر اُس بستی کو تباہ وغارت کر ڈالتے ہیں اور ( اسی عادت کے موافق) ہم نے بہت سی امتوں کو نوح علیہ السلام ) کے (زمانہ کے) بعد ( ان کے کفرومعصیت کے سبب) ہلاک کیا ہے (جیسے عاد وثمود وغیرہ) اور نوح علیہ السلام کی قوم کا غرق ہو کر ہلاک ہونا مشہور معروف ہے، اس لیے من بعدنوح پر اکتفا کیا گیا خود قوم نوح کا ذکرنہیں کیا گیا (اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شروع سورت میں آیت ﴿ذریة من حملنا مع نوح﴾ میں لفظ حملنا سے سے طوفان نوح کی طرف اشارہ موجود ہے، اس کو قوم نوح کی ہلاکت کا بیان قرار دے کر یہاں مابعد نوح علیہ السلام کا ذکر فرمایا گیا۔) اور آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں کا جاننے والا دیکھنے والا کافی ہے ۔ ( تو جیسا کسی قوم کا گناہ ہوتا ہے ویسی سزا دیتا ہے۔)
معارف ومسائل
ایک شبہ اور اس کا جواب
الفاظ آیت اذا اردنا اور اس کے بعد امرنا کے ظاہر سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ ان لوگوں کا ہلاک کرنا ہی مقصود خداوندی تھا۔ اس لیے ا ول ان کو بذریعہ انبیا ایمان واطاعت کا حکم دینا پھر ان کے فسق وفجور کو عذاب کا سبب بنانا یہ سب الله تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو تو اس صورت میں یہ بیچارے معذور ومجبور ہوئے ۔ اس کے جواب کی طرف ترجمہ اور خلاصہ تفسیر کے ضمن میں یہ اشارہ آچکا ہے کہ الله تعالیٰ نے انسان کو عقل واختیار دیا اور عذاب وثواب کے راستے متعین کر دیے، جب کوئی اپنے اختیار سے عذاب ہی کے کام کا عزم کر لے تو عادت الله یہ ہے کہ وہ اُسی عذاب کے اسباب مہیا کر دیتے ہیں تو اصلی سبب عذاب کا خود ان کا عزم اور قصد ہے کفر ومعصیت کا ،نہ کہ محض ارادہ ،اس لیے وہ معذور نہیں ہو سکتے۔
آیت مذکورہ کی ایک دوسری تفسیر:
لفظ امرنا کا مشہور مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی حکم دیا ہم نے۔ لیکن اس آیت میں اس لفظ کی قرأتیں مختلف ہیں، ایک قرأت میں، جس کو ابو عثمانی ہندی ،ابو رجاء، ابو العالیہ اور مجاہدنے اختیار کیا ہے ،یہ لفظ بتشدیدمیم آیا ہے، یعنی أمرنا جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ ہم نے امیر وحاکم بنا دیا خوش عیش، سرمایہ دار لوگوں کو، جو فسق وفجور میں مبتلا ہو گئے اور سب قوم کے لیے عذاب کا سبب بنے۔
اور حضرت علی اور ابن عباس رضی الله عنہم کی ایک قرأت میں یہ لفظ آمرنا پڑھا گیا، جس کی تفسیر انہیں حضرات سے اکثرنا نقل کی گئی ہے۔ یعنی جب الله تعالی کسی قوم پرعذاب بھیجتے ہیں تو اُس کی ابتدائی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم میں خوش عیش، سرمایہ دار لوگوں کی کثرت کر دی جاتی ہے او روہ اپنے فسق وفجور کے ذریعہ پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔
عذاب الہٰی کی علامت
ان میں سے پہلی قرأت کا حاصل تو یہ ہوا کہ ایسے خوش عیش سرمایہ داروں کو قوم کا حاکم بنا دیا جاتا ہے اور دوسری قرأت کا حاصل یہ ہے کہ قوم میں ایسے لوگوں کی کثرت کر دی جاتی ہے ۔ ان دونوں سے یہ معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ جب کسی قوم پر ناراض ہوتے ہیں اور اس کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ابتدائی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے حاکم و رئیس ایسے لوگ بنا دیے جاتے ہیں جو عیش پسند، عیاش ہوں یا حاکم بھی نہ بنیں تو اس قوم کے افراد میں ایسے لوگوں کی کثرت کر دی جاتی ہے ۔ دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہوات ولذات میں مست ہو کر الله کی نافرمانیاں خود بھی کرتے ہیں دوسروں کے لیے بھی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں، بالآخر اُن پر الله تعالیٰ کا عذاب آجاتا ہے۔
مال داروں کا قوم پراثر ہونا ایک طبعی امر ہے
آیت میں خوش عیش مال داروں کا خصوصیت سے ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ فطری طور پر عوام اپنے مال داروں اور حاکموں کے اخلاق واعمال سے متاثر ہوتے ہیں ۔ جب یہ لوگ بدعمل ہو جائیں تو پوری قوم بدعمل ہو جاتی ہے ، اس لیے جن لوگوں کو الله تعالیٰ نے مال ودولت دیا ہے ان کو اس کی زیادہ فکر ہونا چاہیے کہ اپنے اعمال واخلاق کی اصلاح کرتے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ عیش پرستی میں پڑ کر اس سے غافل ہو جائیں۔ اور پوری قوم ان کی وجہ سے غلط راستے پر پڑ جائے تو قوم کے اعمال بدکا وبال بھی ان پر پڑے گا۔
﴿من کان یرید العاجلة عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید ثم جعلنا لہ جھنم یصلٰھا مذموما مدحورا ومن اراد الآخرة وسعی لھا سعیھا وھو مؤمن فاولئک کان سعیھم مشکورا کلانمد ھولاء وھولاء من عطاء ربک وماکان عطاء ربک محظورا، انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض وللآخرة اکبر درجٰت واکبر تفضیلاً﴾․
جو کوئی چاہتا ہو پہلا گھر جلد دے دیں ہم اس کو، اسی میں جتنا چاہیں جس کو چاہیں۔ پھر ٹھہرایا ہے ہم نے اس کے واسطے دوزخ۔ داخل ہوگا اس میں اپنی برائی سُن کر، دھکیلا جاکر۔ اور جس نے چاہا پچھلا گھر اور دوڑ کی اس کے واسطے جو اس کی دوڑ ہے اور وہ یقین پر ہے، سوایسوں کی دوڑ ٹھکانے لگی ہے ۔ ہر ایک کو ہم پہنچاتے ہیں اِن اور اُن کو تیرے رب کی بخشش میں سے اور تیرے رب کی بخشش کسی نے نہیں روک لی ۔ دیکھ کیسا بڑھادیا ہم نے ایک کو ایک سے اور پچھلے گھر میں تو اور بڑے درجے ہیں اور بڑی فضیلت۔
خلاصہ تفسیر
جو شخص ( اپنے نیک اعمال سے صرف) دنیا ( کے نفع) کی نیت رکھے گا ( خواہ اس لیے کہ وہ آخرت کا منکر ہے یا اس لیے کہ آخرت سے غافل ہے) ہم ایسے شخص کو دنیا ہی میں جتنا چاہیں گے ( پھر یہ بھی سب کے لیے نہیں بلکہ) جس کے واسطے چاہیں گے فی الحال ہی دے دیں گے ( یعنی دنیا ہی میں کچھ جزا مل جاوے گی) پھر ( آخرت میں خاک نہ ملے گا بلکہ وہاں) ہم اس کے لیے جہنم تجویز کر دیں گے، وہ اس میں بد حال راندہ (درگاہ) ہو کر داخل ہو گا اور جو شخص ( پنے اعمال میں ) آخرت ( کے ثواب) کی نیت رکھے گا اور اس کے لیے جیسی کوشش کرنا چاہیے ویسی ہی کوشش بھی کرے گا۔ (مطلب یہ ہے کہ ہر کوشش بھی مفید نہیں بلکہ کوشش صرف وہی مفید ہے جو شریعت اور سنت کے موافق ہو کیوں کہ حکم ایسی ہی کوشش کا دیا گیا ہے۔) جو عمل اور سعی شریعت وسنت کے خلاف ہو وہ مقبول نہیں، بشرطے کہ وہ شخص مومن بھی ہو سو ایسے لوگوں کی یہ سعی مقبول ہو گی۔ ( غرض الله کے یہاں کامیابی کی چار شرطیں ہوئیں ۔ اول تصیح نیت یعنی خالص ثواب آخرت کی نیت ہونا جس میں اغراض نفسانی شامل نہ ہوں۔ دوسرے اس نیت کے لیے عمل اور کوشش کرنا کہ صرف نیت اور ارادہ سے کوئی کام نہیں ہوتا، جب تک اس کے لیے عمل نہ کرے ۔ تیسرے تصحیح عمل، یعنی سعی وعمل کا شریعت وسنت کے مطابق ہونا،کیوں کہ مقصد کے خلاف سمت میں دوڑنا اور کوشش کرنا بجائے مفید ہونے کے مقصد سے اور دور کر دیتا ہے۔ چوتھی شرط جو سب سے اہم اور سب کا مدار ہے وہ تصحیح عقیدہ یعنی ایمان ہے ۔ ان شرائط کے بغیر کوئی عمل الله کے نزدیک مقبول نہیں اور کفار کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہونا ان کے اعمال کی مقبولیت کی علامت نہیں، کیوں کہ دنیا کی نعمتیں مقبولین بارگاہ کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ) آپ کے رب کی عطا ( دُنیوی) میں سے تو ہم ان (مقبولین) کی بھی امداد کرتے ہیں اور ان ( غیر مقبولین) کی بھی ( امداد کرتے ہیں ) اور آپ کے رب کی عطا (دنیوی کسی پر ) بند نہیں ۔ آپ دیکھ لیجیے کہ ہم نے ( اس دنیاوی عطا میں بلاشرط ایمان وکفر کے ) ایک دوسرے پر کس طرح فوقیت دی ہے (یہاں تک کہ اکثر کفار اکثر مؤمنین سے زیادہ نعمت ودولت رکھتے ہیں، کیوں کہ یہ چیزیں قابل وقعت نہیں) اور البتہ آخرت ( جو مقبولین بارگاہ کے ساتھ خاص ہے وہ ) درجات کے اعتبار سے بھی بہت بڑی ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی ( اس لیے اہتمام اسی کا کرنا چاہیے) ۔
معارف ومسائل
آیات مذکورہ میں اپنے عمل سے صرف دنیا کا ارادہ کرنے والوں کا او ران کی سزا کا جو بیان فرمایا ہے اس کے لیے تو الفاظ﴿من کان یرید العاجلة﴾ استعمال فرمائے جو استمرار ودوام پر دلالت کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سزائے جہنم صرف اس صورت میں ہے کہ اس کے ہر عمل میں ہر وقت صرف دنیا ہی کی غرض چھائی ہوئی ہو، آخرت کی طرف کوئی دھیان ہی نہ ہو اور ارادہٴ آخرت کرنے او راس کی جزا کے بیان میں لفظ ﴿اراد الاٰخرة﴾ کا استعمال فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ مؤمن جس وقت بھی جس عمل میں آخرت کا ارادہ اور نیت کرلے گا اُس کا وہ عمل مقبول ہو جائے گا، خواہ کسی دوسرے عمل کی نیت میں کوئی فساد بھی شامل ہو گیا ہو۔
پہلا حال صرف کافر، منکر آخرت کا ہو سکتا ہے، اس لیے اس کا کوئی بھی عمل مقبول نہیں اور دوسرا حال مومن کا ہے ۔ اس کا وہ عمل جو اخلاص نیت کے ساتھ آخرت کے لیے ہو اور باقی شرائط بھی موجود ہوں وہ مقبول ہو جائے گا اور اس کے بھی جس عمل میں اخلاص نہ ہو یا دوسری شرطیں مفقود ہوں وہ مقبول نہیں ہو گا۔
بدعت اور خود رائی کا عمل کتنا ہی اچھا نظر آئے مقبول نہیں
اس آیت میں سعی وعمل کے ساتھ لفظ سعیھا بڑھا کر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ہر عمل اور ہر کوشش نہ مفید ہوتی ہے نہ عندالله مقبول، بلکہ عمل وسعی وہی معتبر ہے جو مقصد ( آخرت) کے مناسب ہو اور مناسب ہونا یا نہ ہونا یہ صرف الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بیان سے ہی معلوم ہو سکتا ہے، اس لیے جو نیک اعمال خود رائی اور من گھڑت طریقوں سے کیے جاتے ہیں، جن میں بدعات کی عام رسوم شامل ہیں، وہ دیکھنے میں کتنے ہی بھلے اور مفید نظر آئیں مگر آخرت کے لیے سعی مناسب نہیں اس لیے نہ وہ الله کے نزدیک مقبول ہیں اور نہ آخرت میں کارآمد۔
اور تفسیر روح المعانی نے سعیھا کی تشریح میں سعی کے مطابق سنت ہونے کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اس عمل میں استقامت بھی ہو، یعنی عمل مفید مطابق سنت بھی ہو اور اس پر استقامت اور مداومت بھی، بدنظمی کے ساتھ کبھی کر لیا کبھی نہ کیا، اس سے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔
﴿لا تحعل مع الله الھا آخر فتقعد مذموما مخذولا، وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما أو کلاھما فلا تقل لھا اف ولا تنھر ھما وقل لھما قولاً کریما، واخفض لھما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ربکم أعلم بما فی نفوسکم ان تکونوا صٰلحین فانہ کان للأوابین غفورا﴾․
مت ٹھہرا الله کے ساتھ دوسرا حاکم۔ پھر بیٹھ رہے گا تو الزام کھا کر بیکس ہو کر اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوا اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو ۔ اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں ۔ تو نہ کہہ ان کو ہوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی اور جھکا دے ان کے آگے کاندھے، عاجزی کر کے نیاز مندی سے اور کہ اے رب ان پر رحم کر، جیسا انہوں نے پالا مجھ کو چھوٹا سا، تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے جی میں ہے ، اگر تم نیک ہو تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشتا ہے۔
ربط آیات
سابقہ آیات میں قبول اعمال کے لیے چند شرائط کا بیان آیا ہے ۔ جن میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ عمل مقبول وہی ہو سکتا ہے جو ایمان کے ساتھ ہو اور شریعت وسنت کے مطابق ہو ۔ ان آیات میں ایسے ہی خاص خاص اعمال کی ہدایت کی گئی ہے جو شریعت کے بتلائے ہوئے احکام ہیں ۔ ان کی تعمیل آخرت کی فلاح اور ان کی خلاف ورزی آخرت کی ہلاکت کا سبب ہے اور چوں کہ شرائط مذکورہ میں سب سے اہم شرط ایمان کی ہے، اس لیے سب سے پہلا حکم بھی توحید کا بیان فرمایا۔ اس کے بعد حقوق العباد سے متعلق احکام ہیں ۔
خلاصہ تفسیر
حکم اول توحید ﴿لاتجعل مع الله الھاً آخر﴾ ( اے مخاطب!) الله کے ساتھ کوئی اور معبود مت تجویز کر( یعنی شرک نہ کر)، ورنہ تو بدحال، بے یارومددگار ہو کر بیٹھ رہے گا ۔( آگے پھر اسی کی تاکید ہے ) تیرے رب نے حکم کر دیا ہے کہ بجز اس (معبود برحق) کے کسی کی عبادت مت کر۔( یہ سعی آخرت کے طریقہ کی تفصیل ہے۔)حکم دوم۔ ادا حقوق والدین ﴿وبالوالدین احسانا﴾اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو، اگر ( وہ) تیرے پاس ( ہوں اور) ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے ( کی عمر) کو پہنچ جائیں ( جس کی وجہ سے محتاج خدمت ہو جائیں اور جب کہ طبعاً ان کی خدمت کرنا بھاری معلوم ہو) سو( اس وقت بھی اتنا ادب کرو کہ ) ان کو کبھی ( ہاں سے ) ہوں بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا۔ اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا او ران کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا۔ اور ( ان کے لیے حق تعالی سے) یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے، جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن (کی عمر) میں پالا، پرورش کیا ہے ( اور صرف اس ظاہری توقیر وتعظیم پر اکتفا مت کرنا، دل میں بھی ان کا ادب اور قصداطاعت رکھنا، کیوں کہ)، تمہارا رب تمہارے دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے۔ ( اور اسی وجہ سے تمہارے لیے اس کی تعمیل آسان کرنے کے واسطے ایک تخفیف کاحکم بھی سناتے ہیں کہ) اگر تم (حقیقت میں دل ہی سے) سعادت مند ہو ( اور غلطی یا تنک مزاجی یا دل تنگی سے کوئی ظاہری کوتاہی ہو جائے او رپھر نادم ہو کر معذرت کر لو) تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کر دیتا ہے ۔
معارف ومسائل
والدین کے ادب واحترام اور اطاعت کی بڑی اہمیت
امام قرطبی نے فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے، جیسا کہ سورہ لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملاکر لازم فرمایا ہے ﴿ان اشکرلی ولوالدیک﴾ ( یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی )۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الله جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور الله تعالیٰ کے شکر کے ساتھ والدین کا شکر گزار ہونا لازمی ہے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے، جس میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ الله کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” نماز اپنے وقت ( مستحب) میں ۔اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” والدین کے ساتھ اچھا سلوک“۔ (قرطبی)
فضائل روایاتِ حدیث میں:
مسند احمد ، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم میں بسند صحیح حضرت ابوالدرداء سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا ضائع کردو۔“ (مظہری)
او رجامع ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبدالله بن عمر کی راویت ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” الله کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور الله کی ناراضی باپ کی ناراضی میں۔“
ابن ماجہ نے بروایت حضرت ابوامامہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اولاد پر ماں، باپ کا کیا حق ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” وہ دونوں ہی تیری جنت یا دوزخ ہیں۔“ مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت وخدمت جنت میں لے جاتی ہے اوران کی بے ادبی اور ناراضی دوزخ میں۔
بیہقی نے شعب الایمان میں اورابن عساکر نے بروایت حضرت ابن عباس  نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو شخص الله کے لیے اپنے ماں باپ کا فرماں بردار رہا اس کے لیے جنت کے دروازے کھلے رہیں گے اور جوان کا نافرمان ہوا اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے او راگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہی تھا تو ایک دروازہ ( جنت یا دوزخ کا کھلا رہے گا)۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ ( یہ جہنم کی وعید) کیا اس صورت میں بھی ہے کہ ماں باپ نے اس شخص پر ظلم کیا ہو تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا وان ظلما وان ظلما وان ظلما ( یعنی ماں باپ کی نافرمانی اور ان کو ایذا رسانی پرجہنم کی وعید ہے خواہ ماں باپ نے ہی لڑکے پر ظلم کیا ہو۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں کہ انہوں نے ظلم کیا تو یہ بھی ان کی خدمت واطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں۔



x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter