Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 11
چند اہم اسلامی آداب
چند اہم اسلامی آداب
(۷)
ادب :۲۱
جب آپ اپنے والد ،یا کسی قابل احترام قریبی شخص ، یا اپنے برابر ،یااپنے سے کم درجہ کے دوست کے استقبال کیلئے گھرسے باہر نکلیں ،یا آپ خود سفر سے آرہے ہوں ،تو اپنی صفائی اور ظاہری وضع قطع کا خیا ل رکھیں ،اگر وہ آپ سے کم ہے تو اپنی ظاہری ہیئت کو اس طرح بنائیں جو آپ کے مناسب ہو۔اور اگر آپ سے اونچا ہو تو اپنی ہیئت ایسی بنائیں جو اس کے مناسب ہے ،اس لئے کہ آنکھ خوبصورت،اچھی ہیئت ، صاف ستھری اورباوقار صورت کو دیکھ کر خوش ہو تی ہے اور ظاہری ہیئت میں کوتاہی سے بچو،کیونکہ اس سے ملاقات کی خوشی اورلذت میں کمی آتی ہے ،اور آنکھ کو محبوب اور محترم کودیکھنے کاحق ہے ،اسے دیکھنے سے آنکھ خوش ہوتی ہے۔
ان ہی آداب کی طرف رسول معظم اور نبی امی صلوات اللہ وسلامہ علیہ اپنے اس قول اور ارشاد میں راہنمائی فرماتے ہیں:
”انکم قادمون علی اخوانکم ،فاحسنوا لباسکم، واصلحوا رحالکم،مظہر دوابکم و مراکبکم ،حتیٰ تکونوا کانکم شامة فی الناس،فان اللّٰہ لا یحب الفحش والتفحش۔“( ابو داوٴد ، حاکم مسند امام احمد )
ترجمہ:۔”تم عنقریب اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو، لہٰذا اچھے لباس پہن لو، اپنی سواریوں کو درست کرلو، یعنی ان کا ظاہری منظر ،تاکہ تم لوگوں میں ممتاز نظر آوٴاور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا بُرے عمل اور فحش گوئی کو۔“
اگر ممکن ہو توآپ اپنے ساتھ کوئی تحفہ وغیرہ ضروررکھ لیں ،جو آپ اپنے میزبان یا اپنے مہمان کو پیش کرسکیں، تاکہ یہ ان کے تحفہ کا بدلہ ہوجائے تو آپ ایسا ضرور کرلیں ،کیونکہ آنکھ ملاقات میں اچھے منظر کا انتظار کرتی ہے ، اور توقع رکھتی ہے کہ ایسی ملاقات میں نفس کو ظاہری اور باطنی خوشی حاصل ہو، اور تحفہ محبت پیدا کرتاہے ،اسی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”تھادَوا تحابُّوا۔“ یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو آپس میں محبت بڑھیگی۔“
سلف صالحین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ کسی کو ملنے جاتے تو اپنے ساتھ تحفہ لے کر جاتے ،اگر چہ وہ پیلو کی مسواک ہی کیوں نہ ہو ۔
ادب :۲۲
جب آپ کے ہاں کوئی مہمان آئے تو آپ کو اس کی مہمانی کے آداب معلوم ہو نے چاہئیں، اور اس کے اکرام کا حق ادا کرنا چاہئے ،اس سے میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ اس کے کھانے پینے میں مبالغہ کریں، کیونکہ ان امور میں اعتدال سنت ہے، اور بغیر اسراف کے اکرام مطلوب ہے ،میرا مقصد اس سے یہ ہے کہ آپ اس کے بیٹھنے ،آرام کرنے اور سونے کا اچھا بندوبست کریں،اور گھر میں اُسے قبلہ کی سمت اور رُخ بتائیں،اوراُسے وضو اور طہارت کی جگہ بتلائیں ،اور اس جیسے دوسری ضروریات کا خیال رکھیں۔
جب آپ اپنے مہمان کو وضو کے بعد یا کھانے کے بعد یا ہاتھ دھونے کے بعد تولیہ پیش کریں تو وہ صاف ستھرا ہو نا چاہئے ،وہ آپ کے یا آپ کے گھر والوں کے استعمال والا نہیں ہو نا چاہئے ،اسی طرح اگر ممکن ہو توآپ اس کے سامنے خوشبو بھی پیش کریں تاکہ وہ خوشبو لگائے۔ اسی طرح آئینہ بھی پیش کریں ، تاکہ وہ اپنے آپ کو سنوارسکے ، ایسے ہی غسل خانہ اور بیت الخلاء میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء صاف ستھری ہونی چاہئیں اور غسل خانہ سے ایسی تمام چیزیں اٹھا دیں جن پر مہمان اور اجنبی شخص کی نگاہ پڑنا مناسب نہیں۔
نیند اور آرام کے وقت مہمان کی راحت کا خیال رکھیں، بچوں کی چیخ و پکار اور گھر کے شور و غل سے اسے بچائیں۔
مہمان کی نگاہ سے مستورات کے کپڑے اور ان سے متعلق جو چیزیں ہیں انہیں دور رکھیں،کیونکہ یہ وقار کا حصہ ہے ،اوریہ آپ کے اور مہمان کے لئے عزت کا باعث ہے۔
آپ خود بھی مہمان کے سامنے اچھی ہیئت میں آئیں ،اگر چہ اس میں تکلف نہ ہو، نہایت ذوق اور احترام سے اس کی خدمت کریں اور اچھی دوستی اور محبت کی وجہ سے اس میں سستی اور وقار کے خلاف وضع و قطع اختیار نہ کریں، ہمارے سلفِ صالحین جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو اپنے ظاہر کا بہتر اہتمام کرتے تھے۔
جب آپ خود کسی دوسرے یا رشتہ دار کے ہاں مہمان ہوں تو کوشش کریں کہ اس پر آپ بار نہ بنیں، اس کے مشاغل اور کام کے اوقات کا خیال رکھیں،اور مہمانی کے وقت کو جتنا ممکن ہو، مختصر رکھیں۔کیونکہ ہر شخص کے تعلقات ،فرائض اور مختلف ظاہری اور مخفی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اپنے میزبان کے ساتھ نرم برتاوٴ کیجئے اور اس کے اپنے امور ،اعمال اور فرائض کے ادا کرنے میں اس کے معاون بن جائیے۔
جب آپ میزبان کے گھر میں ہوں تو اپنی نگاہ کو تتبع اور تلاش میں آزاد نہ چھوڑیں ،خصوصاً جب آپ کو کسی دوسرے کمرہ میں بلا یا جائے جو مہمانوں کے لئے خاص نہیں ہے، لہٰذا اپنی نگاہ کو نیچا رکھیں، کیونکہ ممکن ہے وہاں کوئی ایسی چیز ہو جس کا دیکھنا آپ کے لئے نامناسب ہو ،نیز غیر متعلقہ سوالات سے بھی بچیں۔
ادب :۲۳
آپ کے مسلمان بھائی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائے تو آپ اس کی تیمارداری کریں ،اس سے اسلامی اخوت اور شجرہ مراسم کی سیرابی ہو تی ہے اور اس میں بہت زیادہ اجرو ثواب بھی ہے جس میں نیکیوں کا حریص کبھی کوتاہی نہیں کرتا،جیسا کہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
”إن المسلم إذا عاد أخاہ المسلم ، لم یزل فی خرفة الجنة حتیٰ یرجع،قیل یا رسول اللّٰہ :وما خرفة الجنة؟ قال : جناہا۔“
یعنی ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کرتا ہے تو وہ برابر جنت کے خوشوں میں رہتا ہے جب تک کہ واپس نہ لوٹے ،آپ سے پوچھا گیا: یارسول الله! جنت کے خوشوں کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے فرمایا : اس کے پھل ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”من عاد مریضا لم یزل یخوض فی الرحمة حتیٰ یجلس ،فإذا جلس اغتمس فیہا۔“ ( رواہ احمد وابن ماجہ)
یعنی ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کرتا ہے تو وہ برابر اللہ کی رحمت میں غوطے لگاتا ہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے، اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: اعجازِ قرآنی کی ایک اور وجہ
Flag Counter