Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 11
موجودہ حالات کا ذمہ دا رکون؟
موجودہ حالات کا ذمہ دا رکون؟


موجودہ حالات کی ابتری کم وبیش ہر مجلس کا موضوع گفتگو ہے‘ اس کے ساتھ ہی ہر شخص اپنی اپنی سوچ او رعلم کے مطابق ان کی وجوہات بھی بیان کرتا ہے‘ حالانکہ قرآن پاک میں صاف ارشاد خداوندی ہے: ”ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس“۔ کہ خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب بلائیں پھیل رہی ہیں۔ دوسری جگہ صریح ارشاد ہے: ”وما اصابکم من مصیبة فبما کسبت ایدیکم“ اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تووہ تمہارے ہی ہاتھوں سے پہنچتی ہے ۔ یہ بداحوال گناہوں کی وجہ سے رونما ہورہے ہیں ،لیکن انسان کا مزاج ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھنے کے بجائے دوسروں کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے ،حالانکہ انصاف پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص اپنی کوتاہی کا برملا اعتراف کرکے اس کی اصلاح کا تدارک کرے۔لہذا یہ بات ہم سب کے سوچنے کی ہے کہ موجودہ حالات کی خرابی میں میری کن کن بداعمالیوں کا حصہ ہے۔
یوں تو ہمارے تمام پریشان کن احوال کسی نہ کسی گناہ کا ہی نتیجہ ہیں‘ تاہم بعض ان احوال وافکار کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے آج ہماری مجالس اور اخبارات ورسائل ان پر تبصروں سے بھرے ہوئے ہیں اور اہل دانش وفکر ان کے ازالے کی مختلف تجاویز بھی بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس سے انکار اور اختلاف ہرگز نہیں کہ ممکنہ ظاہری وجوہ جو بھی ہوں ان کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جائے ،تاہم حقیقی مربی وشفیق ذات نے ان حالات کے وقوع کے جو اسباب بیان فرمائے ہیں ،ان سے بچے بغیر حالات کبھی بھی سازگار نہیں ہوسکتے‘ کیونکہ ہم نے ہر طرح کی تدابیر اختیار کر لی ہیں‘ان سے حالات سدھر نے کی بجائے دن بدن بگڑتے ہی جارہے ہیں‘ بقول خواجہ صاحب:
نہ صورت ہے مسلمانی نہ سیرت ہے مسلمانی
بھلا اس حال میں پھر کیا ہو تم پر فضل یزدانی
رہے ناکام گو تم کر چکے ہر سعی امکانی
مسلمان بن کے دیکھو کامراں پھر ہو بآسانی
اب ہم ان احوال کا ذکر کرتے ہیں جن سے ہم دوچارہیں‘ پھر حدیث نبوی کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ہمارے مصائب وآفات کس گناہ کی پاداش ہیں اور ان احوال کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
۱۔اموات کی کثرت:
آج چاروں طرف اموات کی کثرت ہے‘ آئے دن اموات کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں‘ اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ سن لیجئے‘ آپ ا نے فرمایا: ”زنا جب عام ہوتا ہے تو اموات کی کثرت ہوتی ہے“ معلوم ہوا کہ اموات کی کثرت کے ذمہ دار زنا‘ بدفعلی وغیرہ گناہوں کے مرتکبین ہیں‘ اسی طرح فحاشی پر زلزلوں کا آنا بھی منقول ہے‘ انہی وجوہ سے اموات کی کثرت ہے۔
۲-قتل وغارت:
آج پورے ملک میں جس طرح قتل وغارت کا بازار گرم ہے، اس سے قبل اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ لکھنے کو کئی وجوہات تحریر کی جاسکتی ہیں اور اہل حل وعقد اس کی روک تھام کی کئی تجاویز بھی پیش کرتے رہتے ہیں اور پوری حکومتی مشینری بھی سرگرم عمل ہے، لیکن معاملہ روز افزوں ہے‘اس کی وجہ کیا ہے؟ حدیث نبوی ہے‘ آپ ا نے فرمایا کہ:” فیصلوں میں ظلم کرنے کے سبب قتل کی کثرت ہوتی ہے‘ ‘اسی طرح جھوٹی قسم کے بارے میں آتا ہے کہ یہ آبادیوں کو خالی کردیتی ہے۔ ظالمانہ فیصلے کرنے والے اور جھوٹی قسم کھانے والے مذکورہ بالا ارشادات پر ذرا غور فرمالیں کہ قتل وغارت ہرطرح کی تدابیر کے باوجود کیوں ختم نہیں ہورہی؟
۳-نت نئے امراض:
آج کا دور مشینی دور ہے‘ انسانوں کو راحت دینے کے لئے ہر قسم کے جدید آلات ایجاد ہورہے ہیں ،لیکن ہرطرح کی سہولیات‘ اسباب راحت میسر ہونے کے باجود آج کا انسان ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوتا جارہا ہے کہ تشخیص ہی نہیں ہوپارہی‘ حالانکہ نت نئے کلینک‘ ہسپتال اور ٹیسٹ لیبارٹریز بھی بن رہی ہیں لیکن امراض ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے‘ نتیجتاً آج کا انسان ہرطرح کے اسباب ووسائل کے باوجود پریشان ہے‘ ایسا کب ہوتا ہے؟ حدیث شریف میں ہے کہ:” جب بے حیائی کے کام علی الاعلان کئے جاتے ہیں تو ان میں ایسے امراض ظاہر ہوتے ہیں جو ان کے باپ دادوں میں بھی کبھی نہیں ہوئے تھے‘ لہذا جو لوگ بے حیائی میں مبتلا ہیں اور آلات لہو ولعب کے ذریعے بے حیائی کو عام کررہے ہیں‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں‘ بے حیائی سے بچے بغیر ہم صحت مند زندگی نہیں گذار سکتے‘ چاہے جتنے ہسپتال اور کلینک کھول لیں۔
۴-رزق کی کمی:
آج بے روزگاری‘ وسائل کی قلت اور رزق سے محرومی کا رونا عالمی سطح پر رویا جارہا ہے اور ان مسائل کے حل کے لئے ہرطرح کے اسباب کو بروئے کار لایا جارہا ہے، لیکن معاملہ جوں کا توں بلکہ روز افزوں ہے‘ ا س کی وجہ حدیث شریف میں یہ آئی ہے کہ:” بے شک آدمی گناہ کے سبب جس کو وہ اختیار کرتا ہے رزق سے محروم ہوجاتا ہے“ ۔دوسری حدیث میں آتا ہے کہ:” جھوٹ رزق کو کم کردیتا ہے“ معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں غذائی قلت اور رزق کی کمی اللہ کی نافرمانی اور جھوٹ کے سبب سے ہے‘ لہذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی‘ جھوٹ‘ فریب‘ دغابازی(جس میں ہم سب مبتلا ہیں) کو چھوڑے بغیر کبھی بھی رزق کی فراوانی حاصل نہیں ہوسکتی۔
۵-مہنگائی کا عذاب:
رزق کی کمی میں ابتلا تو ہے ہی، اس کے ساتھ مہنگائی اور گرانی اور آئے دن اشیاء کے نرخوں میں اضافہ مزید براں ہے۔ غریب‘ متوسط تو کیا، اب تو امراء کی بھی قوت خرید متأثر ہوتی جارہی ہے‘ عالمی سطح پر مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں لیکن مندی کا رجحان پھر بھی غالب ہے‘ آخر کیوں؟ پیغمبر ا کا ارشاد ہے کہ:” ناپ تول میں کمی کرنے سے رزق بند کردیا جاتا ہے‘ قحط اور سخت محنت میں مبتلا ہوتے ہیں اور گرانی گھیر لیتی ہے“۔ نیز ان پر لوگوں کے مطالبے اور قرضے وغیرہ زیادہ ہوجاتے ہیں‘ان کے حکام ان پر ظلم کرنے لگتے ہیں‘ آج ناپ تول کے پیمانوں میں دہرے معیار کے ہم کہاں کہاں مرتکب ہوتے جارہے ہیں‘ سورة المطففین کی تفسیر پڑھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ ارشادات پڑھ لینے کے بعد کیا ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ موجودہ مہنگائی قحط اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اور ہمارے تبصروں اور تجزیوں کا رخ کس طرف ہوتا ہے؟ کاش ہم اصل حقیقت کا ادراک کر سکیں اور ان وجوہات کا تدارک کریں جس کی پاداش میں ہمیں مذکورہ حالات کا سامنا ہے۔
۶-پانی کا بحران:
اس وقت پانی کا مسئلہ عالمگیر صورت اختیار کرتا جارہا ہے‘ بارشوں کی کمی بھی ایک وجہ ہے‘ یہ کس گناہ کا وبال ہے؟ تو حدیث شریف ملاحظہ ہو‘آپ ا نے فرمایا: جب لوگ زکوٰة نہ دیں تو ان سے بارش روک لیجاتی ہے‘ اسی طرح آتا ہے کہ جب حکام ظلم کرنے لگیں تو بارش کم ہوگئی۔
آیئے مالدار اور اہل اقتدار کو اپنی اپنی کوتاہی کی طرف متوجہ کریں‘ تاکہ وہ توبہ کریں اور خوب بارشیں ہوں تاکہ پانی کی قلت کا گھمبیر مسئلہ حل ہوجائے‘ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سب احوال‘ اعمال کا ہی یہ ثمر ہے۔ سورة الجن میں ارشاد خداوندی ہے: ”وان لو استقاموا علی الطریقة لاسقینٰہم ماء غدقاً“ ۔”اور اگر یہ لوگ راستہ پر قائم ہو جاتے تو ہم ان کو فراغت کے پانی سے سیراب کرتے“۔
اس آیت میں متنبہ فرمادیا کہ سب لوگ ظلم وشرارت سے باز آکر اللہ کے راستہ پر چلیں تو قحط دور ہو اور باران رحمت سے ملک سرسبز وشاداب کردیا جائے (تفسیر عثمانی) پس معلوم ہوا کہ پانی کابحران بھی اعمال صالحہ کے اہتمام سے حل ہوسکتا ہے۔
۷-اختلاف وانتشار:
آج پوری قوم آپس میں دست وگریبان ہے اور ہر سطح پر اختلاف کے عذاب میں گرفتار ہے اور ہماری قوت منتشر ہوچکی ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے ؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: جب مسلمان احکام قرآنی جاری نہیں کرتے تو مسلمانوں میں آپس میں اختلاف اور جنگ چھڑ جاتی ہے۔ دوسری حدیث میں آتاہے کہ: صفیں درست نہ کرنے سے دلوں میں پھوٹ پڑجاتی ہے‘ بعض روایات میں ہے کہ تمہارے قلوب میں اختلاف پڑ جائے گا‘ یہ مسئلہ بھی اعمال صالحہ سے حل ہوسکتا ہے‘ سورہ الممتحنة میں ہے :
 ”عسی الله ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتم منہم مودة“۔” امید ہے کہ کردے تم میں اور جو دشمن ہیں تمہارے ان میں دوستی اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“۔
مقصود یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے معاملہ صحیح ہوجائے تو دشمن اور مدمقابل کافر کیوں نہ ہو‘ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے کر دشمنی کو دوستی میں تبدیل کردیتے ہیں‘ بقول خواجہ صاحب:
جواب بھی دین وایمان پھر تمہارا حال ہوجائے
تو حاصل پھر تمہیں اپنا وہی اقبال ہوجائے
تمہیں جو مینا چاہئے وہ خود پامال ہوجائے
ابھی سب فتنہ پردازوں کا استیصال ہوجائے
قوم کو اتفاق واتحاد کی دعوت دینے والے کیا مذکورہ وجوہات کی طرف بھی توجہ دیں گے؟ جو حدیث میں مذکور ہوئیں۔
۸-چوری وڈاکہ زنی:
اخبارات میں آئے دن چوری اور ڈاکے کی وارداتوں کی خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ ڈاکو دن دیہاڑے سارے گھر یا دکان کا صفایا کرکے بھاگ گئے‘ سرمایہ چھین کر نکل گئے‘ ایسا کب ہوتا ہے؟ ظاہری جو بھی وجوہات بیان کی جائیں لیکن حدیث شریف میں صاف مذکور ہے کہ جس مال میں زکوٰة واجب ہوئی ہے اور ادا نہ کی گئی تو وہ زکوٰة کا حصہ اس مال کو ہلاک کردیتا ہے‘ اہتمام سے مال کی زکوٰة نکالتے رہیں‘ ورنہ جب تک ہمارے مالوں میں زکوٰة کی رقم شامل رہے گی‘ سرمایہ کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
۹-دشمنوں سے مرعوبیت:
مسلمان ہرقسم کے جدید اسلحہ اور ہتھیاروں کے باوجود دشمن سے خوف زدہ اور مرعوب ہیں‘ اس کی وجہ کیا ہے؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس قوم میں رشوت کا لین دین ہو یا خیانت عام ہو ان کے دلوں پر رعب چھاجاتا ہے‘ دوسری روایت کے مطابق جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دشمن مسلط کردیتے ہیں جو ان کے اموال ناجائز طریق پر چھین لیتے ہیں اور فرمایا: جب اہل ذمی سے دھوکہ کیا جائے تو دشمن ظاہر ہوں گے۔ اس وقت ہم غیروں سے مرعوب کیوں ہیں؟ اور اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ حدیث بالاسے بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے‘ ورنہ احکم الحاکمین کاتو صاف وعدہ ہے ”وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین“ غالب تم ہی رہوگے اگر مؤمن ہو۔ بقول خواجہ صاحب: وعدہ غلبہ ہے مؤمن کے لئے قرآن میں
پھر جو تو غالب نہیں کچھ ہے کسر ایمان میں
نہ ہرگز ان پہ غالب کسب مال وجاہ سے ہوگے
نہ جب تک حملہ آور ان پہ دینی راہ سے ہوگے
نہ ہرگز کامراں سہی گہ وبیگاہ سے ہوگے
نہ جب تک مل کے سب وابستہ حبل اللہ سے ہوگے
۱۰-حکام کا ظلم:
حکام کا ظلم بھی اعمال بد کا ثمرہ ہے ”اعمالکم عمالکم“ جیسے اعمال ہوتے ہیں ویسے حاکم مسلط کئے جاتے ہیں‘ اسی بناء پر حدیث شریف میں ہے کہ: بادشاہوں کو برابھلا مت کہو کیونکہ حکام کا ظلم گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے‘ لہذا انہیں برا بھلا کہنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں تو خود ہی ظلم سے نجات مل جائے گی۔
آج جس مجلس میں چلے جائیں یا کوئی بھی اخبار اٹھاکر دیکھ لیں انہی مذکورہ بالا دس امور کا تذکرہ یا ان پر تبصرہ سننے کو ملے گا اور ان احوال بالا سے نجات کے کئی نسخے وتجاویز بھی عرض کی جاتی ہیں‘ کسی نہ کسی حد تک ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے‘ لیکن خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا‘ کیونکہ اصل وجوہات جن کی خبر احادیث شریف میں مذکور ہے اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا‘ لہذا حالات جوں کے توں بلکہ دگرگوں ہیں‘ بقول خواجہ صاحب:
تمہارا وہ گذشتہ کروفر واپس نہ یوں ہوگا
تمہارا یوں نہ ہرگز راست بخت واژگوں ہوگا
تمہارا یوں نہ ہرگز ٹھیک یہ حال زبوں ہوگا
تمہارا درد دنیاوی مداووں سے فزوں ہوگا
مسلمانو! اٹھو عمل تیار ہوجاؤ
نہیں یہ وقت غفلت کا بس اب بیدار ہوجاؤ
علاج:
حالات کی درستگی کا اصل علاج یہی ہے کہ مذکورہ بالا احوال کی جو وجوہات ہمارے آقا پیغمبر ا نے ارشاد فرمائی ہیں‘ ان وجوہات سے بچنے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ساتھ تمام افراد امت درج ذیل دو امور کا اہتمام کریں تو ہمارے بگڑے ہوئے حالات کافی حد تک ٹھیک ہوسکتے ہیں‘ اہتمام شرط ہے:
۱- کثرت استغفار:
انسان گناہوں کی کثرت کی وجہ سے طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار اور آزمائشوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ استغفار کی کثرت سے گناہ معاف ہوتے رہیں گے‘ نتیجتاً انسان ان احوال بد سے محفوظ ہو جائے گا۔ استغفار جہاں گناہوں کی معافی اور نیکیوں میں تلافی کا ذریعہ ہے‘ وہاں کثرت استغفار سے دوسرے فوائد بھی ملتے ہیں۔ سورہ ہود اور سورہ نوح میں استغفار پر خوب بارشیں ہونا ‘ طاقت وقوت میں اضافہ اور مال واولادملنے وغیرہ کی بشارتیں موعود ہیں‘ ہرطرح کے مصائب اور تفکرات سے نجات پانے کے لئے استغفار بہت اکسیر ہے‘ حدیث شریف میں آتا ہے: جو شخص استغفار میں لگا رہے‘ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ بنا دیں گے اور ہرفکر کو ہٹاکر کشادگی فرمادیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیں گے جہاں سے اس کو دھیان بھی نہ ہوگا۔
مذکورہ انعامات کو حاصل کرنے کے لئے ہم خود بھی اور اپنے اہل وعیال کو بھی صبح وشام ایک ایک تسبیح استغفار کی تاکید کریں ،ساتھ ہی گناہوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش ہو اور بوقت استغفار دل میں اپنے گناہوں پر ندامت بھی ہو تو ان شاء اللہ مصائب وآلام سے نجات ملتی رہے گی۔
کثر ت دعا:
مصائب وآلام سے نجات حاصل کرنے میں دعا کو بھی قوی دخل ہے‘ حدیث میں ہے کہ بلاشبہ دعا اس مصیبت کے (دفعیہ) کے لئے نفع دیتی ہے جو مصیبت نازل ہوچکی اور اس مصیبت کے روکنے کے لئے بھی نفع دیتی ہے جو نازل نہیں ہوئی‘ پس اے اللہ کے بندو! دعا کو لازم پکڑو ۔ایک حدیث میں دعا کو مومن کا ہتھیار بتایا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت انس  سے روایت ہے کہ حضورا کا کچھ ایسے لوگوں پرگذر ہوا جو تکلیفوں میں مبتلا تھے‘ ان کو دیکھ آپ نے فرمایا: کیا یہ لوگ اللہ سے عافیت کا سوال نہیں کرتے تھے؟ ایسی عافیت کا سوال کرتے تو اس دکھ تکلیف کی حالت میں نہ ہوتے۔ اسی لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ عافیت کی دعا زیادہ کیا کرو ۔پریشانیوں‘ مصائب وآلام میں ہرطرح کی تدبیر یں انسان اختیار کرتا ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ پورے اہتمام وخلوص کے ساتھ کچھ وقت دعاؤں کے لئے بھی نکال لیتے تو تکلیفوں ودیگر احوال بد سے جلد نجات مل جاتی ۔ اللہ تعالیٰ مصائب وآلام میں گھرے ہوئے لوگوں کی آہ وزاری اور دعا ومناجات کو ضرور قبول فرماتا ہے، بشرطیکہ ہم بھی خلوص دل کے ساتھ اپنے مولیٰ اور خالق حقیقی کی طرف رجوع کریں۔
لہذا کثرت دعا میں جہاں اپنے لئے عافیت کی خوب دعائیں مانگی جائیں‘ وہاں اپنے تمام مسلمان بھائیوں کے لئے بھی جو جس جس تکلیف یا مصیبت میں مبتلا ہے،اس کے لئے ضرور غائبانہ دعاؤں کا اہتمام کیا جائے‘ جب امت کا ایک کثیر طبقہ مسلسل دعاؤں میں لگ جائے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات نہ بدل دے‘ بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم نے اپنے مالک سے مانگنا چھوڑدیا ہے‘ ورنہ اللہ تعالیٰ کے دروازے تو ہر دم کھلے ہوئے ہیں ۔
حرف آخر:
عرض مکرر کے طور پر پھر تحریر ہے کہ ہماری تمام مشکلات ‘ مصائب وآلام چاہے وہ جس نوعیت کے بھی ہوں، اعمال بد کا ہی ثمرہ ہیں‘ لہذا گناہوں کو چھوڑے بغیر حالات درست نہیں ہوسکتے :
جب میں کہتاہوں یا الٰہی صورت احوال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہٴ اعمال دیکھ
لہذا متذکرہ بالا تمام بحرانوں اور مسائل جن سے نجات پانے کے لئے ہم سرتوڑ کوشش کررہے ہیں اور اس سلسلے میں جہاں اہل فکر ونظر کی آراء وتجاویز کو مدنظر رکھ کر بروئے کار لایاجائے و ہاں ان افعال سے بچنا بھی لازمی ہے جن کی اوپر احادیث میں خبر دی گئی ہے‘ کیونکہ ہم ایک نبی الرحمةاکے پیرو کار ہیں‘ ہمارے مسائل اور مشکلات صرف ظاہری تدابیر کو اختیار کرنے سے ہرگز حل نہیں ہوسکتے‘ بقول خواجہ صاحب: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ا کی امت کی حالت زار پر اپنا رحم وفضل فرمائیں ‘ آمین
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: در آمدشدہ گوشت کا حکم
Flag Counter