Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 11
حضرت مولانا قاری سعید الرحمن
حضرت مولانا قاری سعید الرحمن

۶/جولائی بروز پیر ۱۲/بجے جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی کے بانی، مہتمم، شیخ الحدیث، حضرت اقدس مولانا عبد الرحمن کاملپوری کے فرزند، امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن کے برادر بزرگ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت وجمعیت علمأ برطانیہ کے سرپرست اور برطانیہ کے دینی ومذہبی معاملات پر فکر مند حضرت مولانا عبید الرحمن کے برادر خورد، جمعیت علمأ اسلام پاکستان کے راہ نما، جمعیت اہل سنت راولپنڈی کے سرپرست وروح رواں، ہر دینی ومسلکی تحریک کے پُشتیبان، قائد اسلامی انقلاب حضرت مولانا مفتی محمود کے معتمد، محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، اور دوسرے اکابر کے میزبان، امام اہل سنت حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا فقیر محمد پشاوری کے خلیفہٴ مجاز، اکابر علمائے دیوبند کے معتمد اور اصاغر کے سرپرست، حکیم العصر حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے ہم سبق اور بے تکلف دوست، دار العلوم ٹنڈواللہ یار کے فاضل، حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری، مولانا بدعالم میرٹھی، مولانا سید محمد یوسف بنوری اور مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کے تلمیذ رشید، ماہر مدرس، محدث، خوش الحان قاری، ضیأ دور کی مجلس شوریٰ کے رکن،اور وائس چیئرمین، سابق صوبائی وزیر اوقاف اور زکوٰة وعشر، پاکستان کی مشہور علمی اور سیاسی شخصیت حضرت مولانا قاری سعید الرحمن قدس سرہ رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان لله ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت مولانا قاری سعید الرحمن قدس سرہ کا تعلق علاقہ چھچھ کے مردم خیز خطہ اور مشہور گاؤں بہبودی سے تھا، آپ کا خاندانی سلسلہ اپنی جگہ ایک طویل علمی، دینی، اصلاحی اور تحقیقی تاریخ رکھتا ہے، آپ کے والد گرامی حضرت اقدس مولانا عبد الرحمن کامل پوری اپنے دور کے عظیم محدث، مدرس اور روحانی سلسلہ کے شیخِ وقت تھے، چونکہ آپ کا آبائی علاقہ کیمل پور، موجودہ اٹک کی حدود میں آتا تھا، اس لئے آپ کے نام کے ساتھ کیمل پوری کا لاحقہ تھا، انگریز اور انگریزی نام کیمل سے نفرت کی بنأ پر آپ اپنے نام کے ساتھ کامل پوری لکھتے تھے، لیکن جب آپ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کی بارگاہ سلوک واحسان میں حاضر ہوئے تو حضرت تھانوی قدس سرہ نے آپ کو کامل پوری کی بجائے ”کامل پورے،، کا خطاب دے کر اجازت وخلافت کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت کامل پوری قدس سرہ کو چار فرزندوں سے نوازا تھا، سب سے بڑے مولانا عبید الرحمن، جو فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور اپنے اکابر ومشائخ کے مشورہ سے قریب قریب ساٹھ کی دہائی میں علاقہ چھچھ کے مسلمانوں کی دینی، مذہبی اور مسلکی راہ نمائی کے لئے انگلینڈ کے مشہور شہر شفیلڈ منتقل ہوگئے، اور زندگی بھر وہاں کی مسلم برادری کی قیادت وسیادت اور ہدایت وراہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے، قدرت الٰہی کا کرشمہ! کہ آخری دنوں میں جب آپ بیمار ہوئے تو اپنے علاقہ میں منتقل ہوگئے، یہیں ان کی وفات ہوئی اور اپنے عظیم باپ کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔ اللہم اغفرلہ۔
ان سے چھوٹے حضرت مولانا قاری سعید الرحمن قدس سرہ تھے ، جنہوں نے فراغت کے بعد مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد دار الحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کو اپنی دینی، علمی اور مسلکی خدمات کی جو لانگاہ کے طور پر منتخب فرمایا اور تادم واپسیں اسی شہر میں اپنی قائم کردہ مشہور دینی، علمی اور تحقیقی درس گاہ جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ کے بانی، مہتمم اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔
تیسرے نمبر کے فرزند جناب الحاج محمد الرحمن صاحب ہیں، جو اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا عبید الرحمن کی تقلید میں انگلینڈ کے شہر شفیلڈ میں منتقل ہوگئے اور تاحال وہاں ہیں، مگر آجکل وہ بھی بیمار ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو صحت وسلامتی سے سرفراز فرمائے اور ان کا سایہ خاندان پر تادیر سلامت رکھے، آمین۔
سب سے چھوٹے فرزند امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن تھے جو اگرچہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، لیکن اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹی عمر میں ان سے وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام دلائے جن کی بنأ پر وہ سب سے سبقت لے گئے، اور چھوٹا ہونے کے باوجود سب سے بڑے کہلائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اگر ایک طرف حضرت کامل پوری کی نسبی فرزندی کا شرف بخشا تھا تو دوسری جانب ان کو محدث العصر حضرت اقدس مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہ کی دامادی کا اعزاز بھی عطا فرمایا تھا، وہ زندگی میں حضرت بنوری قدس سرہ کی سرپرستی میں رہے تو ان کی رحلت کے بعد ان کے جانشین اور ان کی قائم کردہ ایشیا کی عظیم علمی وتحقیقی یونیورسٹی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مدیر، مہتمم، صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے، حضرت بنوری قدس سرہ کی رحلت کے بعد آپ  نے ان کے مشن کو ترقی دی اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخوں پر شاخیں قائم فرمائیں، چنانچہ مدرسہ اسلامیہ ملیر، مدرسہ رحمانیہ کورنگی، مدرسہ معارف العلوم پاپوش نگر، مدرسہ خلفائے راشدین پرانا گولیمار، جامعہ رشیدیہ پیرکالونی، مدرسہ اسلامیہ چلیا ٹھٹھہ اور مدرسہ اسلامیہ جنوبی افریقہ آپ کے دور میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخیں قرار پائیں۔ اسی طرح دوسرے کئی ایک مدارس کی بنیاد رکھی، بیسیوں مدارس، مساجد کی سرپرستی فرمائی۔ علامہ بنوری ٹرسٹ قائم کرکے کراچی بھرکے مدارس ومساجد کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ساتھ ملحق فرما کر ان کو قبضہ گروپوں سے تحفظ دیا، سواد اعظم اہل سنت قائم کرکے سنی عوام کو بیدار کیا، جمعیت علمأ اسلام، اور دوسری دینی جماعتوں اور مسلکی تحریکوں کی مالی، اخلاقی اور افرادی قوت میں بھر پور سرپرستی فرمائی، وفاق المدارس کو فعال بنایا اور ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں، گاؤں اور دیہاتوں میں خود جاجا کر تمام دیوبندی مدارس کو وفاق کی لڑی میں پرویا، شریعت بل کی تحریک میں قائدانہ کردار ادا فرمایا، شریعت بل کے نفاذ کے لئے دستخطی مہم میں لاکھوں افراد سے دستخط کراکر ایوان بالا تک پہنچایا، تحفظ حرمین شریفین کی تحریک میں بھر پور حصہ لیا، بڑوں کا اعتماد اور چھوٹوں پر شفقت کی فضا قائم فرمائی۔ دور دراز کے مدارس، مساجد اور کارکنوں کی سرپرستی اور ان کا اعتماد بحال کرنا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ان کا اختصاص تھا اور سب سے بڑھ کر حق گوئی وبے باکی اور خداخوفی ان کا طرہ امتیاز تھا اور انسان سازی اور کام کے افراد کو چن چن کر اکٹھا کرنا، ان سے کام لینا ، ان کی حوصلہ افزائی کرنا او ران کے ذوق ومزاج کے مطابق ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ان کا ذوق تھا، مگر اے کاش! کہ بہت جلد رحلت فرمائے عالم آخرت ہوئے، انہیں بھی اپنے روحانی باپ اور شیخ حضرت بنوری کے پہلو میں آسودہ خاک ہونے کا شرف واعزاز نصیب ہوا ۔ اللہم اغفر لہ حضرت مولانا قاری سعید الرحمن قدس سرہ کی ولادت ۱۵/ اپریل ۱۹۳۵ء کو ہندوستان کے مشہور شہر سہارنپور میں ہوئی ،اس وقت آپ کے نامور والد ماجد حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے، حضرت قاری صاحب کی ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کی تکمیل بھی وہیں مظاہر علوم میں ہوئی ۔ تقسیم ملک کے بعد جب خیر العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری نے جالندھر سے ملتان اپنا مدرسہ منتقل فرمایا تو حضرت کامل پوری کو اپنے مدرسہ میں تشریف لانے کی دعوت دی اور تدریس کی پیش کش کی، تو آپ ملتان منتقل ہوگئے، چنانچہ حضرت قاری صاحب کی مزید تعلیم ملتان میں ہوئی، اسی دور میں آپ کی اور حضرت حکیم العصر مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی بحیثیت ہمدرس آشنائی ہوئی، پھر یہ تعلقِ محبت والفت زندگی بھر قائم رہا اور روز افزوں ہوتا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد جب دارالعلوم ٹنڈواللہ یار کی بنیاد رکھی گئی اور ہندوستان سے پاکستان منتقل ہونے والے اکابر علمأکو وہاں جمع فرماکر دارالعلوم دیوبند ثانی کا درجہ دیا گیا تو حضرت کامل پوری کو بھی دوسرے اکابر کی طرح یہاں تدریس کی دعوت دی گئی، آپ ٹنڈواللہ یار تشریف لائے تو آپ کے نامور فرزند حضرت مولانا قاری سعید الرحمن بھی ٹنڈواللہ یار منتقل ہوگئے، چنانچہ آپ نے ۱۹۵۳ء میں یہیں سے دورہ حدیث پڑھ کر فاتحہ فراغ پڑھا، آپ نے جن اکابر اساتذہ سے حدیث شریف پڑھی ہے ان میں سے حضرت اقدس مولانا عبد الرحمن کامل پوری، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری اور حضرت مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کے نام قابل ذکر ہیں۔
فراغت کے بعد آپ نے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، آخر میں آپ راولپنڈی صدر کی مسجد میں بحیثیت امام وخطیب مقرر ہوئے اور ۱۹۶۲ء میں مسجد سے متصل قطعہ زمین پر جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ کے نام سے ایک دینی ادارہ کی داغ بیل ڈالی جو ترقی کرتے کرتے ماشاء اللہ آج ملک کے مشہور مدارس میں شمار ہوتا ہے، جہاں حفظ وناظرہ سے لے کر دورہ حدیث تک تمام درجات کی تعلیم کا انتظام ہے اور اب تو ایک عرصہ سے وہاں باقاعدہ تخصص فی الفقہ کا شعبہ بھی قائم ہے، جہاں سے سالانہ بیسیوں علمأ، فضلا، مفتی اور قرأ کرام فارغ ہوکر نکلتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ جہاں دینی تعلیم وتربیت کا مرکز رہا، وہاں حضرت قاری صاحب کی ہمہ جہت مقناطیسی شخصیت اور ان پر اکابر کے اعتماد کی بنأ پر اکابر علمأ دینی، مذہبی اور تحریکی شخصیات کا مستقر ومسکن اور ان کی میزبانی کا مرکز بھی رہا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا محمدیوسف بنوری مولانا غلام غوث ہزاروی وغیرہ اس ادارہ کو اپنا ادارہ سمجھتے تھے، دوسری طرف حضرت قاری صاحب قدس سرہ بھی ان کی خدمت ومیزبانی کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔
حضرت قاری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں اوصاف وکمالات سے نوازا تھا، آپ جہاں دینی مسلکی اعتبارسے علاقہ بھر کی مقبول عام شخصیت تھے، وہاں سیاسی اعتبار سے بھی آپ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، آپ حضرت مفتی محمود کے قابل اعتماد کارکن اور رفیق کار تھے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت ہو یا ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی ہر میدان میں آپ نے ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا، آپ نے حق گوئی وبے باکی کی اکابر کی روایات پر عمل کرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، فتنہ قادیانیت کے خلاف تحریک میں ایک طرف اگر باہر محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  قیادت کررہے تھے،اوراسمبلی کے اندر کا میدان مولانا مفتی محمود ، شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد، مولانا نعمت اللہ، مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک نے سنبھال رکھا تھا تو باہر سڑکوں پر قیادت کرنے والوں میں مولانا قاری سعید الرحمن جیسے پختہ کار راہ نماؤں کا نام بھی نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔
اسی طرح نظام مصطفی کی تحریک میں بھی آپ کی خدمات کسی سے اوجھل اور پوشیدہ نہیں، آپ اپنے شیخ اور استاذ حضرت بنوری سے حد درجہ عقیدت ومحبت رکھتے تھے اور حضرت بنوری بھی آپ پر حضرت کامل پوری اور مفتی احمد الرحمن کی نسبت سے بھر پور اعتماد فرماتے تھے۔
آپ کی ملکی سیاست میں نمایاں کردار کی واضح علامت یہ ہے کہ آپ نے اپنے حلقہ کے سیاسی جغادریوں کو شکست دے کر صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اور صوبائی وزیر اوقاف قرار پائے، مگر بایں ہمہ ہمیشہ مدرسہ کے مختصر سے مکان میں رہے اور اسی سے آپ کا جنازہ اٹھا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں دینی اور مسلکی خدمت کا خوب ذوق عطا فرمایا تھا ،چنانچہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی حد تک آپ مسلک دیوبند کے مرجع تھے اور آپ نے علاقہ بھر کے مدارس ومساجد کے تحفظ کے لئے اور حکومتی دست وبرد سے انہیں محفوظ رکھنے کے لئے جمعیت اہل سنت کے نام سے ایک خالص دینی اور مسلکی جماعت تشکیل دے رکھی تھی جو نئے پیش آمدہ مسائل میں علمأ کو جوڑنے کا مثالی کردار ادا کرتی تھی۔ اسلام آباد میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہید نے تحفظ مسلک کا جو کارنامہ انجام دیا تھا ،ان کی معیت اور ان کی شہادت کے بعد یہ ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر آرہی، جس کو انہوں نے تاحیات حسن اسلوبی سے انجام دیا، سانحہ لال مسجد میں بھی آپ نے حتی الامکان اپنی مساعی سے کام لیا مگر تکوینیات سے کس کو مفر ہے؟ جو مقدرتھا وہ ہوکر رہا مگر انہوں نے اپنے تئیں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
حضرت قاری صاحب کا ایک کمال یہ تھا کہ مسلک کے اکابر واصاغر کے ساتھ ان کا برابر ربط وتعلق تھا جو بھی چلا جاتا ان کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے، وہ جس طرح تقریر وبیان کے میدان کے شہسوار تھے، اسی طرح وہ قرأت وتجوید کے بھی امام تھے، اللہ تعالیٰ نے فن تجوید سے ان کو وافر حصہ عطا فرمایا تھا، خوش الحانی اور حسن صوت میں بھی وہ اپنی نظیر آپ تھے، جس طرح وہ درس وتدریس کے ماہر تھے، اسی طرح تحریر و انشأ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو خوب نوازا تھا، چنانچہ اپنے والد ماجد کی سوانح حیات ”تجلیات رحمانی“ اور” معارف ترمذی“ ان کی حسین یادگاریں ہیں، اسی طرح وہ جدید دینی، علمی اور مسلکی معاملات پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے، چنانچہ مختلف رسائل وجرائد اور معاصر اخبارات میں ان کے کالم دل چسپی سے پڑھے جاتے تھے اور وہ جو کچھ لکھتے، دلائل وبراہین اور علم وتحقیق اور حقائق وواقعات کی روشنی میں لکھتے۔
چنانچہ ماہنامہ بینات اور دوسرے موقر رسائل میں ان کے مضامین ومقالات کو بڑے اہتمام سے شائع کیا جاتا تھا، اسی طرح جدیدمسائل اور حالات پر لکھے گئے مقالات، مضامین اور تجزیوں پر بھی ان کی نگاہ رہتی، خصوصاً بینات پر ان کی نظر عنایت ہوتی اور کسی اہم ادارتی تحریر پر ان کا تبصرہ بہت ہی حوصلہ افزا ہوتا، یہ بھی ان کی خوردنوازی تھی کہ راقم الحروف کو بھی اپنی یادداشتوں میں محفوظ رکھتے اور ہم بھی ان کی شفقتوں کے پیش نظر ان سے بے تکلف عرض مدعیٰ کرلیتے تھے۔ گزشتہ دنوں جب میرے بڑے بھائی صاحب کا انتقال ہوا تو اس وقت بھی اگرچہ آپ مریض تھے مگر فون پر تعزیت فرماکر ناکارہ کو تسلی دی، اس وقت آپ کی عمر قریب قریب ۷۶ سال تھی ،مگرآپ کی آواز کا طنطنہ اور گھن گرج آج بھی جوانوں کی سی تھی، اسی طرح چہرے کی خوبصورتی اور شادابی بھی جوانوں کی سی تھی۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ کی جامع مسجد میں تقریباً ۵۱ سال تک مسلسل جمعہ کی خطابت اور درس قرآن دیا، یوں مدرسہ میں ان سے درس نظامی پڑھنے والے ہزاروں تلامذہ کے علاوہ بلامبالغہ لاکھوں لوگ ان کے بیان ودرس سے سرفراز ہوئے ہوں گے۔
اس پیرانہ سالی میں بھی وہ جوان تھے مگر ۱۲ مئی ۲۰۰۹ء کو اچانک انہیں دل کا دورہ ہوا، چند دن کے علاج کے بعد معالجین نے اینجو گرافی کے بعد بائی پاس کو ناگزیر قرار دیا، حسب پروگرام ۴ مئی ۲۰۰۹ء کو عسکری ہسپتال راولپنڈی کے شعبہ امراض قلب میں آپ کا آپریشن ہوا، ابتدائی طور پر آپریشن کامیاب قرار دیا گیا، مگر افسوس کہ ۶ مئی کو ہسپتال کے اندر ان پر دوبارہ دل کے دورہ کا حملہ ہوا، جس کی شدت پہلے سے زیادہ تھی اور اس سے بیشتر اعضاء متاثر ہوئے، اگرچہ وقتی طور پر اس پر قابوپا لیا گیا، مگر اس کے بعد آپ کی طبیعت نہیں سنبھل سکی، چنانچہ اس کے بعد آپ نے زیادہ تر وقت بے ہوشی یا نیم بے ہوشی میں گزارا مگر قرآن کریم سے شغف کا اندازہ لگا یئے کہ عین اس بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان پر عام طور پر تلاوت قرآن جاری رہتی، بالآخر ان کا وقت موعود آن پہنچا اور ۶/جولائی کو ۱۲ بجے دن آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ہسپتال سے آپ کا جسد جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ لایا گیا، غسل کفن کے بعد دیدار عام کے لئے رکھ دیا گیا، چونکہ تدفین کا فیصلہ آپ کے گاؤں اور والد ماجد کے قدموں میں کرنے کا تھا، اس لئے بذریعہ ایمبولینس آپ کا جسد خاکی بہبودی لیجایاگیا اور رات نو بجے کے قریب آپ کے بڑے بیٹے اور جانشین مولانا قاری عتیق الرحمن نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی میں آپ کو سپرد خاک کردیا گیا ، جنازہ میں عزیز واقارب کے علاوہ مولانا سمیع الحق، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد یوسف، وزیر سیاحت مولانا عطاء الرحمن، مولانا مفتی کفایت اللہ اور دیگر مقامی وغیر مقامی علمأ کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔
اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کی زندگی بھر کی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان خصوصاً ان کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن، مولانامحمد انس کو ان کی حسنات کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ادارہ بینات اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ وکارکنان اس سانحہ کو اپنا سانحہ سمجھتے ہوئے مرحوم کے پسماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
قارئین سے درخواست ہے کہ حضرت مرحوم کو اپنی صالح ادعیہ اور ایصال ثواب میں فراموش نہ کریں۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سید نا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: دارالافتاء
Flag Counter