Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

5 - 11
 آہ! امام اہلسنت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
 آہ! امام اہلسنت
مولانا محمد سرفراز خان صفدر
(۱۹۱۴ء-۲۰۰۹ء)

یہ آخر ۱۹۵۹ء کی بات ہے کہ راقم صرف حافظ قرآن اور مڈل پاس ۱۵ سال کا بچہ تھا، اپنے علاقے کے استاذ غلام رسول مرحوم کے ساتھ خانپور کٹورہ آیا تھا، حضرت درخواستی نے چند خاص علماء کرام کو مہمان خانہ میں تفسیر قرآن کے دنوں میں ٹھہرایا۔ جن میں مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدسواتی بھی تھے، جن کو ڈی سی گوجرانوالہ نے مرزائیوں کے خلاف تقریروں کی وجہ سے دربدر کردیا تھا، مجھے میرے استاذ کی وجہ سے اس جگہ بطور خدمت رہنے کی اجازت مل گئی، میری یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ میران شاہ کے ایک بزرگ مولانا خان حلیم نے بوستان اور حضرت صوفی صاحب نے مجھے گلستان پڑھا کر فارسی کا نصاب مکمل کرادیا، پھر صوفی صاحب نے بڑی شفقت سے فرمایا: تمہاری صرف ونحو اس بڑے مدرسہ مخزن العلوم خانپور میں اچھی نہ ہوگی، ہمارے پاس گوجرانوالہ آجاؤ۔
اس پیار کے پیش نظر میں اپنے گاؤں تھمیوالی (میانوالی) پہاڑوں سے گوجرانوالہ پہنچ گیا اور قانونچہ کھیوالی کے علاوہ بہت سے اسباق حضرت صوفی صاحب نے شروع کرادیئے، مسجد نور اس وقت کچی چھوٹی سی تھی، شمال مغربی سمت حضرت صوفی صاحب کے دفتر وکمرہ سمیت کچے کمرے تھے، گڑھے اور درخت چھپروالی مسجد کے نشان موجود تھے۔
ایک بزرگ گگھڑ سے صبح ہی جی ٹی بس اڈہ گوجرانوالہ پر اتر کر ۱۰ منٹ پیدل مدرسہ نصرة العلوم پہنچ جاتے، سینکڑوں طلبہ کی حاضری لگاتے، پھر کافیہ سے دورہ حدیث شریف تک تمام طلبہ کو ترجمہ وتفسیر قرآن پڑھاتے۔ ۱۵/۱۵پارے ہرسال پڑھا کر دو سال میں تفسیر وترجمہ مکمل کرا دیتے، یہ بیضوی چہرہ ،سانو لا رنگ، ہلکی کالی داڑھی، قد درمیانہ، مگر وجود بھاری بھر کم والے حضرت مولانا محمدسرفراز خان صفدر تھے ،جو اس وقت بھی رد شرک وبدعت میں ضخیم علمی کتابوں کے مصنف، بڑے شیخ الحدیث ، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے تلمیذ خاص، فاضل دار العلوم دیوبند اور حضرت گنگوہی، مولانا مظہر نانوتوی کے شاگرد خاص، مفسر قرآن حضرت مولانا حسین علی آف واں بھچراں کے تفسیر میں شاگرد اور تصوف وسلوک میں ان کے خلیفہ تھے۔ آج ان کو دامت برکاتہم کے بجائے دامت صلوات اللہ وسلامہ علی نبیہ وعلیہ مجبوراً کہنا پڑا ہے، جنازہ میں سانولا نہیں سفید، نورانی دمکتا ہوا چہرہ دیکھا جو عند اللہ مقبولیت کی دلیل تھی اور ڈھائی لاکھ معتقدین نے جنازہ پڑھنے کی سعادت پائی، ان گنہگار آنکھوں نے فروری ۱۹۶۲ء یونیورسٹی گراؤنڈ لاہور میں امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوری کے جنازہ کے بعداتنا بڑا جنازہ کسی بزرگ کا نہ دیکھا تھا۔
دو تین سال بعد دورہ تفسیر اور کچھ کتب میں آپ کے شاگرد بننے کی سعادت حاصل ہوگئی اور ۱۹۶۶ء/۱۳۸۶ھ دورہ حدیث شریف بھی آپ سے پڑھا، شاگردی کے اس طویل دور میں آپ کی بے مثال خوبیاں تو بہت ہیں ،تاہم اختصاراً کچھ عرض کرتا ہوں: #…۱۹۶۱ء گرمیوں میں امیر شریعت مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری بحالت فالج لاہور ماڈل ٹاؤن تشریف لائے تو حضرت شیخ صاحب اور حضرت صوفی صاحب نے ہم طلبہ کو زیارت کی اجازت دے دی، اس لئے کہ: یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
طلبہ کا جم غفیر لاہور پہنچا، صحیح سلامت نورانی چہرہ، کھلی بینا آنکھوں اور زبان پر فالج کی وجہ سے دو ہاتھ سے سلام کے جواب کا عکس ومنظر اپنے دل میں بٹھالیا، ہفتہ بعد خبر چھپی کہ:”حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری ملتان میں وفات پاگئے،، حضرت شیخ صفدر  نے تمام طلبہ کو جمع کیا، رو رو کر خبر وفات سنائی پھر ملتان جنازہ کے لئے تشریف لے گئے۔
#…ساری زندگی پُر مشقت اور جفا کشی میں گذاری، بچپن میں یتیمی، حصول علم کے لئے سرحد اور پنجاب میں مختلف شہروں کے سفر حتیٰ کہ کوئٹہ اور پھر ساڑھے تین ہزار کلو میٹر دور بنگال اور دنیا کے بڑے شہر کلکتہ جا پہنچے، مگر باضابطہ صحیح علم مولانا غلام غوث ہزاروی جنہوں نے حضرت شیخ الہند اور دیوبند سے چھوڑ کر مولانا نصیر الدین غورغشتی وغیرہ کی طرح دورہ حدیث چکڑالہ ضلع میانوالی میں مولانا قاضی قمر الدین صاحب (المتوفی ۱۹۰۷ء) شاگرد مولانا احمد علی سہانپوری سے پڑھا تھا، فاضل دیوبند مولانا عبد القدیر اٹکی اور مولانا عبد العزیز کے داماد مولانا عبد الواحد سے جامع مسجد شیرانوالاباغ گوجرانوالہ سے پایا اور اپنے بھائی حضرت صوفی عبد الحمید سواتی کو ساتھ لے کر ۱۹۴۱ء میں دورہ حدیث حضرت مدنی سے دیوبند میں پڑھا۔
#…سفید اجلا لباس بمع گول ٹوپی یا نیم سیاہ لنگی میں بارعب ہوکر آتے جاتے اور اسباق پڑھا کر نیم دو پہر واپس گگھڑ چلے جاتے مگر طلبہ سے پیار اور دل لگی آپ کو رعب سے نکال لاتی، کسی نہ کسی شاگرد سے مزاح کر لیتے،کشمیر کا ہمارا ایک ہم درس غلام نبی مرحوم آپ کے مذاق اور پیار کا خاص نشانہ تھا، اسے لالہ کہتے، وہ بھی ہنس کر بہت خوش ہوتا۔
#…ڈانٹ ڈپٹ جھڑکنے مارنے کی عادت نہ تھی…جیسے ہمارے استاد محترم مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم کی تھی… بس غصہ سے دیکھنا ہی کافی ہوجاتا۔
#…استاذیم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب (۱۹۱۷ء-۲۰۰۸ء) سے بہت پیار تھا، دوران تعلیم غالباً ۱۹۳۶ء کے بعد وہ کہیں بھاگ گئے تو ان کی تلاش میں ناداری کی وجہ سے بہت شہروں میں پیدل گئے، آخر ڈھونڈلائے، جب وہ دورہ حدیث کے بعد جامعہ طیبہ حیدر آباد دکن سے ۴/ سال بعد حکیم ہونے کی سند ۱۹۵۱ء میں لے آئے اور گھنٹہ گھر گوجرانوالہ میں کلینک کھول دیا اور ۱۹۴۳ء سے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر تو گگھڑ میں بوہڑوالی مسجد کے خطیب بن گئے تھے تو بھائی مولانا عبد الحمید سواتی سے کہا کہ :ہم نے تم کو دین اس لئے نہیں پڑھایا کہ لوگوں کے پیشاب ٹیسٹ کرو، آخر صوفی صاحب نے شہر کے مرکز میں سب سے بڑے گندے پانی کے جو ہڑ کے کنارے ۱۹۵۲ء میں مدرسہ نصرة العلوم کی بنیاد رکھی، آج ملک کی جامعات میں اس کا شمار ہے۔
حضرت مولانا صوفی صاحب شادی نہیں کرنا چاہتے تھے، بار بار کہہ کر اور مجبور کرکے گگھڑ میں اپنی ایک شاگردہ سے شادی کرادی، ماشاء اللہ جن کے ۳/ بیٹے مدرسہ نصرة العلوم کو منور کئے ہوئے ہیں۔
#…بڑے استاذیم مولانا سرفراز صاحب کی زندگی کی طرح حضرت صوفی صاحب کی بھی زندگی مسلسل جد وجہد سے عبارت ہے۔سحری کو اٹھتے، تہجد پڑھ کر ناشتہ کرتے پھر مسجد میں نماز پڑھا کر آدھ، پون، شروع میں پورا گھنٹہ ۳/دن درس قرآن اور ۳/دن درس حدیث دیتے پھر بذریعہ عام بس، کار کا تو بند وبست مدرسہ نصرة العلوم نے بہت بعد میں کیا تھا… گوجرانوالہ تدریس میں سب سے پہلے پہنچ جاتے، واپس آکر گگھڑ شہر کی طالبات کو باپردہ قرآن وسنت کی ضروری تعلیم دیتے، کھانا کھا کر دوپہر کو قیلولہ کرتے، پھر نماز ظہر پڑھا کر تصنیف ومطالعہ میں مصروف ہوجاتے، اس دوران مہمان دم درود، تعویذ والے آجاتے تو ان کو ٹائم دیتے، حضرت تھانوی کی طرح سخت اصول نہ تھے۔” خیر الناس من ینفع الناس “کی یہ خدمت خلق اور خوش اخلاقی اللہ والوں کو نصیب ہوتی ہے ،ہم نے سنا ہے کہ یہ حضرت مدنی کے اخلاق کا پر توتھا۔
#…علم والے علم والوں کو پہچان لیتے ہیں ،سکول کے اساتذہ کی تربیت وتعلیم پی ٹی سی ،او ٹی اور ایس دی کی کلاسوں کے لئے پورے پنجاب میں گگھڑ نارمل کالج مشہور تھا، پرنسپل صاحب نے شعبہ دینیات آپ کے سپرد کردیا، آپ پچھلے پہر بخوشی دو کلو میٹر پیدل آتے جاتے اور فریضہ دینی تعلیم بجالاتے، نصف صدی میں ہزاروں اساتذہ کو یہ فیض پہنچایا۔ ان کے اہل السنت والجماعة علماء دیوبند کے مطابق عقائد درست کئے اور وہ نجوم ہدایت بن کر اسکولوں میں لاکھوں طلبہ کی اصلاح وتربیت کا باعث بنے۔ ان میں ہمارے گاؤں تھمیوالی ضلع میانوالی کے پرائمری سکول کے استاد محمد عبد اللہ صاحب مرحوم بھی ہیں ،جو مجھے اس لئے سزا نہ دیتے کہ یہ حفظ قرآن کی وجہ سے سکول میں لیٹ آتا ہے۔
#…پیور اہل سنت ودین میں کسی ملاوٹ واضافہ کے بغیر مسلک علماء دیوبند کے پورے پاکستان میں آپ واحد نمائندہ اور ترجمان ہیں، جیسے انڈیا میں مولانا منظور احمد نعمانی۔
راقم نے تبلیغی سفر میں ۱۹۸۴ء لکھنو جاکر ان کی زیارت کی تھی، اہل بدعت کے مقابل شیر یزداں تھے، ان کے ہر خود ساختہ مسئلے کے رد میں آپ نے بڑی چھوٹی ۳/درجن علمی کتابیں لکھی ہیں، مرزائی، رافضی، منکرین حدیث ، نیچری، دہری گمراہ فرقوں کا رد دیکھیں اور غیر مقلدین کو ساتھ ملائیں اور تفسیر وحدیث فقہ حنفی کی خدمات دیکھیں تو ان کی تعداد ساٹھ سے بھی زائد ہوجاتی ہے۔ دو شہروں میں اور الگ الگ اداروں میں اتنی تدریسی مصروفیات کے باوجود اتنی ضخیم تحقیقی خدمات بجالانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ،جو کرامات ہی گنی جائیں گی۔
#…حق گوئی اور بے باک بہادری میں دونوں بھائی سرفہرست ہیں۔ مدرسہ نصرة العلوم کے مولود کا دوسرا سال تھا کہ سر ظفر اللہ خان کی شرارت سے ۱۹۵۳ء میں تحریک ختم نبوت شروع ہوگئی، جابجا جلوس، پولیس کے مظالم، فوج کا اہل حق کے ۱۰/ہزار نوجوانوں کو شہید کرنا جیسے اب امریکہ کے کہنے پر سوات، قبائلی علاقے اور وزیرستان پر ۲۰۰۴ء سے تاہنوزڈرون سمیت خون آشام فضائی حملے لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لے چکے ہیں اور جیلیں بھردی ہیں تو تحریک ختم نبوت میں دونوں بھائی گرفتار ہوئے اور ایک عرصہ جیل میں قید کاٹی۔
#…ایک دفعہ گگھڑ میں جیسے سنا ہے حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس تھا ،تھانیدار نے کہہ دیا ہم گولی ماردیں گے۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نے فرمایا: میں قیادت کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کون گولی مارتا ہے تو صحیح سلامت جلوس نکال دیا۔
#…غالباً ۱۹۷۶ء کی بات ہے میں مسجد قاری صاحب والی بازار !راداں گوجرانوالہ میں خطیب تھا، حضرت سبق پڑھا کر نیم دو پہر میرے گھر آگئے، میری خوشی کی انتہاء نہ رہی، آپ نے آرام فرمایا، اندازہ یہ ہوا کہ روڈے والی مسجد کے بدعتی مولوی نے حملہ کا پروگرام بنایا ہے ،پھر دو پہر کو اٹھ کھڑے ہوئے ،میں تانگہ کے ذریعے اڈہ میں گگھڑ کی بس میں بٹھا آیا۔ الحمد للہ دل مطمئن تھا کہ اگر کسی نے حملہ کیا تو مقابلہ کروں گا۔
#…اتنی مشغولی کے باوجود مدارس والے سالانہ جلسوں میں آپ کو دعوت دیتے تو رد نہ فرماتے، جولائی ۱۹۷۳ء میں، میں نے اپنے چھوٹے بھائی عشرہ وسبعہ کے قاری شیر محمد جو حضرت کے شاگرد اور مرید بھی ہیں،کی شادی پر شرکت کی دعوت دی ،دو واقعات پیش آئے:
۱…سخت بارش ہوئی نظم ونسق بھی ڈوب گیا، سانپ نکل آئے ،اتفاقاً ایک معزز سردار سانپ کے ڈسنے سے موقع پر مرگیا۔ دوسری رات بارات کی واپسی پر رات کو ہمارے محلہ میں مسجد فارق اعظم (جٹانوالی) میں حضرت کی تقریر ہور ہی تھی، بڑا مجمع تھا ۔ اتفاقاً ایک سانپ جلسہ گاہ سے گذرتا ہوا ایک آدمی کی ران سے گذرا تو اس کی نظر پڑ گئی، اس نے شور مچایا اور عربی کا مقولہ سچ کردکھایا ”ایاکم والحیة،، بچو بچو سانپ سے۔ سب مجمع پھڑک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ حضرت اپنی کرسی پر اطمینان سے بیٹھے رہے، ایک شخص نے ٹارچ لگائی تو سانپ مسجد کے برآمدہ میں روشنی دیکھ کر رک گیا ۔ دوسرے نے اسے مارڈالا۔ الحمد اللہ اس نے کسی کو ڈسا نہیں اور جلسہ کی تقریر شروع ہوگئی پھر مجھ سے فرمایا: تم سانپ نکالتے ہو، کون آئے؟ یہ آپ کی کرامت تھی۔
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ صبح پُر تکلف ناشتہ میں ہم نے دیر لگادی، گاؤں سے میانوالی کو ایک ہی بس جاتی تھی وہ چھوٹ گئی، اس وقت کاروں، ٹیکسیوں کا رواج نہ تھا، ایک اونٹ کجاوہ کی خدمات لیں۔ حضرت صاحب اور ایک نعت خواں آمنے سامنے کجاوہ پر دو گھنٹے ”رکھی موڑ،، مین روڈ تک بیٹھ کر آئے، میں نے کہا: حضرت! حضور ااور مکہ ، مدینہ والوں کی اونٹ سواری کی سنت بھی تازہ ہوگئی، بہت خوش ہوئے۔
#…۱۹۷۰ء کی بات ہے، غالباً حج سے واپس آئے تھے، میں کراچی میں ان کو اپنی مسجد لے آیا، صبح درس قرآن دیا، ملک کے مشہور ادارہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں استاذیم حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ جنہوں نے تکفیر قادیانیت کا مسئلہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں بھٹو مرحوم سے حل کرادیا تھا، سے ملنے کی خواہش کی، صدر ایوب مرحوم والا سستا دور تھا آج کی کرنسی سے ۱۰۰/۱ کا تناسب تھا صرف ۳۰/ٹیڈی پیسوں میں رکشانے جامعہ میں پہنچادیا، رازو نیاز کی باتیں ہوئیں۔
#…میں نے صرف وطن سے محبت اور جہالت کے توڑ میں ”بن حافظ جی،، تلہ گنگ روڈ پر ۱۹۹۱ء میں ایک مدرسہ جامعہ قرآن وسنت کے نام سے ۸/کنال رقبہ پر بنا لیا، مسجد صدیق اکبر کی سنگ بنیاد کے بہانے حضرت کو ۱۹۹۶ء میں دعوت دی، کار پر تشریف لائے، پورے ضلع اور شہر میانوالی سے لوگ بیان سننے آئے۔ خصوصاً قریبی چکڑالہ سے جہاں صدی پہلے قاضی قمر الدین کا درس حدیث تھا اور مولانا غلام غوث ہزاروی وغیرہ اکابر علماء کرام پڑھ کر گئے تھے۔ یہاں مولانا قاضی مظہر حسین صاحب، مولانا عبد اللطیف جہلمی خدامی ،مولانا فداء الرحمن درخواستی صاحب مدظلہ، برادر محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ اور کئی دیگر اکابر تشریف لائے، چند سال پہلے حضرت صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ کو لانے کی کوشش کی، مگر آپ نے پیرانہ سالی اور ضعف کے معذرت کرلی۔
#…حضرت مہمان نوازی میں بہت فیاض تھے، ہم طلبہ بھی گگھڑ ملنے جاتے تو بوتل حاضر ہوجاتی، چائے آتی، کھانے کے وقت کھانا کھائے بغیر نہ آنے دیتے، مجھے اس بات پر بڑی شرمندگی ہے کہ مجھ سے لوٹا لے کر زبردستی ہاتھ دھلائے کہ تم میرے مہمان ہو، ایسی مثال علماء میں کم ملے گی۔
#…غالباً حضرت موجود رقم پر ہی سودا کرنے کے قائل تھے، ادھار لینا پسند نہ کرتے ہوں گے، اپنا ذاتی مکان شروع میں ہی جگہ خرید کربنا لیا تھا، مغرب کو کنال بھر خالی پلاٹ ابھی تک باقی ہے، میں نے بارہا مشورہ دیا کہ آپ کے ۹/بیٹے ہیں، یہ پلاٹ خرید لیں، فرماتے: کیا کروں، جب بھی بات کروں، مالک ڈبل رقم بڑھا دیتا ہے۔
تدریس کا انداز
یہ آپ کی زندگی کا بڑا اہم حصہ ہے، سب عمر اسی دشت وصحرا میں گذاری، ۵۰/ سال میں لاکھ سے زائد افراد نے آپ سے قرآن وسنت کا فیض پایا اور ان کی ہی معقول تعداد نے شرکت فرماکر جنازہ کو بے مثال بنادیا کہ جی ٹی روڈ بھی ۳/گھنٹے بند ہوگئی، ہم ایسے ہزاروں طلبہ نے آپ سے ترجمہ وتفسیر اور ۲۵/ سال تو شعبان ورمضان میں ہزاروں علماء اور کالج کے اساتذہ وسٹوڈنٹس نے بھی دورہ تفسیر پڑھا، مجھے کئی دفعہ رد رفض میں مناظرہ پڑھانے کی بھی سعادت بخشی، طلبہ کے دل ودماغ میں مسئلہ بٹھانے کا مزاج تھا ”ہلکا بوجھ اٹھاؤ اور گھر تک مال پہنچاؤ ،، کا مقولہ سچ ہوجاتا، ترجمہ وتفسیر میں لغوی تحقیق، صرف ونحو کی بحث ، فقہی استدلال، اختلافی مسائل کی تخریج وتوضیح، مفسرین کی آراء، علماء دیوبند کے امتیازات اور اعمال صالحہ بجالانے کی ترغیب پر خاص زور دیتے تھے، قرآن وحدیث میں تطبیق ثابت کرنے کا خاص ملکہ تھا، پندرہ علوم دینیہ جو دورہ حدیث مساوی ایم اے کے لئے شرط ہیں، ان کے چھوٹے فنون تو کم پڑھائے، مرنے سے کچھ دن پہلے یہی حسرت ظاہر کی کہ چھوٹے علوم نہ پڑھا سکا، مگر نقلیہ ،فقہ واصول پڑھانے میں یہی انداز تھا ۔ Point the To ہدایہ پڑھاتے تو نفس مسئلہ، صورتیں، اختلافات، حنفی دلائل، شافعی دلائل کے جوابات، فقہ حنفی کی واقعاتی اور قرآنی دلائل سے ترجیح وغیرہ ظاہر فرماتے، یہی محدث کل حضرت مولانا محمدانورشاہ کشمیری کا طرز تدریس تھا۔
حدیث شریف جو آپ کو اصل میراث ملی تھی وہ بھی اسی طرح دلائل کا استحضار کرکے سمجھاتے، لمبی چوڑی بحثوں اور قصوں سے تطویل نہ فرماتے، جیسے دیگر اکابر کی مشکوٰة شریف ، بخاری شریف اور دیگر کتابوں کی تدریسی تقاریر کئی جلدوں کی شروح میں چھپی ہیں۔ مثلاً مشکوٰة شریف میں کتاب الایمان ہو یا کتاب الطہارت وکتاب الصلوٰة ہو۔ آپ اپنے وسیع مطالعہ کی روشنی میں تمام اختلافی اور متقابل احادیث کی الگ الگ فہرست بنالیتے۔ فقہاء وائمہ کے اختلاف کو اور ان کے حدیثی دلائل کو متعین فرمالیتے۔ مؤید حنفی مذہب احادیث مرفوعہ یا موقوفہ کو بھی صحاح ستہ سے جمع کرلیتے پھر کتب رجال سے توثیق رواة اور اصول حدیث سے فنی امور کو ترجیح دیتے۔ مذہب احناف کی ترجیح وافضلیت کا پہلا امام اعظم کااصول یہ ہے: ”آخذ بکتاب الله فان لم اجد فبسنة رسول الله وان لم اجد فباقاویل الصحابة ولا اخرج منہم الخ،،
یعنی سب سے پہلے قرآن سے مسئلہ لیتا ہوں،اس میں نہ پاؤں تو سنت رسول سے لیتاہوں،نہ ملے تو صحابہ کرام کے ارشادات اور فیصلوں سے لیتا ہوں، وہاں نہ پاؤں تو (حدیث معاذ بن جبل کے مطابق) اپنے اجتہاد ورائے سے مسئلہ نکالتا ہوں، کوئی کوتاہی نہیں کرتا ، تابعین تو میرے جیسے ہیں،،۔ مشکوٰة شریف کی جو کاپی آپ نے طلبہ حدیث کو لکھوائی اس میں یہی دریا بکوزہ کے دلائل جمع ہیں۔
بخاری شریف کی کاپی مختصر فنی اصول سے لبریز اور کتاب الایمان وغیرہ کی کچھ ابحاث ہیں، مگر ترمذی شریف جو تمام مدرسین کا پسینہ نکالتی ہے اور دو کے سوا تمام احادیث متعارضہ ہرایک کے ہاں واجب العمل ہیں اور امام ابو عیسیٰ ترمذی ہرباب واحادیث کے آخر میں صحابہ کرام تابعین، تبع تابعین ۴/ائمہ مجتہدین اور دیگر اہل علم اور اصحاب حدیث کا اختلاف ومسلک نقل فرماتے ہیں۔ حضرت صفدر نے اس دریا کو نہروں میں تقسیم کرتے ہوئے علامہ ابن رشد مالکی المتوفی (ساتویں ہجری) کی بدایة المجتہد کو معیار بنایا۔ حنفی دلائل سمیت ایک ضخیم کاپی جو مرتب فرمائی اور ہم جیسے کم علموں کو لکھوائی وہ بے نظیر ہے۔ پھر اس پر فن رجال سے رواة کی توثیق وتضعیف نے علامہ ابن حجر اور امام بیہقی کی یاد تازہ کر دی۔ اکابر معاصرین میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
بیماری اور بڑھاپا باعث مغفرت اور رفع درجات ہے
چند سال یہ شیخین تدریس سے معذور اور سقم وبڑھاپے کی وجہ سے صاحب فراش رہے، ہم پریشان تھے اور خصوصاً رمضان میں ملاقات کرکے دعا کرتے کہ اے اللہ! دولت ایمان دے اورتکالیف دنیا سے بچا، مگر مشکوٰة شریف باب عیادة المریض کی یہ تازہ احادیث پڑھا کر تسلی ہوگئی۔
۱:۔ جو مسلمان بدن کی تکلیف میں مبتلا ہو تو فرشتے کو حکم ہوتا ہے کہ اس کے وہ تمام اعمال صالحہ لکھ دے جو وہ پہلے کرتا تھا، تندرست ہوا تو پاک ہو گیا، ورنہ رحمت سے بخشا گیا۔ (مشکوٰة، ص:۱۳۶)
۲:۔ ابن آدم کے پہلو میں ۹۹/ مصائب ہیں، اگر موت سے بچ گیا تو بڑھاپے میں پڑ گیا (تو یہ تکالیف وبڑھاپا بخشش کا سبب ہوگا) (ترمذی،مشکوٰة،ص:۱۳۷)
۳:۔(دنیا میں سلامت رہنے والے) قیامت کے دن تمنا کریں گے جب مصیبت زدگان کا درجہ وثواب دیکھیں گے کہ کاش ان کے بدن قینچی سے کاٹے جاتے وہ یہ درجہ پاتے۔ (ترمذی)
سب قارئین دعا کیجئے کہ اللہ ان دوبھائیوں کی یہ خدمات وتکالیف منظور فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کے اداروں کو دین سے آباد رکھے ۔ آمین۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: کیا نماز باجماعت میں ٹخنے سے ٹخناملانا ضروری ہے؟
Flag Counter