Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 11
اعجازِ قرآنی کی ایک اور وجہ
 اعجازِ قرآنی کی ایک اور وجہ

حضرت امام العصر علامہ کشمیری فرمایا کرتے تھے کہ: یہاں پر ایک اور وجہ اعجاز بھی شمار کی جاسکتی ہے جو مذکورہ وجوہ اعجاز کے علاوہ ہے، لیکن بہرحال میں پختہ طور پر یہ دعویٰ نہیں کرتا ہوں کہ اس کو وجوہ اعجاز میں شمار کیا جائے ،اس وجہ اعجاز کی تفصیل یہ ہے کہ :
”قرآنی بیان کا ایک طور یہ بھی ہے کہ قرآن کسی امر کے لئے ایسے کلام سے استدلال پیش کرتا ہے جس کا ظاہر طرز خطابت کی مانند ہو (جو بے دلیل ہوا کرتا ہے) اور اس کا باطن ایک مضبوط دلیل وحجت لئے ہوئے ہو، یعنی کلام اپنی ظاہری عبارت ومنطوق میں اور اپنے مدلول مطابقی میں کسی امر کے اثبات پر بصورت خطابت اور الزامی بیان کے دلالت کرتا ہو ،اور اس کلام کا اشارہ اور اس کا مفہوم ومدلول التزامی، ایک مضبوط اور قطعی حجت اور دلیل لئے ہوئے ہو ۔
جیساکہ علمائے تفسیر نے باری جل شانہ کے اس پاک ارشاد : ”لوکان فیہما اٰلہة الا اللّٰہ لفسدتا“میں دلیل تمانع کے متعلق بحث وتمحیص فرمائی ہے، امام تفتازانی نے اپنی کتاب ”شرح العقائد“ میں اس آیت مبارکہ کی ظاہری عبارت سے مأخوذ معنیٰ کو بیان فرماکر فرمایا کہ :یہ آیت الزامی جواب ہے اور اس آیت میں بیان کردہ لزوم فساد پر تعدد الٰہ یہ تلازم عادی ہے (مقصد یہ ہے کہ یہ تلازم قطعی نہیں ہے)
حضرت تفتازانی کے معاصر علامہ شیخ عبد اللطیف کرمانی نے امام تفتازانی کے اس بیان کی وجہ سے ان پر خوب طعن زنی فرمائی ہے ،یہاں تک کہ امام پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے اور اس فتویٰ تکفیر میں بطور سند یہ بات پیش کی ہے کہ شیخ ابو معین نسفی نے رئیس المعتزلہ ابو ہاشم جبائی کی اپنی کتاب ”تبصرة الادلة“ میں تکفیر اس سبب سے کی ہے کہ امام جبائی نے اس آیت میں تعدد الٰہ کی نفی اور اس کے بیان اثبات توحید کے متعلق طعن وقدح کی تھی، علمائے کرام نے علامہ تفتازانی پر کی جانے والی تکفیر کا جواب اسی دلیل تمانع کے متعلق بیان فرماکر دیا ہے ،چنانچہ حضرت تفتازانی کے شاگرد شیخ علاء الدین محمد بن محمد بن محمد حنفی بکاری نے ایک مستقل رسالہ اپنے شیخ کے دفاع میں تحریر فرمایا، جس میں شیخ تفتازانی کے بیان کے سر وروح کو بیان فرماکر اطمینان بخش جواب تحریر فرمایا ہے، اس جواب کا خلاصہ وحاصل شیخ کمال بن ابی شریف نے اپنی کتاب ”المسامرة“ میں ذکر کیا ہے، جو صاحب کتاب ”الفتح،، و”التحریر،، علامہ محقق ابن ہمام حنفی کی مشہور کتاب ”المسایرة“ کی شرح ہے ،اسی طرح شیخ زین الدین قاسم بن قطلوبغا نے بھی ”المسایرة“ پر اپنی تصنیف کردہ شرح میں اس جواب کا خلاصہ پیش کیا ہے۔اب میں ان دو حضرات کی تلخیص کا خلاصہ کچھ تصرف وزیادتی کے ساتھ پیش کرتا ہوں:
”قرآن کریم میں پیش کردہ ادلہ وحجج بمنزلہ دوا کے ہیں، ایک ماہر طبیب ادویہ کو طبائع وامزجہ کے مواقع اور ان میں موجود قوت وضعف اور حرارت وبرودت کے تفاوت کے پیش نظر استعمال کرتا ہے اور جو طبیب اس تفاوت کی رعایت نہ کرے تو اس کی طبابت سے دوا بجائے اصلاح بدن اور نفع بخش ثابت ہونے کے جسم کے فساد کا سبب اور قوائے بدن کے لیے ضرر رساں ہوجاتی ہے ،اسی وجہ سے ماہر طبیب مریض کی ذاتی نوعیت کو جانچ پرکھ کر اس کے مزاج کے موافق دوا تجویز کرتا ہے ۔ بعینہ اسی طرح قرآن کریم خالق مختار کے اثبات اور توحید وتقدیس کے بیان میں ادلہ وحجج میں سے ان براہین کا انتخاب کرتا ہے جو بوقت نزولِ قرآن پائے جانے والے مخاطبین کی عقول کے موافق ہواکرتی ہیں، چنانچہ بوقت نزولِ قرآن جمہور مخاطبین چونکہ منطقی براہین وادلہ سے نا آشنا اور قطعی حجتوں سے نابلد تھے، ایسی صورت میں ان کے ساتھ گفتگو میں وہ طرز اختیار کیا جاتا جس کے ادراک سے وہ قاصر ہیں تو یہ کلام ان کے لئے بجائے نفع مندی کے ضرر رساں ہوجاتا، جیساکہ گلاب کی مہک گبریلے کے لئے نقصان دہ ہے ،اسی طرح آفتاب کی روشنی چمگادڑ کی آنکھ کے لئے ضرر رساں ہے ۔ ٹھیک ہے کہ اصحاب ذکاوت وفطانت کے لئے محض الزامی جوابات کافی نہیں ہوا کرتے ہیں اور بہرحال ان عرب ناخواندگان میں ہوشمند ودانشمند حضرات بھی پائے جاتے تھے ،اسی طرح قرآن کریم تو عرب وعجم،کالے،لال،سفید اور پیلے ہرایک کے لئے ایک پیغام ہے تو اس کے پیش نظر مناسب تھا کہ قرآن کریم میں قطعی دلائل کی طرف شفاء اور صدور کے لئے انشراح ولطف کا بنسبت قطعی برہان وحجت کے زیادہ باعث ہوتا ہے ،اسی وجہ سے قرآن کریم نے اکثر دلائل میں وہ طرز اختیار فرمایا ہے جو جمہور عرب کے لئے نفع مند ہو اور اصحاب فطانت اور فضلاء وحکماء بھی ان دلائل سے صرف نظر نہ کرسکیں اور ان دلائل میں باطنی طور پر براہین قاطعہ کا ایسا ذخیرہ ودیعت کررکھا ہے جو عرب کے خواص عقلاء وحکماء کے لئے حجت کو لازم کردے ۔“انتہی
یہ ”المسایرة،، کے دو شارحین کے ان ذکر کردہ مباحث کا خلاصہ ہے جو انہوں نے شیخ علاء الدین بخاری سے تصرف وزیادت کے ساتھ نقل کئے ہیں ،شیخ علاء الدین کا کلام بہت طویل ہے جو شخص تفاصیل کا شوق رکھتا ہو، وہ اس تفصیل کو وہیں دیکھ لے، یہ تفصیل بھی خوب مفید ہے۔
مشہور فلسفی ابن رشد نے بھی شیح کی ذکر کردہ وجہ اعجاز کی طرف اشارہ کیا ہے اور اپنی کتاب ”فصل المقال،، میں اس وجہ کو مستقل وجوہ اعجاز میں شمار کیا ہے ،اسی طرح امام رازی نے بھی اپنی تفسیر میں کئی آیات کے ذیل میں اس وجہ اعجاز کی طرف اشارہ فرمایا ہے، البتہ حضرت شیخ کشمیری نے اس کو وجہ اعجاز کیوں شمار نہ فرمایا تو اس کی راقم کے خیال میں دو وجہیں ہوسکتی ہیں :واللہ اعلم
یا تو اس لئے کہ یہ وجہ اعجاز قرآنی بلاغت اور قرآن کے اسلوب بیان کے ذیل میں ملحق شمار کی جاسکتی ہے اور شیخ کا مقصد بھی انواع اعجاز کا بیان ہے نہ کہ افراد وجزئیات کو مستقل بیان کرنا ،جیساکہ میں گذشتہ صفحات میں اس کا تذکرہ کرآیا ہوں، چنانچہ اس وجہ اعجاز کو مستقل نوع شمار نہیں کیا جاسکتا ۔
یا پھر اس وجہ سے کہ بعض اعلام امت نے تنبیہ فرمائی ہے کہ مقاصد کے اثبات اور اغراض کے بیان میں سب سے درست، مضبوط، محکم اور اعتراضات ومناقشات سے سالم طرز وطریقہ قرآن کریم کا ہے،یہی طرز وطریق قلوب کو شفا اور بصیرت کو جلا بخشتاہے ،اور جو فلاسفہ اپنے ایجاد کردہ قواعد پر مبنی اقوال وآراء ذکر کرتے ہیں ان میں سے اکثر یقینی اور قطعی فوائد کے لئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ جیساکہ قرآن کریم نے دوزخیوں کو پیش کردہ کھانوں کے متعلق کہا ہے : ”لایسمن ولایغنی من جوع،، (کہ نہ یہ موٹا کرتے ہیں اور نہ بھوک کے لئے نفع مند ہواکرتے ہیں) ان ادلہ کا حال بھی اس سے چنداں دگر گوں نہیں ہے۔
علامہ ابن تیمیہاپنی کتاب ”العقل والنقل،، (ج:۱،ص:۹۱) پر جو ”المنہاج،، کے حاشیہ پر طبع ہوئی ہے ،فرماتے ہیں:
”جو شخص ان فلسفی مباحث اور کلامی مناقشات میں جو نصوص قطعیہ کے متعارض ہیں،غور وفکر کرے گا ،جبکہ اس کو نصوص کے متعلق اور لوازم نصوص کے متعلق ،نیز ان نصوص کی پیچیدہ ابحاث اور اس کے منافی آراء واقوال کے متعلق معرفت تامہ حاصل نہ ہو تو ایسا شخص ہرگز کسی اطمینان بخش یقینی کلیہ تک نہیں پہنچ سکے گا۔
یہ فلسفی مباحث اس کو پیچ درپیچ مسائل میں شک اور حیرت کا سامان بہم پہنچائیں گے،بلکہ ان فلسفی فضلاء کو بھی لے لیجئے (ابن تیمیہ کی مراد ان فضلاء سے ابو حامد غزالی، شیخ ابن عربی، ابن سبعین، ابن فارض، صاحب ”خلع النعلین،، اورتلمسانی وغیرہ حضرات فلاسفہ ہیں)جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے اختراع کردہ بعض معقولات کو ان متعارض نصوص پر مقدم کرنا چاہیے ،انہیں دعوے داراں کو آپ الٰہیات کے اصول ومسائل میں حیران وسرگرداں پائیں گے …الخ “ نہایت طویل بحث یہاں حضرت امام ابن تیمیہ نے فرمائی ہے اور اس بحث سے قبل فرمایا:
”ابو عبد اللہ رازی یعنی امام فخر الدین بن خطیب الری ،اپنی مختلف کتب میں (مثلاً ان کی کتاب ”اقسام اللذات“ میں) ان اشعار کو بارہا ذکر فرماتے ہیں:
۱- عقول کے غوروفکرکی انتہا آخر کاررکنا ہی ہے(عاجزآجاناہے) اور (عقلی مباحث میں) لوگوں کی اکثر پیش رفت گمراہی پر ہی منتج ہوتی ہے۔
۲- ہماری ارواح ہمارے جسموں کی وحشت وتنہائی میں قید ہیں اور ہماری دنیا کا پیٹ ایذاء ووبال کا باعث ہے۔
۳-ہماری ساری عمر بحث کرنے سے ہمیں اس کے سوا کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا کہ ہم نے قال اور قالوا جمع کر لیا (فلاں نے یوں کہا تو اس کا جواب انہوں نے یوں دیا)
اور حضرت ابو عبد اللہ رازی نے فرمایا کہ: میں نے کلامی مباحث اور فلسفی طرز وطریق کی خوب بحث وجانچ پڑتال کی، جس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ مباحث بیمار کو شفا نہیں بخش سکتے اور پیاسے کے لئے سیری کا سامان فراہم نہیں کرسکتے ہیں ،اور سب سے بہتر طرز بیان واستدلال جو عقل وادراک کے قریب تر ہو، میں نے قرآن کریم کا پایا ہے۔ چنانچہ اثبات کے متعلق میں قرآن کریم کی یہ آیات پڑھتا ہوں: ”الرحمن علی العرش استویٰ،، اور ”الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ،، اور نفی میں قرآن کریم کی یہ آیات پڑھتا ہوں: ”لیس کمثلہ شئ،، ”ولایحیطون بہ علماً،، ”ہل تعلم لہ سمیا،، اور جو شخص میرے تجربہ کے مانند تجربہ کرے گا تو جو میں سمجھ سکا ہوں ،وہ وہی سمجھ لے گا۔“ انتہی ما حکاہ ابن تیمیة عن ابی عبد اللہ الرازی۔
قرآن کریم کے چند تفسیراتی مزایا وخصائص امام العصر کے فرمودات کی روشنی میں:
حضرت امام العصر کشمیری ارشاد فرماتے ہیں کہ : قرآن کی کوئی بھی آیت محض نظریاتی یا معلوماتی حیثیت نہیں رکھتی ہے ،جس کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو، بلکہ ہرآیت چاہے وہ ابواب احکام میں سے کسی حکم کے ضمن میں ہو یا کسی خاص واقعہ اورحادثے کا عنوان ہو، بہرحال کسی ناکسی مرتبہ اور کسی ناکسی صورت میں وہ ضرور معمولات سے متعلق ہوتی ہے۔
یہ ایک دقیق تشریعی نکتہ ہے، اس کی مثال اللہ جل شانہ کے اس پاک ارشاد سے سمجھئے :ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”فاینما تولوا فثم وجہ الله“ اب اس آیت میں جس طرح کلی عموم مراد نہیں ہے کہ ہر وقت ہر جہت کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی جائے تو درست ہوگی، اسی طرح اس آیت سے محض علمی اور محض نظریاتی وعقلی فائدہ مقصود نہیں اور نہ قبلہ کے متعلق شک وشبہ اور شش وپنج میں مبتلا شخص کے دفع ارتیاب کوشانِ نزول ٹھہراکر محض اس خاص نوعیت کے واقعے کے ساتھ مخصوص ہے ،بلکہ یہ آیت بھی سوار شخص کے لئے نفل نماز کے حکم کے متعلق معمول بہ ہے (کہ وہ جس جہت پر سہولت سمجھے رخ کرکے نفل نماز پڑھ سکتا ہے)۔
اسی طرح باری جل شانہ کے اس فرمان گرامی کو ملاحظہ کیجئے: ”اقم الصلوٰة لذکری،، اب نماز فقط ذکر کا نام نہیں ہے، بلکہ نماز ایک حقیقت سے عبارت ہے جو شارع کی طرف سے مقرر کردہ خاص ارکان اور معین آداب پر مشتمل ہوا کرتی ہے ،اس تفصیل کے باوجود نماز کا محض ذکر ہونا جواس آیت کا محمل ومطلب ہے، یہ بھی بعض احوال میں معمول بہ ہے ، چنانچہ یہ آیت بھی عقلی محض نہیں ہے ،جو معمول بہ نہ ہوسکے ،بلکہ اس آیت پر صلوٰة الخوف میں عمل کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اگر یہاں امام زہری کے مسلک کو ملحوظ رکھا جائے ،وہ فرماتے ہیں کہ: جب صلوٰة الخوف متعذر ہوجائے تو نماز کی جگہ صرف تکبیر کافی ہواکرتی ہے ،اسی طرح فقہاء کرام کے ذکر کردہ اس مسلک سے بھی اس آیت کا معمول بہ ہونا بخوبی واضح ہوتا ہے کہ حائضہ عورت کو مناسب ہے کہ وہ بوقت نماز وضو کرکے بیٹھ جائے اور اللہ کا ذکر کرے ۔
اسی ضمن میں آیة الوضوء : ”یاا یہا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلوٰة فاغسلوا وجوہکم،، الخ کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے ،جس میں سر اور پیروں کو علیحدہ اور چہرے اور ہاتھوں کو علیحدہ ذکر فرمایا ہے،چنانچہ تیمم میں ایک جانب ساقط ہوجاتی ہے ، یہیں سے رجلین کو رأس کے ساتھ ذکر کرنے کا فائدہ ظاہر ہوا، اس لئے کہ رجلین اور رأس میں وظیفے کے اعتبار سے فرق ہے، اس لئے کہ ”رجلین،، کا وظیفہ غسل یعنی دھونا ہے ،جبکہ رأس کا وظیفہ مسح ہے ،اسی طرح ”رجلین،، پر مسح کی بعض صورتیں مثلاً حالت تخفف (موزہ پہننے کی صورت میں) اور بلاحدث نماز کے لئے وضو کرنیکی صورت میں بھی داخل ہوجاتی ہیں، یہ قرآن کریم کا ایک معجزانہ اسلوب ہے ،تفصیلات کے لئے حضرت شیخ کی تالیف منیف مشکلات القرآن (ص:۱۳۵-۱۳۶) کی مراجعت فرمالیجئے۔
حضرت فرماتے ہیں :ہر آیت اگرچہ منسوخ ہی کیوں نہ ہو، کسی نہ کسی مرتبہ میں معمول بہ ضرور ہوتی ہے، مثلاً باری جل شانہ کا فرمان اقدس ہے: ”علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین،، یہ آیت اگرچہ اپنے ظاہری عموم کے اعتبار سے منسوخ ہے ،مگر حاملہ مرضعہ کے حق میں یہ آیت اب بھی معمول بہا ہے (مشکلات القرآن ص:۴۹)
حضرت فرماتے ہیں کہ: کبھی کبھی قرآن کریم کے ظاہری نظم ونسق سے ایک حکم مستفاد ہوتا ہے اور پھر اس آیت کے شان نزول کے متعلق وارد شدہ حدیث اس حکم کے مخالف ہوتی ہے ،جس کی بناء پر قرآنی منطوق اور شان نزول میں تعارض واضطراب پیدا ہوجاتا ہے اور غرض اصلی اور مقصود ومطلوب میں التباس واشتباہ پیدا ہوجاتاہے، حضرت فرماتے ہیں کہ: میرے نزدیک اس تعارض کی تطبیق یوں کی جاسکتی ہے کہ ایسے مواضع میں قرآن کریم کی دو مرادیں ہوا کرتی ہیں: پہلی مراد اَولیٰ واعلیٰ ہواکرتی ہے اور دوسری مراد ثانوی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ قرآن کریم کے ظاہری نظم کے مقتضیٰ کو مراد اَولیٰ واولوی شمار کیا جائے گا اور شان نزول کے متعلق وارد شدہ حدیث ثانوی مراد شمار ہوگی اور اسی ترتیب کے مطابق آیت کے دونوں محمل ومطلب معمول بہ ہوجائیں گے۔
حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ: اس دقیق نکتے کے مطابق اس طرح کے بہت سے مواضع پر وارد شدہ اشکالات دور ہوجاتے ہیں ،جن کی چند امثلہ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔
۱- سورة القیامة میں باری جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: ”لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ،، اس آیت کے ماقبل ومابعد ربط ومناسبت کے متعلق عقول واذہان کافی تشویش کا شکار ہوجاتے ہیں:
نبی اکرم ا چونکہ بوقت نزول قرآن حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے، اس لئے اس آیت میں اس سے منع فرمایا گیا ہے، اب ظاہری نظم قرآن اور اس شان نزول میں تعارض واضح ہورہا ہے اور روافض ملاعنہ کے لئے قرآن کریم کے نقص پر ایک دلیل مأخوذ ہورہی ہے ،امام رازی فرماتے ہیں: روافض ملاعنہ کا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کے تقریباً دس پارے کم ہیں، کلا وحاشا ! کہ اس پاک کلام کے متعلق جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے، کسی نقص یا خدشہ کا دعوی باطلہ تسلیم کیا جائے۔
مذکورہ آیت کے عقدہ کا حل بھی میرے نزدیک یہی ہے کہ حدیث پاک میں جو شان نزول ذکر کیا گیا ہے، وہ قرآن کریم کی مراد ثانوی ہے، جس کو دوسرے مرتبہ میں ملحوظ رکھا جائے گا اور جو قرآن کریم کے ظاہری نظم کا مقتضیٰ ہے ،اس کو مراد اولی شمار کیا جائے گا، جس مراد کی روشنی میں آیت مذکورہ کا ماقبل سے ربط وتعلق اور نظم ونسق واضح ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس آیت کے ماقبل ومابعد میں احوال قیامت اور ا س کی ہولناکیوں کا بیان ہے اور خداوند جل اسمہ نے ……احوال قیامت ذکر فرما کر پھر فرمایا: ”لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ،، جس کا مطلب ومعنیٰ یوں ہے کہ قیامت کے متعلق پوچھنے میں اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے کہ پھر آپ سوال کرنے لگیں کہ قیامت کا وقوع کب ہوگا؟جیساکہ یہ مشرکین، قیامت کے وقوع کے متعلق جلدی دکھلاتے ہیں اور آپ سے جابجا سوال کرتے رہتے ہیں ”لتعجل بہ،، یعنی پھر آپ بھی ان مشرکین کی طرح اس کے وقوع کے متعلق جلدی دکھلائیں۔ ”ان علینا جمعہ وقرآنہ،، یعنی ہم پر ہے اس قیامت کے احوال کو جمع کرنا اور اس کو آپ کے سامنے بیان کردینا ،تاکہ آپ ان کو خوب سمجھ کر معرفت تامہ حاصل کرلیں۔ ”فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ،، پھر جب ہم ان کو آ پ پرپڑھ کر سنادیں تو آپ بھی ان کی تلاوت وقراء ت کیا کیجئے: ”ثم ان علینا بیانہ،، اور پھر جب وہ وقت مقرر آپہنچے گا تو ہم اس کا بیان ضرور کردیں گے۔ معلوم ہوا کہ قیامت کے وقوع کے متعلق بیان میں آپ کو بوجہ بشری تقاضاکے غم لاحق ہوسکتا تھا اور آپ کو اس کے متعلق مختلف خیالات آسکتے تھے ،اس پر اس آیت میں ایک تسلی بخش مضمون وحی فرمایا گیا،چنانچہ ان خطرات کو، جن کا پیش آنا ممکن تھا، اس کو بمنزلہ واقع شمار فرماکر باری جل شانہ نے تنبیہ فرمائی اور خداوند جل شانہ جب اپنے خصوصی بندوں یعنی انبیاء سے مخاطب ہوا کرتے ہیں تو کلام کا یہی طرز اختیار فرماتے ہیں، اسی طرز کے مطلق آگے اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ”کلا بل تحبون العاجلة،، جس میں بشری فطرت وجبلت کا بیان ہے کہ انسان فطرةً جلد باز واقع ہوا ہے اور جلد حصول یابی کا خواہاں رہتا ہے اور تاخیر میں جو فوائد ومنافع مضمر ہوا کرتے ہیں ان سے نا آشنا ہوا کرتا ہے۔ اس موقع پر مزید تفصیل بھی کی جاسکتی ہے ،جس سے مکمل تسلی اور اطمینان ہوسکے ،البتہ یہ اشارہ بھی عقلمند با ہوش کے لئے کفایت کرسکتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا ایک بلند پایہ اعجاز ہے کہ کتنے ہی کثیر مطالب ومفاہیم کوقرآن کریم مختصر عبارات میں مکمل آشکارا کردیتا ہے اور ان مطالب کی تمام جہات کا احاطہ کرلیتا ہے اور چنداں زیب نہیں کہ قرآن کریم کے مقصد ومطلب کو محض شان نزول میں منحصر سمجھا جائے ،بلکہ سیاق وسباق اور غرض وسبب کی رعایت بھی نہایت ضروری ہے ،جس سے بیش بہا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
اسی قاعدہ کی مثال میرے نزدیک باری جل شانہ کا یہ فرمان اقدس بھی ہے : ”فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد“ شوافع حضرات فرماتے ہیں کہ آیت کا یہ ٹکڑا صدر کلام ”الطلاق مرتان“سے مربوط ہے اور یہاں تیسری طلاق کا بیان مقصود ہے اور جو کچھ ان دو ٹکڑوں کے درمیان بیان ہوا وہ گویا جملہ معترضہ کے طور پر بیان ہوا ہے، اس لئے کہ خلع طلاق نہیں، بلکہ فسخ نکاح سے عبارت ہے ،اس بات کی تائید امام ابوداؤد کی ذکر کردہ اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ”تسریح باحسان،، تیسری طلاق کا بیان ہے ،اگر ”فان طلقہا“ کو ماقبل جملہ کے ساتھ مربوط شمار کیا جائے تو یہ چوتھی طلاق کا بیان ہوجائے گا،اس بناء پر اس ٹکڑے کو صدر کلام کے ساتھ مربوط ماننا ہی مناسب ہے۔ میرے نزدیک اس محل کی توجیہ یوں ہے کہ: باری جل شانہ کے فرمان ”تسریح باحسان،، سے مراد رجعت کو ترک کرنا ہے، یعنی اب شوہر اس عورت کو اپنے نکاح میں رکھنے کا خواہاں نہیں ہے، یہ قرآن کریم کی مراد اوّلی ہے ،اور اس کلیہ کے ضمن میں طلاق ثالث کو بحیثیت اس کے ایک فرد کے داخل شمار کیا جائے گا،اس لئے کہ طلاق کا حاصل ترک امساک ہے ،اس کے پیش نظر باری جل شانہ کا ارشاد ”وتسریح،، یہ طلاق ثالث سے عام ہوگا ،بعد ازاں ”فان طلقہا‘سے جدید طلاق کا بیان نہیں ہے ،جس کی وجہ سے اس کو طلاق رابع قراردیا جائے ،بلکہ یہ”وتسریح،،اور نظم قرآن کے ظاہری مستفاد کو ہم مراد اولی شمار کریں گے ۔میرے خیال میں جب حدیث اور قرآن کا تعارض ہوجائے تو یہی مسلک سب سے قوی ہے کہ قرآن کریم کے ظاہری مفہوم کو مراد اولی اور حدیث سے مستفاد مفہوم کو مراد ثانوی شمار کیا جائے ،اسی بناء پر علمائے احناف پھر فرماتے ہیں کہ اس ٹکڑے کا تعلق متصل ماقبل سے ہے نہ کہ صدر آیت سے، اس لئے کہ اگر اس کو صدر آیت کے ساتھ مربوط مانا جائے تو کلام میں ٹوٹ پھوٹ لازم آئے گی ،علمائے اصول نے بھی اس مقام پر بہت وقیع ابحاث فرمائی ہیں، ان علمائے اصول میں صرف تلویح کے ایک محشی نے یہ تصریح کی ہے کہ قرآن کریم کی ظاہری عبارت میں دو مرادیں جاری ہوسکتی ہیں، وہ تحریر فرماتے ہیں کہ: خمر کا اطلاق اس مشروب پر بھی ہوتا ہے جس کو احناف خمر شمار کرتے ہیں اور اس مشروب پر بھی ہوتا ہے جس کو جمہور علماء خمر شمار کرتے ہیں ،البتہ احناف کی بیان کردہ تعریف قرآن کریم کی مراد اوّلی ہے، جبکہ جمہور علماء کی بیان کردہ تعریف قرآن کریم کی مراد ثانوی ہے (حضرت شیخ کشمیری کا کلام مع بعض توضیحات جو راقم نے اپنی سمجھ کے مطابق بیان کیں ،تمام ہوا)۔
راقم کہتا ہے کہ:شیخ کی مذکورہ رائے ایک وقیع اصولی رائے ہے ،جس کی طرف ہم بہت سے مسائل واحکام میں محتاج ہیں اور اسی کے قریب اہل بلاغت ،خصوصاً امام البلاغة حضرت شیخ عبد القاہر الجرجانی کا فصیح کلام کے تفاوت کے پیش نظر کلام کو دو مراتب: اوّلی اور ثانوی کی طرف تقسیم کرنا ہے اور اس بات کو بطور قاعدہ بیان کرنا ہے کہ فصاحت کے طبقات کا مدار ان طبقات کی باعتبار ثانوی معانی کے فضیلت اور خصوصیت ہے ،انہی ثانوی معانی کے پیش نظر بلغاء کے کلام کی خصوصیت اور اس کا امتیاز نمایاں ہوا کرتا ہے ۔
حضرت شیخ بھی اس قاعدہ کو اہمیت دیا کرتے تھے اور اس کو ان ضروری قواعد میں شمار کرتے تھے جن کا اہتمام واعتناء نہایت ضروری اور مہتم بالشان ہے ۔ چنانچہ دو اعتبار اور دو مرادوں کے پیش نظر قرآنی قاعدہ کو اس بلاغت کے قاعدہ کی نظیر شمار کرنا اگرچہ اس تعدد کے محل وموضع میں دونوں مختلف ہیں، مگر ماٰلاً ان دونوں نظیروں کا نتیجہ وثمرہ ایک ہی ہے۔ پھر جس طرح معانی اوّلی اور معانی ثانوی میں ربط ومناسبت کا اہتمام ضروری ہے ،اسی طرح مراد اوّلی اور مراد ثانوی میں بھی مناسبت اور تعلق وربط کا پایا جانا ضروری ہے،وگرنہ ان دونوں مرادوں کو ایک کلام کے تحت داخل کرنا کیوں کر درست ہوگا ،یہاں پر کلمات مفردہ کی طرح یوں نہ کہا جاسکے گا کہ ان میں اشتراک پایا جاتا ہے ،اگرچہ ضدین ہی کیوں نہ ہوں، اور اسی طرح عموم مشترک بھی نہ کہا جا سکے گا، اس لئے کہ مفرد کا حکم مرکب سے مختلف ہوتا ہے اور ہماری بحث اس وقت مرکب کلام کے متعلق ہو رہی ہے ،اس بحث کو محفوظ کر لیجئے ،اس لئے کہ یہ بڑی نفیس اور لطیف مبحث ہے اور ان شاء اللہ بہت نفع بخش ثابت ہوگی۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: آہ! امام اہلسنت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
Flag Counter